• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حب رسول کی آڑ میں مشرکانہ عقائد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
میرے آقا نے فرمایا:
((اعطیت مفاتیح خزائن الارض))
"اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرما دیں۔" (بخاری و مسلم)
کنجی کے معنی اختیار کے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب کو عطا فرما دیئے حضور جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں۔

ازالہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ} (الأنعام:۵۰)
"اے نبی تم کہہ دو کہ میں نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔"
آیت میں اللہ کے دیئے گئے خزانوں کی نفی ہے جس سے ذاتی اور عطائی کی تاویل کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ یہ ناممکن ہے کہ قرآن جس کی نفی کرے حدیث میں اس کا ثبوت ہو۔
اس حدیث سے مراد فتوحات مصر و شام وغیرہ ہیں۔ اور خزانوں سے مراد مال و دولت ہے جیسا کہ حدیث کے آخری ٹکڑے میں آیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((وَقَدْ ذَہَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَاَنْتُمْ۔))
"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے ہیں اور تم انہیں (یعنی خزانوں کو ) اکٹھا کر رہے ہو۔" (صحیح بخاری، ح: ۶۹۷۷)
اور اس مفہوم کو واضح طور پر سورت یوسف میں دیکھا جا سکتا ہے جب اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام {اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ} (یوسف: ۵۵) کہتے ہیں تو کون سے خزانے ہیں جو یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر سے مانگ رہے ہیں، یہاں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دیئے ہیں، آپ جسے جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کو ایمان کی دولت کیوں نہ دے سکے؟ ملاحظہ فرمائیں۔
جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اس کے قریب ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا جان لا الہ الا اللّٰہ کہہ دیجئے میں اللہ کے ہاں آپ کے کلمہ کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ کہنے لگے کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمجھاتے رہے اور وہ دونوں اُسے روکتے رہے۔ آخرکار ابو طالب نے کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں، اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو تاکہ اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تھا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھیں ضرور ٹھنڈی کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ضرور تیرے لیے اپنے رب سے استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ اللہ منع نہ فرمائے۔ چنانچہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} (التوبہ:۱۱۳)
"نبی اور مومنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات واضح ہو چکی کہ مشرک جہنمی ہوتے ہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت بھی نازل فرمائی۔
{إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} (القصص: ۵۶)
"اے نبی جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو جسے چاہتا ہے یدایت سے نوازتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔" (بخاری ۴۷۷۲، مسلم ۲۵۔۲۴)
قرآن مجید کی اس آیت پر غور فرمائيے۔
{وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ} (یوسف:۱۰۳)
"اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔"
یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: (( ما شاء اللّٰہ و شئت)) جو اللہ اور آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ نے فرمایا: "تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا۔ بلکہ کہو جو اللہ اکیلا چاہے۔ (وہی ہوتا ہے)" (مسند احمد ۱۸۳۹،۱؍۲۱۴)
یہ کہنا کہ علم، اولاد، ایمان غرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر نعمت اللہ دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اسے بانٹتے ہیں۔ کیا یہ آیت اور حدیث اس نظریہ کی واضح تردید نہیں کر رہی؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
حصن حصین میں ہے کہ جب مدد لینا چاہو تو کہہ دو ((یا عباد اللّٰہ أعینونی)) … "اے اللہ کے بندو میری مدد کرو۔"
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ عباد اللہ سے مراد فرشتے یا مسلمان یا جن یا رجال الغیب یعنی ابدال ہیں یہ حدیث حسن ہے مسافروں کو اس حدیث کی سخت ضرورت ہے اور یہ عمل مجرب ہے۔ (جاء الحق ۱۹۸)

ازالہ
۱۔ یہ حدیث صحیح نہیں کیونکہ اس میں عتبہ بن غزوان مجہول راوی ہے۔
۲۔ ایک راوی ابن حسان کو محدثین نے منکر الحدیث کہا ہے۔ لہٰذا یہ سند ضعیف و مردود ہے۔ اس سے استدلال جائز نہیں۔

غلط فہمی
اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (المائدہ:۲)
"نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔"
کیا اس آیت میں (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ایک ناجائز کام کی تعلیم دے رہا ہے؟
اللہ تعالیٰ انبیاء کو مدد کرنے کا حکم دیتا ہے:
{لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ} (آل عمران :۸۱)
"تم ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔"
کیا اس آیت پاک میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو مدد کا حکم دے کر معاذ اللہ شرک کی تعلیم دینا چاہی ہے؟
نبی نے غیر اللہ سے دین کے لیے مدد طلب فرمائی:
{قَالَ مَنْ أَنصَارِي إِلَى اللَّـهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنصَارُ اللَّـهِ} (آل عمران :۵۲)
"(عیسیٰ نے) کہا (بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف (بلانے میں) میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مدد گار ہیں۔"
موسیٰ علیہ السلام کے اپنے حواریوں سے مدد طلب کرنے پر شرک کا فتوی جاری ہو گا یا نہیں؟
اللہ تعالیٰ کا بندوں کو کفایت میں شریک کرنا ملاحظہ فرمائیں:
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّـهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ} (الانفال:۶۴)
"اے نبی اللہ اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہیں تمہیں کافی ہے۔"
کیا مختلف معاملات میں اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کے لیے کافی نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر غیر اللہ کو اس میں کیوں شریک کیا گیا؟
{ فَإِنَّ اللَّـهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَٰلِكَ ظَهِيرٌ} (التحریم:٤)
"بے شک اللہ اس کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک مومن اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔"
اللہ عز و جل کا غیر اللہ کو رسول اکرم کا مددگار فرمانا درست ہے یا غلط؟
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کو بچھو نے ڈنگ مار دیا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کسی نے آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس پر دم کروں؟ آپ نے فرمایا جو اپنے مسلمان بھائی کو نفع پہنچا سکے تو اسے چاہیے کہ وہ ایسا کرے۔ (مسلم)
معلوم ہوا اپنے مسلمان بھائی سے نفع کی امید رکھنا ناجائز نہیں۔

ازالہ
دعا و پکار اور امداد جو تحت الاسباب ہو وہ بالاتفاق درست ہے۔ اوپر کی تمام آیات میں تحت الاسباب امداد کا ذکر ہے مخلوقات کا اپنی فطری قوت و اختیار کے دائرے میں رہ کر ایک دوسرے سے مدد لینا شرک و توحید کی بحث سے خارج ہے۔ مثلًا پاکستان میں بیٹھے ایک شخص کے پاس ٹیلیفون کا ذریعہ موجود ہے تو اس سے مدد چاہنا کہ مکہ میں میرے بیٹے سے فلاں نمبر پر معلوم کر دو کہ کل وہ کس وقت پاکستان آرہا ہے ہرگز ہرگز شرک نہیں ہے کیونکہ سبب (ذریعہ) موجود ہے۔ مومنین اپنی حاجات و ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آپس میں تحت الاسباب (اللہ کے دیئے ہوئے اختیارات کے تحت) ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ کو مشرک اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ انبیاء، اولیاء، ملائکہ اور جنات کو ان معاملات میں پکارتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیار نہیں دیا اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں سے کسی کو زندہ کرنے اور مارنے کا اختیار نہیں دیا بیماری سے شفا دینا اور رزق عطا کرنا اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ کوئی کسی کی نہ تو تقدیر بدل سکتا ہے نہ ہی کسی کے دل کو بدل کر اس میں محبت یا نفرت کے جذبات پیدا کر سکتا ہے۔ اس طرح فتح و شکست، ذلت و عزت، اطمینان اور بے اطمینانی پیدا کرنے کے اختیارات مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں۔ اسی طرح کل کیا ہو گا؟ بارش کب ہو گی؟ کسی کو موت کب آئے گی؟ ماں کے پیٹ میں کیا ہے؟ یہ سب سوائے اللہ عالم الغیب کے کوئی نہیں جانتا ان علوم، قدرتوں اور صفات کو مافوق الاسباب کہا جاتا ہے۔ لہٰذا مافوق الاسباب میں اللہ کے سوا کسی کو امداد کے لیے پکارنا شرک ہے اور یہی مسئلہ یہاں زیر بحث ہے۔ بزرگوں سے ان کی زندگی میں دعا کروانے والا موحد ہے بشرطیکہ ان کی دعا کو سبب اور ذریعہ سمجھے اور مشکل کشا اور حاجت روا صرف اور صرف اللہ کو جانے۔ اور ان بزرگوں کے فوت ہونے کے بعد جب ان کے پاس اسباب نہیں رہے۔ اب ان کو ہر جگہ سے سننے والا اور مشکل دور کرنے والا سمجھ کر پکارنا شرک ہے۔
یہی وجہ ہے نابینا صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے دعا کرواتا ہے۔ (ترمذی:3578)
مگر یہ صرف آپ کی زندگی میں تھا۔ آپ کی وفات کے بعد دورِ عمر میں قحط پڑا تو عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سے دعا کروائی اور خود بھی اللہ سے عرض کیا ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بناتے تھے تو بارش برساتا تھا اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں اے اللہ بارش بھیج۔ (بخاری: ۱۰۱۰)
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے مدد مانگنا جائز ہوتا تو صحابہ رحمھم اللہ قبر نبوی پر حاضر ہو کر آپ سے مدد مانگتے۔
تحت الاسباب اور فوق الاسباب کا فرق سمجھنے والوں کے لیے اس آیت مبارکہ میں واضح دلیل موجود ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ ۖ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿١٩٤﴾ أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا ۖ أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا} (الأعراف: ۷/۱۹۴)
"(مشرکو) جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں۔ اچھا تم ان کو پکارو اگر تم سچے ہو تو چاہیے کہ وہ تم کو جواب بھی دیں۔ کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ہاتھ ہیں جن سے پکڑیں یا آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا کان ہیں جن سے سنیں۔"
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت قرآن حکیم میں ارشاد باری ہے :
{وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ} (التوبۃ:۷۴)
"یہ سب کچھ اس کا بدلہ تھا کہ اللہ اور رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیا۔"
آیت کریمہ صاف صاف اعلان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مصطفیٰ کریم کی عطا دونوں ایک ہیں۔ (علمی محاسبہ: ۴۵)

