جیو نیوز کے اینکر پرسن اور کالم نگار حامد میر پر حملہ کسی اور شے کا نہیں' اس قوم کی بے بسی کا مظہر ہے۔ تجزیہ نگارنجم سیٹھی نے ٹھیک کہا کہ اس قاتلانہ حملے پر ریاست کچھ نہیں کر سکتی۔ زیادہ ٹھیک ہوتا اگر یہ کہتے یہاں ریاست ہے ہی نہیں' کچھ کرنے کا سوال کہاں سے آگیا۔ریاست بے چاری تو غدّار پر مقدمہ نہیں چلا سکتی۔
حامد میر اپنے خیالات اور پروگراموں اور کالموں کی وجہ سے نشانہ بنے۔ لال مسجدکا تاریخی قتل عام' لاپتہ افراد کا معاملہ ' ریمنڈ ڈیوس کا باعزت بندوبستی فرار' سیاست میں ایجنسیوں کا طرزعمل' بلوچستان میں فوجی آپریشن' فاٹا اور دیگر علاقوں میں اہلکاروں کی زیادتیوں سمیت بہت سے قومی معاملات بلکہ ''سانحات '' پر ان کی سوچ قوم کی اکثریت کی ترجمانی کرتی تھی۔ فرقہ وارانہ اتحاد کے لئے ان کے پروگرام بھی کچھ حضرات کو پسند نہیں تھے۔ حامد میر کی غلطی یہ تھی کہ وہ قومی مفاد کے تقاضے سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ فرقہ وارانہ فسادات قومی مفاد کی ضرورت ہیں۔ صرف شیعہ سنی ہی نہیں' دیوبندی بریلوی فسادات بھی ''وقت کا تقاضا'' ہیں۔ یہ الگ مرحلہ افسوس کا ہے کہ نادان قوم قومی مفادات والوں کی پوری کوشش کے باوجود فرقہ وارانہ فسادات میں شریک ہونے پر تیار نہیں ہو رہی۔ حالیہ دنوں میں حامد میر پرویز مشرف کے معاملے پر قوم کی ترجمانی کر رہے تھے۔ انہیں قوم کی نہیں' قومی مفاد کی ترجمانی کرنی چاہئے تھی۔ ایسا کرتے تو شاید حملے سے بچ جاتے۔
قوم کو اس واقعے پر صدمہ ہے لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو دنیا کا وہ واحد ملک ہونے کا شرف حاصل ہے جہاں ''قوم '' بے اوقات ہے اور اوقات کے جملہ حقوق قومی مفاد کے نام ہیں۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے' حملہ آور پکڑے جائیں۔ مطالبہ ٹھیک ہے لیکن یہ کیاکس سے جا رہا ہے؟ کیا حکومت سے جو اپنا آپ بچانے میں مصروف ہے۔ اس کا قصور یہ ہے کہ اس نے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے پالیسی بنائی اور امن مذاکرات کا عمل شروع کیا۔ اب اس کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ بھی دیکھ رہی ہے اور دنیا بھی ۔12اکتوبر کی ''سناؤنیاں''سنائی دینے لگی ہیں۔ اگرچہ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کا کوئی خطرہ نہیں لیکن جمہوریت کو بچا کر' امن مذاکرات کرنے والوں کی بساط تو سمیٹی جا سکتی ہے۔۔۔ کہ نہیں؟ کہا جاتا ہے کہ ''امن'' قومی مفاد میں نہیں' قومی مفاد بمباریوں اور آپریشنوں اور بم دھماکوں ہی سے پھلے پھولے گا۔
وہ تو پہلے ہی کافی پھل پھول چکا ہے'خدا جانے اور کتنا پھلے گا اور کتنا پھولے گا۔
بدقسمتی سے اس واقعے پر کچھ عناصر کو فوج پر حملہ آو رہونے کا موقع مل گیا ہے۔ یہ محض چند افراد کے کارنامے ہیں جو بدقسمتی سے اتنے طاقتور ہیں کہ سارے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے اور ان کی وجہ سے فوج اور ملک' دونوں مصیبت میں ہیں۔ یہ مشرف کی باقیات ہے' یہی باقیات مشرف پر مقدمہ چلنے دیتی ہے نہ دہشت گردی کو روکنے کی اجازت دیتی ہے' خود کو خدا سمجھتی ہے اور خدا سے ڈرتی نہیں ہے لیکن وقت جلد اس باقیات سے حساب بے باق کرنے والا ہے۔
___________________________
جس وقت ''جوان مرد'' سنائپر حامد میر کی گاڑی کو گھیر کرگولیاں برسا رہے تھے' تقریباً اسی وقت اسلام آباد اور کچھ دیر بعد کراچی میں انسانی تاریخ کے حیرت انگیز مناظر دیکھے گئے۔ اسلام آباد کا سارا شہر بند کر دیا گیا۔ ایئرپورٹ پر جہازوں کی آمدورفت روک دی گئی اور ایک فارم ہاؤس سے ایئرپورٹ جانے والی سڑک دنیا کے سب سے بڑے سکیورٹی حصار کی لپیٹ میں آگئی۔ یہی منظر ایک گھنٹے بعد کراچی میں دہرایا گیا۔
غدّاری کیس کے ملزم' لال مسجد' اکبربگٹی اور فاٹا کے فاتح ' قوم برائے فروخت کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جنرل مشرف کو اسلام آباد سے کراچی منتقل کیا جا رہا تھا۔ ایک بل سے نکل کر دوسرے بل میں روپوش ہونے پر اتنا بڑا سکیورٹی ایڈونچر کسی بش نے' کسی اوباما نے' کسی سٹالن نے' کسی ماؤزے تنگ نے' کسی رعمیس نے' کسی نفرتیتی نے' کسی نیرو نے' کسی چنگیز خاں نے' کسی نادر شاہ نے' کسی تیمور لنگ نے' کسی رضا شاہ نے' کسی حسنی مبارک نے' کسی سیسی نے خواب میں بھی نہیں دیکھا ہوگا۔
