• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شکایت حالات حاضرہ سیکشن پر مشکل!

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
۱۔ تکفیر معین صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حق ہے
بتائیں کہ قادیانیوں کی تکفیر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کب کی؟ اور اگر اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قادیانیوں کی تکفیر نہیں کی تو آپ کو انہیں کافر قرار دینے کا حق کس نے دیا؟

اگر اس بات سے آپکی مراد یہ ہے کہ کسی کو کافر قرار دینے کے لئے قرآن و حدیث سے دلیل درکار ہوتی ہے یا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عمل کو کفر اور شرک کہا ہے اگر وہ عمل کسی میں پایا جائے گا تو اسی صورت میں اسے کافر اور مشرک قرار دیا جاسکتا ہے۔ تو بتائیں کہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شرک اور کفر قرار دئے گئے اعمال کیا بریلویوں میں نہیں پائے جاتے؟ یقیناٌ پائے جاتے ہیں لیکن بریلویوں اور دیوبندیوں کے معاملے میں آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حق کو کس بنیاد پر نظر انداز کردیتے ہیں؟؟؟

اللہ کے لئے ایسا اصول بنائیں جو ہر جگہ قابل عمل ہو۔ یہ کیا کہ جب چاہا اپنے مطلب کے لئے اصول پر عمل کر لیا اور جب چاہا اصول توڑ دیا۔

3۔ کسی کے ظاہر عقائد کو دیکھ کر کفر کا فتویٰ نہ لگائیں ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ آپ کو معلوم نہ ہو
غلام احمد قادیانی کے ظاہر کو دیکھ کر اس پر کافر ہونے کا فتویٰ کیوں لگایا؟ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ غلام احمد قادیانی بغیر توبہ کے مرا تھا کیا آپ لوگوں نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟؟؟


 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم بھائی، آپ سے اختلاف رائے کرتے ہوئے “دین خیر خواہی ہے” کے مصداق آپ کو مشورہ دوں گا کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی کو سنیں۔ شیخ نے اپنے خطبات میں وضاحت کی ہے کہ:

۱۔ تکفیر معین صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حق ہے
2۔ جس کو طاغوت کہہ دیا جائے اس کو شیطان کا ہم معنی بنا دیا جاتا ہے
کسی کے ظاہر عقائد کو دیکھ کر کفر کا فتویٰ نہ لگائیں ہو سکتا ہے کہ وہ توبہ کر لے اور اس کی توبہ آپ کو معلوم نہ ہو
4۔ کسی کا گناہ کتنا بھی شدید ہو جیسا کہ اصحاب الاخدود کا گناہ تھا لیکن توبہ کرنے پر وہ معاف ہو جائے گا
5۔ حکمرانوں کو نصیحت کی جائے گی نہ کہ ان کی تکفیر
6۔کلمہ گو پر لعنت سے پرہیز
7۔نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث میں موجود 'ہرج' کا لفظ اور موجودہ حالات اس پیشنگوئی کے مصداق
کسی مشرکانہ عقائد رکھنے والے کی انا کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیں اگر اس کو مشرک کہہ دیا تو اس کی انانیت کو ٹھیس پہنچے گی اور اس کی اصلاح نہیں ہو سکے گی
یہ خطاب اہل الحدیث۔نیٹ پر موجود ہیں

امید ہے کہ آپ میری بات کو مثبت انداز میں لیں گے کیونکہ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ آپ کی تمنا مشرکانہ عقائد رکھنے والوں کی اصلاح کی ہو گی۔
جزاک اللہ خیرا قابل احترام بھائی۔
مجموعی طور پر آپ نے جس طرح وضاحت کی ۔بہت زبردست ہے ماشاء اللہ
اس میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ دعوت و اصلاح بند کر دی جائے ، یا لوگوں کے ساتھ انتہا تک پہنچ جائیں۔بات صرف سمجھنے کی ہے۔
غلط ہے تو انداز بیان۔نفرت کی فضا اور طنز ، طعنہ بازی ،ہم ان پر اصلاح چاہتے ہیں ، جسے کچھ اور ہی سمجھ لیا جاتا ہے۔
اللہ ہدایت دے۔آمین
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
لیکن ہم اپنا موقف واضح کردیتے ہیں کہ ان دونوں چیزوں کا تعلق بعض اراکین کی سوچ اور فکر اور ذہنیت کے ساتھ ہے ۔
اگر ہمارے بھائی جیسے لولی آل ٹائم یا محمد ارسلان وغیرہ جاننا چاہتے ہیں کہ رد باطل میں محدث فورم کی انتظامیہ کا کیا موقف ہے تو اس کے لئے ماہنامہ محدث کا مطالعہ مفید رہے گا۔ محدث انتظامیہ بالکل دیوبندیوں کی تبلیغی جماعت کی طرح ہے جو لوگوں کو جوڑے رکھنا چاہتی ہے چاہے اسکی قیمت مداہنت کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔

