• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حب رسول کی آڑ میں مشرکانہ عقائد

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۷۔ حضور عالم الغیب ہیں:
مفتی احمد یار خان صاحب لکھتے ہیں:
((ھو علیہ السلام لا یخفی علیہ شیء من الخمس المذکورۃ فی الآیۃ وکیف یخفی ذلک والا قطاب السبعۃ من امتہ یعلمونھا وھم دون الغوث فکیف بسید الا ولین والا خرین الذی ھو سبب کل شیء ومنہ کل شیء۔))
قرآن میں ہے کہ پانچ چیزوں کا علم کوئی نہیں جانتا۔ ہاں حضور اقدس سے ان پانچ چیزوں کا علم مخفی نہیں رہ سکتا۔ آپ کی شان تو بہت اونچی ہے بلکہ آپ کی امت کے سات اقطاب بھی ان پانچ چیزوں کا علم رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اقطاب غوث کے مقام سے کم درجہ رکھتے ہیں تو بتلایئے اس علم میں غوث کی کیا شان ہو گی۔ جب آپ کی امت کے غوث اور اقطاب بھی ان چیزوں کا علم رکھتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی رہ سکتا ہے۔ اس لیے کہ آپ سید الأولین والآخرین ہیں اور آپ کا وجود اقدس تخلیق کائنات کا باعث ہے۔ صرف باعث ہی نہیں بلکہ اصل کائنات ہونے کی وجہ سے تمام کائنات آپ کے وجود سے ظاہر ہوئی ہے۔ (جا ء الحق، ص: ۱۰۶۔)

تبصرہ
بریلوی علماء ان آیات پر غور کیوں نہیں کرتے؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ} (النمل:۶۵)
"کہہ دو جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں غیب کی باتیں نہیں جانتے سوائے اللہ کے اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔"
سید البشر محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا:
{وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ} (الأنعام:۵۰)
"اور نہ میں غیب کی باتیں جانتا ہوں۔"
اور فرمایا :
{وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ} (الأعراف:۱۸۸)
"اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔"
اللہ تعالیٰ کے علم میں کسی دوسرے کو شریک سمجھنا شرک فی العلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ نے قرب قیامت کی علامات، دجال کی آمد اور نزول عیسیٰ سمیت بہت سے واقعات بیان فرمائے اور جب اللہ نے اطلاع نہیں دی تو:
۱: آپ نے اس منافق کے ساتھ ستر جلیل القدر صحابہ بھیج دیئے جس نے کہا تھا کہ اسے تبلیغ اسلام کے لیے مبلغین چاہئیں اور راستہ میں اس نے دھوکہ سے سب صحابہ کرام رحمھم اللہ کو شہید کروا دیا۔ (صحیح بخاری:۴۰۹۰، مسلم:۶۷۷)
۲: آپ نے ایک یہودی کے ہاں زہر آلود کھانا کھا لیا جس سے ایک صحابی موقع پر شہید ہو گئے اور وفات کے وقت زہر نے آپ پر بھی اثر دکھایا۔ (ابوداؤد:۲۶۱۷، مسلم:۲۱۹۰)
۳: منافقین نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی۔ آپ ایک ماہ تک سخت پریشان رہے۔ ایک ماہ بعد اللہ نے بذریعہ وحی عائشہ رضی اللہ عنہا کو بری کیا اور آپ کی پریشانی دور ہوئی۔ (بخاری: ۴۷۵۰)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۸۔ حضور کائنات کے ذرہ ذرہ کے لیے رحم فرمانے والے ہیں:
سید احمد سعید کاظمی صاحب قرآن مجید کی آیت کو اپنے مسلک کی بنیاد بناتے ہیں:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ} (الأنبیاء: ۱۰۷)
"اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔"
اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"خلاصتہ الکلام یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام کائنات، کل مخلوق، ایک ایک ذرہ، ایک ایک قطرہ، اللہ کے سوا ہر شے کے لیے رحم فرمانے والے ہیں۔ کسی رحم کرنے والے کے لیے چار باتیں لازم ہیں:
۱: سب سے پہلے یہ امر لازم ہے کہ رحم کرنے والا زندہ ہو مردہ نہ ہو کیونکہ مردہ رحم نہیں کر سکتا۔ وہ خود رحم کا طالب و مستحق ہوتا ہے لہٰذا اگر حضور علیہ السلام معاذ اللہ زندہ نہ ہوں تو رحمۃ للعالمین نہیں ہو سکتے جب آیۃ قرآنیہ سے حضور علیہ السلام کا رحمۃ للعالمین ہونا ثابت ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زندہ ہونا ثابت ہو گیا۔
۲: دوسری بات یہ کہ صرف زندہ ہونے سے کسی پر رحم نہیں کیا جاسکتا جب تک رحم کرنے والا مرحوم کے حال کا عالم نہ ہو کیونکہ بے خبر کسی پر کیا رحم کرے گا۔ آیت قرآنیہ کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں تو جب تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام عالمین کا ماسوی اللہ جمیع کائنات و مخلوقات کو نہ جانیں اور جمیع "ما کان وما یکون" کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ہو تو اس وقت تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین نہیں ہو سکتے جب حضور علیہ السلام کا رحمۃ للعالمین ہونا ثابت ہے تو تمام کائنات کے احوال کا عالم ہونا بھی ثابت ہو گیا ہے۔
۳: تیسری بات یہ ہے کہ صرف عالم ہونے سے کسی پر رحم نہیں کیا جا سکتا جب تک رحم کرنے والا مرحوم تک اپنی رحمت و نعمت پہنچانے کی قدرت و اختیار نہ رکھتا ہو اس سے معلوم ہوا قدرت و اختیار کا ہونا بھی ر حم کرنے کے لیے ضروری ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات اور کل کائنات کے لیے علی الاطلاق راحم ہیں تو ہر ذرہ کائنات تک رحمت و نعمت پہنچانے کی قدرت و اختیار بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حاصل ہے۔
