• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبدالرحمن مدنی﷾ کا تحقیقی اور تعلیمی مشن

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہمارے سوالات وجوابات سے روزانہ بخاری پڑھنے کا دورانیہ اس قدر طویل ہو جاتا کہ ہم صبح بیٹھتے اور شام تک بخاری کا سبق چلتا رہتا۔ کتاب الایمان (صحیح بخاری) پڑھتے ہوئے جب یہ ذکر آیا کہ نبی اَکرمﷺکی بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف تحویل قبلہ کے وقت والی نماز کون سی تھی؟ تو محدث روپڑیؒ نے وأنه صلی أوّل صلاة صلاها صلاة العصر کی مشکل عبارت کی ترکیب شاگردوں سے پوچھی۔ شارحین بخاری اس عبارت کو ترکیب کے اعتبار سے اہم قرار دیتے ہیں۔ محدث روپڑی﷫نے باری باری سارے طلباء سے کہا کہ اس کی ترکیب بتاؤ۔ اپنی باری آنے پر جب میں نے اپنی ترکیب پیش کی تو وہ کہنے لگے کہ یہ ترکیب غلط ہے۔ میں نے کہا :کیسے غلط ہے؟ انہوں نے میری غلطی واضح کرتے ہوئے کہاکہ اگر یوں ترکیب کریں تو؟اس پر میں نے صاد کیا، جس پر وہ کہنے لگے: یہ ترکیب بھی غلط ہے۔ گویا اس طرح دو تین دفعہ ترکیبیں مجھ سے کروانے کے بعد جب ہردفعہ میں تسلیم کرلیتا تو کہتے کہ یہ بھی غلط ہے۔ گویاانہوں نے مجھے باور کرایا کہ اپنے بارے میں مغالطہٰ نہیں ہونا چاہئے’’وفوق کل ذی علم علیم‘‘ اس طرح مجھے احساس ہوگیا کہ جس صرف و نحو کی مہارت پرمجھے بہت اِعتماد ہے، اس کی حالت بھی پتلیہے۔ ان کے انداز تدریس کے فوائد میں سے بڑی نعمت جو ہمیں حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ صحیح بخاری کے مشکل اَہم مقامات حل ہوتے گئے۔ بڑے محدث اور فقیہ سے اس طرح بخاری پڑھنے سے ہماری سوجھ بوجھ کافی کھل چکی تھی جس کا اندازہ پانچ چھ سالہ جامعہ اہلحدیث میں تدریس کے بعدجامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میںطالب علم بن کر ہوتا رہا۔ اتفاق سے محدث روپڑی کے تین شاگرد میرے سمیت حافظ ثناء اللہ اور عبدالسلام کیلانی کلیہ الشریعہ(مدینہ یونیورسٹی) میں متعلّم تھے کہ ایک دن جامع بخاری میں مذکور ایک حدیث مدینہ منورہ کے مشہور قاضی شیخ عطیہ سالم کے محاضرہ میں زیر بحث آگئی۔جس کے راوی عروہ البارقی﷜ ہیں۔ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺنے عروہ البارقی کو ایک دینار دیا تھا کہ بکری خرید کر لاؤ، انہوں نے اس دینار کی جو بکری خریدی وہ رستے میں ہی دودینار میں بک گئی۔ پھر انہوں نے ان دو دیناروں میں سے ایک دینار کی بکری دوبارہ خریدی اور ایک دینار واپس بھی لے آئے جس پرنبی اکرمﷺنے انہیں بیع میں برکت کی دعا دی۔(کتاب المناقب:۳۶۴۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حدیث کا متن اگرچہ صحیح بخاری میں موجود ہے لیکن یہ متن اکثر محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی روایت کا متن مع سند ِ ضعیف صحیح بخاری میں کیوں ہے؟ ابن حجر﷫ بلوغ المرام میں اس حدیث کوذکر کر کے تبصرہ کرتے ہیں: أخرجہ البخاری في ضمن حدیث ولم یسق لفظہ (امام بخاری نے ایک دوسری حدیث کے ضمن میں اس حدیث کا اخراج کیا ہے لیکن اس متن کی روایت نہیں کی۔ کیونکہ شیخ محمد ناصرالدین البانی ؒ نے ارواء الغلیل تخریج منار السبیل میں اسے صحیح قرار دیاہے اور کئی دیگر محدثین نے اس حدیث کی تخریج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ابن حجر کی غلطی ہے، صحیح بخاری میں یہ روایت سند سمیت موجود ہے۔ مدینہ یونیورسٹی کی ایک کلاس میں جب یہ سوال اٹھا تومولانا عبدالسلام کیلانی اس بحث کو سٹاف روم تک لے آئے۔جہاں یہ بحث مدینہ یونیورسٹی کے ماہر اساتذۂ حدیث کے درمیان دو دن تک مسلسل چلتی رہی۔ ہمارامؤقف یہ تھا کہ امام بخاری ﷫ اسے کسی علمی نکتے کی وضاحت کیلئے لائے ہیں کیونکہ یہ حدیث امام بخاری﷫ کی شرط پرنہیں ہے۔ اس کی سند میں ’حي‘ ( قبیلہ) مبہم راوی ہے۔ یعنی مبہم نامعلوم شخص ہوتا ہے، ایسے غیر متعین شخص کی توثیق بھی نہیں ہوسکتی۔ شرط پر نہ ہونے کے باوجود اس کا صحیح بخار ی میں روایت ہونا الجامع الصحیح پر الزام ہو جائے گاکہ اِمام بخاری مبہم شخص سے بھی روایت کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہم اس کی تائید میں ابن حجرؒ کی مذکورہ بالا عبارت پیش کرتے کہ یہ امام بخاری﷫ کی روایت نہیں بلکہ یہاں اس حدیث کے معلول ہونے کا اشارہ ہے۔ ابن حجر﷫ کا تبصرہ قابل غور ہے۔ امام بخاری’’الخیر معقود بنواصی الخیل إلی یوم القیامة‘‘ کے ضمن میں اس کی جس سند کا ذکر کر رہے ہیں حسن بن عمارہ (راوی)نے اسی سند سے عروہ البارقی کی یہ حدیث روایت کردی ہے جو ان کی غلطی ہے۔ اس کی اصل سند وہ ہے جس کے اندر قبیلہ کے مبہم راوی کا ذکر ہے جو سند ضعیف ہے۔ لہٰذا عروہ البارقی کی یہ معلول حدیث امام بخاری کی مرویات میں شامل نہیں ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جب اِس بحث کاسٹاف روم میں اِختتام ہواتواس بحث میں مدینہ یونیورسٹی کے شریک ہونے والے اُساتذہ میں سے جلیل القدر محدث شیخ حماد بن محمد اَنصاری کہنے لگے : ’’أستفید منهم أکثر مما یستفیدون منی‘‘ ( وہ مجھ سے اِتنا علمی فائدہ نہیں اٹھاتے جتنا میں ان سے اٹھاتا ہوں) شریک مجلس پاکستانی استاد حدیث مولانا عبدالغفار حسن﷫ نے ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: ’’کیف لا! وهم تلامیذ المحدث الکبیر الحافظ عبداﷲ الروبری‘‘ اس طرح ہمیں بڑی خوشی ہوئی، کیونکہ انعام کے طور پر شیخ حماد انصاری نے مجھے تیسیر العزیر الحمید شرح کتاب التوحیدجو انہی دنوں طبع ہوکر نئی نئی مارکیٹ میں آئی تھی ،اپنے ہاتھ سے عبارت لکھ کر تحفتاً دی۔ آپ اندازہ کریں کہ اس طرح گہرائی کے ساتھ بخاری پڑھنے کا ہمیں کتنا فائدہ ہواتھا؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میرے خاندانی اہلحدیث مسلک کی بنیاد کتاب سنت پر ہے۔ مختلف مدارس میں تعلیم پانے کی وجہ سے مجھ میں جو آزادانہ تحقیق کارُجحان بڑھا، وہ بعد میں کتاب وسنت سے استنباط اور اجتہاد کا مستقل رویہ بن گیا۔ اختلافی جزوی مسائل میں خاص رائے پرزور دینے کی بجائے اَندازِ استدلال کی اَہمیت کا رجحان بنتا رہا۔ مزید برآں اللہ نے مجھے جو مدینہ یونیورسٹی جانے سے قبل پانچ چھ سال جامعہ اہل حدیث میں پڑھانے کا موقع دیا تھا وہ نہ صرف میری تدریسی زندگی کی کلید بنا بلکہ علوم وفنون میں گہرائی کا باعث ہوا۔ آج کے کئی بڑے شیوخ اس دور میں مجھ سے پڑھا کرتے تھے جن میں قاری محمد یحییٰ رسولنگری﷾ بھی شامل ہیں۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اپنی دنیاوی تعلیم کے بعد دینی علوم کی تحصیل کا پہلے دس سال تجربہ ہواوہی اپنی تدریس اور بیرون ملک تعلیم کے دس سال پختہ ہوتا رہا۔
مدینہ یونیورسٹی کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر مجھے مشہور جامعات اور مختلف معاشروں کو دیکھنے کابھی موقع ملا، اسی طرح دینی صحافت کے میدان میں اتر کر پاکستان کے علمی اور فکری حلقوں سے واقف ہوا۔ دینی ادارہ کا مہتمم ہونے ساتھ ساتھ علمی صحافت کے علمبردار مجلہ ماہنامہ محدث لاہور سے وابستہ ہونے کی وجہ سے اہم مذاکروں میں شرکت اور فکری حلقوں میں بھی گھومتا رہا۔ جس سے اندازہ ہوا کہ پاکستان کی علمی فضاء محدود ہے جب کہ ہمارے خاندانی مرکز جامعہ اہلحدیث کی فضا ء اس سے بھی مخصوص تر تھی کیونکہ اس پرروپڑی ثنائی اِختلافات کی لہر چھائی ہوئی تھی۔ اس کے اَثرات مجھے مدینہ منورہ سے واپس آنے پر زیادہ محسوس ہونے لگے تو میں نے اپنے لیے مدنی نسبت اختیار کر لی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
والد گرامی ۱۹۵۹ء تک فکری طور پر میری ایک اخلاص بھری آزادانہ تربیت کرتے رہے ۔مثال کے طور پر ان کی جو روش خصوصاً مجھ پر بہت اَثر کرتی وہ یہ تھی کہ اپنے دھڑے کی ناجائز حمایت نہیں کرتے تھے، ہر ایک مسئلہ خواہ وہ تنظیمی ہو یا فکری، وہ اس میں ایک نپی تلی رائے رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ آنکھیں بند کرکے نہیں چلسکتا ۔جہاں حق ہوتا ہے وہاں اس کے ساتھ ہوجاتاہوں۔
والد گرامی کی رحلت کے بعد ہمارے گھریلو سرپرست بڑے بہنوئی حافظ اِسماعیل روپڑی بنے تو میں نے دیکھا کہ اُن کے اَندر بے مثل خطابت کے ساتھ ساتھ رَواداری اور اِیثار بہت زیادہ تھا۔ ہمارے خاندان کا جو روپڑی اور ثنائی اختلاف تھا اس کے اَندر بھی وہ مولانا ثناء اللہ اَمرتسری کے اخلاقیات کے بڑے مداح تھے۔ مولانا ثناء اللہ اَمرتسری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی حافظ اِسماعیل روپڑی کے بارے میں اَکثر یہ تذکرہ کرتے تھے کہ جب اسماعیل اُدھر ہوتا ہے تو اپنے چچا کے ساتھ، اورجب یہاں ہوتا ہے تو میرے ساتھ۔ حافظ اسماعیل روپڑی میں اِیثار اتنا زیادہ تھا کہ وہ کسی کو محسوس کرائے بغیر لگاتار( ایک عرصہ تک) ایثار کرتے چلے جاتے تھے جبکہ اسے پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہ صرف ایثار ہو رہا ہے۔ میں اکثر کھانا اُن کے ساتھ کھاتا تھا۔ جب بھی اُن کے ساتھ کھانا کھاتا تو گوشت کے ٹکڑے میرے آگے کردیتے تو میں سمجھتا کہ وہ خود گوشت نہیں کھاتے اس لیے گوشت کو میرے آگے کردیتے ہیں۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ گوشت کھا رہے ہیں تو میں بڑا حیران ہوا۔ حالانکہ یہ ان کا اِیثار تھا کہ ایک عرصہ تک مجھے اُن کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے محسوس بھی نہ ہوا کہ وہ مسلسل ایثار کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بہرصورت اپنے ماحول کی یہ چیزیں اِنسان کو غیر شعوری طور پر تربیت دیتی ہیں۔ جب میں نے رَوا داری کے یہ اَنداز دیکھے تو میرا مناظرانہ اَنداز تحقیق روادارانہ افہام وتفہیم میں بدل گیا، اس طرح اس اخلاص کی تربیت ہوتی رہی جو والد گرامی سے مجھے ورثے میں ملا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے موقع دیا تھا کہ میں نے دنیاوی علوم بھی باقاعدہ سکول ا ور کالج میں داخل ہوکرپڑھے تھے۔ میں عصری علوم سے ریاضی اور سائنس میں بہت تیز تھا۔ اِمتحان میں میرے تقریبا ۱۰۰ فیصد نمبر آیا کرتے تھے۔ الحمدللہ میں نے سکول وکالج کا بھی ماحول دیکھا، دینی ماحول بھی دیکھا، اس کے علاوہ ناظم مدرسہ ہوتے ہوئے جامعہ اہل حدیث میں آزادانہ تدریس کا موقع ملا، بعداَزاں مجھے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا۔ اس کی فضا بالکل اور تھی کیونکہ وہاں بین الاقوامی ماحول تھا، جو برصغیر کی صورت حال سے یکسر مختلف ہے ۔پاکستان کی فضا تو یہ ہے کہ عوام جو بھی سوچتے ہیں، علماء ان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام جن بڑے بڑے مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں، علماء ان کی راہنمائی کرنے کی بجائے ان کے ساتھ ہی الجھاؤمیں پڑ جاتے ہیں۔ نیزاپنی رفاہی اور اصلاحی کوششیں بہت کم بروئے کار لاتے ہیں جبکہ سعودی عرب کے اَندر رُجحان یہ نہیں ہے۔ وہاں علماء کی تحقیق وبصیرت اصل ہوتی ہے عوام اُن کی راہنمائی پر اعتماد کرتے ہوئے ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ معاشرے کی تعمیر میں ان کے علماء کا بڑا کردار ہے، ایسی علمی فضاء میں تحقیق کا ذوق زیادہ پروان چڑھتا ہے۔
مدینہ یونیورسٹی کے کلیۃ الشریعہ میں فقہ مقارن کے مضمون کے لیے ’بدایۃ المجتہد‘ داخل نصاب ہے۔ اس کا انداز مجھے بڑا پسند آیا، کیونکہ فقہی مذاہب کے بجائے اول توعلماء کی اجتہادی آراء ذکر ہوتی ہیں پھر ابن رشدؒان کے بنیادی اختلافات کا سبب ذکر کرتے ہیںجس کی تفصیل میں جاتے ہوئے وہ کتاب وسنت اور اسلوب استدلال کی بحث کرتے ہیں۔ اس طرح آئمہ فقہاء کی حکمتوں کا تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ اختصار کے سبب مذکورہ فقہ مقارن کی کتاب مشکل سمجھی جاتی ہے لہٰذا میں اپنی کلاس میں ’بدایۃ المجتہد‘ پڑھنے کے بعدمغرب سے پہلے مسجد نبوی میں اپنے ان ساتھیوں کو دوبارہ پڑھایا کرتا تھا جو کمزور تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’بدایۃ المجتہد‘ پڑھانے والے دو اُستاد خاص طور پرمجھے بہت پسند آئے۔ ایک تومدینہ منورہ کے مشہور قاضی شیخ عطیہ سالم اور دوسرے شیخ محمد اَمان اثیوبی(جو اصلاً حبشہ کے رہنے والے تھے) شیخ محمد امان اثیوبی ؒ شیخ ابن بازؒ کے شاگرد خاص تھے جوبعدازاں جامعہ اسلامیہ کے کلیۃ الحدیث کے ڈین اور اس کے علمی مجلے کے اَیڈیٹر بھی رہے ہیں۔ یہ دونوں استاد جس اَنداز سے ہمیں فقہ پڑھاتے تھے وہ نیل الأوطار، فتح الباری اور مُغنی ابن قدامۃ وغیرہ فقہ مقارن کی کتابوں کا خلاصہ ہوتا۔ جبکہ اختلافی مسائل پروہ کتاب وسنت سے آزادانہ دلائل مہیا کرتے۔ اگرچہ قاضی عطیہ سالم ؒ شافعی ہونے کے باوجود امام مالکؒ سے زیادہ متاثر تھے تاہم شیخ ابن بازؒ کی سرپرستی (وائس چانسلر) ہونے کی وجہ سے ان پر بے باک ترجیح کا انداز غالب تھا۔ یہ اَنداز تحقیق مختلف فقہوں سے وابستہ طلبہ اور علماء میں بہت پسند کیا جاتا، گویا مدینہ منورہ میں شیخ ابن بازؒ اور ان کے تربیت یافتہ استاد ہماری شخصیت کی تعمیر کرتے رہے ۔
میں مدینہ منورہ جانے سے پہلے کئی سال تدریس کر چکا تھا اس لیے میری کافی علمی پختگی ہوچکی تھی لہٰذا میں نصابی کتابوں پرکم توجہ دیتا اوراسلامی تحریکوں کا زیادہ مطالعہ کرتارہتا تھا۔ جن میں اِخوانی، سلفی تحریک اور تبلیغی جماعت قابل ذکر ہیں، اس طرح جزوی مسائل میں تحقیق کی بنیاد پر فرقہ وارانہ رجحان کی شدت میں کمی واقع ہوئی تو اجتماعی مسائل میں مذکورہ بالا تحریکوں کاآزادنہ جائزہ لینے کا بھی موقع ملا۔ مجھے اِخوانی اور سلفی تحریک کی تقابلی کتب کے مطالعہ کا بھی موقع ملا، کیونکہ ان کے بارے میںجامعات کی لائبریریوں اور مارکیٹ میں وافر لٹریچر موجود تھا۔ البتہ تبلیغی جماعت کا گہرائی تک مطالعہ کرنے کے لیے مواد موجود نہ تھا۔ان کا ایک باضابطہ حلقہ مسجد نبوی1 میںہوتا تھا جبکہ اُن کا مدینہ منورہ میں مرکز ’مسجد نور‘ تھا۔ میں تبلیغی حضرات سے اپنے مطالعہ کے لیے تعارفی کتابیں مانگتا تو وہ جواب دیتے کہ ’یہ کام دیکھ کر چلنے کانہیں، چل کر دیکھنے کا ہے۔‘ ان کے اس اصولی رویے کی پہلے مجھے سمجھ نہیں آتی تھی حتیٰ کہ تبلیغی میرے اصرار کی وجہ سے مجھے مکہ مکرمہ میں اپنے بڑے راہنماحضرت مولانا سعید اَحمدصاحب کے پاس لے گئے جنہوں نے مجھے سمجھانے کی بجائے تبلیغی جماعت کے ساتھ چل کرہی دیکھنے پر زور دیا۔ اس طرح مدینہ منورہ میں میری الجھن دور نہ ہوسکی۔ پاکستان واپس آجانے کے بعد میں نے مجبوراً ایک عرصہ ان کے ساتھ چل کر بھی دیکھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
