ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ کا تحقیقی اور تعلیمی مشن
انٹرویو پینل
س: تعمیر شخصیت اور علمی رجحانات کا مختصر تعارف کروائیے؟ج: بچپن سے ہی میں دھیمے مزاج کا حامل ہوں ،اگرچہ میرے قابل رشک حافظے کے ساتھ ہر چیز پر توجہ دینے کے مزاج کی وجہ سے میرا شماربہت ذہین لوگوں میں ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ پورے گھر میں میرے حافظے پر بہت اِعتماد کیا جانے لگا۔ والدِ گرامی حافظ محمد حسین امرتسری روپڑی کاروباری آدمی بھی تھے۔ لاہور کے تجارتی معاملات میں کسی نے اُنہیں جعلی چیک دے دیا ۔ایک پنچائیت میں فیصلہ ہوا کہ چیک کی بجائے اَصل رقم دی جائے۔ والد صاحب نے اَصل رقم لینے کے لیے بڑے بیٹے حافظ عبداللہ حسین کو ملزم کے ہمراہ بھیجا۔ وہ سائیکل بھی لے بھاگا۔ ہمارے پاس Raleigh سائیکل ہوتا تھا جوان دنوں کوالٹی کے اِعتبار سے بہت اچھی سواری سمجھی جاتی تھی۔ وقوعہ یوں ہواکہ جس شخص نے جعلی چیک دیاتھا، اس نے کہا کہ سائیکل مجھے دو، میں اَبھی پیسے لے کر آتا ہوں۔ چھوٹی عمرکی وجہ سے بھائی صاحب نے سائیکل اُسے دے دی۔وہ سائیکل سمیت غائب ہو گیا۔ کافی دیر بعد بڑے بھائی (حافظ عبداللہ حسینؒ)جب واپس آئے تو اُنہوں نے والد صاحب کو بتایا کہ وہ تو سائیکل بھی لے گیا ہے ۔ والد صاحب نے تھانہ ماڈل ٹاؤن میں رپٹ درج کروا دی۔ ان دنوں پولیس کے حالات کافی بہتر ہوتے تھے۔ پولیس نے ملزم کو سائیکل سمیت پکڑ لیا۔ اب سائیکل ہم نے اپنی تحویل میں لینا تھا ۔پولیس کا مطالبہ تھاکہ آپ رسید لے کر آئیں۔ عام طور پرسا ئیکلوں کی رسیدیں کم ہی سنبھال کررکھی جاتی ہیں۔ یہ سائیکل ہم نے رستم سہراب فیکٹری کے ڈائریکٹر جناب محمد یٰسین(سابق امیر جماعت اہل حدیث پاکستان) کے ذریعے لیا تھا۔ اس سلسلے میںجب ان سے بات ہوئی توانہوں نے کہاکہ رسید تو میں بنا دیتا ہوں لیکن سائیکل کا نمبر چاہئے۔اب نمبرکسی کو یاد نہیں تھا۔ والد صاحب نے شام کے وقت گھر آکر ذکر کیا کہ سائیکل تو پولیس نے برآمد کر لیا ہے لیکن نمبر علم نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں نہیں مل سکتا ۔ میں بالکل چھوٹی عمر کا تھا۔ میں نے کہا کہ وہ نمبر مجھے یاد ہے۔ سائیکل کا نمبر گدی کے نیچے ہوتا ہے، جومیں نے اتفاق سے ایک دن پڑھ لیا تھا، میں نے بتایا کہ اس کا نمبر AK23842ہے۔ چنانچہ والد صاحب نے اسی کے مطابق رسید تیار کرا کرسائیکل حاصل کر لیا۔ اس واقعہ کے بعدمیرے ذہن کوگھریلو امور میں رجسٹر کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ہم عام طورپردودھ حاصل کرنے کے لیے گھر میں جانور رکھا کرتے تھے، چنانچہ جانوروں کے جتنے بھی معاملات ہوتے ،مجھے بتا دئیے جاتے ۔نومولود بچوں کی عمروں کے حساب وغیرہ بھی مجھے آج تک یاد ہیں۔