ازالہ
آیت کا صاف، سیدھا اور واقعات کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اور مالِ غنیمت کے حصول سے مومنین کے ساتھ ساتھ منافقین کی بھی مالی حالت درست ہو گئی۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ قیامت تک کے لیے آسودگی، فراغت اور مال و دولت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے ہیں۔
یہ لوگ نہ صرف یہ کہ "توحید" کے معاملہ میں راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں بلکہ آیات و احادیث سے ایسے نکتے نکالتے ہیں جن سے عبد اور معبود کے مابین فرق مشتبہ ہو جائے۔
جب اس آیت کا کسی صحابی، امام یا مفسر نے یہ مفہوم نہیں لیا کہ غربت کی حالت میں اپنے گھروں میں بیٹھ کر پکار لگائی جائے کہ یا رسول اللہ ہماری محتاجی دور فرما کر ہمیں غنی کر دیجئے۔ پھر اس آیت سے "یا علی مدد" پر دلیل لینے کا کیا جواز ہے؟

غلط فہمی
امام ابو بکر ابن ابی شیبہ اپنی کتاب مصنف اور امام بہقی اپنی تصنیف "دلائل النبوۃ" میں مالک الدار سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارکہ میں قحط پڑا۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پاک پر آکر عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا طلب کیجئے کیونکہ وہ ہلاک ہوئے جاتے ہیں رسول اللہ ان کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جا کر اسے ہمارا سلام کہنا اور کہنا کہ لوگوں کو خبر دے دو کہ عنقریب انہیں سیراب کیا جائے گا۔

ازالہ
اس اثر پر عصر حاضر کے محدث کبیر الشیخ ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب "التوسل أنواعہ وأحکامہ" میں صفحہ نمبر۱۱۷ میں سیر حاصل گفتگو کی ہے جس میں آپ نے اس واقعہ کو ضعیف قرار دیا ہے اس کی دو وجوہات بیان کی ہیں:
۱۔ اس واقعہ کے اصل راوی مالک الدار ہیں ان کے حالات ان کا ثقہ اور عادل ہونا معلوم نہیں۔ وہ عدالت و ضبط کے اعتبار سے غیر معروف ہیں اور کسی بھی روایت کے صحیح ہونے کے لیے راوی کا معروف ہونا بنیادی شرط ہے۔
۲۔ مالک الدار کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا انہوں نے اس شخص کا نام نہیں لیا۔ لہٰذا وہ بھی مجہول ہے۔ سیف کی روایت میں اس کا نام بلال بتایا گیا ہے مگر اس روایت کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیونکہ سیف ابن عمر التمیمی کے ضعف پر محدثین کرام متفق ہیں بلکہ ابن حبان کہتے ہیں کہ یہ حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
طبرانی میں ہے ایک شخص عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ خلیفہ المسلمین میری بات نہیں سنتے تو عثمان بن حنیف نے انہیں ایک دعا سکھائی جس میں ہے کہ اے محمد میں آپ کے ذریعہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔

ازالہ
عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کا قصہ صحیح اسناد سے کتب احادیث میں موجود ہے کہ انہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا حکم دیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے لیے دعا کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کرام رحمھم اللہ آپ کی دعا کے ذریعے اپنی تکالیف دور کروایا کرتے تھے لیکن وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی صحابی، تابعی یا امام نے آپ کو نہیں پکارا کہ آپ انکی مشکلات حل کروائیں عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے اس قصہ میں طبرانی کے اضافی قصے کو عصر حاضر کے محدث کبیر الشیخ ناصر الدین البانی نے قصہ ضعیفہ منکرہ قرار دیا ہے۔
ان کے کلام کا خلا صہ یہ ہے کہ:
۱۔ اس قصہ کی روایت میں شعیب بن سعید المکی راوی ہیں۔ یہ ثقہ راوی ہیں۔ مگر حفظ میں ضعف ہے۔ جب وہ یونس سے روایت کرتے ہیں تو وہ قابل قبول ہے کیونکہ یونس بن یزید کی کتاب ان کے پاس تھی اور ان سے ان کا بیٹا روایت کرے تو اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ بھی اپنی صحیح میں لائے ہیں۔ جیسا کہ التقریب میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں یونس کے علاوہ کسی سے انکی کوئی روایت امام بخاری اپنی صحیح میں نہیں لائے اور نہ ہی وہ ابن وھب سے ان کی کوئی روایت لائے ہیں۔ یہی بات ابن عدی سے امام ابن حاتم "الجرح والتعدیل" میں صفحہ نمبر ۳۵۹ پر بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا طبرانی کی وہ سند جو شعیب بن سعید سے عبداللہ بن مصعب روایت کرتے ہیں ضعیف ہے۔ کیونکہ:
(۱)… شعیب بن سعید راوی منفرد ہیں اور انکے حفظ میں کلام ہے خاص کر جب ان سے عبداللہ بن وھب روایت کرے تو وہ حجت نہیں۔
۲۔ اس قصہ میں ثقات کی مخالفت ہے جنہوں نے اس قصہ کو روایت نہیں کیا۔ بلکہ مستدرک میں روح بن قاسم سے عمارہ البصری روایت کرتے ہیں اور اس قصہ کو بیان نہیں کرتے اسی طرح شعبہ اور حماد بن سلمۃ عن ابی جعفر الخطمی کی روایت میں بھی یہ قصہ موجود نہیں۔ اس حدیث کو ابن سنی نے "عمل الیوم واللیلۃ" صفحہ نمبر ۳۰۲ میں حاکم نے ۴؍۵۳۴ میں تین طریقوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور اس میں یہ قصہ موجود نہیں۔ لہٰذا یہ قصہ منکرہ ہے۔

غلط فہمی
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ} (الأنفال:۱۷)
"(اے محمد) جس وقت تم نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ تم نے (کنکریاں) نہیں پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکی تھیں۔"
اس آیت کا مفہوم کیا ہے؟

