• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حافظ عبد اللہ حسین روپڑیؒ کا سانحۂ ارتحال

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حافظ عبد اللہ حسین روپڑیؒ کا سانحۂ ارتحال

یادِ رفتگاں
حافظ حسین اَزہر​
۴! اپریل ۲۰۱۰ء بروزاتوار بوقت۹ بجے صبح شیخ التفسیر حافظ محمد حسین امرتسری روپڑیؒ کے بڑے بیٹے حافظ عبد اللہ حسین روپڑیؒ ۷۷ برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کر گئے جن کی نمازِ جنازہ ان کے بہنوئی پروفیسر حافظ ثناء اللہ خاں نے روپڑی خاندان کے زیر اہتمام ڈیفنس کالونی، کراچی کی جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز میں اسی روز بعد نمازِ مغرب پڑھائی اور اُنہیں نئی تعمیر کردہ کالونی ’گلشن معمار‘ میں ۱۰بجے رات سپردِ خاک کر دیا گیا۔ اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون!
بر صغیر پاک وہند میں جن خاندانوں کو ان کی دینی، علمی اور تبلیغی خدمات کے باعث شہرت دوام ملی، ان میں غزنوی، لکھوی اور روپڑی خاندان سر فہرست ہیں ۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ اور شیخ التفسیر حافظ محمد حسین روپڑیؒ کا شمار اس خاندان کے اکابر علماء اساتذہ میں ہوتا ہے ۔ اس خا ندان کے دیگر مشاہیر انہی دو شخصیتوں کے شاگرد ہیں، جن میں سے ان دونوں کے بھتیجے حافظ محمد اسماعیل روپڑیؒ اور حافظ عبدالقادر روپڑیؒ پورے برصغیر میں ایک عرصہ شمس و قمر تاباں بن کر چمکتے رہے ۔ اب یہ تمام حضرات گارڈن ٹاؤن لا ہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ۔
ع خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را​
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حافظ عبد اللہ محدث روپڑیؒ اور حافظ محمد حسین روپڑیؒ کی علمی اور اصلاحی خدمات مسلک اہل حدیث کا ایک روشن باب ہیں اور وہ زندگی بھر سلفی مکتب ِفکر کی تحریک کے نقوش نمایاں کرتے رہے ۔ حافظ محمد حسین روپڑیؒ کی عوام میں زیادہ شہرت نہ ہو سکی جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک تو وہ خالص علمی مزاج رکھتے تھے ۔ اگرچہ علمی مجلسوں اور مناظروں میں گاہے شریک ہوتے، لیکن دیگر تدریسی اور کاروباری مصروفیات کی وجہ سے عوامی جلسوں میں نہ جاتے تھے ۔ کیونکہ وہ نہ صرف معاشی اعتبار سے خود کفیل ہو کر تعلیمی اور تحقیقی کام کرنا چاہتے تھے بلکہ اپنے شاگردوں اور مقتدیوں میں تحریک بھی چلایا کرتے تھے کہ اگر وہ دینی کام کو مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو اپنے لئے معاش کا الگ انتظام کریں ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اُن کی اس سوچ کا پس منظر یہ تھا کہ برطانوی سامراج کے برصغیر پر تسلط کے بعد مسلمانوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان میں ایک بڑی مصیبت مسلمانوں کی ابتر معاشی حالت تھی۔ برطانوی سامراج بخوبی جانتا تھا کہ مسلمان اپنے جذبۂ جہاد کی بنا پر پوری طرح زیر نگیں نہیں ہو سکتے، اس لیے اُنہیں معاشی طور پر مفلوج کر کے ہی غیر مؤثر بنایاجا سکتا ہے ۔ چنانچہ سامراج نے پہلے ۱۸۳۸ء میں تمام مسلم اوقاف قبضے میں لے کر مسلمانوں کے روایتی تعلیم و تربیت کے ادارو ں کی کمر توڑنے کی کوشش کی، بعد ازاں تقریباً ہزار سال تک برصغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے زیر نگیں رہنے والے ہند و اور دیگر مذاہب والوں کو بالا دستی دینے کی سازشیں کرتا رہا جن میں سرکاری ملازمتوں سے خاص طور پر مسلمانوں کو محروم رکھ کر دوسروں کو زیادہ سے زیادہ نوازا جاتا بلکہ مسلمانوں کی دینی وروایتی تعلیم کے فضلا کواس حد تک نظر انداز کیا جاتا رہا کہ دینی حلقوں کے تعلیم یافتہ حضرات کو خواندہ بھی شمار نہ کیا جاتا جب تک کہ وہ سرکاری امتحانات ’مولوی فاضل‘ وغیرہ پاس نہ کر لیں ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اپنی خودداری کی بنا پر حافظ محمد حسین روپڑیؒ نے مولوی فاضل کا امتحان بھی امتیازی حیثیت سے پاس کیا اور معاشی خود کفالتی کے لیے رسمی طور پر علوم وفنون سے فراغت کے بعد کوئی نہ کوئی صنعتی یا تجارتی کاروبار بھی اپنایا جن میں صابن سازی سے لے کر پولٹری فارم اور ڈیر ی فارم وغیرہ شامل ہیں ۔ بالآخر پارچہ بافی کے لیے ’رحمانیہ ٹیکسٹائل ملز‘ کی صورت میں اپنا کاروبار مستحکم کیا۔ برصغیر پاک وہند کی تقسیم سے قبل امر تسر میں اُن کی مذکورہ فیکٹری بڑے عروج پر تھی جبکہ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی کار وبار لا ہور میں ’قدافی سٹیڈیم‘ کے بالمقابل ۲۷۰! فیروز پور روڈ پر قائم کیا گیا۔ ۱۹۵۳ء میں یہ فیکٹری اچانک آگ لگنے سے تباہ ہو گئی۔ اس کی دوبارہ تعمیر اس انداز سے کی گئی کہ وہاں دینی تعلیماور صنعتی کاروباربہ یک وقت ممکن ہو سکے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
گویا شیخ التفسیرحافظ محمد حسین روپڑی کی شخصیت علم وعمل کا حسین امتزاج تھی۔ چنانچہ اُنہوں نے معاش اور معاد کے دونوں تقاضے بھر پور طریقے سے پورے کرنے کی کوشش کی۔ ا ن کے منجھلے بیٹے حافظ عبد الرحمن مدنی اپنے دینی، تعلیمی، تحقیقی، دعوتی اور رفاہی وغیرہ سارے کام۱۹۸۰ء تک اسی جگہ ’مدرسہ رحمانیہ‘ اور ملحقہ اداروں کی صورت میں انجام دیتے رہے ۔ ان تمام خدمات میں جس شخص نے بہت زیادہ حصہ لیا، وہ حافظ عبدالرحمن مدنی کے برادرِ اکبرحافظ عبداللہ حسین روپڑیؒ ہی تھے جن کے دل میں اپنے باپ کا مشن ہر دم موجزن رہتا۔ وہ جب تک لا ہور میں رہے، اپنے والد مرحوم کے مشن کی تکمیل کے لیے کوشاں رہے ۔ وہ حافظ عبدالرحمن مدنی کا اس طرح سہارا بنے کہ اُنہیں حافظ عبداللہ حسین نے کافی حد تک کاروبار کی اُلجھنوں اور مصروفیتوں سے فارغ کر رکھا تھا اور دینی اداروں کو چلانے کے لیے دونوں بھائی ایک عرصہ مدرسہ رحمانیہ سے ملحق کچی عمارتوں میں سکونت پذیر رہے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی حافظ عبداللہ حسین دین ودنیا کو مجتمع کرنے میں کوشاں رہے ۔ پہلے پائپ کے خاندانی کاروبار کے ساتھ بہار کالونی کی جامع مسجد اہل حدیث میں اپنے تبلیغی مشن کو نبھاتے رہے، جہاں حافظ عبدالغفار روپڑی ان کے دستِراست رہے پھر وہاں سے نقل مکانی کر کے ڈیفنس ہاؤسنگ ا تھارٹی، کراچی کی جامع مسجد عمر بن عبدالعزیز میں اس مشن کے لیے کوشاں ہوئے ۔ چنانچہ اسی مسجد سے ملحقہ عمارت میں ’جامعہ باب الاسلام‘ بھی قائم کیا جس کا افتتاح اُس وقت کے گورنر سندھ محمد میاں سومرو کے ہاتھوں ہوا۔
موصوف کی زندگی بھر یہ کوشش رہی کہ وہ اپنے والدِگرامی کی طرح بن جائیں۔ واقعی وہ اپنے ظاہری حسن وجمال اور بارعب شخصیت کی بنا پر اپنے والد کا پرتو ہی نظر آتے تھے ۔ معنوی طور پر وہ جن خاص خوبیوں کو اختیار کیے ہوتے تھے، ان کو دیکھ کر ان کے والد مرحوم کی نماز اور دعا کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ وہ بڑی لمبی نماز پڑھا کرتے اور سحر خیزی کے ساتھ اشراق میں بھی رقت آمیز دعاؤں کا اہتمام کرتے ۔ ان کا ایمان تھا کہ دعا کے ساتھ ہر تکلیف ٹل جاتی ہے اور ہر خواہش پوری کی جا سکتی ہے ۔ اسی لیے موقع بہ موقع حج اور عمرے بھی کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
