طاہر رمضان
رکن
- شمولیت
- دسمبر 25، 2012
- پیغامات
- 77
- ری ایکشن اسکور
- 167
- پوائنٹ
- 55
حاضر و ناظر کی تعریف سب سے پہلے :
ان دونوں الفاظ کا مطلب ہے " موجود " اور "دیکھنے والا" جب دونوں کو ملا کر استعمال کیا جائے گا تو مراد ہو گی وہ ذات جو ساری کائنات کو بیک وقت محیط کیئے ہوئے ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ ، ایک ایک چیز ، تمام حالات اول تا آخر اسکی نظر میں ہیں اور یہ صفت صرف ایک ذات کی ہے وہ ذات پاک صرف اللہ تعالٰی ہے ۔
1- Surah Hud 69,70
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ 69 فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ
ا
ور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھناہوا بچھڑا لے آئے ۔اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے (١) انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں (٢)۔
غور کرنے کی بات: اگر ابراہیم علیہ السلام اگر حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں اور ان کےلیے بچھڑا بھون کر نا لاتے۔ اور پھر انہیں خوف کیوں محسوس ہوا ؟؟؟ جب فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم فرشتے ہیں تب حضرت ابراہیم کو پتا چلا ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599
حضرت ابراہیم جب اپنے خاندان کو اللہ کے حکم پر مکہ میں چھوڑ کر چلے گئے اور بہت عرصہ گرزنے کے بعد جب انہیں یاد ستائی اور حضرت ابراہیم اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے تشریف لائے ( اس اوقت تک حضرت اسماعیل کا نکاح ہو چکا تھا) ، تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں ۔۔۔۔
سوال- اگر حضرت ابراہیم حاضر و ناظر تھے تو شام سے مکہ کوئی ایک ہزار میل کی مسافت طے کر کے بار بار کیوں آتے رے اپنے لخت جگر سے ملنے؟ وہ بار بار کیوں آ کر خیریت دریافت کرتے رہے ،اگر حاضر ناظر تھے تو وہیں ملک شام میں بیٹھ کر تمام حالات معلوم کر لیتے ، جب حضرت اسماعیل گھر نہ ملے تو پوچھنے کی کیا ضرورت انہیں کہ کدھر گئے ہیں حاضر ناظر تھے تو صرف گھر ہی کیوں آئے ملنے ادھر ہی کیوں نہ چلے گئے جدھر حضرت اسماعیل گئے ہوئے تھے ؟
--- حضرت لوط علیہ السلام بھی حاضر ناظر نہ تھے ---
Surah Hud 77
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ 7 وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت مشکل کا دن ہے
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)
سوال ۔ اگر حضرت لوط علیہ السلام حاضر و ناظر تھے اور علم غیب رکھتے تھے تو انہیں معلوم نہ ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا اگر وہ حاضر ناظر تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور فلاں فلاں جگہ سے ہو کر آئے ہیں ۔ انہوں نے کیوں نکاح کے لیے بیٹیوں کو سامنے رکھا کہ یہ میرے مہمان ہیں ہیں انہیں چھوڑ دو؟
--- حضرت یعقوب علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ---
Surah Yousaf 8-14
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ Ďښاقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ Ḍقَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ 10 قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ 11 اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ 13 قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالوں یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائیگی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے۔ ان میں سے ایک کہتے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو) ۔ (یہ مشورہ کرکے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اسکے خیر خواہ ہیں؟.کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اسکے نگہبان ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جداہو جائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے ۔وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں اسے بھیڑ یا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑ گے ۔
سوال۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ منصوبے بنا رہے تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو پتا کیوں نہ چلا ؟؟ اگر پتا تھا پھر بھی بھیج دیا ؟ اور یہ بھی کہا کہ مجھے خوف ہے،ڈر ہے؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ کیا حضرت یعقوب علیہ السلام کوئی ڈرامہ کر رہے تھے یہ سب بول کر ؟؟؟؟؟
فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 15 وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ 16ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ 17 وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ 18
غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اسکو گہرے کنوئیں میں ڈال دیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کو اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی ۔ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (اور) کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو دوڑ نے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔ تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے ۔ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا حقیقت الحال یوں نہیں تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر اور وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے۔
سوال ۔جی کیا اس حرکت کا پتا نہ چلا انھیں؟؟؟ انہوں نے جا کر حضرت یوسف علیہ السلا م کو جا کر کنویں سے نکال کیوں نہ لیا اور 40 سال روتے رہے؟؟؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ بریلوی عقیدے کے مطابق تو بھر حضرت یعقوب ڈرامہ رتے رہے رو کر جبکہ انہیں پتا بھی تھا ؟؟ انہوں نے کیوں کنویں میں چھوڑ دیا اپنے لختِ جگر کو؟؟؟؟ جب وہ مصر میں چلے گئے تب کیوں نہ انہیں پتا چلا؟؟؟
باقی دلائل اگلی دفعہ ۔۔۔انشاء اللہ ۔
دعاوں میں یاد رکھیں ۔۔ شکریہ
ان دونوں الفاظ کا مطلب ہے " موجود " اور "دیکھنے والا" جب دونوں کو ملا کر استعمال کیا جائے گا تو مراد ہو گی وہ ذات جو ساری کائنات کو بیک وقت محیط کیئے ہوئے ہے کائنات کا ایک ایک ذرہ ، ایک ایک چیز ، تمام حالات اول تا آخر اسکی نظر میں ہیں اور یہ صفت صرف ایک ذات کی ہے وہ ذات پاک صرف اللہ تعالٰی ہے ۔
--- حضرت ابراہیم علیہ السلام حاضر ناظر نہ تھے ---
1- Surah Hud 69,70
وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰي قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ 69 فَلَمَّا رَآٰ اَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ اِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَاَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيْفَةً ۭ قَالُوْا لَا تَخَفْ اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰي قَوْمِ لُوْطٍ 70ۭ
ا
ور ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس بشارت لے کر آئے تو سلام کہا۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔ ابھی کچھ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ (ابرہیم) بھناہوا بچھڑا لے آئے ۔اب جو دیکھا کہ ان کے تو ہاتھ بھی اس کی طرف نہیں پہنچ رہے تو ان سے اجنبیت محسوس کر کے دل ہی دل میں ان سے خوف کرنے لگے (١) انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم تو قوم لوط کی طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں (٢)۔
غور کرنے کی بات: اگر ابراہیم علیہ السلام اگر حاضر و ناظر ہوتے تو انہیں پتا ہوتا کہ یہ فرشتے ہیں اور ان کےلیے بچھڑا بھون کر نا لاتے۔ اور پھر انہیں خوف کیوں محسوس ہوا ؟؟؟ جب فرشتوں نے انہیں بتایا کہ ہم فرشتے ہیں تب حضرت ابراہیم کو پتا چلا ۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599
حضرت ابراہیم جب اپنے خاندان کو اللہ کے حکم پر مکہ میں چھوڑ کر چلے گئے اور بہت عرصہ گرزنے کے بعد جب انہیں یاد ستائی اور حضرت ابراہیم اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے تشریف لائے ( اس اوقت تک حضرت اسماعیل کا نکاح ہو چکا تھا) ، تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں ۔۔۔۔
سوال- اگر حضرت ابراہیم حاضر و ناظر تھے تو شام سے مکہ کوئی ایک ہزار میل کی مسافت طے کر کے بار بار کیوں آتے رے اپنے لخت جگر سے ملنے؟ وہ بار بار کیوں آ کر خیریت دریافت کرتے رہے ،اگر حاضر ناظر تھے تو وہیں ملک شام میں بیٹھ کر تمام حالات معلوم کر لیتے ، جب حضرت اسماعیل گھر نہ ملے تو پوچھنے کی کیا ضرورت انہیں کہ کدھر گئے ہیں حاضر ناظر تھے تو صرف گھر ہی کیوں آئے ملنے ادھر ہی کیوں نہ چلے گئے جدھر حضرت اسماعیل گئے ہوئے تھے ؟
--- حضرت لوط علیہ السلام بھی حاضر ناظر نہ تھے ---
Surah Hud 77
وَلَمَّا جَاۗءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْۗءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّقَالَ ھٰذَا يَوْمٌ عَصِيْبٌ 7 وَجَاۗءَهٗ قَوْمُهٗ يُهْرَعُوْنَ اِلَيْهِ ۭ وَمِنْ قَبْلُ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ هٰٓؤُلَاۗءِ بَنَاتِيْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَلَا تُخْزُوْنِ فِيْ ضَيْفِيْ ۭ اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان (کے آنے) سے غمناک اور تنگ دل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بہت مشکل کا دن ہے
اور اس کی قوم دوڑتی ہوئی اس کے پاس آپہنچی، وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی (١) لوط نے کہا اے قوم کے لوگو! یہ میری بیٹیاں جو تمہارے لئے بہت ہی پاکیزہ ہیں (٢) اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں (٣)
سوال ۔ اگر حضرت لوط علیہ السلام حاضر و ناظر تھے اور علم غیب رکھتے تھے تو انہیں معلوم نہ ہوا کہ یہ تو فرشتے ہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ انہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا اگر وہ حاضر ناظر تھے کہ یہ فرشتے ہیں اور فلاں فلاں جگہ سے ہو کر آئے ہیں ۔ انہوں نے کیوں نکاح کے لیے بیٹیوں کو سامنے رکھا کہ یہ میرے مہمان ہیں ہیں انہیں چھوڑ دو؟
