• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ کا تحقیقی اور تعلیمی مشن

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلامی دنیا کا سیاسی نوآبادی کا دور توگیا، اب اقتصادی نو آبادی کا چلن ہے۔ اس لیے عالمی قوتوں نے سیکولرازم کا دم بھرنے کے باوجود دیگر تمام تہذیبوں کو ملیا میٹ کرنے کا عزم کر رکھا ہے حالانکہ سیکولرازم تہذیبی اقدار اور خاندانی رواج میں مداخلت نہ کرنے کے جھوٹے وعدے دیتانہیں تھکتا۔ سیکولرازم کا تصور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ Private Sectorمیں دخل اندازی نہیں کرتا جب کہ اسے صرف اجتماعیت کے سیاسی، اقتصادی اور معاشرتی میدانوں سے غرض ہے جنہیں وہ لادین Public sector کے تابع لانا چاہتا ہے۔
اس وقت عالمی استعمار سموئیل پی ہنٹنگٹن جیسے مفکرین کے ذریعے Clash of Civilization یعنی تمدن(مادی ارتقاء ) سے پسماندہ تمدن(رجعت پسندی ) کا تصادم بتاتے ہوئے یہ دعوت دے رہا ہے کہ مسلمان اپنی اسلامی تہذیبی اقدار کو چھوڑ کر مغرب کی عالمی (بے خدا مادی) تہذیب میںمدغم ہو جائیں، یہی ان کی انسانی ترقی کا راز ہے۔
بہت سے نام نہادمسلم دانش ور تہذیب (Culture)جسے عربی زبان میں’ثقافت‘کہتے ہیں اور تمدن (Civilization) جسے عربی زبان میں ’حضارۃ‘ کہتے ہیں، کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے اسلام کی تہذیبی اقدار (حجاب وحیاء وغیرہ) کے بھی مخالف ہیںتاکہ سیکولرازم کو Private Sector کے سماجی ادارہ (خاندان) میں دخل اندازی کا حق دے سکیں۔ یہی لادینیت اسلامی معاشرے کو گھن کی طرح کھا رہی ہے۔
خود کو بدلتے نہیں ۔۔۔۔قرآن کو بدل دیتے ہیں​
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فکر وعمل کے میدان میں میری توجہ اگرچہ خاندان اور اسلامی معاشرہ کے تحفظ کی طرف زیادہ ہے، اسی طرح میں معیشت ومعاشرت اور سیاست وقانون کو مجلس کی تحقیقات کا محوربنائے ہوئے ہوں۔ کیونکہ ہمارے پیش رو اہل علم وفقہ نے ہمارے عقائد، عبادت اور داخلی عائلی امور میںبہت عمدہ اور تفصیلی تحقیقات پیش کر رکھی ہیں جن پر مشتمل ہمارے فقہی ورثہ میں بیش بہا لٹریچر موجود ہے چنانچہ اسلام کے داخلی نظام Private Sector سے متعلق جزوی مسائل کو سمجھنے کے لیے کسی بھی انصاف پسند کے لیے کتاب وسنت پر ان ائمہ کی آراء کو پیش کر کے راجح شرعی مؤقف کی تحقیق آسان ہے۔ جبکہ دور حاضر کا بڑا میدان اجتماعیات کا ہے جس میں معاشرت ومعیشت کے علاوہ سیاست وقانون کا (Public sector) ہم پر چھایا ہوا ہے جو ہمیں تمدنی ارتقاء کی مخالفت کا طعنہ دے کر ہماری دائمی اور عالمگیر شریعت کو بدل دینا ہی ترقی کازینہ قرار دیتا ہے لیکن شریعت محمدیہ میں ہم (نئی نبوت کی طرح) کسی تغیر وتبدل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ہم تو اپنی تشنگی کامداوا ہ بمصداق ع شراب کہنہ در جام نو! کافی سمجھتے ہیں۔
ہماری الہامی وحی ’قرآن وحدیث‘ اور ہر زمانہ اور حالات میں پیش آنے والے مسائل پر ہمارے اجل علمائے امت کے اجتہادات بھی کتابی صورت میں تدوین ہوتے رہے ہیں۔ البتہ سیکولرپبلک سیکٹر کے تحت ہمارے جو سیاسی، معاشی اور انتظامی ادارے تشکیل پاتے رہتے ہیں، وہ وحی الٰہی کی روشنی سے محروم ہیں۔انہیں شریعت کی راہنمائی میں ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے لیکن شریعت محمدیہ سے نابلد ہمارے کئی دانشورسیاسی ،معاشی اور قانونی اداروں کو اسلام کے مطابق تشکیل دینے کی بجائے شریعت کی تعبیر نو کے نام سے ان کی ہوبہو مغرب کی طرح تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں جو بہت بڑا دھوکہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلام بھی اداروں کے لیے قواعد وضوابط کی پابندی پر زور دیتا ہے اور یہ قواعد وضوابط اجتماعی مشاورت سے بنائے جانے میں بھی شریعت کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتی لیکن ان کے اندر شرعی اصولوں کی کار فرمائی لازماً ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اپنے ہاں ایسے اداروں اوران کی ضابطہ بندی کو’’ قانون ‘‘کی بجائے ’نظام‘ کانام دیتاہے۔