((العمرۃ إلی العمرۃ کفارۃ لما بينهماوالحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة)) (صحیح بخاری:۱۷۷۳)
’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ، دونوں کے مابین ہونے والے گنا ہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے ماسوا کچھ نہیں ہے ۔ ‘‘
۱۹۸۰ء میں جب وہ بہار کالونی کی مسجد کے منتظم تھے کہ اچانک ان کا اپنڈیکس پھٹ گیا جس کا زہر ان کے پورے جسم میں پھیل گیا۔ اسی تشویش ناک حالت میں جب ان کو تسلی دی جاتی تو کہتے کہ میں نے اس واقعہ سے پہلے سحری کے وقت دل سے دعا کی تھی۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ضرور صحت دیں گے ۔ اسی ایمان کی بدولت وہ صحت یاب ہو کر اپنی بھرپور جوانی میں واپس آ گئے ۔
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
اپنے والدِگرامی کی طرح وہ عنفوانِ شباب سے ہی جسمانی ورزش کے عادی تھے جس میں ڈنڈ پیلنا اور بیٹھکیں نکالنا ان کا معمول تھا۔ اس لیے بڑے طاقتور اور سخت جان تھے ۔ ہمیشہ خواہشکرتے کہ ان کی یہ طاقت جہاد فی سبیل اللہ میں کام آئے ۔ اس کے لیے موقع کی تلاش میں رہتے اور جب باطل کے بالمقابل حق کی حمایت کے لیے ڈٹ جاتے تو مخالفین پر ان کا رعب طاری ہو جاتا۔ خوش خوراک اور خوش لباس بھی تھے،کیونکہ ارشاد نبویؐ ہے :
((المؤمن القوي خير وأحب إلی اﷲ من المؤمن الضعيف))
’’طاقتور مؤمن ضعیف مؤمن سے بہتر اور اللہ کا پسندیدہ ہوتا ہے ۔ ‘‘(صحیح مسلم:۴۸۱۶)
اپنے وعظوں میں دنیا اور آخرت دونوں کی نعمتوں کا حصول اپنے حاضرین کے سامنے رکھا کرتے اور واضح کرتے کہ دنیا آخرت کے حصول کا ذریعہ بننی چاہیے، لہٰذا انسان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر دین کے لیے وقف کرنا چاہیے ۔ چونکہ برے حال کی درویشییعنیگھر گھر پھر کر کھانا اکٹھا کرنا،پسندیدہ کام نہیں ۔ اسلام ہمیں رغبت دلاتا ہے کہ دنیا کو بہتر بنا کر دین کا کام خودداری سے کریں ۔ جس کی دلیل﴿رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْيَا حَسَنةَ وَّ فِیْ الْآخِرَۃِ حَسَنةَ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ پیش کیا کرتے، جس کا ترجمہ یہ ہے :
’’اے ہمارے ربّ! ہمیں دنیا کی بھلائی نصیب فرما اور ہماری آخرت بھی اچھی بنا اور آگ کے عذاب سے بچا رکھ۔ ۔ ‘‘
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
وہ ہمیشہ دینی مدارس کے طلبہ کی معاشی حالت بہتر بنانے میں کوشاں رہتے اور کہتے کہ طالب علم تھوڑے ہوں تو کوئی حرج نہیں، لیکن ان کے بہتر دماغ کے لیے صحت مند جسم ضروری ہے جو اچھی غذا کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ چنانچہ اپنے زیر نگرانی طلبہ کی جسمانی صحت اور علمی یکسوئی دونوں پر خاص توجہ دیتے ۔ جب تک وہ مدرسہ رحمانیہ :۲۷۰!فیروز پور روڈ، گارڈن ٹاؤن لا ہور کے ناظم رہے، طلبہ کے لیے دودھ دینے والی بھینسوں کا انتظام کرتے اور اُنہیں نمازِ فجر سے پہلے اُٹھا کر روحانی عبادت اور جسمانی ورزشیں کرواتے جبکہ نمازِ فجر کے بعد نہار منہ دودھ اور دہی پلاتے ۔ اسی طرح اچھی بود وباش کا خصوصی خیال رکھتے ۔ اگر کوئی طالب علم اعلیٰ لباس و زینت کی خواہش کرتا تواس کی خواہش اپنی جیب سے پوری کر دیتے، پھر کہتے کہ اب یکسو ہو کر پڑھائی کرو۔ اخلاقی تربیت کا بہت دھیان رکھتے ۔ ایک دفعہ کسی طالب علم کی خواہش و ضروریات پوری کرنے کے باوجود اگر وہ علم واخلاق میں کوتاہی کرتا تو اس کا کڑا محاسبہ کرتے ۔ کاروبار سے جب بھی معمولی فراغت پاتے، تبلیغی دورے کے لیے نکل جاتے ۔ ان کی زبان میں بڑی تاثیر تھی مجلسی گفتگو نپی تلی کرتے ۔ ان کی شخصیت اور متانت سے مخاطب نہ صرف متاثر ہوتا بلکہ عقیدت مندی اختیار کر لیتا۔ گویاوفد عبدالقیس کے اشج عصری سے ان کی مشابہت تھی جس کاقصہ یوں ہے :