ازالہ
۱۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کے فعل کو اپنی طرف منسوب کیا۔ لیکن إِذْ رَمَيْتَ کہہ کر کنکریوں کو پھینکنے کا فعل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا پھر نفی کر کے اپنی طرف اضافت کی۔ فعل ایک ہی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے پھینکی۔ جبکہ اس کا سبب اللہ تعالیٰ ہے جس نے ایسا کرنے کا حکم دیا اور پھر ان کنکریوں کو مشرکوں تک پہنچا دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ اللہ فرما رہا ہے کہ ہم نے تم میں یہ قوت پیدا کر دی تھی ورنہ تم اپنے کسب و اختیارات سے یہ کام نہ کر سکتے تھے یہ آیت تو توحید خالص کی ایک روشن دلیل ہے۔ اللہ نے بدر میں چاہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ریت کے ذرے پھینکوا ديئے جس نے کفارِ مکہ کو بد حواس اور پریشان کر دیا دوسری طرف احد میں اللہ نے نہ چاہا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زخمی ہو گئے اور ستر صحابۂ کرام رحمھم اللہ شہید ہو گئے۔
۲۔ بدر میں صحابہ کرام رحمھم اللہ کی تعداد قریشِ مکہ کے مقابلہ میں بہت کم تھی ساز و سامان اور اسلحہ کی قلت بھی مگر پھر بھی مسلمان اللہ کے فضل سے کفار پر غالب آئے یہ غیر معمولی واقعہ ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اپنا احسان جتلا رہے ہیں۔ یہاں بھی صحابہ رحمھم اللہ کے اختیارات و قدرت کی نفی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و مشیت اور قدرت کا اظہار ہے۔ اس آیت کا بھی مفہوم یہی ہے :
{فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ} (الأنفال:۱۷)
"تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قتل کیا ہے۔"
یہاں بھی سبب اللہ تعالیٰ ہے۔ اسی کے حکم سے مومنین نے ان سے قتال کیا اور وہی مومنین کو فتح دینے والا ہے لہٰذا اس فعل کی اضافت اللہ کی طرف بھی ہے۔

غلط فہمی
جب بندہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی صفت سمع، بصر اور قدرت کے انوار بندے کی سمع اور قدرت میں ظاہر ہونے لگتے ہیں یہ مقرب بندہ صفات الہٰیہ کا مظہر بن جاتا ہے یہ بندہ اللہ تعالیٰ کے نورِ سمع سے سنتا ہے۔ نورِ بصر سے دیکھتا ہے اسی کے نور قدرت سے تصرف کرتا ہے جب قرآن سے ثابت ہے کہ درخت سے إنی أنا اللّٰہ کی آواز آسکتی ہے تو عبد مقرب کے لیے یہ کیونکر محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات سمع و بصر کا مظہر نہ ہو سکے۔ (توحید اور شرک از کاظمی)

ازالہ
علماء سلف نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر اللہ کے ساتھ مشغول ہے۔ اس کا کان ادھر ہی متوجہ ہو جاتا ہے۔ جس طرف اللہ راضی ہوتا ہے اور اپنی آنکھ سے وہی کچھ دیکھتا ہے جس کا اللہ نے اسے حکم دے رکھا ہے وہ اپنا ہاتھ پاؤں اللہ کی رضا کے کام کی طرف بڑھاتا ہے۔ یعنی وہ شخص اس کو نہیں سنتا جس کے سننے کی شرع اجازت نہ دے۔ نہ ہی اسے دیکھتا ہے جسے دیکھنے سے شرع نے منع کیا ہے۔ خلاف شرع کسی چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا اور نہ ہی اس کام کی طرف چلتا ہے جس کے کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔
فرقہ حلولیہ اور اتحادیہ کا یہ خیال کہ یہ کلام حقیقت پر ہے اور اللہ تعالیٰ عین عبد بن جاتا ہے یا اس میں حلول کر چکا ہے عین گمراہی اور کفر ہے۔ حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ اگر اس نے مجھ سے سوال کیا تو میں اس کا سوال پورا کروں گا۔ اگر پناہ طلب کرے تو پناہ دوں گا۔ (بخاری:۶۵۰۱)
یہ الفاظ دلیل ہیں کہ اللہ اور بندہ الگ الگ ہیں۔ اللہ انسان میں حلول نہیں کرتا۔ اگر حلولیہ کے معنی مراد لیے جائیں تو پھر اس مرتبہ پر پہنچا ہوا شخص ہاتھ سے استنجا کیوں کرتا ہے۔ ہاتھ گندگی میں کیوں ڈالتا ہے۔ پاؤں سے بیت الخلا کیوں جاتا ہے؟ اسی طرح آنکھ اندھی، کان بہرا، ہاتھ لولہا یا پاؤں لنگڑا کیوں ہوتا ہے کیا ان صفات کو اللہ کی طرف منسوب کرو گے أستغفر اللّٰہ ثم أستغفر اللّٰہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنگ احد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر اور چہرہ زخمی ہو گیا۔ اس میں سے خون نکل آیا، کیا معاذ اللہ خود اللہ ہی کو یہ زخم ہوا تھا؟
اگر صوفیا کے معانی تسلیم کیے جائیں تو جس کا ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور کان اللہ ہے اس کو تکبر سے کیا منع؟ پھر جن آیات و احادیث میں تکبر کرنے سے منع فرمایا وہ کن کے لیے ہے؟ لہٰذا وہ معنی جو سلف صالحین نے بیان کیے وہی درست ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تقاضا
اگر کوئی شخص حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو مدعی ہو مگر محبوب کے احکام کی پروا نہ کرے اور اپنے دل اور نفسانی خواہش سے ایسی باتیں نکالے جو محبوب کو ناپسند ہوں تو ایسی محبت محبت نہیں بلکہ نافرمانی اور سرکشی ہے۔ آپ اپنی امت کو شرک سے ڈرائیں اور عاشقانِ رسول شرک کے معاملہ میں بے پرواہ ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد، حکم اور فرمان کی اس بے دردی کے ساتھ مخالفت اور خلاف ورزی کے بعد عشق رسول کا دعویٰ ایک ایسا تضاد ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ کتنا بڑا دھوکہ ہے جو عشقِ رسول کے نام پر لوگوں کو دیا جا رہا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کرنے والوں کو اور دین کے داعیوں کو گستاخِ رسول کہہ کر مطعون کیا جا رہا ہے توحید کے بارے میں یہ لوگ اتنے بے پرواہ ہیں کہ کوشش کرتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نکتہ پیدا کر کے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ہی سطح پر لے آئیں اور عبد و معبود کا یہ فرق و امتیاز کسی نہ کسی حیلہ سے مٹے نہیں تو کم سے کم ملتبس ہو جائے۔

