یہ حقیقت ہے کہ ایسے عالم باعمل کے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہو چکا ہے وہ مشکل سے ہی پورا ہو گا۔ چند ہی سالوں میں ہم سے علم و عمل کے بیش بہا موتی، موت کے آہنی پنجہ نے چھین لئے۔ اگرچہ وہ دنیائے فانی اور دورِ فتن سے محفوظ ہو کر ہمیشہ کے لئے میٹھی نیند سو چکے ہیں۔ لیکن ان کے چلے جانے سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ کیونکہ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ جو کام وہ سر انجام دیتے رہے اس میں کمی واقع نہ ہو۔ لیکن کون ہے جو ان کے عالی مقام مساند درس و تدریس پر جلوہ افروز ہو۔ چنانچہ جب ان کے علمی مراکز خالی دکھائی دیتے ہیں تو دل سے آہ نکلتی ہے۔
''الٰہی! ہم تہی دامن ہیں۔ موجودہ حالات میں ہم ان کے مشن کو اچھی طرح قائم نہیں رکھ سکتے۔ تو اپنے فضل خاص سے ایسے خلفا پیدا کر! جو ان بزرگوں کی خالی علمی مساند کو پر کر کے وہی باغ و بہار لوٹا سکیں۔''
ابھی ان علمی مراکز کی فکر دامن گیر ہوتی ہے اور ان کے خلا کو پر کرنے والا سامنے نہیں ہوتا کہ ایک اور علمی مسند خالی ہو جاتی ہے۔