• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
حاملہ اور دودھ پلانے والی کا روزہ



تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری


سیدنا انس بن مالک کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اللہَ وَضَعَ عَنِ الْمُسَافِرِ الصَّوْمَ وَشَطْرَ الصَّلَاۃِ، وَعَنِ الْحُبْلَی وَالْمُرْضِعِ .

اللہ نے مسافر کو روزہ اور نماز کا نصف معاف کر دیا ہے، اسی طرح حاملہ اور دود ھ پلانے والی کو بھی۔''
(سنن النسائی : ٢٣١٥، وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ''حسن'' اور امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (٢٠٤٤)نے''صحیح'' کہا ہے ۔

یاد رہے کہ اس حدیث میں صرف روزہ اور نماز کے وقتی طور پر معاف ہونے کا ذکر ہے، قضا دینی ہے یا نہیں ، حدیث کا ظاہر اس بارے میں خاموش ہے، اس لئے فہم صحابہ سے اس کا معنی متعین کیا جائے گا۔

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حاملہ کے بارے میں پوچھا گیا جسے اپنے بچے کے نقصان کا خطرہ ہے ،فرمایا ، وہ روزہ چھوڑ دے ، اس کے بدلے میں ایک مسکین کو ایک ''مد ''(تقریباً نصف کلو گرام)گندم دے دے ۔(السنن الکبرٰی للبیہقی : ٤/٢٣٠، وسندہ، صحیح)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک حاملہ نے روزے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا : أفطری ، وأطعمی عن کلّ یوم مسکیناً ولا تقضی ۔
''روزہ چھوڑ دیں اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلادیں ، قضائی نہ دیں ۔''
(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٣، وسندہ، صحیح)

نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بیٹی ایک قریشی کے نکاح میں تھیں ، وہ حاملہ تھیں ، رمضان میں اس نے پیاس محسوس کی تو آپ نے اسے حکم دیا کہ روزہ چھوڑ دیں، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ۔(سنن الدارقطنی : ١/٢٠٧، ح : ٢٣٦٤، وسندہ، صحیح)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرمانِ باری تعالیٰ ( وعلی الّذین یطیقونہ فدیۃ )(البقرۃ : ١٨٤)کی تفسیر میں فرماتے ہیں : أثبتت للحبلٰی والمرضع ۔ ''یہ آیت حاملہ اور دودھ پلانے والی کے لیے ثابت (غیر منسوخ) رکھی گئی ہے ۔''(سنن ابی داو،د : ٢٣١٧، وسندہ، صحیح)

سعید بن جبیر رحمہ اللہ حاملہ اور دودھ پلانے والی جو اپنے بچے کے حوالے سے خائف ہو، کے بارے میں فرماتے ہیں کہ روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، چھوڑے ہوئے روزے کی قضائی بھی ان دونوں پر نہیں ہے ۔
(مصنف عبد الرزاق : ٤/٢١٦، ح : ٧٥٥٥، وسندہ، صحیح)

سعید بن مسیب رحمہ اللہ (تفسیر الطبری : ٢٧٥٨، وسندہ حسن)اور عکرمہ(تفسیر الطبری : ٢٧٤٨، وسندہ صحیح) کا بھی یہی موقف ہے ۔
بعض اہل علم کہتے ہیں کہ حاملہ اور مرضعہ فدیہ کے ساتھ روزے کی قضا بھی دیں گی، ان کا یہ موقف بے دلیل ہے۔

الحاصل : حاملہ اور دودھ پلانے والی دونوں روزہ نہ رکھیں ، ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ، ان پر قضائی نہیں
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
#اسحاق سلفی
بھائی آپ کیا کہتے ہیں اس موضوع پر؟؟ یہ احادیث سندا صحیح ثابت ہیں تو پھر قضائی والی بات علماء کیوں کرتے ہیں؟
جزاکم اللہ خیرا ، ذرا وضاحت فرما دیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
#اسحاق سلفی
بھائی آپ کیا کہتے ہیں اس موضوع پر؟؟ یہ احادیث سندا صحیح ثابت ہیں تو پھر قضائی والی بات علماء کیوں کرتے ہیں؟
جزاکم اللہ خیرا ، ذرا وضاحت فرما دیں
ــــــــــــــــــــــــ
مرکزی جمعیت اہل حدیث کی سائیٹ پر اس مسئلہ پر مفتی صاحب کا فتوی حسب ذیل ہے :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمل والی عورت کا روزہ
سوال:
ماہ رمضان کی آمد آمد ہے، میری بیوی حاملہ ہے، اس کے متعلق رمضان کے روزوں کا کیا حکم ہے؟ تفصیل سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟

جواب:
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز معاف کر دی ہے اور مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف کر دئیے ہیں۔ (ابن ماجہ، الصیام: ۱۶۶۷)

اس حدیث میں مسافر، بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت کو ایک ہی سیاق میں بیان کیا گیا ہے مگر ان کی تفصیل میں کچھ فرق ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ مسافر کو روزہ معاف ہے مگر قضا دینا واجب ہے جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے۔ لیکن حاملہ اور بچے کو دودھ پلانے والی عورت کے متعلق علمائے امت کی چار آراء حسب ذیل ہیں:

٭ ان کیلئے فدیہ طعام ہی کافی ہے، بعد میں قضاء کی ضرورت نہیں۔

٭ ان پر نہ قضا ضروری ہے اور نہ ہی ان پر فدیہ لازم ہے۔

٭ یہ دونوں فدیہ طعام کے علاوہ بعد میں قضاء کے طور پر روزے بھی رکھیں گی۔

٭ وہ مریض کے حکم میں ہیں، وہ روزہ چھوڑ دیں، بعد میں قضا دیں لیکن فدیہ طعام کی انہیں ضرورت نہیں۔

ہمارے رجحان کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کیلئے جائز ہے کہ وہ روزہ ترک کر دیں، اگرچہ وہ دونوں بیمار نہ ہوں کیونکہ حدیث میں ان دونوں عورتوں کو مسافر کی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن ان کے متعلق مزید تفصیل حسب ذیل ہے:

٭ جب انہیں روزہ رکھنے میں کوئی مشقت نہ ہو تو انہیں روزہ رکھنا لازم اور اسے ترک کرنا حرام ہے کیونکہ روزہ چھوڑنے کیلئے ان کے پاس کوئی عذر نہیں۔

٭ جب انہیں روزہ رکھنے میں مشقت ہو لیکن روزہ ان کیلئے نقصان دہ نہ ہو تو ان کیلئے روزہ چھوڑ دینا جائز ہے۔

٭ جب روزہ رکھنے کی وجہ سے انہیں یا ان کے بچے کو نقصان کا اندیشہ ہو تو روزہ رکھنا حرام اور اسے ترک کرنا واجب ہے۔ (واللہ اعلم)
http://www.ahlehadith.pk/sawalatjawabat/ibadat-wa-muamlat/hamal-wali-aurat-ka-rozah.html

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
یہ فتویٰ بھی دیکھئے :
ــــــــــــــــــــــــــــــ
حكم صيام المرضع والحامل
هل يجوز لزوجتي التي ترضع ابني البالغ من العمر عشرة أشهر الإفطار في شهر رمضان ؟ .

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
الجواب :

الحمد لله

المرضع ومثلها الحامل لها حالان :

الأولى :

أن لا تتأثر بالصيام ، فلا يشق عليها الصيام ولا يُخشى منه على ولدها ، فيجب عليها الصيام ، ولا يجوز لها أن تفطر .

الثانية :

أن تخاف على نفسها أو ولدها من الصيام ويشق عليها ، فلها أن تفطر وعليها أن تقضي الأيام التي أفطرتها .

وفي هذه الحال الأفضل لها الفطر ، ويكره لها الصيام ، بل ذكر بعض أهل العلم أنها إذا كانت تخشى على ولدها وجب عليها الإفطار وحرم الصوم .

قال المرداوي في الإنصاف" (7/382) :

"يُكْرَهُ لَهَا الصَّوْمُ وَالْحَالَةُ هَذِهِ . . . وَذَكَرَ ابْنُ عَقِيلٍ : إنْ خَافَتْ حَامِلٌ وَمُرْضِعٌ عَلَى حَمْلٍ وَوَلَدٍ , حَالَ الرَّضَاعِ لَمْ يَحِلَّ الصَّوْمُ , وَإن لَمْ تَخَفْ لَمْ يَحِلَّ الْفِطْرُ" اهـ . باختصار .

وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله تعالى في فتاوى الصيام (ص161) :

إذا أفطرت الحامل أو المرضع بدون عذر وهي قوية ونشيطة ولا تتأثر بالصيام فما حكم ذلك ؟

فأجاب :

لا يحل للحامل أو المرضع أن تفطرا في نهار رمضان إلا للعذر، فإذا أفطرتا للعذر وجب عليهما قضاء الصوم ، لقول الله تعالى في المريض : ( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ) . وهما بمعنى المريض وإذا كان عذرهما الخوف على الولد فعليهما مع القضاء عند بعض أهل العلم إطعام مسكين لكل يوم من البر (القمح) ، أو الرز، أو التمر، أو غيرها من قوت الاۤدميين ، وقال بعض العلماء: ليس عليهما سوى القضاء على كل حال ؛ لأنه ليس في إيجاب الإطعام دليل من الكتاب والسنة ، والأصل براءة الذمة حتى يقوم الدليل على شغلها ، وهذا مذهب أبي حنيفة رحمه الله ، وهو قوي اهـ .

وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله تعالى أيضاً في فتاوى الصيام (ص162) :

عن الحامل إذا خافت على نفسها أو خافت على ولدها وأفطرت فما الحكم ؟

فأجاب :

جوابنا على هذا أن نقول : الحامل لا تخلو من حالين :

إحداهما : أن تكون نشيطة قوية لا يلحقها مشقة ولا تأثير على جنينها ، فهذه المرأة يجب عليها أن تصوم ؛ لأنها لا عذر لها في ترك الصيام .

والحال الثانية : أن تكون الحامل غير متحملة للصيام : إما لثقل الحمل عليها ، أو لضعفها في جسمها ، أو لغير ذلك ، وفي هذه الحال تفطر ، لاسيما إذا كان الضرر على جنينها ، فإنه قد يجب الفطر عليها حينئذ . وإذا أفطرت فإنها كغيرها ممن يفطر لعذر يجب عليها قضاء الصوم متى زال ذلك العذر عنها ، فإذا وضعت وجب عليها قضاء الصوم بعد أن تطهر من النفاس ، ولكن أحياناً يزول عذر الحمل ويلحقه عذر آخر وهو عذر الإرضاع ، وأن المرضع قد تحتاج إلى الأكل والشرب لاسيما في أيام الصيف الطويلة النهار ، الشديدة الحر، فإنها قد تحتاج إلى أن تفطر لتتمكن من تغذية ولدها بلبنها، وفي هذه الحال نقول لها أيضاً: أفطري فإذا زال عنك العذر فإنك تقضين ما فاتك من الصوم اهـ .

وقال الشيخ ابن باز في مجموع الفتاوى (15/224) :

أما الحامل والمرضع فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم من حديث أنس بن مالك الكعبي عن أحمد وأهل السنن بإسناد صحيح أنه رخص لهما في الإفطار وجعلهما كالمسافر . فعلم بذلك أنهما تفطران وتقضيان كالمسافر ، وذكر أهل العلم أنه ليس لهما الإفطار إلا إذا شق عليهما الصوم كالمريض ، أو خافتا على ولديهما والله أعلم اهـ .

وجاء في فتاوى "اللجنة الدائمة" (10/226) :

"أما الحامل فيجب عليها الصوم حال حملها إلا إذا كانت تخشى من الصوم على نفسها أو جنينها فيرخص لها في الفطر وتقضي بعد أن تضع حملها وتطهر من النفاس" اهـ .

الإسلام سؤال وجواب

ـــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :

دودھ پلانے والی اورحاملہ کے روزے کا حکم
کیا میری بیوی جواپنے دس ماہ کے بچے کودودھ پلارہی ہے کے لیے رمضان کے روزے چھوڑنا جائز ہیں ؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :

الحمدللہ

دودھ پلانے والی اور اسی طرح حاملہ عورت کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت :

روزہ اس پر اثرانداز نہ ہو ، اورنہ ہی اسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو اورنہ ہی اسے اپنے بچے کا خدشہ ہے ، ایسی عورت پرروزہ رکھنا واجب ہے اوراس کے لیے جائز نہیں کہ وہ روزہ ترک کرے ۔