ان کے چند افکار ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ محمد خدا ہیں:
مولوی محمد یار گھڑی والے خواجہ غلام فرید کے خاص خلیفہ ہیں۔ انہوں نے ایک دیوان لکھا ہے جس کا نام دیوان محمدی ہے۔ وہ وحدۃ الوجود کے نظریہ کو جتنا عریاں کر سکتے تھے اپنے دیوان میں اس کو اتنا عریاں کیا۔ اس دیوان کا ایک شعر ہے:
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
پھر تو سمجھو مسلماں ہے دغا باز نہیں
شعر میں پہلا محمد شاعر کا تخلص ہے شعر کا مطلب یہ ہوا کہ محمد یار گھڑی والے نے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مان لیا پھر تو سمجھ لیجئے کہ وہ حقیقی مسلمان ہے اگر محمد کو خدا نہیں مانتا پھر یہ بات رسول کے ساتھ دغا بازی کے مترادف ہے۔ کسی نے علامہ سید احمد سعید کاظمی صاحب کو یہ شعر لکھ کر سوال کیا کہ کیا بریلوی مذہب میں ایسا عقیدہ درست ہے انہوں نے جواب میں لکھا کہ ایسی عبارتیں دیوبندی اور بریلوی مسلک کے علما کی کتب میں پائی جاتیں ہیں اور ان کی بنیاد عقیدہ وحدۃ الوجود ہے جو ابن عربی کا عقیدہ ہے پھر وہ اس عقیدہ کے حق میں دلائل دیتے ہیں مگر نہ تو قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کرتے ہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان۔
کاظمی صاحب کی اصل عبارت ملاحظہ فرمایئے:
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا
پھر تو سمجھو مسلماں ہے دغا باز نہیں
سلام مسنون…دعا:
حضرت قبلہ مولانا محمد یار صاحب کا وہ شعر جو تم نے لکھا اور اس جیسی دوسری عبارات (جو مسلم بین الفریقین علماء کی کتابوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں) مسئلہ وحدۃ الوجود پر مبنی ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تعینات سے قطع نظر کر کے موجود حقیقی یعنی مابہ الموجودیت حق سبحانہ وتعالیٰ کے سوا کچھ نہیں ہر شے کا یہی حال ہے کہ تعینات کا انتقا ہو جائے تو حقیقت حقہ کے سوا کچھ نہیں اس میں نبی، غیر نبی حتیٰ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی خصوصیت نہیں بلکہ عامہ خلائق مظاہر ناقصہ ہیں اور اولیاء کرام اپنے مراتب کے لحاظ سے کامل مظہر ہیں اور انبیاء علیہم السلام ان سے زیادہ مظہر اور جمیع کائنات سے اکمل و افضل مظہریت حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حاصل و ثابت ہے اس لیے کہ کمال امور اضافہ عینی سے ہے۔ دیکھئے مولانا محمد یار صاحب کے شعر کا مضمون حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ کے کلام میں ہے:
((أنت تحسبہ محمد العظیم الشان کما تحسب السراب ماء وھو ماء فی رایء العین فاذا جئت محمداً لم تجد محمداوجدت انہ فی صورۃ محمدیتہ ورایتہ برؤیتہ محمدیہ۔)) (فتوحات مکیہ جلد ثانی ص:۱۲۷)
یعنی محمد عظیم الشان صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد گمان کرتے ہو جیسے کہ تم سراب کو دور سے دیکھ کر پانی سمجھتے ہو اور وہ ظاہری نظر میں پانی ہی ہے مگر حقیقتا آب نہیں ہے بلکہ سراب ہے اسی طرح جب تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آؤ گے تو تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔
اسی طرح شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کے کلام میں اسی قسم کا مضمون موجود ہے انتباہ کے ص ۹۲ پر فرماتے ہیں: (صورت مرشد کہ ظاہر دیدہ می شور مشاہدہ حق سبحانہ تعالیٰ است در پردہ آب و گل و صورت مرشد کہ در خلوت نمودار می شود آں مشاہدہ حق تعالیٰ است بے پردہ آب و گل) غور کیجیے صورت مرشد دیکھنے کو حق تعالیٰ کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور آب و گل یعنی جسمانیت اور بشریت کو محض ایک پردہ قرار دے رہے ہیں۔ آج کے دیوبندی وحدۃ الوجود کے بھی منکر ہیں حالانکہ جن حضرات کو یہ اپنے مشائخ قرار دیتے ہیں وہ اس مسئلہ پر بڑے متشدد اور حریص رہے ہیں دیکھیے انور شاہ کشمیری اپنی کتاب فیض الباری جلد رابع ۴۲۸ حدیث شریف کنت سمعہ الذی یسمع بہ کے تحت دیوبندیوں کے بیان کردہ معنی کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں:
((قلت وھذا عدول عن حق الالفاظ لان قولہ کنت سمعہ بصیغۃ المتکلم یدل علی انہ لم یبق من المتقرب بالنوافل الا جسدہ وشبھہ وصار المتصرف فیہ الحضرۃ الا لھیۃ فحسب وھذا الذی عناہ الصوفیہ بالفناء فی اللّٰہ تعالی ای الا نسلاخ عن دواعی نفسہ حتی لا یکون المتصرف فیہ الا ھو وفی الحدیث لمعۃ الی وحدۃ الوجود وکان مشائخنا مولعون بتلک المسئلہ الی زمن الشاہ عبدالعزیز اما انا فلست بمتشدد فیھا))
یعنی کنت سمعہ کے یہ معنی بیان کرنا کہ بندہ کے کان آنکھ وغیرہ اعضاء حکم الٰہی کی نافرمانی نہیں کرتے حق الفاظ سے تجاوز اور کجروی ہے۔ اس لیے کہ بصیغہ متکلم اللہ تعالیٰ کا قول کنت سمعہ فرمانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عبد متقرب بالنوافل یعنی بندہ میں سوائے جسد و صورت کے کوئی چیز باقی ہی نہیں رہی اور اس میں صرف اللہ تعالیٰ ہی متصرف ہو گیا ہے اور یہی وہ معنی ہیں جن کو حضرات صوفیائے کرام فنا فی اللّٰہ سے تعبیر کرتے ہیں یعنی بندہ کا اپنے خواہشات نفس سے بالکل پاک ہو جانا یہاں تک کہ اس بندہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شے قطعا متصرف نہ رہے اور حدیث مذکور (کنت سمعہ) میں وحدۃ الوجود کی طرف چمکتا ہوا اشارہ ہے۔ ہمارے مشائخ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی کے زمانہ تک اس مسئلہ وحدۃ الوجود میں بڑے متشدد اور حریص تھے لیکن میں اس کا قائل تو ہوں لیکن متشدد نہیں ہوں۔
اس عبارت سے مسئلہ وحدۃ الوجود کا اکابر و مشائخ دیوبند کے نزدیک حق ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اب شاہ ولی اللہ صاحب کی عبارت ملاحظہ فرمایئے۔ (انتباہ ص ۹۱ پر لا إلہ إلا اللّٰہ کے تحت فرماتے ہیں "نیست ہیچ معبود دے و مقصودے و موجود لے مگر حق تعالیٰ مبتدی را ارادہ عوام بگوید نیست ہیچ معبودے، و متوسط را ارادہ خواص بگوید نیست ہیچ مقصودے، و منتہی را ارادہ اخص الخواص بگوید نیست ہیچ موجود دے۔")
اسی طرح "انفاس العارفین" میں شاہ ولی اللہ کے والد ماجد حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب فرماتے ہیں: "کفر شریعت دو معبود پندا اشتن است" اسی طرح ص۳۳ پر بھی ایسی عبارت ہے:
مولانا محمد یار پر کفر کا فتویٰ لگانے والے آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کے والد ماجد دو موجود حقیقی جاننے کو کفر حقیقی فرما رہے ہیں اس کے بعد دیوبندیوں کے مسلم بزرگ انور شاہ کشمیری کی عبارت سے محی الدین ابن عربی کی توثیق سنیے فیض الباری جلد اول ص 174 پر لکھتے ہیں:
((اما اھل العلم منھم فاکثرھا تتعلق بحل مسائل الصفات وغیرہ ونعمت الکشوف ھی))
یعنی حضرات صوفیاء کرام میں سے جو لوگ اہل علم ہیں ان میں اکثر حضرات امور الہیہ میں مسائل ذات و صفات سے تعلق رکھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب اور حضرت شیخ اکبر کی توثیق ہمارے جلیل القدر فقہائے کرام نے بھی فرمائی ہے دیکھیے "در مختار" جلد دوم ۳۰ مطبوعہ نول کشور لاہور میں شیخ اکبر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
((انہ کان رضی اللہ عنہ شیخ الطریقۃ حالاوعلما وامام الحقیقتہ حقیقتا واسما ومحی رسوم المعارف فعلا واسما۔))
الحاصل مولانا محمد یار صاحب کے اشعار کا مبنی مسئلہ وحدۃ الوجود ہے اگر وحدۃ الوجود کو شرکیہ عقیدہ کہا جائے تو تمام مشائخ دیوبند کافر و مشرک قرار پائیں گے کیونکہ وہ سب وحدۃ الوجود پر متشدد ہیں جیسا کہ انور شاہ کشمیری کی عبارت منقولہ بالا سے ثابت ہے پھر ان اشعار کی بنا پر اگر مولانا محمد یار صاحب کی تکفیر کی جائے تو حضرت شیخ اکبر کی عبارات منقولہ بھی بالکل مولانا موصوف کی عبارت جیسی ہے لہٰذا ان دونوں کی تکفیر بھی لازم آتی ہے شاہ ولی اللہ کا مخالفین کے نزدیک مسلم بزرگ ہونا اس قدر واضح ہے کہ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں اور شیخ اکبر رضی اللہ عنہ کی توثیق انور شاہ صاحب کشمیری اور صاحب در مختار کی عبارتوں سے ظاہر ہے لہٰذا شیخ اکبر علیہ الرحمہ کی تکفیر انور شاہ صاحب اور صاحب در مختار کی تکفیر کو مستلزم ہو گی کیونکہ کافر کی تکفیر فرض ہے اور اس کی توثیق حرام بلکہ کفر ہے نتیجہ ظاہر ہے کہ مولانا محمد یار صاحب کا دامن اس مسئلہ میں ایسے اکابر امت کے ساتھ وابستہ ہے کہ جن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب وتمت بالخیر (مقدمہ دیوان محمدی: ۲۰)۔