۴: چوتھی بات یہ ہے کہ صرف قدرت و اختیار سے کام نہیں چلتا۔ کسی رحم کرنے والے کے لیے یہ بات بھی ضروری ہے کہ رحم کرنے والا مرحوم کے قریب ہو یہ بات تو ایک مثال کے ذریعے یوں سمجھیے کہ مثلا آپ تین فرلانگ کے فاصلے پر کھڑے ہیں اچانک کیا دیکھتے ہیں ایک خونخوار دشمن نے آپ کے مخلص دوست پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ چلا کر آپ سے رحم کی درخواست کرنے لگا آپ اس کی مدد کے لیے دوڑے اور خلوص قلب سے اس پر رحم کرنے کے لیے آگے بڑھے مگر آپ کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن نے اسے ہلاک کر دیا۔ اب غور کریں آپ زندہ بھی ہیں اور اس دوست کو بچشم خود ملاحظہ بھی فرما رہے ہیں اس کے حال سے بھی واقف ہیں۔ رحم کرنے کی قدرت و اختیار بھی آپ کو حاصل ہے لیکن اپنے اختیار سے رحم نہیں کر سکتے صرف اس وجہ سے کہ وہ مخلص دوست آپ سے دور ہے اور آپ اس سے دور ہیں۔ آپ اپنی حیات، قدرت و اختیار کے باوجود بھی اس پر رحم نہیں کر سکتے معلوم ہوا کہ رحم کرنے کے لیے راحم کا مرحوم کے قریب ہونا بھی ضروری ہے اس آیت قرآنیہ سے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تمام جہانوں اور مخلوقات کے ہر ذرے کے لیے راحم ہونا ثابت ہو گیا تو یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی روحانیت و نورانیت کے ساتھ تمام کائنات کے قریب ہیں اور ساری کائنات حضور کے قریب ہے اگر یہاں یہ شبہ کیا جائے کہ ایک ذات تمام جہانوں کے قریب کیسے ہو سکتی ہے ایک فرد کسی ایک کے قریب تو ہو گا اس کے علاوہ باقی سب سے دور ہو گا۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ فرد واحد افراد کائنات میں ہر ایک کے قریب ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن دو کے درمیان نزدیکی مقصود ہے اگر وہ دونوں کثیف ہوں تو واقعی ایسا ہی ہو گا کہ فرد واحد افراد مختلفہ فی الزمان و المکان سے بیک وقت قریب نہیں ہو سکتا۔ اور دونوں لطیف ہوں یا دونوں میں سے ایک لطیف ہو تو جو لطیف ہو گا تو بیک وقت تمام موجودات کائنات کے قریب ہو سکتا ہے جس میں کوئی شرعی یا عقلی استحالہ لازم نہیں آتا۔ اس لیے حضور کا تمام افراد ممکنات سے قریب ہونا بالکل واضح اور روشن ہے ہم کثیف سہی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو لطیف ہیں لہٰذا حضور کا ہم سے قریب ہونا کوئی دشوار عمل نہیں۔ آواز کی لطافت کا یہ حال ہے کہ جہاں تک ہوا جا سکتی ہے آواز بھی وہاں تک پہنچ سکتی ہے۔ لیکن حضور آواز اور ہوا سے بھی زیادہ لطیف ہیں ہوا اپنے مقام محدود سے آگے نہیں بڑھ سکتی اور آواز ہوا سے آگے نہیں جا سکتی لیکن جہاں آواز اور ہوا بھی نہ جا سکے، آواز اور ہوا تو کیا، یوں کہیے کہ جہاں حضرت جبرائیل کا بھی گزر نہ ہو سکے وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ جاتے ہیں بلکہ جہاں زمانہ اور مکان بھی نہ پایا جا سکے وہاں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پائے جاتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو شب معراج کا واقعہ سامنے رکھ لیجئے جس سے آپ کو ہمارے بیان کی پوری تصدیق ہو جائے گی لہٰذا ایک آیت سے پانچ مسائل وضاحت کے ساتھ ثابت ہو گئے یعنی حضور علیہ السلام تمام عالموں کے لیے رحمت فرمانے والے ہیں لہٰذا زندہ ہیں اور تمام کائنات کے حالات و کیفیات کے عالم بھی ہیں اور ساتھ ہی ہر عالم کے ہر ذرے پر اپنی رحمت اور نعمت پہنچانے کی قدرت اور اختیار بھی رکھتے ہیں اس کے ساتھ تمام عالم کو محیط اور تمام کائنات کی ہر شے سے قریب بھی ہیں، نیز ایسے روحانی، نورانی اور لطیف ہیں کہ جس کی بنا پر آپ کا کسی ایک چیز کے قریب ہونا دوسری سے بعید ہونے کو مستلزم نہیں۔ بلکہ بیک وقت تمام افراد عالم سے یکساں قریب ہیں۔" (مقالات کاظمی، ص: ۹۹،ج۱)
نیز لکھتے ہیں:
"جب وہ رحمتہ للعالمین ہونے کی وجہ سے روح دو عالم ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ عالم کا کوئی فرد یا جزو اس رحمت مقدسہ سے خالی ہو جائے۔ لہٰذا ماننا پڑے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین ہو کر روح کائنات ہیں اور عالم کے ہر ذرے میں روحانیت محمدیہ کے جلوے چمک رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کی یہ جلوہ گری علم و ادراک اور نظر و بصر سے معرّٰی ہو کر نہیں ہو سکتی کیونکہ روحانیت و نورانیت ہی اصل ادراک اور حقیقت نظر و بصر ہے لہٰذا ثابت ہو گیا کہ عرش سے فرش تک تمام مخلوقات و ممکنات کے حقائق لطیفہ پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں اس مضمون کو ذہن نشین کر نے کے بعد یہ امر خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ علماء عارفین اور اولیاء کاملین نے جو حقیقت محمدیہ کو تمام ذرات کائنات میں جاری و ساری بتایا ہے ان کا اصل یہی آیۃ مبارکہ ہے۔" (تسکین الخواطر، ص: ۴۴)

تبصرہ
ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمہ اللہ: {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ} کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
((وَاَولیَ القولین فی ذالک بالصَواب القول الذی روی عن ابن عباس وہو ان اللّٰہ أرسل بنبیہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃً لجمیع العالم مؤمنہم وکافرہم فاما مؤمنہم فان اللّٰہ ہداہ بہ وادخلہ بالایمان بہ والعمل بما جاء من عنداللّٰہ الجنۃ واما کافر ہم فانہ دفع بہ عنہ عاجل البلاء الذی کان ینزل بالا مم المکذبہ رسلہَا من قبل۔))
اور ان دونوں باتوں میں سے (کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف مومنین کے لیے رحمت ہیں یا کافر و مومن سب کے لیے) زیادہ صحیح بات وہ ہے جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سارے جہاں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا۔ یعنی مومنین کے لیے بھی اور کفار کے لیے بھی۔ پس مومنین کے لیے رحمت یہ ہے کہ انہیں آپ کے ذریعے ہدایت نصیب ہوئی اور وہ ایمان کے حامل بنے اور جو دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اس پر عمل کیا اس طرح اللہ نے انہیں جنت میں داخل کیا اور کفار کے لیے رحمت یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب اچانک نہیں آئے گا جو پہلی قوموں پر رسولوں کی تکذیب کے نتیجے میں ناگہانی طور پر نازل کیا جاتا تھا۔ (جامع البیان فی تفسیر القرآن ص ۸۳ شائع کردہ دارالمعرفہ للطباعۃ وانشر بیروت البنان)