یہ قواعد وضوابط جنہیں شریعت کی روشنی میں Bye-Lawsبھی کہا جاسکتا ہے اگر قانون وسزا کے منفی پہلو کو نظر انداز کرکے انہیں عبوری طور پر قانون کے نام سے اختیار کر لیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں لیکن اس پر شریعت کو سپریم لاء قرار دینا ضروری ہے جس طرح کہ سعودی عرب کے دستور کی درج ذیل دفعات کے الفاظ یوں ہیں:
دستور کا باب اوّل :(دفعہ :۱) مملکت عربیہ سعودیہ … کا دین اسلام ہے اور اُس کا دستور کتاب اللہ اور سنت ِرسولﷺہے … اور یہی دونوں دستوری نظام اور مملکت کے تمام نظاموں پر حاکم (حاوی)ہے۔
(دفعہ :۷) سعودی عرب میں سلطۃ کا منبع کتاب اللہ اور سنت رسولﷺہے اور یہی دونوں مملکت کے دستوری نظام اور دیگر تمام نظاموں پر حاکم(حاوی )ہیں۔
(دفعہ :۴۶) عدلیہ مستقل اختیارات رکھتی ہے اور اُس کے ججوں کے فیصلوں پرشریعت اسلامیہ کے سلطۃ کے علاوہ کسی اور کا اختیار نہیں ہے۔(شاہی فرمان نمبرأ/۹۰بتاریخ:۲۷/۸/۱۴۱۲ھ بمطابق یکم مارچ ۱۹۹۲ء)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شریعت (کتاب وسنت) کی بالا دستی قائم رکھتے ہوئے ضابطہ بندی ہو یا قانون سازی یہ ہمارے جدید معاشروں کی تمدنی ضرورت ہے۔ اس حد تک نظام تشکیل دیا جائے یا بالفاظ دیگر پارلیمنٹ کے ذریعے قانون سازی کی جائے اس کا نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ شریعت محمدیہ کی تطبیق واطلاق میں ابتدائی طور پر ایسی ضابطہ بندی سے بہت فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے جبکہ اصل پابندی کتاب وسنت کی ہو نہ کہ ضابطہ بندی کی۔ شرق اوسط کے بہت سے ملکوں مصر وسوڈان سمیت، نے ایسے بیش قیمت مسوّدے ضابطوں کی صورت میں چھاپ کر نشر بھی کیے ہیں کہ عالم اسلام کی شریعت محمدیہ سے ناواقف بیوروکریسی اور عدلیہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ یہ قانون سازی ہماری خالصتاً تمدنی ضرورت ہے۔ تاہم معیشت ومعاشرت اور سیاست وحکومت کے جدید اداروں کو شریعت کے ان اصول وقواعدپر منضبط کرنے کیلئے شریعت کے ماہرین اور سوشل سائنسز کے ماہرین کو مل بیٹھ کر اجتماعی تحقیقی کام کرنا چاہیے، جسے آج کل ’اجتماعی اجتہاد‘ کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ علمی طور پر کیا یہ اجتماعی اجتہاد ہے یا نہیں؟ سے قطع نظر شرعی اصولوں پر دور حاضر کے متمدن ظروف واحوال میں اداروں کی کیا صورت گری ہوتی ہے وہ جدید دور کا اہم چیلنج ہے۔
یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دین و شریعت کی اساس وحی الہٰی پر شعوری ایمان ہے جو سیکولرازم کی لذت پرستی کا دفاع کر سکے۔ اگر دین وایمان کی دستوری اساس کے بغیر ہم نے مغرب کے سیکولر نظام کوہی بنیاد بناکرمتمدن(ترقی یافتہ) بننے کی کوشش کی تو ہمیں شریعت کے روحانی اصول وقواعد سے یا تو ہاتھ دھونے پڑیں گے یا بہت سی نادان ترمیمات کرنی پڑیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے نقشہ پر پہلی اسلامی مملکت ’پاکستان‘ کے دستور میں جنرل ضیاء الحقؒ کی طرف سے نفاذ شریعت کی کوششوں میں قرار دادِ مقاصد کو بالادستی دینے کے باوجود Anglo Saxon lawکی مجبوریوں نے ابھی تک شریعت محمدیہ کو معطل کرر کھا ہے، جس میں موجودہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا شریعت بینچ بھی کوئی مثبت پیش رفت نہیں کرا سکا۔ اور آئندہ کے لیے ایسے procedureسے کوئی اچھی امید بھی نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: تبلیغی جماعت کے نعرے’’ چل کر دیکھنے ‘‘پر عمل سے ،آپ کو کوئی فائدہ ہوا؟