تبصرہ
قارئین کرام! بتایئے ان دلائل کی بنیاد پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا مانا جا سکتا ہے؟ نعوذ باللّٰہ من ذلک۔
یہ تو وہی کفر ہے جو عیسائیوں نے کیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ} (المائدہ:۷۲)
"بلاشبہ وہ کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے۔"
{لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّـهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ} (المائدہ:۷۳)
"یقیناً وہ کافر ہیں جنہوں نے کہا اللہ تین میں تیسرا ہے۔"
اللہ تعالیٰ نے نصاری کا کفر و شرک بیان فرمایا اور واضح فرمایا حلول اور تثلیث کا عقیدہ کفر ہے اور ان کے ماننے والوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ یہ عیسائیوں کا غلو تھا۔ اس افراط اور غلو نے عیسائیوں کے دین کو برباد کر دیا۔ اس لیے فرمایا:
{قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ} (المائدہ:۷۷)
"کہہ دیجئے اے اہل کتاب اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو۔"
جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ کو نبوت کے مقام سے ہٹا کر معبود بنا لیا اور گمراہ ہو گئے اس طرح سید احمد سعید کاظمی صاحب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا ثابت کرنے کے لیے صوفیاء کے حوالے دے کر یہ کہا کہ اس مسئلہ میں محمد یار صاحب کا دامن ایسے اکابر امت کے ساتھ وابستہ ہے کہ جن کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ نعوذ باللہ من ذالک۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ محمد اول مخلوق ہیں:
پاکستان میں سید احمد سعید کاظمی بریلوی مسلک کے امام ہو گزرے ہیں انہوں نے اپنی کتب کے ذریعے حقیقت محمدیہ کے نظریہ کو عام کیا۔ اپنی مشہور کتاب "تسکین الخواطر" میں مسئلہ حاضر و ناظر پر بحث کی ہے اس مسئلہ کو حقیقت محمدیہ کی بنیاد پر ثابت کیا ہے۔ علامہ جلال دوانی کی ایک عبارت پیش کی۔ لکھتے ہیں:
محقق دوانی فرماتے ہیں: اس مقام پر تحقیق کلام یہ ہے کہ تمام اصحاب نظر و برہان اور ارباب شہود و عیاں اس بات پر متفق ہیں کہ بوسیلہ قدرت و ارادہ خدائے قدوس امر "کن فیکون" سے سب سے پہلے جو گوہر مقدس دریائے غیب مکنون سے ساحل شہود پر آیا وہ جوہر بسیط نورانی تھا جسے حکماء (یونانی فلسفی) کے عرف میں عقل اول کہتے ہیں اور بعض احادیث میں قلم اعلیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اکابر ائمہ کشف و تحقیق (یعنی ابن عربی اور اس کے ساتھی صوفیا) اسے حقیقت محمدیہ کہتے ہیں۔ اس جوہر نورانی نے اپنے آپ کو اور اپنے خالق بے مثال کو اور ان تمام افراد موجودات کو جو بتوسط اس جوہر نورانی کے خالق بے مثال سے صادر ہو سکتے ہیں جس طرح وہ افراد موجودات سے پہلے تھے اور اب ہیں اور آئندہ ہوں گے سب کو جملہ کیفیات کے ساتھ بتمام و کمال جان لیا اور تمام حقائق موجودات بطور انطوائے علمی اسی جوہر بسیط نورانی (حقیقت محمدیہ) میں مندرج اور مخفی تھیں جس طرح دانہ ایک خاص طریقہ پر شاخوں پتوں اور پھلوں پر مشتمل ہوتا ہے کل افراد موجودات اسی ترتیب کے موافق جس کے ساتھ اس جوہر بسیط نورانی (یعنی حقیقت محمدیہ) میں پوشیدہ ہیں کمین گاہ قوت سے جلوہ گاہ فعل اور سرا پردہ غیب سے میدان شہود میں بصورت مواد خارجیہ ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ (اخلاق جلالی از محقق دوانی ص ۲۵۶۔)
جلال دوانی نے صوفیاء کی طرح اصطلاحات کا خوب استعمال کیا ہے اور ان کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہے کہ امت مسلمہ ان صوفیاء کی عبارت کو مشکل سمجھ کر اس عظیم سازش کو نہ جان سکیں جس کے ذریعے یہ اسلام کے بنیادی عقائد پر حملہ آور ہیں۔ اور یہ صوفیاء وحدۃ الوجود، حقیقت محمدیہ، قلم اعلیٰ، جوہر نورانی جیسی اصطلاحات کے ذریعے محبت رسول کی آڑ میں شرک و کفر کو اسلام کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اہل ایمان کے لیے ان کے کفر کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ جلال دوانی کی عبارت نقل کر کے سید احمد سعید کاظمی جن عقائد کو ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ ملاحظہ فرمایئے۔ لکھتے ہیں:
"اس ایمان افروز بیان سے تصریحات منقولہ بالا کی تائید کے علاوہ مندرجہ ذیل امور بھی واضح ہو گئے۔"
۱۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اول مخلوق ہیں۔
۲۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عقل اول اور قلم اعلیٰ ہیں۔
۳۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جوہر بسیط نورانی ہیں۔
۴۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات کے حقائق لطیفہ کے جامع ہیں۔
۵۔ حضور اللہ تعالیٰ کو بھی جانتے ہیں اور تمام موجودات و مخلوقات اور ان کے جمیع احوال کو بتمام و کمال جانتے ہیں۔ ماضی حال، مستقبل میں کوئی شیء کسی حال میں ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مخفی نہیں۔
۶۔ تمام موجودات خارجیہ کا ظہور حقیقت محمدیہ سے ہوتا ہے حتیٰ کہ ترتیب ظہور بھی وہی ہے جو حقیقت محمدیہ میں مستور ہے۔ (تسکین الخواطر از کاظمی، ص: ۵۰)
قارئین کرام! بتائیے کیا قرآن مجید کی کسی آیت میں یا حدیث رسول میں حقیقت محمدیہ کا تذکرہ ہے؟ یقینا نہیں!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۳۔ حقیقتِ محمدیہ نہ اولاد آدم میں شامل ہے اور نہ بشر ہے:
مفتی احمد یار خان نعیمی جو بریلویت کے مشائخ میں شمار ہوتے ہیں لکھتے ہیں :
"ایک ہے شخص محمدی دوسری ہے حقیقت محمدی یہ شخص محمدی اس جسم اطہر کا نام ہے جو آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ بی بی آمنہ کے بطن سے پیدا ہوا اور تمام نبیوں کے بعد اس دنیا میں جلوہ گر ہوا۔ جو اس دنیا میں اپنے تمام رشتوں سے منسلک ہے بی بی آمنہ کا نور نظر ہونا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سرتاج ہونا۔ اپنی اولاد کا والد ہونا۔ ان تمام رشتوں کے ساتھ جو آپ کی قرابت ہے یہ سب اسی بشری وجود کی صفات میں داخل ہیں حقیقۃ محمدیہ مشائخ صوفیہ کی اصطلاح میں ذات مطلق کے پہلے تعین کا نام ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی پہلی تجلی ہیں اور باقی جتنی مخلوق ہیں وہ پہلی تجلی کے بعد خدا کی دوسری تجلیات کی مظہر ہے وجود عنصری کی جہت سے آپ کے بارے میں قرآن میں اس طرح فرمایا گیا ہے: {قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ} "آپ فرما دیں کہ میں تم جیسا بشر ہوں۔" اور حقیقۃ محمدیہ کے بارے میں خود حضور علیہ السلام نے فرمایا: میں اس وقت نبی تھا جب کہ حضرت آدم آب و گل میں جلوہ گر تھے یہ حقیقۃ محمدیہ نہ اولاد آدم میں شامل ہے۔ نہ بشر ہے اور نہ مثلکم ہے اور نہ اسے کسی کا باپ نہ کسی کی اولاد کہہ سکتے ہیں بلکہ یہ حقیقۃ محمدیہ ساری کائنات کی اصل ہے… آپ کا نور ہونا، رب کی دلیل اور برہان ہونا اسی حقیقۃ محمدیہ کی صفات ہیں۔ حقیقۃ محمدیہ کی تشریح مثنوی میں کافی تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اور مولوی اشرف علی تھانوی نے بھی نشر الطیب میں حقیقت محمدیہ کو خوب اچھی طرح ثابت کیا ہے تفسیر روح البیان میں {هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ} کے تحت لکھا ہے کہ تمام روحیں روح محمدی سے پیدا ہوئیں لہٰذا حضور ابو الارواح ہیں۔ (رسالہ نور از مفتی احمد یار خان نعیمی بحوالہ اسلامائزیشن فلسفہ توحید اور وحدۃ الوجود کا تحقیقی مطالعہ)
ان بریلوی علماء نے حقیقت محمدیہ کو اول مخلوق، عقل اول اور جوہر بسیط نورانی قرار دیا۔ اور اللہ تعالیٰ کو تخلیق کائنات کے لیے علت مادیہ کا محتاج ثابت کیا۔ اہل تشیع کے نزدیک وہ مادہ اول جس سے اس ساری کائنات کا آغاز ہوا وہ نور محمدی اور انوار الائمہ ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے ائمہ اہل بیت اور ذات نبویہ بشریت اولاد آدم سے بالکل خارج ہو جاتے ہیں۔ اہل روافض کے ایک مشہور اسکالر ڈاکٹر کاظم علی نے "نورہ محمد اور ذرہ نور" میں یہی ثابت کیا ہے۔
جبکہ قرآن مجید ان تمام نظریات کا رد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس تخلیق کے لیے کسی مادے کا محتاج نہیں۔ اس کی شان یوں بیان فرمائی:
{إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَن يَقُولَ لَهُ كُن فَيَكُونُ} (یٰس:۸۲)
"جب وہ کسی بات کا ارادہ فرماتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔"
یعنی وہ کسی اول مادہ کا محتاج نہیں ہے۔ نہ اسے مٹیریل اور مشینوں کا اہتمام اور انتظام کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے کسی چیز کا محتاج نہیں۔ وہ صرف حکم دیتا ہے اور وہ ہو جاتی ہے۔ اس لیے فرمایا:
{قُلِ اللَّـهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ} (الرعد:۱۶)
"کہہ دیجئے اللہ ہی ہر چیز کا خالق ہے۔"
جب وہ ہر چیز کا خالق ہے تو کائنات کی ہر چیز اس کی مخلوق ہے۔ حقیقت محمدیہ کو مخلوق ماننے کی بجائے ذات مطلق کا پہلا تعین کہنا گمراہی ہے۔
بتایئے کہ قرآن مجید کی کسی آیت میں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان میں حقیقہ محمدیہ کا ذکر ہے؟ اور یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ بریلوی علماء کبھی حقیقۃ محمدیہ کو محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں اور کبھی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عنصری وجود پر حقیقت محمدیہ کا اطلاق کر کے حب رسول کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں کی اکثریت کو حب رسول کی آڑ میں شرک میں ملوث کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے شرک و کفر کو سمجھنے کی توفیق دے، آمین۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔ تمام کائنات حضور کے فیض کی محتاج ہے:
سید احمد سعید کاظمی اسی فلسفے کو آسان کر کے یوں بیان کرتے ہیں :
ہمارا مسلک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مبدأ کائنات ہیں۔ حضور فخر کائنات ہیں اور مجھے کہنے دیجئے کہ حضور علیہ السلام مقصود کائنات ہیں۔ صاحب روح المعانی نے عارفین کا ایک قول نقل کیا ہے کہ آپ "رحمۃ للعالمین" کیوں ہیں؟ فرماتے ہیں کہ وجہ یہ ہے حضور اقدس اصل ہیں اور تمام عالمین اس کی فرع- اصل کہتے ہیں جڑ کو۔ اور فرع کہتے ہیں شاخ کو۔ یہ بتاؤ جس درخت کی جڑ نہ ہو تو کیا شاخیں باقی رہیں گی۔ اگر درخت کی جڑ سوکھ جائے۔ شاخیں ہری رہیں گے درخت کی جڑ کو جلا دو تو شاخیں موجود رہیں گی نہیں بالکل نہیں۔ ارے درخت کی جڑ سے تو سارا کام ہوتا ہے۔ جڑ جو ہے تنے کو غذا پہنچا رہی ہے۔ پہلے جڑ تنے کو غذا پہنچاتی ہے پھر جڑ کی پہنچائی ہوئی غذا تنے سے موٹی موٹی شاخوں میں پہنچتی ہے پھر چھوٹی چھوٹی شاخوں میں پہنچتی ہے اور پھر پتوں میں پہنچتی ہے اور پھولوں میں پہنچتی ہے اور ثمر میں پہنچتی ہیں اس سے معلوم ہوا کہ سارا تنا اس جڑ کا محتاج ہے جب اس جڑ کا فیض جاری ہے تو شاخیں ہری ہیں اور جڑ کا فیض ختم ہو جائے تو شاخیں سوکھ جائیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات کے ذرے ذرے کے لیے اصل ہیں، اور اس کائنات کا ذرہ ذرہ اوپر ہے خواہ زمین کے نیچے ہے وہ ہواؤں میں ہے وہ فضاؤں میں ہے تحت میں ہے فوق میں ہے عرش میں ہے فرش میں ہے جہاں بھی کوئی زندہ ہے مصطفی کی جڑ کے لیے شاخ ہے آپ کا فیض اس طرح کائنات کے ذرے ذرے کو پہنچ رہا ہے جیسے جڑ کا فیض شاخ کے ہر جزو کو پہنچ رہا ہے میرا ایمان ہے کہ مصطفی اگر نہ ہوں تو کائنات زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ مر گئے تو ہم کیسے زندہ رہ گئے۔ (ذکر حبیب، ص: ۱۳، ۱۴۔)
اس عقیدہ میں سید احمد سعید کاظمی صاحب اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے مسلک کے دوسرے علماء بھی ان کی تائید کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔ مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں:
حضور علیہ السلام تمام کائنات کی اصل ہیں وکل الخلق من نوری اصل کا اپنی فرع میں اور مادے کا سارے مشتقات میں ایک کا سارے عددوں میں پایا جانا ضروری ہے۔
ہر ایک ان سے ہے وہ ہر ایک میں ہیں
وہ ہیں ایک علم حساب کے
بنے دو جہاں کے وہی بنا
وہ نہیں جو ان سے بنا نہیں (جاء الحق، ص: ۱۴۴۔)
احمد رضا خان بریلوی اس فلسفے کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: تمام جہان اور اس کا قیام سب انہیں کے دم قدم سے ہے یہ عالم جس طرح ابتدائے آفرنیش میں ان کا محتاج تھا کہ لولاک لما خلقت الافلاک یوں ہی اپنی بقا میں بھی ان کا محتاج ہے آج اگر وہ اپنا قدم درمیان سے نکال لیں تمام عالم ابھی ابھی فنائے مطلق ہو جائے۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا
وہ جو نہ ہوں گے تو کچھ نہ ہو گا
جان ہیں وہ جہان کی
جان ہے تو جہان ہے (الامن والعلی، ص: ۳۷)

