• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاضر وناظر کی حقیقت

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
بریلوی علماء فرماتے ہیں:۔
مولانا عبد القیوم ہزاروی :۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تمام کائنات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہوں میں ہے۔ آپ روئے زمین کو اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ہاتھ کی ہتھیلی، چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ان اﷲ زوی لی الارض فرايتُ مشارِقَها ومغاربَها وان امتی سيبلغ ملکها مازوی لی منها واعطيت الکنزين الاحمر والابيض.
المسلم، الصحيح، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب هلاک هذه الامة، بعضهم لبعضٍ، 6 / 2215، الرقم : 2889
''بے شک اﷲتعالیٰ نے میرے لئے زمین سمیٹ دی، سو میں نے اس کی مشرقوں اور مغربوں کو دیکھ لیا اور جتنی زمین میرے لئے سمیٹی گئی میری امت کی حکومت وہاں تک پہنچے گی اور مجھے دونوں خزانے دیدیئے گئے۔ سرخ (کسریٰ، ایران کے دینار) اور سفید (قیصر روم کے درہم)۔''
یہ مشاہدہ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص سے ثابت ہے۔ جسم اقدس اپنے مقام پر رہتا ہے۔ کہیں آنے جانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ مشاہدہ نورانی و روحانی ہے اور آپ کی شان کے لائق ہے۔ اس میں شان اقدس کی کمی نہیں۔ حقیقت اور شان رسالت کے عین مطابق
ایک اور صاحب فرماتے ہیں:۔
اہلسنت کا عقیدۂ حاضر و ناظر
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
مزید اللہ اور نبی ﷺ میں فرق یوں بیان کرتے ہیں:َ
اﷲ تعالیٰ اور حضورﷺ کے حاضر وناظر ہونے میں امتیازی فرق
اﷲ تعالیٰ کی تمام صفات مستقل اور بالذات ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی کوئی صفت غیر مستقل اور عطائی نہیں، بندوں کی صفت مستقل اور بالذات نہیں بلکہ بندوں کی صفات غیر مستقل اور عطائی ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ حضورﷺ کا حاضر وناظر ہونا رب کریم کی عطا سے ہے بالذات نہیں۔ جب آپ کی تمام صفات عطائی ہیں تو اﷲ تعالیٰ کی ذاتی صفات سے برابری کیسے جب ذاتی اور عطائی صفات میں برابری نہیں تو یقیناًشرک بھی لازم نہیں آئے گا۔
۔مزید دلائل کے لئے یہ لنک بھی دیکھا جا سکتا ہے
حاضر و ناضر
فتوی آن لائن
بریلوی مسلک کی مشہور کتاب جا ء الحق میں ہے۔
 