ایک زمانہ تھا کہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ رسالہ ماہنامہ محدث کی اچھی خاصی کاپیاں اپنے ادارے میں منگواتے تھے۔ لیکن ایک مرتبہ ماہنامہ محدث میں نورانی صاحب جو بریلویوں کے بہت بڑے عالم تھے کا ایک مضمون چھپا۔ وہ دن اور آج کا دن عبداللہ ناصر رحمانی صاحب نے ماہنامہ محدث کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے اپنے ادارے میں ہمیشہ کے لئے بند کروادیا۔ اس سلسلے میں عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا موقف بہت سیدھا اور سچا ہے کہ محدث نے ایک مشرک کو اپنے رسالے میں جگہ دے کر بہت برا کیا۔ ماہنامہ محدث پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ادارہ جب بھی کوئی علمی تقریب منعقد کرواتا ہے تو اس میں بریلوی اور دیوبندی دونوں کو نہایت عزت اور احترام کے ساتھ مدعو کرتا ہے بلکہ انہیں تقریر کا بھی موقع دیتا ہے۔ اور رسالے میں تو بریلوی اور خصوصاٌ دیوبندی علماء کے مضامین اکثر بیشتر شائع کرتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل جب شاتم رسول کا مسئلہ پاکستان میں زور شور سے اٹھا تو غامدی ٹائپ لوگوں نے ابوحنیفہ کے شاتم رسول کی حوصلہ افزائی کرنے والے فتویٰ کا خوب خوب حوالہ دیا۔ لیکن ماہنامہ محدث نے یہ کہتے ہوئے کہ امت کو اس وقت اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے ابوحنیفہ کے غلط فتویٰ کا خوب دفاع کیا اور تاویلات کے ذریعہ سے ابوحنیفہ پر سے شاتم رسول کی حمایت کا الزام رفع کرنے کی ناکام کوشش کی۔