قارئین کرام! سیرت رسول کا ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ کاظمی صاحب نے جو کچھ بھی بیان کیا ہے وہ محمد بن عبد اللہ کی صفات نہیں ہیں۔ کاظمی صاحب کا یہ فرمانا کہ امت محمدیہ کے نزدیک یہ امر قطعی ہے کہ {وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ} میں کاف خطاب سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں بالکل درست ہے۔ مگر کون محمد رسول اللہ؟ امت کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہیں۔ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں سے کوئی ایک بھی اس سے مراد حقیقت محمدیہ نہیں لیتا۔ وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں۔ آپ پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ جس نے آپ کی بات کو قبول کیا اور ایمان لے آیا گویا اس نے اس رحمت کو قبول کر لیا۔ اور وہ دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہوا۔ اور آپ ان کے لیے بھی اس معنی میں رحمت ہیں جنہوں نے آپ کے دین کو قبول نہ کیا کہ وہ قوم نوح اور قوم لوط کی طرح بالکل تباہ برباد نہیں کیے جائیں گے حقیقت محمدیہ اور وحدۃ الوجود جیسے عقائد سے صحابہ، تابعین اور سلف صالحین بری ہیں۔
"رحمۃ للعالمین" کا یہ مفہوم قرآن میں ہے نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رحمھم اللہ کو سکھایا اور نہ صحابہ رحمھم اللہ اور ائمہ اہل سنت نے اس پر عمل کیا کہ آپ کو مشکل کشا جان کر "أغثنی یا رسول اللّٰہ" کے نعرے لگائے جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کی بخشش کروانے کی کوشش کی مگر اللہ نے سفارش کو قبول نہ کیا۔ ملاحظہ فرمائیں۔
عبداللہ بن ابی جب فوت ہوا تو اس کا بیٹا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ مجھے اپنا خاص پہنا ہوا کرتا عنایت فرمائیں تاکہ میں اس میں اپنے والد کو کفناؤں۔ آپ نے انہیں اپنا کرتہ مبارک عطا فرمایا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک اور گزارش کی کہ آپ خود اس کا نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ نے ان کی یہ گذارش بھی قبول فرمائی اور اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہو ئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا آپ اس کا نماز جنازہ پڑھائیں گے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اور یہ آیت تلاوت کی:
{اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ} (التوبہ:۸۰)
"آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا) اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے اختیار دیا ہے میں ستر سے بھی زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یا رسول اللہ یہ منافق تھا۔ تاہم رسول اللہ نے صحابہ کرام کے ساتھ اس کی نماز جنازہ پڑھی، جس پر یہ آیت نازل ہوئی:
{وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ} (التوبہ:۸۴)
"اور ان منافقوں میں سے کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز (جنازہ) پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔" (بخاری:۴۶۷۰،۴۶۷۱، مسلم:۲۷۷۴)
ان دلائل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سید احمد سعید کاظمی نے رحمۃ اللعالمین کی بنیاد پر جو کچھ بیان کیا ہے قرآن و سنت اس کی تائید نہیں کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۹۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے قرآن کا علم جانتے تھے:
مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
"ہماری اس تحریر پر بعض افراد کی طرف سے ایک شبہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے سب کچھ لے سکتے ہیں تو پھر ان کے اور رب کے درمیان جبرائیل کا واسطہ کیوں رکھا گیا اور وحی کا سلسلہ کیوں قائم کیا گیا۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
{نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ} (الشعراء)
"حضرت جبرئیل نے یہ قرآن آپ کے دل پر اتارا۔"
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم بلا واسطہ رب سے کچھ نہیں لے سکتے ایسے ہی رسول بلا واسطہ اس سے کچھ نہیں لے سکتے۔ وہ حضرات ایک اور رسول کے حاجت مند ہیں جنہیں شریعت کی زبان میں روح القدس یا جبرئیل کہتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم نے حضرت جبرئیل اور ان کے معاونین فرشتوں کو رسول بتایا۔
اس شبہ کا ازالہ: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وحی کی آمد اور جبرئیل کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر آنا قانون کے اجرا کے لیے ہے نہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کے لیے رب تعالیٰ نے حضور کو پہلے ہی سب کچھ سکھا پڑھا کر بھیج دیا مگر قوانین الٰہی کا بندوں میں اجراء اس وقت ہو گا جب بذریعہ وحی قانون نازل فرمایا جائے گا اس کے چند دلائل یہ ہیں۔ ایک یہ کہ رب العالمین نے قرآن کریم کی تعریف اس طرح فرمائی ھدی للمتقین یہ قرآن پرہیز گاروں کا ہادی ہے یعنی اے محبوب تمہارا ہادی نہیں تم تو پہلے ہی ہدایت یافتہ ہو کہیں ھدی لک نہ فرمایا کہ یہ قرآن آپ کے لیے ھدایت ہے۔
دوسرے یہ کہ نزول قرآن کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف کے چالیس سال کے بعد شروع ہوا مگر حضور کی چالیس سالہ زندگی صدق و امانت، راست گفتاری و پاکبازی کا مرقع تھی۔حتیٰ کہ کفار نے آپ کو "أمین وصادق الوعد" کا خطاب دے رکھا تھا اگر آپ کی ہدایت نزول قرآن پر موقوف ہوتی تو آپ کے یہ چالیس سال اپنے ماحول کے مطابق عام اہل عرب کے مطابق گزرتے اور احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس دراز مدت میں کفر و شرک تو کیا کبھی کھیل کود تماشوں، شراب اور جھوٹ وغیرہ کے بھی قریب نہ گئے۔
تیسرے یہ کہ جب پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت سرکار غار حرا میں ۶ ماہ سے اعتکاف، نماز، سجدہ و رکوع وغیرہ عبادت میں مشغول تھے، غورکیجئے کہ اس زمانے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عبادتیں کس سے سیکھیں تھیں۔