اس ملک کو بہادروں کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں بہادروں کی گنجائش بھی نہیں ہے۔ یہاں صرف پرویز مشرفوں کی ضرورت ہے اور جملہ گنجائش بھی انہی کے لئے ہے۔
___________________________
پاکستان میں اتنے المیے اور اتنے سانحے' برپا ہوتے ہیں کہ اور کسی طرف دھیان جاتا ہی نہیں لیکن کچھ عالمی واقعات بالواسطہ ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی دورہوتے ہوں۔ یوکرائن کا بحران بھی ایسا ہی ہے۔ پہلے تو یہ لگا کہ امریکہ کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں اور روس کے پیوٹن نے بازی مار لی لیکن جب امریکہ اور یورپی یونین نے پابندیاں لگائیں تو روس کی چیں بول گئی اور وہ مشرقی یوکرائن پر قبضے کے ارادے کو ملتوی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ نہ صرف ملتوی کرنے بلکہ جنیوا میں امریکہ یوکرائن اور یورپی یونین کے ساتھ بیٹھ کر وہ اس پر بھی راضی ہوگیا کہ مشرقی یوکرائن (روسی اکثریت والے علاقے) کو زیادہ خود مختاری دے کر بحران ''تہہ'' کر دیا جائے۔ اس کے بعد امریکہ نے روس پر پابندیاں نرم کر دیں۔ لیکن روس کی بلا ابھی ٹلی نہیں۔ مشرقی یوکرائن کی روسی آبادی نے کئی شہروں کی سرکاری عمارات پر قبضہ کر رکھا ہے' انہوں نے یہ قبضہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے اور امریکہ نے کہا ہے کہ یہ قبضے ختم کرانا روس کی ذمہ داری ہے۔ اس نے ادا نہیں کی تو مزید پابندیاں لگ جائیں گی۔
پہلے سے لگی پابندیوں کا روس مقابلہ نہیں کر سکا۔ روبل کی قیمت مسلسل گرنے کی وجہ سے لوگوں نے بینکوں میں رقم جمع کرانا بند کر دی ہے کیونکہ ایک طرف منافع کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری طرف روبل کی قیمت گرنے سے لوگوں کی جمع شدہ رقوم کی مالیت کم ہو رہی ہے۔ اس کے بجائے لوگ ڈالر اور یورو جمع کر رہے ہیں۔ درآمدی اشیاء ناپید یا کم یاب ہوگئی ہیں۔ روسی معیشت ایک سال سے گر رہی تھی' پابندیوں نے حالت اور خراب کر دی ہے' سٹاک مارکیٹ سنبھل نہیں پا رہی' افراط زر بے قابو ہونے کی طرف دوڑ رہا ہے۔ اور لوگوں نے کھربوں روپے (70ارب ڈالر) ملک سے باہر منتقل کر دیئے ہیں۔ (یہ وسط اپریل تک کی صورتحال تھی)سوچی اولمپک پر پیوٹن نے کسی مغل بادشاہ کی طرح50ارب ڈالر اڑا دیئے' اس کا بھگتان الگ سے ہے۔ اشیائے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور تنخواہیں تو کب سے منجمد ہیں۔ ترقی کی افزائش پہلے ہی سے رکی ہوئی ہے اور بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔ حالانکہ آبادی کم ہونے کی وجہ سے بے روزگاری کا مسئلہ کم ہونا چاہئے تھا۔ ایک اندازہ ہے کہ اس برس روسی معیشت میں18فیصد کا سکڑاؤ آجائیگا۔ روس کے ایک مالیاتی ماہر اور کرائمیا کے بحران پر مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ الیکسی ایل کڈرین کا کہنا ہے کہ اصل نقصان تو ابھی ہونا ہے۔ بہت جلد عوام کی آمدنی کی مالیت کم ہونے والی ہے۔
روس نے کرائمیا کو نگل لیا ہے لیکن ہضم کرنا مشکل ہوگا۔ پیوٹن کرائمیا کو ''فتح'' کرکے ایک بار روسی عوام کا ہیرو تو بن گیا لیکن جلد ہی اسے اور اس کی تاریخی طور پر توسیع پسند قوم کو مشکل صورتحال دیکھنا ہوگی۔ پیوٹن اخلاقیات سے لاتعلّق ایک بدقماش اور ''فارغ الدّماغ'' آمر ہے' ایسے لوگ تباہ کاری کئے بغیر نہیں جاتے۔ اس کا منصوبہ ہے کہ مشرقی یوکرائن میں بغاوت کراکے قبضہ کر لیا جائے کیونکہ یوکرائنی فوج باغیوں سے نہیں نمٹ سکتی لیکن اگر یورپ نے خفیہ فوجی مدد یوکرائن حکومت کو دیدی تو لینے کے مزید دینے پڑ جائیں گے۔اس بحران کا پاکستان کو یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی جتنی پشت پناہی امریکہ کر رہا ہے' اس سے زیادہ روس کر رہا ہے۔ اس پشت پناہی کا حجم کچھ کم ہونے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ اس بحران میں الجھا رہنے کی وجہ سے ہم پرسے امریکی نظر کرم کچھ ہٹے گی اوریاد ہوگا' مشرف جیسے امریکی پوڈل تبھی آتے ہیں جب ہم امریکہ کی نظر کرم کا مرکز بنتے ہیں۔ (از عبداللہ طارق سہیل)