چونکہ ماہنامہ محدث کے کرتا دھرتا ہی محدث فورم کے بانی اور منتظمین ہیں اس لئے جو پالیسی محدث رسالے کی ہے جس کی ایک سرسری جھلک اوپر پیش کی گئی ہے وہی پالیسی محدث فورم کی بھی ہے۔
یعنی کفر اور شرک کا اطلاق دیوبندیوں پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کفر اور شرک سے مستثنیٰ ہیں۔
ابوحنیفہ کے بارے میں حق بیان کرنا ناقابل قبول ہے کیونکہ انکے متعلق جھوٹ ہی سچ کا قائم مقام ہے۔
اخلاقی دائرے میں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں دیوبندی قرآن وحدیث کی جیسی بھی توہین کرے کوئی حرج نہیں لیکن اسکا جواب اگر کسی اہل حدیث نے سختی سے دیا تو یہ عمل ناقابل قبول اور قابل گرفت ہے۔ مطلب اخلاق ہی اصل چیز ہے جبکہ قرآن و حدیث پر حملے یا ڈھکے چھپے الفاظ میں ان پر طعن تشنیع کی کوئی حیثیت نہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میرے محترم بھائی! آپ جس چیز کو برا سمجھیں، یا ماحول کی خرابی کا باعث سمجھیں، ہو سکتا ہے ہمارے نزدیک وہ اچھی ہو اور اس میں ماحول کی خرابی کی کوئی بات نہ ہو، یا جس چیز کو آپ اچھا سمجھیں ہو سکتا ہے ہمارے نزدیک وہ چیز اچھی نہ ہو، تو یہ فیصلہ کس طرح ہو گا کہ آپ ہماری باتوں کو فلٹر کر کے فورم پر لگائیں۔
اس کا بہترین حل وہ ہے جو شاہد نذیر بھائی نے ’’ بول کہ لب ہیں آزاد تیرے ‘‘ کی صورت میں نکالا ہے ۔ آپ کی جو تحریریں کسی فورم پر شائع نہ ہوسکتی ہوں انہیں کسی ایسی جگہ شائع کرلیا کریں جہاں ان پر کوئی پابندی نہ لگا سکتا ہو ۔
کیونکہ فورم کے نظام کی مجبوری ہوتی ہے کہ نہ تو اسے بغیر نگرانی کے چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہر ایک کو نگران بنایا جاسکتا ہے ۔
اگر آپ کی نظر میں کوئی اچھا کام کر رہا ہے اور آپ کا اس سے کچھ اختلاف بھی ہے ۔ تو آپس میں چھوٹے موٹے اختلاف کو ہوا دینے کی بجائے وجوہ اتفاق پر متحد ہوکر کام کرنا چاہیے تاکہ آپ دونوں کا جو مخالف ہے آپ اس کے خلاف زیادہ سے زیادہ کام کرسکیں ۔ اگر آپ آپس میں اختلافی باتیں چھیڑنا شروع کردیں گے تو ایسا گروہ جو آپ دونوں کا مخالف ہے وہ آپ کے خلاف دن بدن مضبوط ہوتا جائے گا اور آپ اسی رفتار سے کمزور ہوتے جائیں گے ۔
ویسے اس کا بہتر حل یہ ہے کہ آپ لوگ تقابل مسالک کا سیکشن ہی ختم کر دیں، اور پابندی لگا دیں کہ دیوبندی اور بریلوی ہمارے بھائی ہیں، ان کے خلاف لکھنے والے کی پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا جائے گا، لہذا آئندہ اس پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔ کیونکہ سیکشن ہو گا تو لوگ لکھیں گے اور جب آپ ان کی پوسٹ کو فلٹر کر کے شائع نہیں کریں گے تو ممبر اپنی بے عزتی محسوس کرے گا۔
اس بات پر آپ تینوں بھائی ( شاہد ، ارسلان ، لولی ) متفق ہیں ؟ اگر آپ متفق بھی ہوں تو ’’ تقابل مسالک ‘‘ میں لکھنے والے دیگر اراکین اس سے اتفاق نہیں کریں گے ۔ اس لیے آپ کی اس خواہش میں عمل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ کوئی فورم یا اس کا کوئی عمومی زمرہ دو ، چار ، یا دس افراد کو مد نظر رکھ کر نہیں بنایا جاتا کہ ان کی رائے پر اس کو بند کرنے یا کھولنے کا فیصلہ کردیا جائے ۔
رہی بات ’’ بے عزتی ‘‘ والی تو اگر یہ واقعہ ہی بے عزتی ہے تو میری معلومات کے مطابق ، کسی بھی فورم پر جب ہم شامل ہوتے ہیں تو قواعد و ضوابط اور شروط سے اتفاق کرکے فورم پر حتمی شمولیت اسی وقت ہوتی ہے جب ہم اس ’’ بے عزتی ‘‘ کو قبول کرنے پر دستخط ثبت کر چکے ہوتے ہیں ۔