--- حضرت یعقوب علیہ السلام بھی حاضر و ناظر نہ تھے ---
Surah Yousaf 8-14
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ Ďښاقْــتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِهٖ قَوْمًا صٰلِحِيْنَ Ḍقَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ لَا تَـقْتُلُوْا يُوْسُفَ وَاَلْقُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّـيَّارَةِ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ 10 قَالُوْا يٰٓاَبَانَا مَالَكَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰي يُوْسُفَ وَاِنَّا لَهٗ لَنٰصِحُوْنَ 11 اَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَّرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ 12 قَالَ اِنِّىْ لَيَحْزُنُنِيْٓ اَنْ تَذْهَبُوْا بِهٖ وَاَخَافُ اَنْ يَّاْكُلَهُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْهُ غٰفِلُوْنَ 13 قَالُوْا لَىِٕنْ اَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ
جب انہوں نے (آپس میں) تذکرہ کیا کہ یوسف اور اس کا بھائی ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم جماعت (کی جماعت) ہیں۔ کچھ شک نہیں کہ ابا صریح غلطی پر ہیں۔تو یوسف کو (یا تو جان سے) مار ڈالوں یا کسی ملک میں پھینک آؤ۔ پھر ابا کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائیگی۔ اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے۔ ان میں سے ایک کہتے والے نے کہا کہ یوسف کو جان سے نہ مارو کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال (کر اور ملک میں) لے جائے گا۔ اگر تم کو کرنا ہے (تو یوں کرو) ۔ (یہ مشورہ کرکے وہ یعقوب سے) کہنے لگے کہ ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اسکے خیر خواہ ہیں؟.کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے خوب میوے کھائے اور کھیلے کودے۔ ہم اسکے نگہبان ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ امر مجھے غمناک کئے دیتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ (یعنی وہ مجھ سے جداہو جائے) اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم (کھیل میں) اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے ۔وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں اسے بھیڑ یا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑ گے ۔
سوال۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہ منصوبے بنا رہے تھے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کو پتا کیوں نہ چلا ؟؟ اگر پتا تھا پھر بھی بھیج دیا ؟ اور یہ بھی کہا کہ مجھے خوف ہے،ڈر ہے؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ کیا حضرت یعقوب علیہ السلام کوئی ڈرامہ کر رہے تھے یہ سب بول کر ؟؟؟؟؟
فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ يَّجْعَلُوْهُ فِيْ غَيٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِاَمْرِهِمْ ھٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ 15 وَجَاۗءُوْٓا اَبَاهُمْ عِشَاۗءً يَّبْكُوْنَ 16ۭ قَالُوْا يٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَكَلَهُ الذِّئْبُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ 17 وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِهٖ بِدَمٍ كَذِبٍ ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِيْلٌ ۭ وَاللّٰهُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰي مَا تَصِفُوْنَ 18
غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اسکو گہرے کنوئیں میں ڈال دیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ (ایک وقت ایسا آئے گا کہ) تم ان کو اس سلوک سے آگاہ کرو گے اور انکو (اس وحی کی) کچھ خبر نہ ہوگی ۔ (یہ حرکت کرکے) وہ رات کے وقت باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔ (اور) کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو دوڑ نے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہوگئے اور یوسف کو اپنے اسباب کے پاس چھوڑ گئے۔ تو اسے بھیڑیا کھا گیا۔ اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے ۔ اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔ یعقوب نے کہا حقیقت الحال یوں نہیں تم اپنے دل سے یہ بات بنا لائے ہو اچھا صبر اور وہی خوب ہے اور جو تم بیان کرتے ہو اس کے بارے میں خدا ہی سے مدد مطلوب ہے۔
سوال ۔جی کیا اس حرکت کا پتا نہ چلا انھیں؟؟؟ انہوں نے جا کر حضرت یوسف علیہ السلا م کو جا کر کنویں سے نکال کیوں نہ لیا اور 40 سال روتے رہے؟؟؟ نعوذ باللہ نعوذ باللہ بریلوی عقیدے کے مطابق تو بھر حضرت یعقوب ڈرامہ رتے رہے رو کر جبکہ انہیں پتا بھی تھا ؟؟ انہوں نے کیوں کنویں میں چھوڑ دیا اپنے لختِ جگر کو؟؟؟؟ جب وہ مصر میں چلے گئے تب کیوں نہ انہیں پتا چلا؟؟؟
باقی دلائل اگلی دفعہ ۔۔۔انشاء اللہ ۔
دعاوں میں یاد رکھیں ۔۔ شکریہ