8۔کسی مشرکانہ عقائد رکھنے والے کی انا کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیں اگر اس کو مشرک کہہ دیا تو اس کی انانیت کو ٹھیس پہنچے گی اور اس کی اصلاح نہیں ہو سکے گی
ملاعلی قاری وحدۃ الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں:
ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کاسبب بننا ہے۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،صفحہ 156،بحوالہ تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلدد
وم، صفحہ468)
جیسا کہ ابوعبداللہ عبدالرحمن بن عبدالحمید المصری فرماتے ہیں: عمومی طور پر تکفیر معین سے رک جانا اور مطلقاً یہ کہنا کہ یہ کفریہ فعل تو ہے مگر جب کوئی شخص اس کفریہ فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو ہم اسکو کافر نہیں کہہ سکتے!! یہ نظریہ لغو اور لایعنی ہے۔
یہ رائے احکام شریعت کو باطل قرار دینے کے مترادف ہے۔یہ نظریہ ایسی بدعت ہے جو طریقہ رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ، تابعینؒ اور علماء امت ؒ کے اجماع کے برعکس ہے۔(توحید سے جاہل شخص کے بارے میں شرعی حکم،صفحہ 93)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے بھی کسی بھائی کو کہا کہ اے کافر! تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہوگیا۔(صحیح بخاری، کتاب الادب)
اس حدیث کی تشریح میں مولانا داود راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جس کو کافر کہا وہ واقعہ میں کافر ہے تب تو وہ کافر ہے اور جب وہ کافر نہیں تو کہنے والا کافر ہوگیا.....اس حدیث سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیے جو بلا تحقیق محض گمان کی بنا پر مسلمانوں کو مشرک یا کافر کہہ دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری، ترجمہ و تشریح داود راز رحمہ اللہ، جلد 7، کتاب الادب، صفحہ 472)
یہ وہ حدیث ہے جس کا درست معنی و مطلب سمجھنے میں کئی لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے حتی کہ اسی حدیث کی بنا پرلوگ اس شخص کی تکفیر سے بھی رک گئے جس کا کفر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔حالانکہ مذکور حدیث اور اسکی تشریح سے روشن ہے کہ یہ حدیث محض اس شخص کے کافر ہوجانے کے بارے میں ہے جو ناحق کسی کی تکفیر کرتا ہے ناکہ اس شخص کے بارے میں جس کی تکفیر دلائل کی بنیاد پر ہو۔
جزاک اللہ خیرا
شاہد نذیر بھائی
مزید یہاں
لنک