چوتھے یہ کہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کا تحفہ معراج کی رات لامکان میں پہنچ کر عطا ہوا اور معراج کے سویرے فجر کی نماز نہ پڑھائی گئی۔ ظہر کے وقت سے متواتر دو روز تک جبرائیل امین حاضر ہوتے رہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر وقت کی نماز پڑھاتے رہے تب نماز پنچگانہ جاری کی گئی مگر یہ بھی غور کیا کہ معراج کی رات فرش سے عرش پر جاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں سارے انبیاء کرام کو نماز پڑھائی اس طرح آپ امام ہوئے اور سارے انبیاء مقتدی۔ جن میں بعض موذن اور بعض مکبر بنے۔ غور تو کرو نماز لینے جارہے ہیں مگر نماز پڑھا کر جا رہے ہیں اور کن کو نماز پڑھائی۔ ما و شما کو نہیں بلکہ ان انبیاء کرام کو جو اپنی امتوں کو نماز پڑھاتے، بتاتے اور سکھاتے رہے اور یہ مسئلہ معلوم ہونا چاہیے کہ نماز کا امام شرعا وہ ہوتا ہے جو تمام مقتدیوں سے زیادہ نماز کے مسائل سے واقف ہوتا ہے۔
پانچویں یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی بواسطہ جبرئیل علیہ السلام نہ ہوتی تھی وحی کا بیشتر حصہ وہ ہے جو بلا واسطہ جبرئیل حضور پر القا ہوتا تھا رب تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾} (سورة النجم)
"ہمارے محبوب اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے وہ سب وحی الٰہی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔"
اور ظاہر ہے کہ ہر کلام پر جبرئیل امین وحی لے کر نہ آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾} (سورة النجم)
"پھر ہمارے محبوب قریب سے قریب ہوئے چنانچہ پھر دو کمانوں میں ہو گئے
پھر رب نے اپنے بندے کو جو وحی کی سو کی۔"
ظاہر بات یہ ہے کہ اس قرب خاص کے وقت جو وحی کی گئی وہاں جبرئیل امین کا گمان و خیال بھی نہ پہنچ سکا
غنچے ما اوحی کے وہ چٹکے دنا کے باغ سے
بلبل سدرہ تک ان کی بو سے محروم ہیں
بہرحال یہ ماننا ہی پڑے گا کہ رب العالمین اور محبوب کے درمیان جناب جبرئیل امین کی آمد و رفت اور وحی کا سلسلہ اجراء قوانین کے لیے ہے نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محض علم کے لیے۔ ورنہ پھر جیسے ہم حضور کے امتی ہیں حضور جبرائیل کے امتی ہوئے اور جیسے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں حضور جبرئیل امین کا کلمہ پڑھتے۔ (رسائل نعیمہ، ص: ۲۵۳۔)

تبصرہ
قارئین کرام! بخاری و مسلم میں وحی کے آغاز کا قصہ موجود ہے، اس قصہ پر غور فرمایئے یہ قصہ مفتی نعیمی صاحب کی غلط فہمی کا بہترین ازالہ پیش کر رہا ہے:
"ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تھے کہ آپ کے پاس وحی لے کر جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا پڑھ، آپ نے فرمایا: میں پڑھا لکھا نہیں ہوں، آپ فرماتے ہیں: پھر جبریل علیہ السلام نے مجھ کو پکڑ کر ایسا بھینچا کہ میں بے طاقت ہو گیا پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ، میں نے کہا کہ میں پڑھا لکھا نہیں ہوں (کیونکر پڑھوں) انہوں نے مجھ کو پھر پکڑا اور دوسری بار اتنا دبایا کہ میری طاقت نے جواب دے دیا، پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا پڑھ میں نے کہا (کیسے پڑھوں) میں پڑھا لکھا نہیں ہوں، انہوں نے پھر مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ دبایا پھر مجھ کو چھوڑ دیا اور کہا:
{اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ ﴿٢﴾ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ﴿٣﴾} (سورة العلق)
پس یہ آیات سن کر آپ پہاڑ سے لوٹے، آپ کا دل (ڈر کے مارے) کانپ رہا تھا، آپ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور فرمایا: مجھ کو کپڑا اوڑھا دو، مجھ کو کپڑا اوڑھا دو، آپ کو کپڑا اوڑھایا گیا، جب آپ کا ڈر جاتا رہا تو آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ قصہ بیان کر کے فرمایا مجھے اپنی جان کا ڈر ہے، خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں اللہ کی قسم اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، پھر وہ آپ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو خدیجہ کے چچا زاد بھائی تھے، جاہلیت میں عیسائی ہو گئے تھے، بوڑھے ضعیف ہو کر نابینا ہو گئے تھے، آپ نے جو کچھ دیکھا وہ ان سے بیان کیا، ورقہ بن نوفل نے کہا کہ وہ تو اللہ کا فرشتہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر اتارتا تھا، کاش میں اس وقت جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تم کو تمہاری قوم (اپنے شہر سے) نکال دے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ مجھے نکال دیں گے۔" ورقہ نے کہا: ہاں (بے شک نکال دیں گے) جب کبھی کسی شخص نے ایسی بات کہی جیسی تم کہتے ہو تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے۔” (بخاری: ۳۔ مسلم: ۱۶۰)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ "میں ایک بار راستے میں جا رہا تھا، اتنے میں میں نے آسمان سے آواز سنی، آنکھ اٹھا کر اوپر دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان اور زمین کے درمیان میں ایک کرسی پر بیٹھا ہے، میں یہ دیکھ کر ڈر گیا، اپنے گھر لوٹا میں نے گھر والوں سے کہا مجھ کو کپڑا اوڑھا دو، مجھ کو کپڑا اوڑھا دو۔" (بخاری: ۴۔ مسلم: ۱۶۱۔)
اور اگر قرآن حکیم کا نزول صرف قوانین الٰہی کا بندوں میں اجراء کے لیے تھا اور آپ کو پہلے ہی سے سب کچھ سکھا پڑھا کر بھیجا تھا تو ان آیات کا کیا مطلب ہے؟
{وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَـٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ} (الشوری:۵۲)
"اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔"
{وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ ﴿٨٦﴾} (القصص)
"آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا۔ اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیے۔"
سورۃ نجم کی جن آیات کو مفتی نعیمی صاحب بنیاد بنا کر لکھتے ہیں کہ وحی کا بیشتر حصہ وہ ہے جو بلا واسطہ جبرائیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر القا ہوتا تھا، اس کی تفسیر مسروق رحمہ اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کی کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ ﴿١٠﴾} (النجم)