عزمی

رکن
شمولیت
جون 30، 2013
پیغامات
190
ری ایکشن اسکور
304
پوائنٹ
43
ہماری بد نصیبی یہ ہے کہ وہ ذات ﷺ جو ہم میں وجہ ا تحاد تھی،ہماری بے عملی نے اس ذات عالیﷺ پر بھی بحث و مباحث شروع کر دی۔ایک فرقہ کہتا ہے کہ آپ یہ کمال تھا اور دوسرا اس کو رد کرتا ہے،اور ان باتوں پر مناظرے ہو رہے ہیں۔ حتی کہ بات وہابی بدعتی سے شروع ہو کر کافر و مشرک پر ختم ہوتی ہے۔
اور ان مباحث کی حقیقت یہ ہے کہ کچھ مولوی نما لوگوں نے رزق حلال کمانے پر قسم کھا لی ہے۔مولانا تھانوی ؒ سے کسی نے کہا کہ مولوی چور ہو گیا ہے،تو آپ نے فرمایا مولوی چور نہیں ہو گیا ، چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں،اب ہمارے ہاں کو روک ٹوک تو ہے نہیں جو سر اچھی لگا لے وہ اچھا مقرر ہے ،اور ان سروں پر ریٹ مقرر ہوتے ہیں،حتی کے زمانے کی ترقی کیساتھ ساتھ مولوی ( دین فروخت)کے ریٹ اور ڈیمانڈ میں اضافہ بھی ہو گیا ہے۔
ابھی ٹائم لو تو کہتے ہیں کہ ایزی لوڈ کے ذریعے پیسے بھی بھیج دو،تا کہ بکنگ پکی ہو جائے ،اللہ گواہ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے،اب اس کردار کے لوگوں نے دین کیا سکھلانا ہے؟ انہوں نے سیف الملوک سنانی ہے یا بلھے شاہ کے شعر،یا پھر سنی وہابی جھگڑا۔اللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں ،علما سوء سے ہمارے ایمان کو محفوظ رکھیں۔
چند باتیں جو مجھے سمجھ آئی ہیں گوش گزار کرونگا۔اگر آپ مجھے غلطی پر سمجھے تو میری اصلاح ضرور کیجئے گا۔
حاظر و ناظر کا مسلئہ بھی ایسے ہی ہے ،جیسے علم الغیب کا ہے ، جو علم غیب کا معاملہ سمجھ گیا وہ حاظر وناظر کے مسلئے کو بھی سمجھ گیا ہے۔ اور اس ضمن وہ دلائل جو صوفیا ء کی کتب سے لئے گئے ہیں ،اور قرآنی حیات کیساتھ بطور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں ،ان کی حقیقت کیا ہے؟ جاننے سے پہلے حاظر ناظر کا مفہوم کیا ہے جان لے کہ:۔
حضورﷺ کے حاضر و ناظر ہونے میں اہلسنت و جماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ کے لئے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضورﷺ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں جس طرح روح اپنے بدن کے ہرجزو میں ہوتی ہے۔ اسی طرح روح دوعالمﷺ کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری وساری ہے۔
جس کی بناء پر حضورﷺ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور اہل اﷲ اکثر وبیشتر بحالت بیداری اپنی جسمانی آنکھوں سے حضورﷺ کے جمال مبارک کا مشاہدہ کرتے ہیں اور حضورﷺ بھی انہیں رحمت اور نظر عنایت سے سرخرو محظوظ فرماتے ہیں۔ گویا حضورﷺ کا اپنے غلاموں کے سامنے ہونا سرکارﷺ کے حاضر ہونے کے معنی ہیں اور انہیں اپنی نظر مبارک سے دیکھنا حضورﷺ کے ناظر ہونے کا مفہوم ہے۔
معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے اور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔
اب اسی مفہوم کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو ہمارے اعمال کی خبر ہوتی ہے،اور آپ ﷺ کا برزخ سے مختلف مقام پر تشریف لانا، یا حالت بیداری میں آپﷺ کا دیدار ہونا اتنا مسلم اور ایسے لوگوں کی زبانی سنا گیا ہے کہ اسکا انکار کرنا ممکن نہیں ،حتی کہ علماء اہلحدیث سوانحیات میں بھی اس طرح کے واقعات مل جائے گے۔اور حناف کی اور بالخصوص صوفیاء کی تو کتب بھری پڑی ہیں حتی کے صوفیا ء عظام ؒ نے یہاں تک کہا کہ:۔(علم وعرفان)
میں نہیں سمجھتا ،اور یقیناً صاحب خرد اس بات سے انکار نہیں کریں گے کہ ان واقعات میں کچھ نہ کچھ حقیقت ضرورہے ورنہ علماء کی اتنی بڑی جماعت کا اس طرح کی بات کرنا ،جھوٹ نہیں ہو سکتا،کیا ہم سمجھے کہ علما اہلحدیث، حناف،اور پھر شاہ ولی اللہ ؒ جیسے بزرگ بھی اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں،اور ان باتوں کو علماء بریلوی لے کر حاضر و ناظر کا عقیدہ بتاتے ہیں،آخر ان واقعات میں حقیقت کیا ہے؟
کیونکہ یہی وہ واقعات ہیں ،جس کی وجہ سے غیر اللہ کو پکارنا، غیر اللہ حاضر وناظر جاننا، عالم الغیب سمجھنا ، پیش آ رہے ہیں۔اور اس مقابلے میں فقط فتوی دے دینا کافی نہیں بلکہ ان واقعات کے پیچھے جو حقائق انکو جاننا بھی ضروری ہے۔
 
شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
37
علماء اہل حدیث کا جواب کیا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حاظر وناظر کے بریلوی عقیدہ کے بارے میں؟؟؟؟؟؟؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,395
پوائنٹ
891