تبصرہ
قارئین کرام! دیکھئے کس طرح جب رسول کی آڑ میں شرک پھیلایا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ} (یونس: ۴۹)
"آپ فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لیے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جتنا اللہ کو منظور ہو۔"
{قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا} (الجن:۲۱)
"کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے لیے کسی نقصان اور نفع کا اختیار نہیں۔"
{قُلْ إِنِّي لَن يُجِيرَنِي مِنَ اللَّـهِ أَحَدٌ وَلَنْ أَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا} (الجن:۲۲)
"کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا۔ اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی پا نہیں سکتا۔"
کائنات کے ذرے ذرے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کا محتاج کہنے والوں کے پاس ان آیات کا کیا جواب ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ اعلان کریں کہ میں اپنی جان کے لیے اور تمہارے لیے کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر عاشقانِ رسول یہ کہیں کہ آپ تمام کائنات کے مختارِ کل ہیں آپ کے در سے ساری دنیا کو رزق، اولاد، محبت اور مال و متاع تقسیم ہوتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔ حضور اکرم حاضر ناظر ہیں کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت محمدیہ کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری ہے:
سید احمد سعید کاظمی صاحب مسئلہ حاضر ناظر ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ موجود نہیں مانتے بلکہ آپ کی حقیقت محمدیہ کو کائنات کے ذرے ذرے میں جاری و ساری مانتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو لفظ حاضر و ناظر بولا جاتا ہے اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ آپ کی بشریت مطہرہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے موجود ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح روح اپنے بدن کے ہر جزو میں موجود ہوتی ہے اسی طرح روح دو عالم (روح الاکوان) صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت منورہ ذرات عالم کے ہر ذرہ میں جاری و ساری ہے جس کی بنا پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ (تسکین الخواطر، ص: ۱۳۔)
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضور کی جسمانیت اور بشریت مطہرہ کے ساتھ حاضر ناظر نہیں مانتے بلکہ حضور کی حقیقت مقدسہ کو ذات کائنات میں جاری و ساری مانتے ہوئے روحانی طور پر آپ کو حاضر و ناظر مانتے ہیں۔ (تسکین الخواطر، ص: ۸۰۔)
اس میں شک نہیں کہ نماز میں السلام علیک أیھا النبی کہنے کا حکم بھی اس امر پر مبنی ہے کہ جب حقیقت محمدیہ تمام ذرات کائنات میں موجود ہے تو ہر عبد مصلی کے باطن میں اس کا پایا جانا ضروری ہے۔ (ص ۴۵)
کاظمی صاحب نے روح الاکوان کی بنیاد پر مسئلہ حاضر و ناظر ثابت کیا پھر روح الاکوان کا مفہوم صوفیہ کی مشہور تفسیر عرائس البیان سے بیان کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ خالق کائنات نے اپنی کل مخلوقات میں جو چیز سب سے پہلے پیدا کی وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نور مبارک ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس نور کے ایک جزو سے عرش تا فرش تمام مخلوقات کو پیدا کیا۔ سب کا صدور و ظہور ان ہی کے نور سے ہے لہٰذا ان کا ہونا مخلوق کا ہونا ہے اور ان کا موجود ہونا وجود خلق کا موجب ہے۔۔۔ سب کے وجود کا سبب وہی ہیں۔۔۔
۲۔ قضاء قدرت میں تمام مخلوقات صورت مخلوقہ کی طرح بے جان اور روح حقیقی کے بغیر پڑی ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا انتظار کر رہی تھی جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عالم میں تشریف لائے تو تمام کائنات وجود محمدی سے زندہ ہو گئی اس لیے تمام مخلوقات کی روح (روح الاکوان) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے۔ (تسکین الخواطر:۴۳)