خیر اصل بات یہ ہے کہ کسی فورم کی انتظامیہ کے ساتھ انتظامی مشکلات میں تعاون کرنا یہ ’’ بے عزتی ‘‘ نہیں اس کو ’’ حسن اخلاق ‘‘ اور ’’ وسعت ظرفی ‘‘ جیسی اچھی عادات سمجھ کر اپنانا چاہیے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ڈھکے چھپے انداز میں ہم پر تنقید کی گئی ہے، اگر ایسا ہوتا ہے کہ چند ممبران کی ذہنی ساخت کے مطابق ہر سیکشن میں اس طرح کی پابندی خصوصا ہماری پوسٹوں کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے تو میرے نزدیک اس کا بہترین حل یہ ہے کہ اس سیکشن میں پھر لکھا نہ جائے کیونکہ میں اس کو آزادی اظہار رائے کی پابندی سمجھتا ہوں۔
چھوڑیں یار ارسلان بھائی اتنے بھی کیا جذباتی ہونے کی ضرورت ہے ۔ سوء ظن کو ایک لات رصید کریں ۔ رقیبوں کے شکوے چھوڑیں کیونکہ اب تو شاہد نذیر بھائی نے بھی گواہی دی ہے کہ یہ فورم انتظامیہ سارے کے سارے روز اول سے ہی اس طرح کے ہیں کیونکہ یہ فورم تو چند سالوں کی بات ہے جبکہ محدث رسالہ تو ربع صدی سے زائد عرصے پر محیط ایک دستاویز ہے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
تقابل مسلک سیکشن میں پابندی کی وجوہات تو نظر آتی ہیں۔مگر حالات حاضرہ ، جہاں موجودہ مسائل زیر بحث آتے ہیں ، ان پر ایسی سختی درست نہیں۔
میری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس پابندی کو ختم کیا جائے۔۔۔
میرے توبس کی بات نہیں ۔ کسی بڑے کا تذکرہ کرکے دیکھ لیں شاید آپ کی بات مان لی جائے ۔
لیکن ذرا دھیان سے آپ پہلے ہی ’’ حالات حاضرہ ‘‘ سے پابندی اٹھواتے اٹھواتے ایک نئے زمرہ کو پابندی کے منہ میں دھکیلنے کا یا تو سبب بن رہی ہیں یا پھر اس سوچی سمجھی سازش میں کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ ( ابتسامہ )
اب تو خوف رہتا ہے کہ کہیں تالا ہی نہ لگ جائے!
مسکراہٹ ۔
بظاہر خوف سے لبریز جملے کہیں تالا یاد کروانے کے لیے تو نہیں کہے گئے ۔؟
خیر جو بھی ہے ایسے موضوعات کو تالا نہیں لگتا ۔ تالا اس وقت لگایا جاتا ہے جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ جب تالے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ( مسکراہٹ )
بھائی غیر ضروری مراسلہ جات کا پیمانہ کیا ہے؟؟
مطلب یہ کیسے پتا لگے گا کیونکہ تمام لوگوں کی سوچ انداز مختلف ہوتے ہیں۔
واقعتا کافی مشکل سوال ہے ۔ لیکن فی الوقت آسان اور مختصر سا جواب ہے کہ اس کا پیمانہ انتظامیہ کے ذہن میں نصب کیا ہوا ہے ۔ گویا یہ پیمانہ جاننے کے لیے انتظامیہ کا رکن ہونا ضروری ہے ۔ جس طرح ایف اے کے لیے میٹرک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ ( مسکراتے ہوئے )
آپ بھی ’’ غیر ضروری ‘‘ کے ایک لفظ کے پیچھے پڑگئے ہیں ، اب جن مراسلہ جات میں اوئے ، توں ، تیری ، جیسا انداز ہو یا ایک ہی بات بار بار بار بار دہرائی جائے تو انہوں نے ’’ غیر منظور ‘‘ ہی ہونا ہے ۔دو آدمی آپس میں لڑائی کا بہانہ کرکے ایک تیسرے بیچارے کو مغلظات سے نوازیں یا تنقید کا نشانہ بنائیں تو ایسی نا انصافی کی پذیرائی کیسے کی جاسکتی ہے ۔
وہ انداز جو دنیاوی لین دین ، آپسی رشتہ داروں میں اختلاف کے وقت قابل قبول اور پسند نہیں اسی بد اخلاقی کو دینی مسائل پر بحث و مباحثہ میں کیسے قبول کر لیا جائے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اگر ہمارے بھائی جیسے لولی آل ٹائم یا محمد ارسلان وغیرہ جاننا چاہتے ہیں کہ رد باطل میں محدث فورم کی انتظامیہ کا کیا موقف ہے تو اس کے لئے ماہنامہ محدث کا مطالعہ مفید رہے گا۔ محدث انتظامیہ بالکل دیوبندیوں کی تبلیغی جماعت کی طرح ہے جو لوگوں کو جوڑے رکھنا چاہتی ہے چاہے اسکی قیمت مداہنت کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔

ایک زمانہ تھا کہ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ رسالہ ماہنامہ محدث کی اچھی خاصی کاپیاں اپنے ادارے میں منگواتے تھے۔ لیکن ایک مرتبہ ماہنامہ محدث میں نورانی صاحب جو بریلویوں کے بہت بڑے عالم تھے کا ایک مضمون چھپا۔ وہ دن اور آج کا دن عبداللہ ناصر رحمانی صاحب نے ماہنامہ محدث کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسے اپنے ادارے میں ہمیشہ کے لئے بند کروادیا۔ اس سلسلے میں عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کا موقف بہت سیدھا اور سچا ہے کہ محدث نے ایک مشرک کو اپنے رسالے میں جگہ دے کر بہت برا کیا۔ ماہنامہ محدث پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ ادارہ جب بھی کوئی علمی تقریب منعقد کرواتا ہے تو اس میں بریلوی اور دیوبندی دونوں کو نہایت عزت اور احترام کے ساتھ مدعو کرتا ہے بلکہ انہیں تقریر کا بھی موقع دیتا ہے۔ اور رسالے میں تو بریلوی اور خصوصاٌ دیوبندی علماء کے مضامین اکثر بیشتر شائع کرتا ہے۔

کچھ عرصہ قبل جب شاتم رسول کا مسئلہ پاکستان میں زور شور سے اٹھا تو غامدی ٹائپ لوگوں نے ابوحنیفہ کے شاتم رسول کی حوصلہ افزائی کرنے والے فتویٰ کا خوب خوب حوالہ دیا۔ لیکن ماہنامہ محدث نے یہ کہتے ہوئے کہ امت کو اس وقت اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے ابوحنیفہ کے غلط فتویٰ کا خوب دفاع کیا اور تاویلات کے ذریعہ سے ابوحنیفہ پر سے شاتم رسول کی حمایت کا الزام رفع کرنے کی ناکام کوشش کی۔


چونکہ ماہنامہ محدث کے کرتا دھرتا ہی محدث فورم کے بانی اور منتظمین ہیں اس لئے جو پالیسی محدث رسالے کی ہے جس کی ایک سرسری جھلک اوپر پیش کی گئی ہے وہی پالیسی محدث فورم کی بھی ہے۔
یعنی کفر اور شرک کا اطلاق دیوبندیوں پر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کفر اور شرک سے مستثنیٰ ہیں۔
ابوحنیفہ کے بارے میں حق بیان کرنا ناقابل قبول ہے کیونکہ انکے متعلق جھوٹ ہی سچ کا قائم مقام ہے۔
اخلاقی دائرے میں اور ڈھکے چھپے الفاظ میں دیوبندی قرآن وحدیث کی جیسی بھی توہین کرے کوئی حرج نہیں لیکن اسکا جواب اگر کسی اہل حدیث نے سختی سے دیا تو یہ عمل ناقابل قبول اور قابل گرفت ہے۔ مطلب اخلاق ہی اصل چیز ہے جبکہ قرآن و حدیث پر حملے یا ڈھکے چھپے الفاظ میں ان پر طعن تشنیع کی کوئی حیثیت نہیں۔
خیر یہ تو شاہد نذیر بھائی کے وسعت مطالعہ کا فیض ہے ۔ جو قارئین یقینا محدث انتظامیہ کا منہج جاننا چاہتے ہیں اور اس میں شائع ہونے والے مضامین سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں اگر ممکن ہوسکے تو ماہنامہ محدث کا اشاریہ ( پتہ نہیں آن لائن ہے کہ نہیں ؟ ) ضرور ملاحظہ کرنا چاہیے ۔ تاکہ اندازہ ہو کہ کون سا ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کی ضرورت تھی اور اس پر نہیں لکھا گیا ۔ اور کن ضروری موضوعات پر کتنی کتنی بار بار لکھا گیا ہے ۔؟
عبد اللہ ناصر رحمانی صاحب کی محدث سے ناراضی تو شاہد نذیر صاحب نے آپ کو بتادی البتہ قارئین کے خطوط کے نام سے جو محدث رسالہ کو وقتا فوقتا کبار شخصیات سے ملتے رہے ہیں ان کا مطالعہ بھی محدث کے بارے میں رائے قائم کرنے میں مفید رہے گا ۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
میرے توبس کی بات نہیں ۔ کسی بڑے کا تذکرہ کرکے دیکھ لیں شاید آپ کی بات مان لی جائے ۔