اس سے کون مراد ہے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ اس سے جبرئیل علیہ السلام مراد ہیں۔" (صحیح مسلم: ۱۷۷)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے اس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور سب سے پہلے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان آیات کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ "اس سے مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں جن کو میں نے صرف دو مرتبہ ان کی اصل صورت میں دیکھا۔" (مسلم: ۱۷۹)
جب یہاں بھی مراد جبرئیل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورا قرآن مجید جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾} (الشعراء)
"بلا شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے جسے روح الامین لے کر آپ کے دل پر نازل ہوا تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔"
دوسرا مسئلہ معراج کو جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا، اس پر مفتی نعیمی صاحب کا یہ کہنا کہ آپ معراج پر نماز لینے جا رہے تھے مگر نماز پڑھا کر جا رہے تھے غلط ہے، رسالت شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے جو حکم دیا گیا وہ نماز کا حکم تھا، جبرئیل علیہ السلام نے تشریف لا کر نماز اور وضو کا طریقہ بتایا، صبح اور شام دو دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا، بلکہ اسلام کے ابتدائی دنوں میں نماز کے علاوہ کسی عبادت کا پتہ نہیں چلتا، معراج پر تو پانچ نمازیں فرض ہوئی تھیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۱۰۔ تمام انبیاء حقیقت محمدیہ سے فیض لیکر اپنی امت کو پہنچاتے رہے یعنی تمام انبیاء کی نبوت آپ کی نبوت کے واسطے سے ہے:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل کائنات اور اللہ تعالیٰ کے تمام فیوض کا واسطہ قرار دے کر ان صوفیاء نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات ہے اور باقی تمام انبیاء کی نبوت بالعرض ہے تمام انبیاء نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیلی ہیں سارے انبیاء حقیقت محمدیہ سے فیض لے کر اپنی امت کو پہنچاتے رہے ہیں اس لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی الانبیاء بھی ہیں اس نظریہ کی تشریح صوفیائے دیوبند کی زبانی سنیے قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:
"اب سنیے وصف نبوت میں بھی یہی تقسیم ہے کہیں نبوت ذاتی ہے اور کہیں عرضی ہے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تو ذاتی ہے اور سوا آپ کے سب انبیاء کی نبوت عرضی ہے دلیل نقلی تو اس کے لیے آیت: {وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ} ہے اس لیے کہ سب کی نبوت اگر اصلی ہے تو پھر سب مساوی الاقدام ہیں اس صورت میں مقتضائے حکمت حکیم مطلق یہ ہونا تھا کہ کوئی کسی کا تابع اور مقتدی نہ ہوتا۔" (آب حیات:۲۵۲)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"ویتم نعمۃ علیک" تو یوں سمجھ میں آتا ہے کہ اسم علیم مربی روح محمدی صلی اللہ علیہ وسلم ہو اس لیے کہ سورۃ فتح میں اتمام نعمت خاص آپ کے لیے ہے اور سورۃ مائدۃ میں {وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي} اگرچہ خطاب عام ہے مگر مقصود بالذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سب آپ کے طفیلی ہیں اور آپ امام ہیں۔" (آب حیات، ص: ۱۵۳)
قاسم نانوتوی صاحب کا عقیدہ ملاحظہ فرمایئے:
"تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ موصوف بالعرض کا قصہ موصوف بالذات پر ختم ہوتا ہے جیسے موصوف بالعرض کا وصف موصوف بالذات سے مکتسب ہوتا ہے موصوف بالذات کا وصف جس کا ذاتی ہونا اور غیر مکتسب من الغیر ہونا لفظ بالذات ہی کا مفہوم ہے کسی غیر سے مکتسب اور مستعار نہیں ہوتا مثال درکار ہے تو لیجئے زمین و کوہسار اور در و دیوار کا نور اگر آفتاب کا فیض ہے تو آفتاب کا نور کسی اور کا فیض نہیں ہے اور ہماری غرض وصف ذاتی ہونے سے اتنی ہی تھی سو اسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت کو تصور فرمایئے یعنی آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سوا آپ کے اور نبی موصوف بوصف بالعرض۔ اوروں کی نبوت آپ کا فیض ہے مگر آپ کی نبوت کسی اور کا فیض نہیں ہے آپ پر سلسلہ نبوت ختم ہو جاتا ہے غرض آپ جیسے نبی الامتہ ہیں ویسے نبی الانبیاء بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شہادت {وَإِذْ أَخَذَ اللَّـهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ} اور انبیاء کرام سے آپ پر ایمان لانے اور آپ کے اقتدار اور اتباع کا عہد لیا گیا ہے۔" (تحذیر الناس:۴)
ایک اور مقام پر قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں:
"اور انبیاء علیہم السلام آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض لے کر اپنی امتوں کو پہنچاتے ہیں غرض بیچ میں واسطہ فیض ہیں مستقل بالذات نہیں۔۔۔ باقی انبیاء بھی مثل آئینہ بیچ میں واسطہ فیض ہیں غرض اور انبیاء میں جو کچھ ہے وہ ظل اور عکس محمدی ہے کوئی ذاتی کمال نہیں۔" (تحذیر الناس، صفحہ:۲۸)
قاری طیب صاحب لکھتے ہیں:
"آپ کا اصل امتیازی وصف یہ ہے کہ آپ نور نبوت میں سب انبیاء کے مربی، ان کے حق میں مصدر فیض اور ان کے انوار و کمال کی اصل ہیں، اس لیے اصل میں نبی آپ ہیں اور دوسرے انبیاء علیہم السلام اصل سے نہیں بلکہ آپ کے فیض سے نبی ہوئے ہیں۔۔۔ حضور کی شان محض نبوت ہی نہیں نکلتی بلکہ نبوت بخش بھی نکلتی ہے کہ جو بھی نبوت کی استعداد پایا ہوا فرد آپ کے سامنے آ گیا نبی ہو گیا، اس طرح نور نبوت آپ ہی سے اور آپ ہی پر لوٹ کر ختم ہو گیا، اور یہی شان خاتم کی ہوتی ہے کہ اسی سے اس کے وصف خاص کی ابتدا بھی ہوتی ہے اور اسی پر انتہا بھی ہو جاتی ہے، اس لیے ہم آپ کو وصف نبوت کے لحاظ سے صرف نبی ہی نہیں کہیں گے بلکہ خاتم النبین کہیں گے کہ آپ ہی پر تمام انوار نبوت کی انتہا ہے۔" (آفتاب نبوت، صفحہ:۸۱)