’’اشج عصری اپنے قبیلے کے وفد کے ساتھ نبی1کی زیارت کو آئے ۔ نبیؐ کے پاس پہنچے تو نبی ا کرم ان کی طرف اٹھے ۔ اب قوم نے اپنی سواریوں کو بٹھایا اور جلدی میں وہی سفری لباس میں نبیؐ کے پاس آئے جب کہ اشج عصری اٹھے اور پہلے انہوں نے اپنے ساتھیوں کی سواریوں کو باندھا پھر اپنی سواری باندھی اس کے بعد اپنے کپڑوں کو درست کیا اور نبی کے پاس جا کر سلام کہا اور یہ سب کچھ آپ دیکھ رہے تھے۔ آپؐ نے اشج عصریؓ کے اس اقدام پر فرمایا:
((إنَّ فيک لخصلتين يحبهما اﷲ ورسوله)) تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جن کو اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں ۔ أشج کہنے لگے وہ کونسی؟فرمایا ((الأناۃ والحلم))’’زیرکی اور بردباری‘‘ (صحیح ابن حبان:۷۱۵۹)
 

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,402
ری ایکشن اسکور
9,991
پوائنٹ
667
حافظ صاحب کثیر العیال تھے، ان کے ورثا میں دو بیویاں، ۱۱بیٹے اور ۵ بیٹیاں ہیں ۔ ان سب کی سخت دینی تربیت کے ساتھ وہ ان کے رزقِ حلال کے لیے اَن تھک محنت کرتے رہے ۔ خاندانی کاروبار چھوڑکر اُنہوں نے سعودی عرب اور دبئی میں اپنے لڑکوں کے نئے کاروبار قائم کرنے کی بھی کوششیں کیں، لیکن کامیاب نہ ہو سکے ۔ بالآخر کراچی میں ایک وسیع وعریض کالونی ’گلشن معمار‘ کے نام سے اُنہوں نے ڈویلپ کر لی تھی کہ بیمار ہو گئے اور تقریباً پانچ سال سے وہ گردوں کے فیل ہو جانے کے سبب ڈائیلسزکے عمل سے گزر رہے تھے جس کے دوران کئی دفعہ دل کا دورہ پڑا اور ان پر فالج کے کئی حملے بھی ہوئے، لیکن اُنہوں نے ہر تکلیف پر ہمیشہ صبر وشکر کیا اور زبان پر کبھی حرفِ شکایت نہ لائے ۔
جب بھی ان کی صحت کے بارے میں پوچھا جاتا تو وہ نہایت اطمینان کا اظہار کرتے اور سورۃ الدہر کی آیت ِکریمہ
﴿ نَحْن خَلَقْنهُٰمْ وَشَدَدْنَا اَسْرهَمْ وَاِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَا اَمْثَالهَمْ تَبْدِيٍلاً﴾ ’’ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑبند مضبوط کیے اور ہم جب چاہیں ان کی جگہ انہی کی طرح دوسرے آدمیوں کو لا کر بسا دیں ۔ ‘‘
کی روشنی میں اللہ سے اپنی اُمید باندھ لیتے ۔ اس بارے میں ان کا ایمان و توکل مثالی تھا۔ ہمیشہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ عافیت میں رکھے ۔ اگر کوئی آزمائش سے ڈراتا تو کہتے :
’’اگر اللہ کی مرضی یہی ہے تو پھر وہی سب سے بڑا مددگار اور سہارا ہوتا ہے ۔ ‘‘
اس طرح بڑے سے بڑا دکھ سہار جاتے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے جانشینوں کو ان کے نقش قدم پر گامزن کرے ۔
﴿وَيَزِيْد اﷲ الَّذِيْنَ اْهتَدَوْا ُهدًی وَالْبٰقِيٰت الصَّالِحَات خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَيْرٌ مَرَدّاً﴾ (مریم:۷۶)
’’اور جو لوگ سیدھی راہ پر ہیں اللہ ان کو زیادہ (نیک کام کرنے ) کی راہ سجھاتا جاتا ہے اور قائم رہنے والی تیرے مالک کے نزدیک اچھا بدلہ رکھتی ہے اور اچھا انجام۔ ‘‘
 
Top