لیکن ذرا دھیان سے آپ پہلے ہی ’’ حالات حاضرہ ‘‘ سے پابندی اٹھواتے اٹھواتے ایک نئے زمرہ کو پابندی کے منہ میں دھکیلنے کا یا تو سبب بن رہی ہیں یا پھر اس سوچی سمجھی سازش میں کامیابی کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ ( ابتسامہ )


مسکراہٹ ۔
بظاہر خوف سے لبریز جملے کہیں تالا یاد کروانے کے لیے تو نہیں کہے گئے ۔؟
خیر جو بھی ہے ایسے موضوعات کو تالا نہیں لگتا ۔ تالا اس وقت لگایا جاتا ہے جب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ جب تالے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ( مسکراہٹ )

واقعتا کافی مشکل سوال ہے ۔ لیکن فی الوقت آسان اور مختصر سا جواب ہے کہ اس کا پیمانہ انتظامیہ کے ذہن میں نصب کیا ہوا ہے ۔ گویا یہ پیمانہ جاننے کے لیے انتظامیہ کا رکن ہونا ضروری ہے ۔ جس طرح ایف اے کے لیے میٹرک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ ( مسکراتے ہوئے )
آپ بھی ’’ غیر ضروری ‘‘ کے ایک لفظ کے پیچھے پڑگئے ہیں ، اب جن مراسلہ جات میں اوئے ، توں ، تیری ، جیسا انداز ہو یا ایک ہی بات بار بار بار بار دہرائی جائے تو انہوں نے ’’ غیر منظور ‘‘ ہی ہونا ہے ۔دو آدمی آپس میں لڑائی کا بہانہ کرکے ایک تیسرے بیچارے کو مغلظات سے نوازیں یا تنقید کا نشانہ بنائیں تو ایسی نا انصافی کی پذیرائی کیسے کی جاسکتی ہے ۔
وہ انداز جو دنیاوی لین دین ، آپسی رشتہ داروں میں اختلاف کے وقت قابل قبول اور پسند نہیں اسی بد اخلاقی کو دینی مسائل پر بحث و مباحثہ میں کیسے قبول کر لیا جائے ۔
بھائی میں نے بطور مثال ایک بات کہی تھی ، کہ تقابل مسلک پر پابندی یا سختی کی وجہ سمجھ آتی ہے ، مگر حالات حاضرہ کی نہیں۔
اس پر آپ مجھے کسی سوچی سمجھی سازش میں شریک کر رہے ہیں جو میرے علم میں بھی نہیں ہے!

چونکہ بھائی ہم اراکین وہ پیمانہ نہیں جانتے ، آپ بیان کر دیں تو مستقبل میں ہمارے لیے آسانی ہو جائے گی۔
کم از کم آج جیسی مشکلات پیدا نہیں ہوں گی! ان شاء اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
بھائی میں نے بطور مثال ایک بات کہی تھی ، کہ تقابل مسلک پر پابندی یا سختی کی وجہ سمجھ آتی ہے ، مگر حالات حاضرہ کی نہیں۔
میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں۔
حالات حاضرہ پر پابندی کی وجہ وہ احباب ہیں، جو موجودہ حالات کے تناظر میں مختلف گروہوں، عسکری تنظیموں وغیرہ پر معین تکفیر کے قائل ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایسی ابحاث اس فورم پر شدت سے جاری تھیں۔
 

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
اگر انصاف کی عینک لگا کر دیکھا جائے تو میرا خیال ہے کہ انتظامیہ نے جو چند ایک پابندیاں رکھی ہیں ان سے سمجھ آتی ہے کہ بڑی دیکھ بھال کر کے لگائی ہیں ورنہ انداز گفتگو سے پتہ چل رہا ہے کہ یہاں کیا اکھاڑہ کھل جائے اور اس کو سنبھالنے کی ذمہ داری تو انتظامیہ پر ہی رکھی جائے گی نا؟؟؟
 
Top