دوسری حالت :

عورت کواپنے آپ یا پھر بچے کونقصان نہ خدشہ ہو ، اوراسے روزہ رکھنے میں مشقت ہو توایسی عورت کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن وہ بعد میں اس کی قضاء میں چھوڑے ہوئے روزے رکھے گی ۔

اس حالت میں اس کے لیے روزہ نہ رکھنا افضل اوربہتر ہے بلکہ اس کے حق میں روزہ رکھنا مکروہ ہے ، بلکہ بعض اہل علم نے تویہ کہا ہے کہ اگر اسے اپنے بچے کا خطرہ ہو تو اس پر روزہ ترک کرنا واجب اور روزہ رکھنا حرام ہے ۔

مرداوی رحمہ اللہ تعالی " الانصاف " میں کہتے ہیں :

ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا مکروہ ہے ۔۔۔ اورابن عقیل رحمہ اللہ تعالی نے ذکرکیا ہے کہ : اگر حاملہ اوردودھ پلانے والی کوحمل کا بچے کو نقصان ہونے کا خطرہ ہو تواس کے لیے روزہ رکھنا حلال نہیں ، اوراگر اسے خدشہ نہ ہو تو پھر روزہ رکھنا حلال ہے ۔ ا ھ
ـ اختصار کے ساتھ ۔

دیکھیں : الانصاف للمرداوی ( 7 / 382 ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذیل سوال کیا گيا :

جب حاملہ اوردودھ پلانے والی قوی اورچوک وچوبند اور بغیر کسی عذر کے روزہ نہ رکھے اورنہ ہی وہ روزے سے متاثر ہوتواس کیا حکم ہوگا ؟

حاملہ اوردودھ پلانے والی عورت کے لیے بغیر کسی عذر کے روزہ ترک کرنا جائے نہيں ، اوراگر وہ کسی عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھیں توان پر بعد میں ان روزوں کی قضاء کرنا واجب ہوگی ۔

اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجوکوئي مریض ہویا پھر مسافر اسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنا ہوگي } ۔

یہ دونوں عورتیں بھی مریض کی مانند ہی ہیں ، اور جب ان کا عذر ہو کہ روزہ رکھنے سے انہیں بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہو تووہ روزہ نہ رکھیں اوربعد میں ان ایام کی قضاء کرلیں اوربعض اہل علم قضاء کے ساتھ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو گندم یا چاول یا کھجور وغیرہ بھی دینا ہوگي ۔

اوربعض علماء کرام کہتے ہیں کہ : ہرحال میں انہيں روزوں کی قضاء کرنا ہوگي ، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں اس لیے کہ کتاب وسنت میں کھانا کھلانے کی کوئي دلیل نہیں پائي جاتی ، اوراصل توبری الذمہ ہونا ہے ، یہاں تک کہ اس سے کوئي دلیل مشغول کردے ، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے اورقوی بھی یہی ہے ۔ اھ
ـ

دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 161 ) ۔

شیخ ابن ‏عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے یہ بھی پوچھا گيا کہ :

اگرحاملہ عورت کواپنے آپ یا اپنے بچے کونقصان ہونے کا اندیشہ ہوتواس کے روزہ افطار کرنے کا حکم کیا ہے ؟

توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

ہم اس کے جواب میں کہيں گے کہ حاملہ عورت دوحالتوں سے خالی نہيں:

پہلی حالت : عورت قوی اورچست ہو روزہ رکھنے سے اسے کوئي مشقت نہ ہو اورنہ ہی اس کے بچے پر اثرانداز ہو، توایسی عورت پر روزہ رکھنا واجب ہے ، اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کے لیے اس کے پاس کوئي عذر نہيں ۔

دوسری حالت : حاملہ عورت جسمانی کمزوری یا پھر حمل کے بوجھ کی وجہ وغیرہ سے روزہ رکھنے کی متحمل نہ ہو ، تواس حالت میں عورت روزہ نہيں رکھے گی ، اورخاص کرجب بچے کونقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تواس وقت بعض اوقات روزہ چھوڑنا واجب ہوجاتا ہے ۔

