- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
غلط فہمی
میرے آقا نے فرمایا:
((اعطیت مفاتیح خزائن الارض))
"اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرما دیں۔" (بخاری و مسلم)
کنجی کے معنی اختیار کے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب کو عطا فرما دیئے حضور جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں۔
ازالہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ} (الأنعام:۵۰)
"اے نبی تم کہہ دو کہ میں نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔"
آیت میں اللہ کے دیئے گئے خزانوں کی نفی ہے جس سے ذاتی اور عطائی کی تاویل کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ یہ ناممکن ہے کہ قرآن جس کی نفی کرے حدیث میں اس کا ثبوت ہو۔
اس حدیث سے مراد فتوحات مصر و شام وغیرہ ہیں۔ اور خزانوں سے مراد مال و دولت ہے جیسا کہ حدیث کے آخری ٹکڑے میں آیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((وَقَدْ ذَہَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَاَنْتُمْ۔))
"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے ہیں اور تم انہیں (یعنی خزانوں کو ) اکٹھا کر رہے ہو۔" (صحیح بخاری، ح: ۶۹۷۷)
اور اس مفہوم کو واضح طور پر سورت یوسف میں دیکھا جا سکتا ہے جب اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام {اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ} (یوسف: ۵۵) کہتے ہیں تو کون سے خزانے ہیں جو یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر سے مانگ رہے ہیں، یہاں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دیئے ہیں، آپ جسے جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کو ایمان کی دولت کیوں نہ دے سکے؟ ملاحظہ فرمائیں۔
جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اس کے قریب ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا جان لا الہ الا اللّٰہ کہہ دیجئے میں اللہ کے ہاں آپ کے کلمہ کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ کہنے لگے کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمجھاتے رہے اور وہ دونوں اُسے روکتے رہے۔ آخرکار ابو طالب نے کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں، اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو تاکہ اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تھا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھیں ضرور ٹھنڈی کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ضرور تیرے لیے اپنے رب سے استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ اللہ منع نہ فرمائے۔ چنانچہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} (التوبہ:۱۱۳)
"نبی اور مومنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات واضح ہو چکی کہ مشرک جہنمی ہوتے ہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت بھی نازل فرمائی۔
{إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} (القصص: ۵۶)
"اے نبی جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو جسے چاہتا ہے یدایت سے نوازتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔" (بخاری ۴۷۷۲، مسلم ۲۵۔۲۴)
قرآن مجید کی اس آیت پر غور فرمائيے۔
{وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ} (یوسف:۱۰۳)
"اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔"
یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: (( ما شاء اللّٰہ و شئت)) جو اللہ اور آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ نے فرمایا: "تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا۔ بلکہ کہو جو اللہ اکیلا چاہے۔ (وہی ہوتا ہے)" (مسند احمد ۱۸۳۹،۱؍۲۱۴)
یہ کہنا کہ علم، اولاد، ایمان غرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر نعمت اللہ دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اسے بانٹتے ہیں۔ کیا یہ آیت اور حدیث اس نظریہ کی واضح تردید نہیں کر رہی؟
میرے آقا نے فرمایا:
((اعطیت مفاتیح خزائن الارض))
"اللہ تعالیٰ نے زمین کے تمام خزانوں کی چابیاں مجھے عطا فرما دیں۔" (بخاری و مسلم)
کنجی کے معنی اختیار کے ہیں اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب کو عطا فرما دیئے حضور جس کو جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں۔
ازالہ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ} (الأنعام:۵۰)
"اے نبی تم کہہ دو کہ میں نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔"
آیت میں اللہ کے دیئے گئے خزانوں کی نفی ہے جس سے ذاتی اور عطائی کی تاویل کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔ یہ ناممکن ہے کہ قرآن جس کی نفی کرے حدیث میں اس کا ثبوت ہو۔
اس حدیث سے مراد فتوحات مصر و شام وغیرہ ہیں۔ اور خزانوں سے مراد مال و دولت ہے جیسا کہ حدیث کے آخری ٹکڑے میں آیا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((وَقَدْ ذَہَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَاَنْتُمْ۔))
"اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے ہیں اور تم انہیں (یعنی خزانوں کو ) اکٹھا کر رہے ہو۔" (صحیح بخاری، ح: ۶۹۷۷)
اور اس مفہوم کو واضح طور پر سورت یوسف میں دیکھا جا سکتا ہے جب اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام {اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ} (یوسف: ۵۵) کہتے ہیں تو کون سے خزانے ہیں جو یوسف علیہ السلام بادشاہ مصر سے مانگ رہے ہیں، یہاں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرما دیئے ہیں، آپ جسے جو چاہیں عطا فرمائیں اور جس کو چاہیں نہ دیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کو ایمان کی دولت کیوں نہ دے سکے؟ ملاحظہ فرمائیں۔
جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ اس کے قریب ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے چچا جان لا الہ الا اللّٰہ کہہ دیجئے میں اللہ کے ہاں آپ کے کلمہ کی گواہی دوں گا۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ کہنے لگے کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسے سمجھاتے رہے اور وہ دونوں اُسے روکتے رہے۔ آخرکار ابو طالب نے کلمہ پڑھنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں، اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو تاکہ اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تھا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تیری آنکھیں ضرور ٹھنڈی کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ضرور تیرے لیے اپنے رب سے استغفار کرتا رہوں گا جب تک کہ اللہ منع نہ فرمائے۔ چنانچہ اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی :
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} (التوبہ:۱۱۳)
"نبی اور مومنوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر یہ بات واضح ہو چکی کہ مشرک جہنمی ہوتے ہیں۔"
اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت بھی نازل فرمائی۔
{إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} (القصص: ۵۶)
"اے نبی جسے آپ چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ جو جسے چاہتا ہے یدایت سے نوازتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔" (بخاری ۴۷۷۲، مسلم ۲۵۔۲۴)
قرآن مجید کی اس آیت پر غور فرمائيے۔
{وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ} (یوسف:۱۰۳)
"اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں ان میں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔"
یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: (( ما شاء اللّٰہ و شئت)) جو اللہ اور آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ نے فرمایا: "تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا۔ بلکہ کہو جو اللہ اکیلا چاہے۔ (وہی ہوتا ہے)" (مسند احمد ۱۸۳۹،۱؍۲۱۴)
یہ کہنا کہ علم، اولاد، ایمان غرض یہ کہ دین و دنیا کی ہر نعمت اللہ دیتا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اسے بانٹتے ہیں۔ کیا یہ آیت اور حدیث اس نظریہ کی واضح تردید نہیں کر رہی؟