عقائد علمائے دیوبند کی مشہور کتاب المہند میں بھی صاف اقرار کیا ہے کہ باقی تمام انبیاء علیہم السلام کی نبوت آپ کی نبوت کے واسطے سے ہے۔
شاہ عبدالحق محدث دہلوی اپنے رسالہ "التالیف قلب الالیف بکتابہ فہرس التوالیف" میں اس تربیت کی اس طرح تشریح کرتے ہیں سارے پیغمبر نیچے اتر کر حضور کے مدرسہ میں حاضر ہوئے اور آپ کے مکتب میں شاگرد بنے ہر ایک نبی نے علم کی ایک کتاب اور دین کا ایک ایک باب حضور سے پڑھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر دنیا کو فیض دینے کے لیے مسند نبوت پر جاگزیں ہوئے اور اللہ کے احکام کی مخلوق کو تعلیم دی ان رسولوں میں سب سے پہلے آدم تھے جو والد ہونے کے باوجود اپنے سچے فرزند کے مدرسہ میں با ادب دو زانو بیٹھے۔ تمام زبانیں اور چیزوں کے نام حضور سے سیکھے پھر خلافت الہیہ کی مسند پر جاگزیں ہوئے اور ملائکہ مقربین کی تعلیم و تربیت فرمانے لگے جس سے حضرت آدم کا حق استادی سارے فرشتوں پر ثابت ہوا اور آخر کار ان کے مسجود بن گئے۔" (رسالہ نوراز مفتی احمد یار گجراتی۔)
محمد منظور نعمانی صاحب اس بات کو یوں بیان کرتے ہیں:
"آپ نبی بالذات ہیں اور دوسرے انبیاء علیہم السلام بالعرض اس اصطلاح میں صرف مولانا نانوتوی ہی منفرد نہیں ہیں بلکہ بہت سے اگلے علماء محققین بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں ان کی عبارت نقل کر کے ہم کتاب کو ضخیم بنانے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ کیونکہ خود احمد رضا خان بریلوی نے بھی اس مسئلہ کو اس طرح لکھ دیا ہے کہ اس کے بعد کسی دوسرے کی عبارت نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی فاضل بریلوی اپنے رسالے جزاء اللہ عدوہ کے صفحہ ۲۳ پر لکھتے ہیں اور نصوص متواترہ اولیاء کرام و ائمہ عظام و علماء اعلام سے مبرہن ہو چکا کہ ہر نعمت قلیل یا کثیر، صغیر یا کبیر، جسمانی یا روحانی، دینی یا دنیاوی، ظاہری یا باطنی، روز اول سے اب تک اور اب سے قیامت تک، قیامت سے اخرت تک، اخرت سے ابد تک، مومن یا کافر، مطیع یا فاجر، ملک یا انسان، جن یا حیوان، بلکہ تمام ماسویٰ اللہ میں جسے جو کچھ ملی یا ملتی ہے یا ملے گی انہوں کے ہاتھوں پر بٹی اور بٹتی ہے اور بٹے گی یہ سر الوجود اور اصل وجود، خلیفہ اللہ اعظم و لی نعمت عالم ہیں۔" (رسالہ جزاء اللہ عدوہ از احمد رضا ص ۲۳)
فاضل بریلوی کی اس عبارت سے معلوم ہوا کہ عالم میں جو کچھ نعمت روحانی یا جسمانی، دینی یا دنیاوی، ظاہری یا باطنی کسی کو ملی ہے وہ آپ ہی کے دست کرم کا نتیجہ ہے اور چونکہ نبوت بھی ایک اعلیٰ درجہ کی روحانی نعمت ہے لہٰذا وہ بھی دوسرے انبیاء علیہم السلام کو آپ کے واسطے سے ملی ہے اسی حقیقت کا نام نانوتوی صاحب کی اصطلاح میں خاتمیت ذاتی اور خاتمیت مرتبی ہے۔" (فیصلہ کن مناظرہ از منظور نعمانی ص ۵۶۔)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
۱۱۔ اگر بالغرض بعد زمانہ نبوی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی (ختم نبوت) میں کچھ فرق نہ آئے گا:
ختم نبوت کے اس تبدیل شدہ مفہوم کی بنیاد پر قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں۔ اطلاق خاتم اس بات کو مقتضی ہے کہ تمام انبیاء کا سلسلہ نبوت آپ پر ختم ہوتا ہے جیسا انبیاء گزشتہ کا وصف نبوت میں آپ کی طرف محتاج ہونا ثابت ہوتا ہے اور آپ کا اس وصف میں کسی کی طرف محتاج نہ ہونا- اس میں انبیاء گزشتہ ہوں یا کوئی اور اس طرح اگر فرض کیجیے آپ کے زمانے میں بھی اس زمین پر یا کسی اور زمین پر یا آسمان میں کوئی نبی ہو تو وہ بھی اس وصف نبوت میں آپ کا محتاج ہو گا۔" (تحذیر الناس، ص:۱۲)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
"غرض اختتام اگر بائیں معنی تجویز کیا جائے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیاء گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہو گا۔ اگر بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔" (تحذیر الناس ص:۱۳)
"ہاں اگر خاتمیت بمعنی اوصاف ذاتی بوصف نبوت لیجیے جیسا کہ اس عاجز نے عرض کیا ہے تو پھر سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی کو افراد مقصود بالخلق میں سے مماثل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہہ سکتے بلکہ اس صورت میں فقط انبیاء کی افراد خارجی پر آپ کی فضیلت ثابت ہو جائے گی بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔" (تحذیر الناس، ص: ۲۴)

تبصرہ
یہ گمراہ عقائد نہ قرآن حکیم کی کسی آیت سے ثابت ہیں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے حتیٰ کہ صحابہ کرام اور ائمہ اہل سنت ان نظریات سے بری تھے صوفیاء کے ان نظریات کا رد قرآن مجید جگہ جگہ فرمارہا ہے :
{قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ} (الأحقاف:٩)
"آپ کہہ دیجئے! کہ میں کوئی انوکھا پیغمبر تو نہیں۔"
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ} (آل عمران: ۱۴۴)
"اور محمد صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔"
یعنی جس طرح مجھ سے پہلے بہت سے رسول آچکے ہیں میں بھی انہیں جیسا ایک رسول ہوں یہ آیت ان کے تمام خود ساختہ نظریات کا رد کر رہی ہے۔
اگر تمام رسول علیہم السلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد ہیں اور انہوں نے دین کا باب آپ سے پڑھا ہے تو ان کے حالات سے آپ بے خبر کیسے ہو سکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ} (النساء:۱۶۴)
"اور بعض رسولوں کے حالات ہم نے آپ سے بیان کیے اور بعض رسولوں کے حالات ہم نے آپ سے بیان نہیں کیے۔"