اگروہ روزہ نہ رکھے تو وہ بھی دوسرے ‏عذر والوں کی طرح عذر ختم ہونے کے بعد روزہ قضاء کرے گی ، اورجب ولادت سے فارغ ہوجائے تونفاس کے غسل کے بعد اس پران روزوں کی قضاء واجب ہے ، لیکن بعض اوقات یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حمل سے فارغ ہو تواسے کوئي اورعذر درپیش ہوجائے مثلا دودھ پلانا ، اس لیے کہ دودھ پلانے والی کھانے پینے کی محتاج ہوتی ہے اور خاص کر گرمیوں کے لمبے دنوں اورشدید گرمی میں تواسے روزہ نہ رکھنے کی ضرورت ہوگي تاکہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکے ۔

تو اس حالت میں بھی ہم اسے یہ کہيں گے کہ آپ روزہ نہ رکھیں بلکہ جب عذر ختم ہوجائے توترک کیے ہوئے روزوں کی قضاء کرلیں ۔ اھ
ـ



دیکھیں : فتاوی الصیام صفحہ نمبر ( 162 ) ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہنا ہے :

حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی ہے :

انس بن مالک کعنبی کی حدیث ، جسے احمد اوراہل سنن نےصحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو روزہ چھوڑے کی رخصت دی اورانہیں مسافرکی مانند قرار دیا ہے ۔

تواس سے یہ علم ہوا کہ وہ دونوں بھی مسافر کی طرح روزہ ترک کرکے بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراہل علم نے یہ ذکر کیا ہے کہ یہ دونوں روزہ اس وقت نہيں رکھیں گی جب انہيں مریض کی طرح روزہ رکھنا مشکل ہواور اس میں مشقت ہویا پھر وہ دونوں اپنے بچے کا خطرہ محسوس کریں ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ اھ
ـ

دیکھیں : مجموع الفتاوی ( 15 / 224 ) ۔

اورفتاوی اللجنۃ الدائمۃ میں ہے :

حاملہ عورت پر حمل کی حالت میں روزے رکھنا واجب ہیں لیکن جب اسے روزہ رکھنے کی بنا پر اپنے آپ یا بچے پرخطرہ ہو توروزہ چھوڑنے کی رخصت ہے ، لیکن اسے ولادت اورنفاس کےبعد چھوڑے ہوئے روزے بطور قضاء رکھنا ہونگے ۔ اھ
ـ

دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 226 ) ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد
https://islamqa.info/ar/50005
٭٭٭
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
@اسحاق سلفی
بھائی جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا..
گزارش یہ تھی کہ صحابہ کرام کے فتویٰ جات اگر صحیح ثابت ہیں، تو کیا ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے؟
جیسا کہ اوپر شیخ ظہیر صاحب نے ذکر کیا،
اور جو آپ نے فتاویٰ جات سینڈ کیے ان میں بھی صحابہ کے قول کے بارے کوئی بات نہیں کی گئی

بھائی میں صرف علم کے لیے پوچھ رہا ، جزاک اللہ خیر،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
@اسحاق سلفی
بھائی جزاکم اللہ خیرا کثیرا کثیرا..
گزارش یہ تھی کہ صحابہ کرام کے فتویٰ جات اگر صحیح ثابت ہیں، تو کیا ان پر عمل نہیں کرنا چاہیے؟
جیسا کہ اوپر شیخ ظہیر صاحب نے ذکر کیا،
اور جو آپ نے فتاویٰ جات سینڈ کیے ان میں بھی صحابہ کے قول کے بارے کوئی بات نہیں کی گئی
بھائی میں صرف علم کے لیے پوچھ رہا ، جزاک اللہ خیر،
محترم بھائی !
حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر کو آدھی نماز معاف کر دی ہے اور مسافر، حاملہ اور دودھ پلانے والی کو روزے معاف کر دئیے ہیں۔ (ابن ماجہ، الصیام: ۱۶۶۷)