۱۹۷۰ء کے پاکستانی انتخابات میں اسلام اور سوشلزم کی کشمکش اور پھر شیخ مجیب الرحمن کی انقلابی تحریک کے بعد بنگلہ دیش کے الگ ہوجانے کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں خاصی مایوسی تھیچنانچہ میں نے اس خاموشی میں تبلیغی جماعت کے ساتھ وقت لگا کر ان کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کی، جس سے ان کے معاشرے سے خروج(علیحدگی) کی محنت کے علاوہ ان کے فقہی جمود اور اپنے اکابرکی اندھی تقلیدپربڑا دکھ ہوتا۔ میں نے تبلیغی حلقوں میںسائنس کے طلبہ بالخصوص میڈیکل اور انجنئیرنگ والوں کوسرگرداں پایا تو پیش کش کی کہ قرآنی فہم بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں اور تبلیغی نصاب کے ساتھ حدیث کا بھی مطالعہ کریں جس طرح تبلیغی جماعت سے منسلک عام عرب ’تبلیغی نصاب‘ کی بجائے قرآن اور ریاض الصالحین کا درس دیتے ہیں۔ جب میں نے زیادہ زور دینا شروع کیا تو انہوں نے اپنے اکابرین کی اس خصوصی ہدایت کا عذر پیش کرنا شروع کر دیا کہ ہمیں حدیث وسنت کے مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے اکابر دین وشریعت براہ راست روضہ رسولﷺسے حاصل کرتے ہیں اس غلط عقیدہ اور تقلید جامد سے میں مایوس ہوا۔ اس طرح تبلیغی حلقوں میں خاطر خواہ کام نہ کر سکا۔
چونکہ میرے خاندان کا مزاج سلفی تھا اور مدینہ یونیورسٹی میں شیخ ابن باز﷫ کی سرپرستی کی وجہ سے فقہ مقارن کا ذوق بن چکا تھا ۔ شیخ ابن بازؒ خود کو’حنبلی‘ کہلوانے کی بجائے ’اثری‘ لکھتے تھے بلکہ خلیجی ممالک میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب کی تحریک کی وجہ سے عقیدہ میں سلفی ہونے پر زیادہ زور دیا جاتاہے خواہ کوئی فقہ میں آئمہ اربعہ کی طرف منسوب ہو یا ظاہری اور جعفری فقہ کی طرف۔ البتہ عقیدہ میں خیر القرون کے منہج کو اعتدال کی راہ سمجھا جاتا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مشہور مقولہ ہے ’الولد سر لأبیه‘(اولاد باپ کی صلاحیتوں اور بھیدوں کی حامل ہوتی ہے) میں بھی اپنے والد گرامی شیخ التفسیر حافظ محمد حسین ؒ کے ذوق سے متاثر ہوکر اجتہاد واستنباط کا شوقین بنا۔ چنانچہ اصول فقہ کا گہرا تقابلی مطالعہ میرا پسندیدہ مشغلہ رہا۔ جب صحیح بخاری کی تدریس کا مجھے موقع ملا توا سکا آخری حصہ بالخصوص ’الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ اور ’کتاب التوحید‘ بڑی محنت سے پڑھایا کرتا۔ اصول الشریعہ میںمجھے ’الموافقات للشاطبی‘بہت پسند ہے۔کیونکہ وہ اصول فقہ، مقاصد شریعہ اور قواعد فقہیہ کی نہ صرف جامع ہے بلکہ ان کی گہری توجیہات پر مشتمل ہے۔
امام بخاری نے کتاب وسنت سے تمسک کرتے ہوئے جس طرح فقہ وعقیدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے استدلال کی وسعتوں کا احاطہ کیا ہے وہ اجتہادی بصیرت کا ایک وسیع باب ہے۔ میں بھی اجتہاد و استدلال کی اساس اور جامع خلاصہ سمجھتا ہوں۔ عقیدہ میں اس اسلوب کو سلامتی کا ضامن اور اعتدال کا رویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسی فکرو منہاج کا حامل ہوتے ہوئے جب مجھے دینی حلقوں کے متروکہ میدانوں معیشت ومعاشرت اور سیاست وقانون میں کام کرنے کی اہمیت کا احساس ہوا تو میں نے اسلام کا نمائندہ بننے میں ہی عافیت سمجھی۔ اگرچہ میرے اردگرد میرے سسرال سمیت جماعت اسلامی کے حلقے اور اہل حدیث حضرات مجھے کھینچتے رہے لیکن میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ نہ تو جماعت اسلامی کی طرح عملی سیاست کو اپنا مطمح نظر بناؤں گا اور نہ ہی بعض اہل حدیث کے مناظرانہ مزاج کی وجہ سے دینی فرقہ وارانہ جھمیلوں میں پڑوںگا۔ البتہ تحقیق وصحافت کے میدان میں تمام دینی حلقوں کو ہماری طرف سے پوری سپورٹ حاصل ہوتی رہتی ہے۔ میرے زیر اہتمام جامعہ لاہور الاسلامیہ(رحمانیہ) کا ترجمان ’رشد‘ ہو یا مجلس تحقیق اسلامی کا آرگن ماہنامہ’محدث‘ لاہور، اسی فکر ومنہاج کے حامل ہیں۔ ’محدث‘ کی پیشانی پر تقریباً چالیس سال سے یہی لکھا جارہا ہے: ملت اسلامیہ کا علمی اور اصلاحی مجلہ، جبکہ اس کے آخری صفحہ پر تمام گوشہ ہائے حیات میں اس کے فکر وعمل کے خدوخال نمایاں چھاپے جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
انسان کو اپنی زندگی میں اعتدال کی پوری کوششوں کے باوجود موافقتوں اور مخالفتوں کا سامنا ضرور ہوتا ہے جس کا رد عمل فطری ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر میں برطانوی سامراج کی سازشوں کے طفیل اہل سنت میں جوبریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے نام سے فرقہ بندی میں اضافہ ہوا،میں اسے وحدت امت کے خلاف کاری ضرب سمجھتا ہوں مجھے اپنے اعزۃ و احباب کی فرقہ وارانہ وابستگیوں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔ میں انہیں اسلام کا نمائندہ بناناچاہتا ہوں۔ اپنی اولاد کے لیے بھی اپنے مشہور علمی خاندان کی’ روپڑی‘ نسبت پر’ مدنی‘ کو ترجیح دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان وعمل کی پختگی عطاء کرکے ’مدینہ والے‘ سے وابستہ کر دے۔
ابھی تک میں نے اپنے مشن کا مثبت ذکر کیا ہے لیکن جب تک کچھ منفی رویے بھی سامنے نہ رکھے جائیں، مشن کا نکھار نہیں ہوتا۔ چونکہ میرے سامنے وہ اہل حدیث علماء بھی ہیں جو تقلید کے رد میں اتنی دور چلے گئے کہ انہوں نے حافظ ابن حزمؒ کی ظاہریت اختیار کر لی۔ اسی طرح جامد مقلدین نے فقہ حنفی میں لچک پیدا کرنے کے لیے حیلوں کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھاہے۔ مفتی محمد شفیعؒ (کراچی والے) کہا کرتے تھے کہ تقلید کا مسئلہ شرعی نہیں، مصلحت کا ہے۔
آج کل دنیا Global Villageکی صورت اختیار کر کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کے رحم وکرم پر ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو گروہی چشمک چھوڑ کر ’سیکولرازم کے عفریت‘ کو سامنے رکھنا چاہئے۔ سیکولرازم ہمیں عقیدہ، عبادات اور خاندانی رسوم ورواج میں آزادی کے دھوکے میں ڈال کر لادین اجتماعیت کے سپرد کر تا ہے، جبکہ اسلام نہ صرف خاص عقیدہ و تہذیب کا نام ہے بلکہ پورے اجتماعیات میں اس کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی راہنمائی انسانی بھلائی اور امن وترقی کی ضامن ہے۔ کاش کہ ہم اس عفریت کو دیکھ سکیں جو حملہ کرتے وقت شیعہ دیکھتا ہے اور نہ سنی!
 
Top