تبصرہ
بتایئے قرآن و سنت میں ان باتوں کی کوئی دلیل ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں آپ کی حقیقت منورہ جاری و ساری ہے جس کی بنا پر آپ اپنی روحانیت اور نورانیت کے ساتھ بیک وقت مقدر مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ اگر کائنات کے ذرہ ذرہ میں حقیقت محمدیہ جاری و ساری ہے تو پھر قرآن مجید کی ان آیات کا کیا مطلب ہے:
{ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ} (آل عمران:۴۴)
"یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں آپ اس وقت ان کے پاس موجود نہ تھے جب یہ قلمیں پھینک رہے تھے کہ ان میں سے کون مریم کا سرپرست بنے، اور نہ اس وقت موجود تھے جب وہ باہم جھگڑ رہے تھے۔"
{تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا} (ہود:۴۹)
"یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی کر رہے ہیں اس سے قبل نہ آپ اور نہ آپ کی قوم انہیں جانتی تھی۔"
جب آپ ماضی میں ہونے والے ان واقعات کو نہیں دیکھ رہے تھے تو یہ کہنا کیسے درست ہے کہ کائنات کے ذرہ ذرہ میں حقیقت محمدیہ جاری و ساری نہیں ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٦- حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آفتاب حیات سے ہر ایک کو حیات ملی ہے کیونکہ وہ اصل کائنات ہیں لہٰذا زندہ ہیں:
سید احمد سعید کاظمی نے اس عقیدے کو جس طرح بیان کیا ملاحظہ فرمائیں:
اس حیثیت سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اصل کائنات ہیں۔ آپ کی حیات مقدسہ وجود ممکنات کے آسمان کا چمکتا ہوا آفتاب ہے۔ مخلوقات کی تمام انواع و اقسام اور افراد بمنزلہ آئینوں کے ہیں۔ ہر آئینہ اپنے مقام پر مخصوص کیفیت اور جداگانہ قسم کی استعداد کا حامل ہے۔ اس لیے ہر فرد اپنے حسب حال اس آفتاب حیات سے اکتساب حیات کر رہا ہے۔ خلق و امر، اجسام و ارواح، اعیان و معانی، ارض و سما، تحت و فوق ان سب کا نور حیات اس آفتاب حیات محمدی کی شعائیں ہیں۔ البتہ عالم ممکنات کا اس معدن حیات سے قرب و بعد اور افراد کائنات میں استعداد کی قوت و ضعف مراتب حیات میں ضرور موجب تفاوت ہے نفس حیات سب میں پائی جاتی ہے۔ لیکن ہر ایک کی حیات اس کی حالت کے مناسب ہے۔ مومن ہو یا کافر، نیک ہو یا بد، ہر ایک کا مبدا فیض ذات نبویہ کا وجود ہے اور حضور ہی کے آفتاب حیات سے ہر ایک مومن میں حیات کی روشنی پائی جاتی ہے۔ آفتاب حیات اگر غروب ہو جائے تو تمام آئینے اپنے نور سے محروم ہو جائیں گے۔ ان تمام آئینوں میں نور کا پایا جانا آفتاب کے چمکنے کی دلیل ہے اس طرح عالم ممکنات کے کسی ایک ذرے میں نور حیات کا پایا جانا آفتاب حیات محمدی کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔ (حیات النبی ازکاظمی، ص: ۹۰۔)
احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
"اور نصوص متواترہ اولیاء کرام و ائمہ عظام و علماء اعلام سے مبرہن ہو چکا کہ ہر نعمت قلیل یا کثیر، صغیر یا کبیر جسمانی یا روحانی، دینی یا دنیاوی، ظاہری یا باطنی روز ازل سے اب تک، اب سے قیامت تک، قیامت سے آخرت تک۔ آخرت سے ابد تک، مومن یا کافر، مطیع یا فاجر، ملک یا انسان، جن یا حیوان، بلکہ تمام ما سوی اللہ جسے جو کچھ ملی یا ملتی ہے یا ملے گی انہیں کے ہاتھوں پر بٹتی ہے اور بٹے گی۔ یہ سرالوجود اور اصل وجود، خلیفہ اللہ اعظم اور ولی نعمت عالم ہیں۔" (جزاء اللّٰہ عدوہ، ص: ۲۳ بحوالہ فیصلہ کن مناظرہ ص۵۶۔)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عز وجل کے نائب مطلق ہیں۔ تمام جہان حضور کے تحت تصرف کر دیا گیا ہے، جو چاہیں کریں جسے جو چاہیں دیں جس سے جو چاہیں واپس لیں۔ تمام جنت ان کی جاگیر ہے “ملکوت السماوات والأرض” حضور کے زیر فرمان ہے جنت و دوزخ کی کنجیاں آپ کے دست اقدس میں دے دی گیں۔ (بہار شریعت: ۲۲ ج۱۔)
قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:
وجہ اس فرق کی وہی تفاوت حیات ہیں یعنی حیات نبوی بوجہ عرضیت قابل زوال نہیں اور حیات مومنین بوجہ عرضیت قابل زوال ہے اس لیے موت کے وقت حیات نبوی زائل نہ ہو گی ہاں مستور ہو جائے گی اور حیات مومنین ساری یا آدھی زائل ہو جائے گی سو درصورت تقابل عدو ملکہ اس استنار حیات میں آپ کی ذات کو تو مثل آفتاب سمجھیے کہ وقت کسوف اوٹ میں حسب مزعوم حکماء اس کا نور مستور ہو جاتا ہے زائل نہیں ہوتا یا مثل شمع چراغ خیال فرمایئے کہ جب اس کو کسی ہانڈی یا مٹکے میں رکھ کر اوپر سے سو پوش رکھ دیجیے تو اس کا نور بالبداہت مستور ہو جاتا ہے زائل نہیں ہوتا اور دوبارہ زوال حیات مومنین کو مثل قمر خیال کیجیے کہ وقت کسوف اس کا نور زائل ہو جاتا ہے۔ یا مثل چراغ سمجھیے کہ گل ہونے کے بعد اس میں نور بالکل نہیں رہتا البتہ روغن یا فتیلہ یا کسی قدر تھوڑی دیر فتیلہ کے سرے میں آتش باقی رہ جاتی ہے۔ (آب حیات: ۱۵۹۔)
مزید لکھتے ہیں:
"انبیاء علیہم السلام کے اموال میں میراث کا جاری نہ ہونا اور دوسروں کے اموال میں جاری ہونا اس امر پر شاہد ہے کہ ارواح انبیاء علیہم السلام کا ان کے ابدان سے اخراج نہیں ہوتا مثل نور چراغ اطراف و جوانب سے سمیٹ لیتے ہیں ان کے سوا دوسروں کی ارواح کو ان کے ابدان سے خارج کر دیتے ہیں اس لیے سماع انبیاء علیہم السلام بعد وفات زیادہ تر قرین قیاس ہے اور اسی لیے ان کی زیارت وفات کے بعد بھی ایسی ہے جیسے ایام حیات میں احیا ء کی زیارت ہوا کرتی ہے اور اس وجہ سے یوں نہیں کہہ سکتے کہ زیارت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثل زیارت مسجد زیارت مکان مکین ہے اور اسی وجہ سے "لا یشد الرحال" وہاں اہتمام سے جانا ممنوع ہے بلکہ وہ زیارت مکاں مکین ہے۔" (جمال قاسمی، ص ۱۶۔)
بریلوی علماء کی طرح دیوبندی علماء بھی حیات النبی کے قائل ہیں۔ قاسم نانوتوی صاحب کا نظریہ آپ نے ملاحظہ فرمایا۔ ایسے ہی نظریات کا اظہار محمد طاہر قاسمی صاحب عقائد اسلام قاسمی صفحہ ۷۴ پر کر رہے ہیں:
"یہ حیات النبی کا عقیدہ علماء دیوبند کے عقائد میں داخل ہے “المہند علیٰ المغند” علمائے دیوبند کے عقائد کی ایسی مستند کتاب ہے جس پر بہت سے علماء دیوبند کی تصدیقات موجود ہیں، اس میں یہ عقیدہ لکھا ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا جیسی ہے برزخی نہیں ہے۔” (المہند فی عقائد علماء دیوبند صفحہ ۷۰۔)
معروف دیوبندی عالم اخلاق حسین قاسمی صاحب لکھتے ہیں:
“حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب جو ہمارے اکابر میں ہیں حضرت محمد قاسم نانوتوی کے علوم و معارف کے بہترین شارح ہیں اس مسئلہ پر تحریر فرماتے ہیں:
"حضور کی حیات برزخی ہے مگر اس قدر قوی ہے کہ بلحاظ آثار وہ دنیوی بھی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بعد وفات حضور کے ہونٹوں کو حرکت ہوئی، جنازہ میں کلام فرمایا اور قبر میں کلام فرمایا جس کو بعض صحابہ نے سنا، یہ تو وفات کے فوری بعد ہے کہ روح نے جسم کو کلیتہ نہیں چھوڑا، لیکن بعد میں تا حشر بھی روح کا وہی تعلق بدن سے قائم رہے گا جیسا کہ بنص حدیث اجساد انبیاء کا مٹی پر حرام ہونا ثابت ہے۔ اگر ان ابدان میں کوئی روح نہیں ہے تو انہیں گل جانا چاہیے، پھر حیات کا یہ اثر عالم برزخ میں ہے، عالم دنیا میں یہ ہے کہ ان کے اموال میں میراث جاری نہیں ہوتی، ان کی ازواج پر بیوگی نہیں آتی، ان کے نکاح حرام ہوتے ہیں نہ صرف عظمت انبیاء کی وجہ سے بلکہ حقیقتاً حیات کی وجہ سے کہ وہ بیوہ ہی نہیں ہیں، پس انبیاء کی یہ برزخی حیات جسمانی و از قبیل دنیوی بھی ہے کہ اجساد میں حس و حرکت بھی ہے، قبروں میں عبادت بھی ہے، کلام بھی ہے، امت کی طرف توجہ بھی ہے، پھر یہی حیات از قبیل حیات برزخی بھی ہے کہ نگاہوں سے اوجھل ہے، ان کی آواز ان کانوں میں نہیں آتی اور کلام ان حسی کانوں میں نہیں پڑتا، نیز امت کے حال کی طرف توجہ اور رخ کا پھیرنا ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا، سو اس میں ہماری کمزوری کو یعنی ضعف قوی کو دخل ہے نہ کہ ان آثار کے موجود نہ ہونے یا قابل وجود نہ ہونے کا، بالفاظ مختصر دونوں حیاتیں اس طرح جمع ہیں کہ حیات برزخی اصل ہے اور حیات دنیوی اس کے تابع، یعنی وہ عیناً موجود ہے اور یہ آثارًا موجود ہے۔ اسی طرح دونوں حیات جمع ہو جاتی ہیں نہ استعارۃً بلکہ حقیقتاً۔” (حیاۃ النبی از اخلاق حسین قاسمی ص ۱۳۔)

