عبداللہ عبدل
مبتدی
- شمولیت
- نومبر 23، 2011
- پیغامات
- 493
- ری ایکشن اسکور
- 2,479
- پوائنٹ
- 26
السلام علیکم.
کیا اس امت کی اصلاح علماء امت کریں گے یا یہ فریضہ اب فلسفیوں کے حصے آنا ہے؟؟ کیا اصلاح اس نہج پر ہوگی کہ جو سلف صالحین کا منہج تھا یا جدت کی وجہ سے عصر حاضر میں مرتب کردہ نئے فکری معجونوں ، طریقوں اور فارمولوں پر؟؟
میں یہاں جناب حامد کمال صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ:
کہ حامد کمال الدین صاحب کا منہج......... شجر سلف سے پیوستگی ہے یا شجر سلف میں پیوند؟؟؟؟؟
کیا موجودہ القاعدہ جہاد اب بھی سلفی جہاد ہے....... یا قطبیت کی پتیلی پر سلفیت کی ملمعہ کاری کا حسین امتزاج؟؟؟
لیجئے. حامد صاحب کے قلم سے::
""ہماری تاریخ جو کوئی صدی بھر سے رک سی گئی تھی اور ایک کھڑے پانی کا نقشہ پیش کرنے لگی تھی.... اور پھر کھڑے پانی کے اِس جوہڑ میں طرح طرح کی مخلوقات جنم لے چکی تھیں.. کہیں نیشنلزم تو کہیں ڈیموکریسی، کہیں اشتراکیت تو کہیں لادینیت، کہیں لسانیت تو کہیں فرقہ واریت، کہیں پرویز مشرف تو کہیں حسنی مبارک، کہیں یحییٰ تو کہیں بھٹو تو کہیں مجیب، کہیں کرزئی تو کہیں مالکی تو کہیں قذافی تو کہیں زرداری تو کہیں گیلانی، اور علیٰ ھٰذا القیاس ایسی ہی 'ملتی جلتی' اور 'بَعضُہا مِن بَعض' مخلوقات جن کا کوئی اول اور نہ آخر، کوئی حد اور نہ حساب.... اور اِس بدبودار متعفن جوہڑ کو لوگ 'عالم اسلام' کے نام سے پکارنے لگ گئے تھے!
إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
رضا البنا مودودی قطب اِس کو صاف کرنے اور اس کی صورت بدلنے کیلئے بہت سی نیک ہستیاں میدان میں اتریں.... رشید رضا، البنا، مودودی، قطب،ابن نبی، اربکان، یاسین، بیگوویچ، سب نے "تبدیلی" اور "صفائی" کے اِس عمل میں جانیں کھپائیں اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر عالم اسلام کے ہر خطے کے اندر ایک ایسی جمعیت کھڑی کر لینے میں کامیابی پائی جو عالم اسلام میں مغرب کی پھینکی ہوئی اس گندگی اور غلاظت کو صاف کرنے کے مشن پر جت جائے۔ ( إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ )۔ یہ ہماری تاریخ کی بحالی کا عمل تھا اور اپنی ایک دھیمی رفتار سے جاری تھا، البتہ اِن آخری عشروں تک آتے آتے، خصوصاً حالات کی تیزی کی نسبت سے، یہ ایک حد تک مایوسیوں کی سطح کو بھی چھونے لگا تھا۔
ابن تیمیہ و ابن عبد الوہاب کا دھارا مگر جیسے ہی اِس تحریکی عمل کا ٹانکہ محمد بن عبد الوہاب کے تحریکی ورثہ کے ساتھ جڑا، یہ ایک نئی کروٹ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور.... ایک طرف عوامی رو کی صورت دھارنے لگا، تو دوسری طرف جہادی رنگ اختیار کرنے لگا، اور تیسری طرف اِس کی لغت کچھ مستند شرعی اصطلاحات کے ساتھ سجنے لگی؛ اور یوں اپنی تاریخ کےمجمع البحرین ساتھ جڑنے کا رنگ اِس کے اندر گہرا سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ گویا مودودی و قطب کا دھارا، ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب کے دھارے کے ساتھ آ ملا تھا۔ یہ مجمع البحرین تھا اور عالم اسلام میں اپنی طرز کی ایک منفرد ترین پیشرفت!
عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا اِس عمل کا ابتدائی حصہ اُس دوران پایۂ تکمیل کو پہنچا جب مغرب سرخ سویرے کے آگے بند باندھنے میں مصروف تھا، بلکہ اس کیلئے مسلم بلاک کو کھڑا کرنے کا خطرہ مول لینے تک چلا گیا تھا! بنی اسرائیل ایسی جفاکش لیبر آلِ فرعون کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو پیدائش ِ موسیٰ ایسا واقعہ پیش آنے ہی نہ دیا جاتا! مگر کائنات کا توازن کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے! عالم اسلام میں "تبدیلی" اور "صفائی" کا یہ عمل اب مغرب کیلئے سوہانِ روح تھا اور اس کے اندر اپنی موت کا پیغام پڑھنے میں اُس کو ہرگز کوئی دیر نہ لگی۔""
جزاک اللہ خیرا
السلام و علیکم
کیا اس امت کی اصلاح علماء امت کریں گے یا یہ فریضہ اب فلسفیوں کے حصے آنا ہے؟؟ کیا اصلاح اس نہج پر ہوگی کہ جو سلف صالحین کا منہج تھا یا جدت کی وجہ سے عصر حاضر میں مرتب کردہ نئے فکری معجونوں ، طریقوں اور فارمولوں پر؟؟
میں یہاں جناب حامد کمال صاحب کے مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے جا رہا ہوں کہ جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ:
کہ حامد کمال الدین صاحب کا منہج......... شجر سلف سے پیوستگی ہے یا شجر سلف میں پیوند؟؟؟؟؟
کیا موجودہ القاعدہ جہاد اب بھی سلفی جہاد ہے....... یا قطبیت کی پتیلی پر سلفیت کی ملمعہ کاری کا حسین امتزاج؟؟؟
لیجئے. حامد صاحب کے قلم سے::
""ہماری تاریخ جو کوئی صدی بھر سے رک سی گئی تھی اور ایک کھڑے پانی کا نقشہ پیش کرنے لگی تھی.... اور پھر کھڑے پانی کے اِس جوہڑ میں طرح طرح کی مخلوقات جنم لے چکی تھیں.. کہیں نیشنلزم تو کہیں ڈیموکریسی، کہیں اشتراکیت تو کہیں لادینیت، کہیں لسانیت تو کہیں فرقہ واریت، کہیں پرویز مشرف تو کہیں حسنی مبارک، کہیں یحییٰ تو کہیں بھٹو تو کہیں مجیب، کہیں کرزئی تو کہیں مالکی تو کہیں قذافی تو کہیں زرداری تو کہیں گیلانی، اور علیٰ ھٰذا القیاس ایسی ہی 'ملتی جلتی' اور 'بَعضُہا مِن بَعض' مخلوقات جن کا کوئی اول اور نہ آخر، کوئی حد اور نہ حساب.... اور اِس بدبودار متعفن جوہڑ کو لوگ 'عالم اسلام' کے نام سے پکارنے لگ گئے تھے!
إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ
رضا البنا مودودی قطب اِس کو صاف کرنے اور اس کی صورت بدلنے کیلئے بہت سی نیک ہستیاں میدان میں اتریں.... رشید رضا، البنا، مودودی، قطب،ابن نبی، اربکان، یاسین، بیگوویچ، سب نے "تبدیلی" اور "صفائی" کے اِس عمل میں جانیں کھپائیں اور ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر عالم اسلام کے ہر خطے کے اندر ایک ایسی جمعیت کھڑی کر لینے میں کامیابی پائی جو عالم اسلام میں مغرب کی پھینکی ہوئی اس گندگی اور غلاظت کو صاف کرنے کے مشن پر جت جائے۔ ( إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ )۔ یہ ہماری تاریخ کی بحالی کا عمل تھا اور اپنی ایک دھیمی رفتار سے جاری تھا، البتہ اِن آخری عشروں تک آتے آتے، خصوصاً حالات کی تیزی کی نسبت سے، یہ ایک حد تک مایوسیوں کی سطح کو بھی چھونے لگا تھا۔
ابن تیمیہ و ابن عبد الوہاب کا دھارا مگر جیسے ہی اِس تحریکی عمل کا ٹانکہ محمد بن عبد الوہاب کے تحریکی ورثہ کے ساتھ جڑا، یہ ایک نئی کروٹ لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور.... ایک طرف عوامی رو کی صورت دھارنے لگا، تو دوسری طرف جہادی رنگ اختیار کرنے لگا، اور تیسری طرف اِس کی لغت کچھ مستند شرعی اصطلاحات کے ساتھ سجنے لگی؛ اور یوں اپنی تاریخ کےمجمع البحرین ساتھ جڑنے کا رنگ اِس کے اندر گہرا سے گہرا ہوتا چلا گیا۔ گویا مودودی و قطب کا دھارا، ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب کے دھارے کے ساتھ آ ملا تھا۔ یہ مجمع البحرین تھا اور عالم اسلام میں اپنی طرز کی ایک منفرد ترین پیشرفت!
عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا اِس عمل کا ابتدائی حصہ اُس دوران پایۂ تکمیل کو پہنچا جب مغرب سرخ سویرے کے آگے بند باندھنے میں مصروف تھا، بلکہ اس کیلئے مسلم بلاک کو کھڑا کرنے کا خطرہ مول لینے تک چلا گیا تھا! بنی اسرائیل ایسی جفاکش لیبر آلِ فرعون کی اشد ضرورت نہ ہوتی تو پیدائش ِ موسیٰ ایسا واقعہ پیش آنے ہی نہ دیا جاتا! مگر کائنات کا توازن کسی اور ہستی کے ہاتھ میں ہے! عالم اسلام میں "تبدیلی" اور "صفائی" کا یہ عمل اب مغرب کیلئے سوہانِ روح تھا اور اس کے اندر اپنی موت کا پیغام پڑھنے میں اُس کو ہرگز کوئی دیر نہ لگی۔""
(ایقاظ شمارہ : جولائی 2٠١١ مضمون " وہ اپنی مثال آپ تھا")
اس کے بعد میں اپنے پاس مزید وقت نہیں پاتے اس مناہج کے معجون کے لئے!
جزاک اللہ خیرا
السلام و علیکم