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو اپنی حیات مبارکہ مین حاضرو ناظر تھے اور وفات کے بعد تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ حاضر کا مطلب ہرجگہ موجود ہونے والا۔اور ناظرکا مطلب ہر چیز کہ دیکھنے والا ۔ یہ دونوں صفتیں آپکی حیات مبارکہ میں بھی آپکو نہیں حاصل تھیں ۔ورنہ عایشہ صدیقہ رض پر جب تہمت لگی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان نہ ہوتے ۔۔ کچھ لوگوں نے اللہ تعالی کو حاضر وناظر کہا ہے تو یہ بھی غلط ہے ۔ اللہ تعالی ناظرتو ضرورہے کیونکہ ساری مخلوق اسکے سامنے ہے لیکن حاضر نہیں ہے کیونکہ حاظروحدۃ الوجود کے معنی میں ہےاور یہ غلط ہے اللہ تعالی ایک ہے اور وہ عرش پر ہے جیسے قرآن میں ہے ۔الرحمن علی العرش استوی ۔ رحمن عرش پہ مستوی ہے ۔ تردید حاضروناظر۔پر مولانا عبدالروف جھنڈانگری رح کی کتاب بہت عمدہ ہے اور مطالعہ کے قابل ہے ۔
 

احمد نواز

مبتدی
شمولیت
جون 19، 2014
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
11
عزمی صاحب نے یہ نقل کیا ہے؟
"معلوم ہوا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہےاور اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔"

اس ایک عبارت میں تین عقیدے چھپے ہیں

(1) حضورﷺ اپنے روضہ مبارک میں حیات حسی و جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور پوری کائنات آپﷺ سامنے موجود ہے
(2) اﷲ تعالیٰ کی عطا سے کائنات کے ذرے ذرے پر آپﷺ کی نگاہ ہے
(3)اﷲ تعالیٰ کی عطا سے جب چاہیں، جہاں چاہیں جس وقت چاہیں، جسم و جسمانیت کے ساتھ تشریف لے جاسکتے ہیں۔

عقیدہ کے اثبات کے لئے قطعی دلائل کی ضرورت ہوتی ہے یہ تینوں عقیدے کسی قطی دلیل سے ثابت نہیں ہیں ؟اگر ثابت ہیں تو وہ قطعی دلائل پیش کریں

پہلے اور دوسرے عقیدہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے ہر چیز موجود ہے اور آپ اُسے دیکھ رہے ہیں؟یہ عقیدے رکھنے والا کیا یہ بتانا پسند کریگاکہ حضور ﷺ نے جس جس کو دیکھ لیا کیا وہ "صحابی رسول"نہ بن گیا؟کیونکہ صحابی اُسے کہتے ہیں جس نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم ﷺ کو دیکھا یا نبی اکرم ﷺ نے اُسے دیکھا ۔ بقول یہ عقیدےرکھنے والے کے جب نبی اکرم ﷺ ہر چیز کو دیکھ رہے ہیں تو دنیا میں موجود تمام مسلمان صحابی رسول ہونے چاہئیں؟اگر یہ بات غلط ہے تو دیکھنے کا عقیدہ بھی غلط !

تیسرے عقیدہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے جسم اقدس کے ساتھ اللہ کی عطا سے جب چائیں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں؟

اس عقیدہ کا حامل کیا یہ بتانا پسن کریگا کہ اگر رسول اللہ ﷺ اپنے جسم اقدس کے ساتھ کسی وقت ہندو ستان میں تشریف رکھتے ہوں تو اُس وقت روضہ اقدس پر سلام پڑھنے والوں کا سلام کون سنتا اور جواب دیتا ہے؟ کیونکہ آپ ﷺ تو اپنے جسم اقدس کے ساتھ ہند وستان میں موجود ہیں؟اور اگر ہند وستان میں اُس وقت نماز کا ٹائم ہو جائے تو نبی اکرم ﷺ اکیلے نماز پڑھیں گے یا جماعت کے ساتھ؟ظاہر ہے اکیلے تو پڑھیں گے نہیں تو جماعت کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں خود جماعت کروائیں گے یا کسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟

جواب کا منتظر!
 
Top