تبصرہ
قارئین کرام! بتایئے قرآن مجید کی کس آیت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کس فرمان میں ان نظریات کی تائید ہوتی ہے، کیا صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ دین حیات ذاتی، حیات دنیوی یا حقیقت محمدیہ کی گمراہیوں سے واقف تھے؟ یقینا نہیں، پھر جو عقائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نہ تھے آج وہ ابن عربی اور دیگر صوفیا کی پیروی میں من گھڑت روایات کی بنیاد پر کیسے اسلامی ہو سکتے ہیں؟
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں، قبر میں کلام فرماتے ہیں، ان کی ازواج مطہرات بیوہ ہی نہیں ہوئیں تو پھر ان دلائل کا کیا جواب ہے:
۱۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ایک بندے کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا کہ وہ دنیا کی چمک دمک اور زیب و زینت میں سے جو چاہے لے لے یا اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کر لے تو اس بندے نے اللہ کے پاس جو کچھ ہے اسے اختیار کیا، یہ سن کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور فرمایا: ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان، اس پر ہمیں تعجب ہوا لوگوں نے کہا کہ اس بزرگ کو دیکھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندے کے بارے میں بتا رہے ہیں اور یہ کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ پر قربان، لیکن چند دن بعد واضح ہوا کہ جس بندے کو اختیار دیا گیا تھا وہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ابو بکر ہم میں سب سے زیادہ صاحب علم تھے۔" (بخاری:۳۹۰۴۔ مسلم: ۲۳۸۲۔)
اگر آپ فوت ہی نہیں ہوئے تو ابو بکر کا رونا اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
۲۔ اگر رسول اللہ قبر سے کلام فرماتے ہیں اور امت کی طرف توجہ بھی ہے تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کیا مطلب رکھتا ہے کہ اس دن سے تابناک اور بہترین دن کوئی نہ تھا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے اور کوئی دن اس سے زیادہ تاریک نہ تھا جس دن آپ نے وفات پائی۔ (ابن ماجہ: ۱۶۳۱۔)
۳۔ اگر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح بدن سے خارج نہیں ہوئی تو پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے سرگوشی کی اور بتایا کہ آپ اپنے اسی مرض سے وفات پا جائیں گے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے کیوں لگ گئی تھیں؟ اور آپ کی وفات کے بعد شدت غم سے انس رضی اللہ عنہ سے کیوں کہا کہ تم نے کس دل سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر مٹی ڈالی۔ (بخاری: ۴۴۳۳، مسلم: ۲۴۵۰۔ مسلم: ۴۴۶۲۔)
۴۔ اگر آپ فوت ہی نہیں ہوئے تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اعلان کے جواب میں کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک وفات نہیں پائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ منافقین کو فنا نہ کر دے۔" سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مشہور خطبہ کا کیا مطلب ہے، جس میں آپ نے فرمایا:
((أما بعد: من کان منکم یعبد محمداً فإن محمداً قد مات، ومن کان منکم یعبد اللّٰہ فإن اللہ حی لا یموتُ۔))
"اما بعد! تم میں سے جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوجا کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی موت واقع ہو چکی ہے اور تم میں سے جو شخص اللہ کی عبادت کرتا تھا تو یقینا اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے، کبھی نہیں مرے گا، پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تلاوت کی:
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّـهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّـهُ الشَّاكِرِينَ} ( آل عمران:۱۴۴)
"اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف رسول ہی ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول ہو چکے ہیں۔ کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید ہو جائیں تو تم اسلام سے اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو ہرگز اللہ تعالیٰ کا کچھ نہ بگاڑے گا عنقریب اللہ تعالیٰ شکر گزاروں کو نیک بدلہ دے گا۔"
اس آیت کو سن کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کیوں کہتے ہیں؟
واللہ! ایسا لگتا تھا کہ لوگوں نے اس سے پہلے جانا ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے یہاں تک کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سارے لوگوں نے یہ آیت لے لی اور ہر انسان اس کی تلاوت کر رہا تھا۔
اور اس آیت کو سن کر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کیوں کہتے ہیں؟
واللہ! میں نے جوں ہی ابو بکر کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا تو جان گیا کہ یہ برحق ہے، پس میں ٹوٹ کر رہ گیا، حتیٰ کہ میرے پاؤں مجھے سہار ہی نہیں رہے تھے، اور میں زمین کی طرف لڑھک گیا اور میں جان گیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی۔ (بخاری: ۴۴۵۴)
 
Top