قاسم نانوتوی صاحب نے ختم نبوت کا جو مفہوم بیان کیا ہے کہ اصل میں نبی آپ ہیں باقی انبیاء آپ کے فیض سے نبی ہوئے یہ نظریہ غلو ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور جس کی وجہ سے اہل کتاب گمراہ ہوئے۔ اس "غلو" سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمودات بابرکات میں بے حد ڈرایا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے کہا یا محمد یا سیدنا یا ابن سیدنا و خیرنا و ابن خیرنا، اے محمد، اے ہمارے سردار، اے ہمارے سردار کے بیٹے، ہم سب سے بہتر اور ہم میں سب سے بہتر کے بیٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو اپنی باتوں کا تم خود خیال رکھو، شیطان تمہیں ورغلانے نہ پائے، میں محمد بن عبد اللہ، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں اللہ کی قسم مجھے یہ پسند نہیں کہ تم مجھے میرے اس مرتبہ سے اونچا کرو کہ جس پر اللہ نے مجھے فائز فرمایا ہے۔" (مسند احمد ۳؍ ۱۵۳ بحوالہ ابن کثیر النساء :۱۷۱)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہو گیا اس کی وجہ یہ بنی کہ اس یہودی نے قسم ان الفاظ کے ساتھ اٹھائی: "اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی، مسلمان سے یہ برداشت نہ ہو سکا اور اس نے یہودی کو چانٹا مارا اور کہا اے خبیث کیا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی موسیٰ علیہ السلام کو فوقیت ملی ہے؟ یہ معاملہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا: "مجھے پیغمبروں پر فوقیت نہ دو کیونکہ قیامت کے دن تمام لوگ بے ہوش ہو جائیں گے پھر مجھے سب سے پہلے ہوش آئے گا اور میں موسیٰ علیہ السلام کو عرش کا پایہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ معلوم نہیں وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا طور والی بے ہوشی کے بدلے بے ہوش ہی نہیں ہوئے۔" (بخاری ۳۴۱۴۔ مسلم ۲۳۷۳۔)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انبیاء کو ایک دوسرے پر فوقیت نہ دو۔" (بخاری ۲۴۱۴۔ مسلم ۲۳۷۴۔)
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو تمام نبیاء و رسل پر فضیلت دی گئی ہے۔ جیسا کہ کئی احادیث سے یہ بات ثابت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اس پر فخر نہیں، اس دن میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہو گا، اس پر فخر نہیں، اس دن آدم اور اس کے علاوہ تمام انبیاء میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، مجھے سب سے پہلے زمین سے نکالا جائے گا، کوئی فخر نہیں۔" (جامع ترمذی:۳۶۱۵)
لیکن آپ کا دیگر انبیاء سے مقابلہ کرواتے ہوئے آپ کی افضلیت ثابت کرنا درست نہیں ہے۔ آپ کی شان میں وہ بات کہنا بھی غلط ہے کہ جس کی کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
غلط فہمی
مولانا عبدالمجید سوھدروی نے کرامات اہلحدیث نامی کتاب لکھی۔ جس میں بعض علماء اہلحدیث کی کرامات درج کی ہیں۔ صرف دو ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ سردار جلال الدین کی اولاد نہ ہوتی تھی۔ ایک بار اسے پتا چلا کہ فیروز پور شہر میں ایک مستانہ ہے جو مجذوب ہے اور بالکل ننگ دھڑنگ رہتا ہے وہ اس کے پاس گیا اور اس سے بیٹا مانگا۔ مجذوب بولا، نالائق اگر بیٹا لینا ہے تو لکھوکی جا۔ سردار جلال الدین نے دل میں کہا کہ وہاں تو سب وہابی ہی وہابی ہیں بھلا وہاں بیٹا کیسے ملے گا؟ مجذوب نے کہا نالائق جاتا نہیں؟ تجھے بیٹا یہاں سے نہیں بلکہ وہاں سے ملے گا۔ سردار اس مستانہ کے ارشاد پر لکھوکی پہنچا اور اہل حدیث بزرگ عبدالرحمن لکھوی کو سارا واقعہ بیان کیا۔ عبدالرحمن صاحب نے کہا میں تیرے لیے دعا تو کر دیتا ہوں مگر تو منکر قرآن ہے۔ تیری سات بیویاں ہیں جبکہ قرآن نے چار سے زیادہ کی اجازت نہیں دی۔ تین کو یہاں طلاق دے۔ تو… پھر آپ نے دعا فرمائی۔ اگلے ہی سال اس کے ہاں فرزند ہوا۔ (ص: ۶۶)
۲۔ ایک بار قلعہ میاں سنگھ میں ایک حجام مولانا غلام رسول کی حجامت بنا رہا تھا کہ اس نے یہ شکایت کی، حضور میرا بیٹا کئی سال سے باہر گیا ہوا ہے۔ جس کا ہمیں کچھ پتا نہیں کہ کہاں ہے، زندہ ہے کہ مر گیا ہے! بس یہ ایک ہی بیٹا تھا، اس کی فکر میں ہم تو مرے جا رہے ہیں۔ آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا میاں وہ تو گھر بیٹھا ہے اور کھا رہا ہے۔ جاؤ جا کر بے شک دیکھ لو۔ حجام گھر گیا تو سچ مچ بیٹا آیا ہوا تھا اور کھانا کھا رہا تھا۔ بیٹے سے ماجرا پوچھا تو اس نے کہا کہ ابھی ابھی میں سکھر سندھ میں تھا۔ معلوم نہیں مجھے کیا ہوا۔ اور کیونکر طرفۃ العین میں یہاں پہنچ گیا۔ (ص:۷۰)
جب اہل حدیث بزرگوں کے تصرف کا یہ حال ہے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصرف تو یقینا ان سے بہت زیادہ ہے۔ پھر انہیں مشکلات میں پکارنا جائز کیوں نہیں؟
اسی طرح مولوی شاہ اسماعیل شہید اپنے پیر سید احمد بریلوی کی برتری ثابت کرنے کے لیے اپنی کتاب صراط مستقیم میں ایک کرامت یوں بیان کرتے ہیں۔
"حضرت غوث الثقلین اور حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کی روحوں کے درمیان ایک مہینے تک اس بات پر جھگڑا چلتا رہا کہ دونوں میں کون سید احمد بریلوی کو روحانی تربیت کے لیے اپنی کفالت میں لے دونوں بزرگوں کی روحوں میں سے ہر ایک روح کا اصرار تھا کہ وہ تنہا میری نگرانی میں عرفان و سلوک کی منزل طے کرے۔
آخرکار ایک مہینے کی آویزش کے بعد اس بات پر دونوں میں مصالحت ہوئی کہ مشترک طور پر دونوں یہ خدمت انجام دیں گے۔ چنانچہ ایک دن دونوں حضرات کی روحیں ان پر جلوہ گر ہوئیں اور پوری قوت کے ساتھ تھوڑی دیر تک ان پر عرفان و توجہ کا عکس ڈالا۔ یہاں تک کہ اتنے ہی وقفے میں انہیں دونوں سلسلوں کی نسبتیں حاصل ہو گئیں۔" (صراط مستقیم فارسی، ص: ۱۶۶۔)
اس قصے کی صحت تسلیم کر لینے کی صورت میں کئی سوالات ذہن کی سطح پر ابھرتے ہیں:
اولًا : یہ کہ مولوی اسماعیل دہلوی کی "تقویۃ الإیمان" کے مطابق جب اللہ کی عطا سے بھی کسی میں غیب دانی کی قوت نہیں ہے تو حضرت غوث الثقلین اور حضرت خواجہ نقشبند کی ارواح طیبات کو کیونکر خبر ہو گئی کہ ہندوستان میں سید احمد بریلوی نامی ایک شخص اللہ کا مقرب بندہ ہے جس کی روحانی تربیت کا اعزاز اس قابل ہے کہ اس کی طرف سبقت کی جائے۔
