• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حالت نماز میں ذکر کو چھونا کیسا ہے؟

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اہل علم سے گزارش ہے کہ میری اصلاح کریں کہ اگر میں حالت نماز میں ہوں اور کسی عزر کی وجہ سے میں نے اپنی ذکر کو چھو لیا تو کیا وضو باقی رہے گا اور نماز ہو جائے گی برائے مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں اور اس بارے میں اسلاف کی کیا رائے ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نقض الوضوء بمس الذكر
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضوء کا ٹوٹنا

اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنن اربعہ وغیرہا میں بسرة بن صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:
أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من مس ذكره فليتوضا
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے ذکر کو مس کیا، اسے چاہئے کہ وضو کرے۔''
یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی سند میں بالکل کلام نہیں ہے۔
چنانچہ اس کا شان مبارک جناب امام المحدثین بخاری نے اس طرح بتلایا ہے کہ:
''اصح شيء في هذا الباب''
''اس باب میں جتنی حدیثیں مروی ہیں ان سب میں یہ حدیث صحیح تر ہے۔''
اسی حدیث کو امام الجرح ولتعدیل یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، ابو حامد بن الشرق اور حازمی نے صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن خوف طوالت کی وجہ سے ان کو ذکر نہیں کرتے، کیونکہ ''خير الكلام ما قل و دل'' اور ہماری تائید کے لئے یہ ایک حدیث شریف ہی کافی ہے۔ باقی جو طلق بن علی رضی اللہ عنہ والی روایت ہے، اس میں حضرات محدثین نے کلام کیا ہے۔ (ملاحضہ ہو مطولات) علی تقدير الصحة یہ حدیث منسوخ ہے۔ کیونکہ بسرة وغیرہ کی حدیثیں ان سے متأخر سمجھی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ بنسبت طلق کے متأخر الاسلام ہیں۔ علاوہ بریں اگر ان دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے تو بھی ہمارا مذہب ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً بسرة وغیرہ کی حدیثیں بغیر حائل پر اور طلق والی حدیث کو بمع حائل پر حمل کیا جائے۔ چنانچہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ:
اذا افضی أحدكم بيده إلیٰ فرجه وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضا
''جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھولیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو تو اسے وضو کرنا چاہئے۔''
تو معلوم ہوا کہ مس الزكر من غير حائل ناقص الوضوء ہے۔ وهو الحق ان شاء الله تعالیٰ والحق احق ان يتبع.
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ حکم جس طرح مردوں کے لئے ہے، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔ کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں اور ایسی دلیل وارد نہیں کہ ہم عورتوں کو اس مسئلہ میں خاص کر سکیں۔ علاوہ ازیں خود مسند امام احمد اور بیہقی وغیرہ میں بروایت عبد اللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ:
ايما إمراة مست فرجها فلتتوضا
''جس عورت نے اپنی شرمگاہ کو چھولیا تو وہ وضوء کرلے۔''
اور اس حدیث کے متعلق امام المحدثیں وطیب الحدیث فی عللہ سیدنا امام بخاری کا فیصلہ ہے کہ هو عندی صحيح.
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 15 – 17 اہل حدیث کے امتیازی مسائل – الشیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی السندی – مکتبۃالدعوۃ السلفیة، حیدر آباد ۔ پاکستان
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
نقض الوضوء بمس الذكر
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضوء کا ٹوٹنا