اس حدیث میں مسافر، بچے کو دودھ پلانے والی اور حاملہ کے لئے رعایت کو ایک ہی سیاق میں بیان کیا گیا ہے ، اسلئے بظاہر تو ایسی عورتوں کیلئے مسافر کی طرح بعد میں قضاء کرنا ہوگی ،
لیکن اگر شیخ ظہیرحفظہ اللہ کے نقل کردہ صحابہ کرام کے اقوال اگر سنداً صحیح ہوں تو ان کو غلط کہنے کی جراءت نہیں ہوسکتی ،اسلئے ان پر عمل بالکل صحیح ہوگا
واللہ اعلم
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
بھائی جزاکم اللہ خیرا، جب فرصت ملے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی تخریج کر دیجیے گا ، جزاکم اللہ خیرا،
اور آپکو بار بار تنگ کرنے کے لیے معذرت..!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
بھائی جزاکم اللہ خیرا، جب فرصت ملے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال کی تخریج کر دیجیے گا ، جزاکم اللہ خیرا،
سنن الدارقطنی کی ان روایات کو دیکھا ، سنداً صحیح ہیں ،
علامہ ناصر الدین الالبانیؒ " ارواء الغلیل " میں لکھتے ہیں :
عن ابن عباس قال: " إذا خافت الحامل على نفسها , والمرضع على ولدها فى رمضان قال: يفطران , ويطعمان مكان كل يوم مسكينا , ولا يقضيان صوما " الحديث عند الطبرى (2758)
قلت: وإسناده صحيح على شرط مسلم.

یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حاملہ عورت کواگر اپنے بارے میں اندیشہ ہو اور دودھ پلانے والی کو اپنے بچے کے متعلق تکلیف کا خطرہ ہو تو یہ دونوں روزہ ترک کردیں ، اور ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ، اور یہ دونوں ان روزوں کی قضاء نہیں کریں گی "
اسے امام محمد بن جریر الطبری نے روایت کیا اور اس کی اسناد صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے "

اور سنن الدارقطنیؒ میں مروی ہے :
(1) حدثنا أبو صالح، ثنا أبو مسعود، ثنا أبو عامر العقدي، ثنا هشام، عن قتادة ، عن عزرة، عن سعيد بن جبير، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ أَمَةٌ تُرْضِعُ فَأُجْهِضَتْ , فَأَمَرَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنْ تُفْطِرَ يَعْنِي: وَتُطْعِمَ وَلَا تَقْضِيَ ". هَذَا صَحِيحٌ
یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک لونڈی بچے کو دودھ پلانے والی تھی ، تو آپ نے اسے حکم دیا کہ ( ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین ) کو کھانا کھلادیا کرے اور قضاء نہیں کرے گی " امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے​
(2) حدثنا أبو صالح , ثنا أبو مسعود , ثنا محمد بن يوسف , عن سفيان , عن أيوب , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , أو ابن عمر , قال: «الحامل والمرضع تفطر ولا تقضي» . وهذا صحيح وما بعده )
ترجمہ : سیدنا ابن عباس یا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حاملہ اور مرضعہ کہ ( ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین ) کو کھانا کھلادیا کرے اور قضاء نہیں کرے گی "
امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے "
ــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
شمولیت
اپریل 22، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
37
بارک اللہ فی علمك و عملك،
بھائی جان بہت شکریہ آپکا، جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
359
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
79
.

حاملہ اور مرضعہ کے روزے کا حکم

کیا مسئلۂِ صومِ حاملہ ومرضعہ کی کسی صورت پر علما کا اجماع ہے؟

فاروق عبد اللہ نراین پوری

حاملہ ومرضعہ کے روزوں کے مسئلہ میں دو صورتوں پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔

پہلی صورت:
حاملہ ومرضعہ کو اگر اپنے لئے روزہ چھوڑنا پڑے (بچے کے لئے نہیں) تو اس پر قضا واجب ہے۔ مذاہب اربعہ میں سے ہر مذہب میں اس صورت کو متفق علیہ یا مجمع علیہ کہا گیا ہے۔

دوسری صورت:
حالت نفاس میں رہنے کی مدت میں مرضعہ سے جو روزے فوت ہوں ان کی قضا ضروری ہے۔ امام نووی اور ابن قدامہ نے اس بارے میں اجماع نقل کیا ہے۔ اور معاصرین میں سے شیخ فرکوس نے یہ قول اختیار کیا ہے۔

اب دونوں صورتوں پر اجماع کے دعوے کی حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

پورا مضمون پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کریں

https://thefreelancer.co.in/?p=6377

.
 
Top