ج: میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھ واقعی چل کر دیکھا ہے۔ مجھے اِس سے یہ اندازہ ہوا کہ تبلیغی جماعت کا جو مسجد تک بلانے کا پروگرام ہے وہ اَہم ہے۔ مسجد کے بعد جب معاشرے سے نکلنے( خروج) کا میدان آتا ہے تو وہاںدعوتی طریقِ کار میں افراط وتفریط کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ اسلام میں مسجد کی طرف دعوت بڑی اہم ہے اس کے لیے جو بھی طریق کار اپنایا جائے وہ مفیدہے۔ تبلیغی حلقوںمیں دین داری کااہتمام اور مسجد کے ساتھ وابستگی دو چیزیں ایسی ہیں کہ واقعی بڑی موثر ہیں۔ باقی معاشرے سے کٹنے کے طریق کار میں افراط وتفریط کے تفصیلی تجزیہ کا یہ موقع نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس تحقیق الاسلامی کے پس منظرکے بارے میں کچھ بتائیے؟
ج: مدینہ منورہ سے جب ہم کچھ لوگ وطن واپس آئے توان میں ہم تین ساتھی خاص طور پر بڑے گہرے دوست تھے حافظ ثناء اللہ مدنی، مولانا عبدالسلام کیلانی اور میں، ہمارا ارادہ یہ تھا کہ اپنی مادر علمی کو مثالی درسگاہ بنائیں۔ جس کے ساتھ ساتھ ایسا تحقیقی مرکز بھی ہو جو الاعتصام بالکتاب والسنۃ کے اصول پر (وحی کی روشنی میں) آزادانہ تحقیق کرے۔اس تحقیقی آزادی اور تدریس کے لیے مثالی درسگاہ بنانے کیلئے ہم مدینہ منورہ میں ہی سوچ وبچار کیا کرتے تھے۔ ہم نے تعلیمی اصلاح کیلئے یہ پروگرام بنایا کہ ثانوی درجہ کی درس گاہ، جو پہلے سے موجود تھی، اس پر تجربہ کریں، اس کا پس منظر یہ ہے کہ والد صاحب کی ایک فیکٹری’ رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز ‘کے نام سے تھی، اتفاق سے وہ فیکٹری جل کر ختم ہوگئی اوراس کی نئی تعمیرشدہ جگہ ہمارے پاس موجود تھی تو ہم نے ’رَحمانیہ‘ ہی کے نام سے وہاں درس گاہ قائم کرلی لیکن جہاں تک ادارہ تحقیق کامعاملہ تھا تواس سلسلہ میں کافی غوروفکر کیا گیاتو ہمارے سامنے ایک اہم سوال یہ تھا کہ تحقیق میں عام طور شخصیت پرستی کی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے جو بہت نقصان دہ چیز ہے۔ لہٰذا تحقیق کے اَندر شخصیت پرستی کا عنصرختم کرنے کیلئے ہم نے ’مجلس‘ کا لفظ اختیار کیا، کہ اہم مسائل پر تحقیق کیلئے ہماری اجتماعی علمی تحقیقات ہوا کریں گی، اس طرح معروف سکالرز کو دعوت دے کرہم اجتماعی طورپر تحقیق کو نکھارا کرتے اس طرح ہماری تحقیقی مجلس کا طریق کار وضع ہوا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جب ۱۹۷۰ء میں ہم نے مجلس تحقیق اسلامی کے نام سے کام شروع کیاتو علمی اور اصلاحی مجلہ ماہنامہ محدث کے علاوہ مجلس کا تحقیقی کام کوئی زیادہ تیز رفتار نہیں تھا، ہم بھی زیادہ پختہ کار نہیں تھے لیکن لاہورکی اہم علمی شخصیتوں اور دانشوروں کے ساتھ مجلسوں کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ تحقیقی اِدارہ کس اَندازاور ڈھب سے سیٹ کیا جائے،آہستہ آہستہ طریق کار واضح ہوتا گیا۔’’بحث‘‘ کی بجائے’’ تحقیق‘‘ کا لفظ شامل کرتے وقت مجھے یہ بھی اِحساس تھا کہ عربی زبان میں ’تحقیق‘ کے معنی ’عملی جامہ پہنانے کے‘ ہوتے ہیں۔ جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے: ’أرجوأن تحقّق أملي‘ (مجھے اُمید ہے کہ آپ میری آرزو پوری کریں گے) میں اکثر سوچا کرتا کہ ہم اجتماعی تحقیق کے ساتھ اپنے تمام منصوبوں کو بھی عملی جامہ پہنائیں گے۔ان شاء اللہ