اس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سنن اربعہ وغیرہا میں بسرة بن صفوان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:
أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال من مس ذكره فليتوضا
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اپنے ذکر کو مس کیا، اسے چاہئے کہ وضو کرے۔''
یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کی سند میں بالکل کلام نہیں ہے۔
چنانچہ اس کا شان مبارک جناب امام المحدثین بخاری نے اس طرح بتلایا ہے کہ:
''اصح شيء في هذا الباب''
''اس باب میں جتنی حدیثیں مروی ہیں ان سب میں یہ حدیث صحیح تر ہے۔''
اسی حدیث کو امام الجرح ولتعدیل یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دارقطنی، ابو حامد بن الشرق اور حازمی نے صحیح کہا ہے۔ اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث مروی ہیں لیکن خوف طوالت کی وجہ سے ان کو ذکر نہیں کرتے، کیونکہ ''خير الكلام ما قل و دل'' اور ہماری تائید کے لئے یہ ایک حدیث شریف ہی کافی ہے۔ باقی جو طلق بن علی رضی اللہ عنہ والی روایت ہے، اس میں حضرات محدثین نے کلام کیا ہے۔ (ملاحضہ ہو مطولات) علی تقدير الصحة یہ حدیث منسوخ ہے۔ کیونکہ بسرة وغیرہ کی حدیثیں ان سے متأخر سمجھی جاتی ہیں۔ اس لئے کہ یہ بنسبت طلق کے متأخر الاسلام ہیں۔ علاوہ بریں اگر ان دونوں حدیثوں کو جمع کیا جائے تو بھی ہمارا مذہب ہی ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً بسرة وغیرہ کی حدیثیں بغیر حائل پر اور طلق والی حدیث کو بمع حائل پر حمل کیا جائے۔ چنانچہ صحیح ابن حبان وغیرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ:
اذا افضی أحكم بيده إلیٰ فرجه وليس بينهما ستر ولا حجاب فليتوضا
''جب تم میں سے کسی نے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے چھولیا اور ان (ہاتھ اور شرمگاہ) کے درمیان کوئی رکاوٹ یا پردہ نہ ہو تو اسے وضو کرنا چاہئے۔''
تو معلوم ہوا کہ مس الزكر من غير حائل ناقص الوضوء ہے۔ وهو الحق ان شاء الله تعالیٰ والحق احق ان يتبع.
اس کے بعد واضح ہو کہ یہ حکم جس طرح مردوں کے لئے ہے، اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے۔ کیونکہ وہ شقائق الرجال ہیں اور ایسی دلیل وارد نہیں کہ ہم عورتوں کو اس مسئلہ میں خاص کر سلیں۔ علاوہ ازیں خود مسند امام احمد اور بیہقی وگیرہ میں بروایت عبد اللہ بن عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے کہ:
ايما إمراة مست فرجها فلتتوضا
''جس عورت نے اپنی شرمگاہ کو چھولیا تو وہ وضوء کرلے۔''
اور اس حدیث کے متعلق امام المحدثیں وطیب الحدیث فی عللہ سیدنا امام بخاری کا فیصلہ ہے کہ هو عندی صحيح.
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 15 – 17 اہل حدیث کے امتیازی مسائل – الشیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ الراشدی السندی – مکتبۃالدعوۃ السلفیة، حیدر آباد ۔ پاکستان
السلام عليكم بھائ جان

بھائ جان اگر میں حالت نماز میں ہوں اور یرے ذکر میں کھجلی ہو رہی ہے تو میں کیا کروں؟؟؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ بات تو عیاں ہے کہ ایسی صورت میں ہاتھ اور شرمگاہ کے درمیان کپڑا حائل ہو گا، تو وہ نواقض وضو نہ ہو گا۔
مگر دوران نماز اس فعل کا کیا حکم ہے، اس کے جواب کے لئے علماء کے جواب کا انتظار کرتے ہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر کوئی کسی جگہ کھبلاوے تو نماز میں نقص؟
شروع از بتاریخ : 30 July 2013 09:16 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اثناء نماز میں اگر کوئی کسی جگہ کھبلاوے تو نماز کے اندر کوئی نقص لازم آئے گا یا نہیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں خارش پر کھجلانے سے نماز میں کوئی حرج واقع نہیں ہوتا ہے۔ آپﷺ کے عہد مبارک میں رفع حرارت کے سجدہ کی جگہ پر نماز پڑھتے پڑھتے کنکریاں ماتھے کے نیچے رکھ لیا کرتے تھے۔ (30 جون 39ء؁)

فتاویٰ ثنائیہ

جلد 01 ص 533
محدث فتویٰ

ملاحظہ فرمائیں: اگر کوئی کسی جگہ کھبلاوے تو نماز میں نقص؟
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

السلام عليكم بھائ جان

بھائ جان اگر میں حالت نماز میں ہوں اور یرے ذکر میں کھجلی ہو رہی ہے تو میں کیا کروں؟؟؟؟؟
اپنے دل و دماغ کو درست رکھیں تو کھجلی کی نوبت پیش نہیں آئے گی۔ دوسرا بازار سے جھانواں ملتا ھے غسل کے وقت اس سے صفائی کریں تو باقی مانندہ حصوں پر بھی کھجلی جاتی رہے گی۔

والسلام
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
کنعان صاحب آپکا جواب بہت اچھا ۔جزاک اللہ
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
جزاک اللہ خیر

بھائ جان اگر کبھی ایسا موقع پیش آ گیا تو؟
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
319
پوائنٹ
127
سکون سے نماز ادا کرنے میں کھجلاہٹ بھی جاتی رہے گی لیکن عدم سکون کی حالت میں بہت کچھ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں۔
 
Top