• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبدالسلام فتح پوری صاحب رحمہ اللہ فوت ہوگئے

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ فتحپوری صاحب کا ایک قول:
دنیا میں حافظِ قرآن تو بہت ہیں لیکن حافظِ نماز بہت کم دیکھنے میں آئے ہیں۔
(آج سے 45 سال ایک عالم دین کی وفات پر لکھے گئے آپ کے ایک مضمون سے اقتباس )​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ حقیقت ہے کہ ایسے عالم باعمل کے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہو چکا ہے وہ مشکل سے ہی پورا ہو گا۔ چند ہی سالوں میں ہم سے علم و عمل کے بیش بہا موتی، موت کے آہنی پنجہ نے چھین لئے۔ اگرچہ وہ دنیائے فانی اور دورِ فتن سے محفوظ ہو کر ہمیشہ کے لئے میٹھی نیند سو چکے ہیں۔ لیکن ان کے چلے جانے سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو کام وہ سر انجام دیتے رہے اس میں کمی واقع نہ ہو۔ لیکن کون ہے جو ان کے عالی مقام مساند درس و تدریس پر جلوہ افروز ہو۔ چنانچہ جب ان کے علمی مراکز خالی دکھائی دیتے ہیں تو دل سے آہ نکلتی ہے۔
''الٰہی! ہم تہی دامن ہیں۔ موجودہ حالات میں ہم ان کے مشن کو اچھی طرح قائم نہیں رکھ سکتے۔ تو اپنے فضل خاص سے ایسے خلفا پیدا کر! جو ان بزرگوں کی خالی علمی مساند کو پر کر کے وہی باغ و بہار لوٹا سکیں۔''
ابھی ان علمی مراکز کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور ان کے خلا کو پر کرنے والا سامنے نہیں ہوتا کہ ایک اور علمی مسند خالی ہو جاتی ہے۔
(آج سے 45 سال قبل ایک عالم دین کی وفات پر لکھے گئے مولانا فتحپوری رحمہ اللہ کے مضمون سے اقتباس )​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
استاذالعلماء شیخ الحدیث والتفسیر مولاناعبدالسلام فتح پوری جن کا آج انتقال ہو گیا۔ ان پر ان کے کوئی شاگرد۔ کوئ عزیز آج ہی کوئی مضمون لکھ کر ہمیں سینڈ کر دیں تو ہم ان شاءاللہ بزرگوں کی حیات و خدمات ہفت روزہ نویدضیاء کے موجودہ ایڈیشن میں شائع کر دیں گے ۔
محمد ابرار ظہیر
ایڈیٹر نوید ضیاء​
 

ہابیل

سینئر رکن
شمولیت
ستمبر 17، 2011
پیغامات
966
ری ایکشن اسکور
2,911
پوائنٹ
225
انا للہ وانا الیہ راجعون ، اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے امین
 

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
انا لله وانا اليه راجعون
اللهم اغفرله وارحمه وعافه وأعف عنه وارفع درجته فى المهديين
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
انا لله وانا اليه راجعون
اللهم اغفرله وارحمه وعافه وأعف عنه وارفع درجته فى المهديين
آمین ۔
رانا ابو بکر صاحب استاد محترم رحمہ اللہ کا ماہنامہ رشد میں انٹرویو چھپا تھا ، اس کی فائل مل سکتی ہے ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ التفسیر مولانا عبدالسلام فتح پوری رحمہ اللہ