عملی طور پربھی اس مجلس کی نگرانی میں زیادہ تر کام متنوع تدریسی ،تحقیقی اور رفاہی اداروں کی تشکیل کا ہوتا رہاہے ۔ اور یہ تمام ادارے مجلس کی اجتماعی مشاورت کے نتیجے میں تشکیل پانے والے فکر وعمل کے تحت وجودمیں آتے رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: مجلس کی ابتدا کا بنیادی فکر اور مشن تو آپ نے واضح فرما دیا۔ ہم اس کی ابتدائی تاریخ بھی جاننا چاہتے ہیں۔
ج:مجلس کی ابتداء اس طر ح ہوئی کہ ہمارے ساتھی حافظ ثناء اللہ مدنی﷾ کی پہلی رفیقہ حیات ۱۹۷۰وء میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئیں۔ (إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون) میں اور مولاناعبدالسلام کیلانی چند دیگر مخلص احباب کے ساتھ سرہالی کلاں ضلع قصورمیں تعزیت کیلئے اکٹھے تھے کہ اسی دوران مدینہ منورہ میں قیام کے دوران مستقبل کیلئے اجتماعی مشاورتوں کا ذکر چل پڑا کہ ان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کچھ کیاجائے ۔ وہاں یہ طے پایا کہ مدرسہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن لاہورکے ساتھ اَیسا تحقیقی اِدارہ بھی بنایا جائے جس میں کتاب و سنت کی روشنی میں آزادانہ تحقیق کی جائے۔۔ الحمدﷲ لائبریری تو ہمارے پاس کافی حد تک پہلے ہی موجود تھی۔ ابھی مجلس التحقیق الاسلامی کی ماڈل ٹاؤن والی موجودہ وقف عمارت توتیار نہ ہوئی تھی البتہ ہماری فیکٹری جس کی دوبارہ تعمیر کے وقت وہاں ایک تعلیمی ادارہ بھی والدگرامی نے قائم کردیاتھاجواب مدرسہ رحمانیہ کے نام سے رجسٹرڈ بھی ہوچکاتھا وہیں یہ تحقیقی کام اور علمی آرگن محدث کا دفتر قائم کیا گیا۔ ہماری تحویل میں ۱۹۴۸ء سے ۱۹۸۰ء تک یہاں قذافی سٹیڈیم کے بالمقابل نئے بننے والے ابو ظہبی سنٹر کے رقبہ میں شامل، بارہ کنال جگہ موجود رہی ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س:آپ کے ساتھ اور کون کون لوگ شریک ہوئے ؟
ج: ہمارے ساتھ بہت سے علمی اور تربیتی مزاج رکھنے والے مخلص علماء اور اساتذہ اپنی سرکاری ملازمتیں چھوڑکر شریک ہوتے رہے کیونکہ ہم نے ابتداء میں ثانوی درجے تک سکول کی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کااہتمام کررکھاتھا اس کتاب وسنت او رعصری علوم کے امتزاج پر مشتمل نصاب کی تدریس میں ایسے ہی حضرات شامل تھے جو اپنے تخصصات کے ساتھ بھرپور دینی مزاج رکھتے تھے جن میں پروفیسر ڈاکٹر مزمل احسن شیخ ،مولانا عبدالرحمن بنگالی اور ماسٹر حبیب الرحمن اوکاڑوی پیش پیش تھے جبکہ علماء میں بنیادی کردار شیخ ابن باز ؒاور محدث روپڑی ؒکے تلامذہ کا رہا جن میں ہم تین ساتھیوں کے علاوہ مولانا محمد بشیر گوہڑوی قابل ذکر ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
س: اِس دور میں آپ کے پاس اپنی اجتماعی تحقیقات کے اِظہار کا ذریعہ کیا تھا؟
ج: میں بتا چکا ہوں کہ ہم نے ۱۹۷۰ء میں ہی ایک ماہوار تحقیقی اور علمی مجلہ محدث شروع کر دیا تھا جس میں اجتماعی فتویٰ کے علاوہ تحقیقی مقالے بھی شائع کیے جاتے۔ مزیدبراں ہماری کوشش ہوتی کہ ہربات حوالہ کیساتھ درج کی جائے۔ محدث نام کاتقاضا بھی یہی تھا۔ہم نے الحمد للہ اب تک اس بات کاالتزام کیاہے کہ محدث میں بقیہ برصفحہ فلاں کا انداز اختیار نہ کیاجائے۔ اسی طرح حتی المقدور (ماسوا نادرمضمون کے) کوئی مطبوعہ مواد نشر نہ کیا جائے۔
 
Top