میں آج بھی چشم تصور میں ان لمحات کو دیکھ رہا ہوں کہ شیخ التفسیر اپنے سینے سے ابوداؤد شریف اور موطاء امام مالک لگائے پڑھانے کیلئے کلاس میں داخل ہو رہے ہیں اور ان کا مسکرانے کا مخصوص انداز اور شگفتہ طبیعت سارے دن کی تھکاوٹ ختم ہو جاتی اور ایک ہلکے پھلکے انداز میں اپنے سبق کا آغاز کرتے وہ کتنے ہی خوشگوار لمحات تھے جو گزرنے میں دیر نہیں لگی۔ 1932ء میں حبیب احمد کے گھر راجستھان ، ہندوستان میں پیدا ہونے والا درِ نایاب قیام پاکستان کے بعد ضلع ملتان تحصیل میلسی اور گاؤں فتح پور میں آ کر آباد ہوا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ اوڈاں والا جامعہ تقویہ الاسلام فیصل آباد میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ وہاں پر مولانا یعقوب ملہوی سے کسب فیض کیا اور مزید تعلیم کے لیے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں امام العصر حافظ محمد گوندلوی سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ لاہور میں محدث زمان حافظ عبداللہ روپڑی سے کسب فیض کیا۔ بہاولپور یونیورسٹی سے اصول حدیث میں ایم اے کے بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ میں المعھد العالی الشریعہ والقضاء میں داخلہ لیا۔ یہاں پر ملک سعود ریاض یونیورسٹی کی طرف سے 500طلباء کے انٹرویو ہوئے اور اللہ کے فضل سے شیخ صاحب 50لوگوں میں شامل تھا جو سکالر شپ کے لیے منتخب ہوئے۔ وہاں سے ایم اے ایجوکیشن کیا۔ اپنے دور کے مشہور اہل علم جن سے کسب فیض کیا۔ حافظ عبداللہ روپڑی، حافظ محمد گوندلوی، مولانا صادق خلیل، مولانا منظور احمد نعمانی ا ور دیگر اساتذہ اکرام شامل ہیں۔ شیخ صاحب کے ہم مکتب افراد اپنے وقت کے شیوخ الحدیث اور علماء کرام میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ، مولانا عبدالسلام کیلانی، حافظ عبدالرحمان مدنی، حافـظ بنیامین، مولانا عبدالخالق قدوسی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، شیخ الحدیث مولانا عبدالحفیظ لکھوی اور شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی، حافظ محمد سعید اور شیخ ظفر اللہ کراچی والے شامل ہیں۔ شیخ التفسیر نے 40سال تک مختلف جامعات میں دین حنیف کی خدمت سر انجام دی جن میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد اور جامعہ لاہور الاسلامیہ جامعہ رحمانیہ قابل ذکر ہیں۔ آپ کا میدان حدیث فقہ اور خاص کر تفسیر تھا اس لیے آپ کو شیخ التفسیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ نے اپنے سوگواران میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں طلباء جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ میرے استادِ گرامی قدر کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے​
 

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
رانا ابو بکر صاحب استاد محترم رحمہ اللہ کا ماہنامہ رشد میں انٹرویو چھپا تھا ، اس کی فائل مل سکتی ہے ؟
خضر صاحب میں پتہ کرکے آپ کو بھجوا دوں گا۔ ان شاء اللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
نوید ضیاء کے اسپیشل ایڈیشن ( صفحہ نمبر 8 ) میں شیخ کی سوانح پر آپ کے شاگرد عبد الباسط بلوچ صاحب کی تحریر نشر کی گئی ہے ، تحریر کا کچھ حصہ اوپر پیش کیا جاچکا ہے ، میں نے ان سے رابطہ کیا ہے ، اگر ان کی نئی تحریر یونیکوڈ میں مل گئی تو اسے یہاں پیش کردیا جائے گا ، إن شاءاللہ ۔
الحمد للہ اس تحریر میں بھی آپ ’’ محدث ‘‘ سے استفادہ محسوس کریں گے ۔
 

اخت ولید

سینئر رکن
شمولیت
اگست 26، 2013
پیغامات
1,792
ری ایکشن اسکور
1,296
پوائنٹ
326
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
انا للہ وانا الیہ راجعون
یکے بعد دیگرے علماء و عاملینِ سلف کی وفات۔۔قرب قیامت کی نشانی۔
اللہ سبحانہ وتعالٰی ہمیں ان علماء کے علم سے استفادہ کرنے،اس پر عمل پیرا ہونے اور ان کے علمی وارثین بننے کی لگن عطا فرمائے۔آمین

یہ حقیقت ہے کہ ایسے عالم باعمل کے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہو چکا ہے وہ مشکل سے ہی پورا ہو گا۔ چند ہی سالوں میں ہم سے علم و عمل کے بیش بہا موتی، موت کے آہنی پنجہ نے چھین لئے۔ اگرچہ وہ دنیائے فانی اور دورِ فتن سے محفوظ ہو کر ہمیشہ کے لئے میٹھی نیند سو چکے ہیں۔ لیکن ان کے چلے جانے سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو کام وہ سر انجام دیتے رہے اس میں کمی واقع نہ ہو۔ لیکن کون ہے جو ان کے عالی مقام مساند درس و تدریس پر جلوہ افروز ہو۔ چنانچہ جب ان کے علمی مراکز خالی دکھائی دیتے ہیں تو دل سے آہ نکلتی ہے۔
''الٰہی! ہم تہی دامن ہیں۔ موجودہ حالات میں ہم ان کے مشن کو اچھی طرح قائم نہیں رکھ سکتے۔ تو اپنے فضل خاص سے ایسے خلفا پیدا کر! جو ان بزرگوں کی خالی علمی مساند کو پر کر کے وہی باغ و بہار لوٹا سکیں۔''
ابھی ان علمی مراکز کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور ان کے خلا کو پر کرنے والا سامنے نہیں ہوتا کہ ایک اور علمی مسند خالی ہو جاتی ہے۔
(آج سے 45 سال قبل ایک عالم دین کی وفات پر لکھے گئے مولانا فتحپوری رحمہ اللہ کے مضمون سے اقتباس )​
مولانا رحمہ اللہ کا انداز تحریر بہت عمدہ ہے،ان کی مزید تحریریں میسر ہیں؟
 
Top