ثانیاً: یہ کہ واقعہ ہذا عالم شہادت کا نہیں بلکہ سرتاسر عالم غیب کا ہے۔ اس لیے مولوی اسماعیل دہلوی جو اس واقعہ کے خود راوی ہیں انہیں کیونکر علم ہوا کہ سید احمد بریلوی کی کفالت و تربیت کے لیے ان دونوں بزرگوں کی روحیں ایک مہینے تک آپس میں جھگڑتی رہیں اور بالآخر اس بات پر مصالحت ہوئی کہ دونوں مشترک طور پر اپنی کفالت میں لیں۔
ثالثاً: یہ کہ مولوی اسماعیل دہلوی کی "تقویۃ الایمان" کے مطابق جب اللہ کے سوا سارے انبیاء و اولیاء بھی عاجز و بے اختیار بندے ہیں تو وفات کے بعد حضرت الوریٰ اور خواجہ نقشبند کا یہ عظیم تصرف کیونکر سمجھ میں آ سکتا ہے کہ وہ دونوں بزرگ بغداد سے سیدھے ہندوستان کے اس قصبے میں تشریف لائے جہاں سید احمد صاحب بریلوی مقیم تھے اور ان کے حجرے میں پہنچ کر چشم زدن میں انھیں باطنی و عرفانی دولت سے مالا مال کر دیا۔
نیز واقعہ کے انداز بیان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ باتیں خواب کی نہیں بلکہ عالم بیداری کی ہیں۔ اس لیے اب واقعہ کی تصدیق اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ "تقویۃ الایمان" کے موقف سے ہٹ کر اولیائے کرام کے حق میں غیبی ادراک اور قدرت و اختیار کے عقیدے کی صحت کو تسلیم نہ کیا جائے۔ (زلزلہ از ارشد القادری)

ازالہ
اکثر بریلوی اور دیوبندی علماء اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے بعض اہلحدیث علماء کی تحریروں سے دلیل پکڑتے ہیں اور وہ ثابت کرتے ہیں کہ چونکہ یہ اہلحدیث علماء بھی انہی عقائد کا اظہار کرتے ہیں تو یہی صحیح نظریات ہیں اس لیے اس غلط فہمی کا تفصیلی جواب ضروری ہے۔
۱۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا ہی حق ہے کہ وہ لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی گزارنے کا طریقہ یعنی دین نازل کرے کیونکہ حلال و حرام کا تعین کرنا اور دین سازی اسی کا حق ہے اسی لیے حقیقی اطاعت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
{اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ} (الأعراف:۳)
"لوگو تمہارے رب کی طرف سے جو نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی نہ کرو۔"
اللہ تعالیٰ نے محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے ساتھ مخصوص فرما کے آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی۔ اور ارشاد فرمایا:
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} (المائدۃ: ۵/۳)
"(اے مسلمانوں) آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا ہے، اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین پسند کیا۔"
یہ آیت ۹ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کو میدان عرفات میں نازل ہوئی۔ اس کے نازل ہونے کے تین ماہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کامل اور اکمل دین امت کو سونپ کر رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور امت کو وصیت فرما گئے: "میں تمہارے اندر ایسی دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کہ جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے ہر گز گمراہ نہیں ہو گے یعنی اللہ کی کتاب اور اسکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔" (بیھقی، موطا امام مالک)
اور صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخصیت ہیں جو دینی امور میں اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہتے جو بات بھی کہتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتی ہے۔
{وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾} (النجم)
"اور وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے جو کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے۔"
اسی لیے فرمایا:
{مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ} (النساء:۸۰)
"جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔"
یہی وجہ ہے کہ دینی امور میں فیصلہ کن حیثیت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے:
{فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ} (النساء:۵۹)
"پس اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔"
معلوم ہوا اسلام اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا نام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم اللہ کو اسلام کی تعلیم دی۔ یعنی صحابہ کرام آپ کے "براہ راست" تربیت یافتہ تھے۔ لہٰذا صحابہ معیاری مسلمان تھے۔ صحابہ کرام سے "اقوال و افعالِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم" تابعین نے اخذ کیے اور محدثین نے ان کو جمع کیا۔ یہ تمام ادوار اسلام کے عروج کے ادوار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہترین زمانے قرار دیئے۔ سلف صالحین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریق اور منہج سے وہی شخص انکار کرتا ہے جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنا چاہتا ہے۔ صحابہ، تابعین، ائمہ دین اور ائمہ حدیث اسی راہ پر چلے۔ اور اس راہ پر چلنے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس راہ پر چلنے والے شرک و بدعت اور اس کے مظاہر اور رسوم پر نکیر کرتے رہے ہیں۔ عقیدہ کی اصلاح کرتے ہیں اور شرک و بدعت کے تاریک غار سے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؛ لہٰذا قرآن و سنت اور سلف صالحین کے راستے کے الٹ شرک و بدعات پر مشتمل نظریات ہم قبول نہیں کر سکتے چاہے وہ کسی بھی عالم نے بیان کیے ہوں۔ وہ عالم نہ معصوم ہے اور نہ ہمارے لیے حجت ہے۔
۲۔ پاک و ہند میں جن لوگوں نے اصلاح کا کام کیا اور اس ماحول میں حدیث کی اہمیت اور تقلید کے رد پر محنت کی بدقسمتی سے وہ لوگ تصوف کے فتنے کو نہ سمجھ سکے اور تصوف کا اثر ان میں موجود رہا۔ اس بات کا اظہار استاد محترم پروفیسر حافظ محمد عبد اللہ خطیب جامع مسجد اہلحدیث بہاولپور نے ایک خطبہ جمعہ میں یوں فرمایا:
"شاید ہی ہندوستان میں کوئی عالم ایسا ہو کیا اہلحدیث کیا دیوبندی اور کیا بریلوی! جن علماء کو اس تصوف کی تاثیر نہ لگی ہو۔ تھوڑا بہت اس تصوف کا رنگ ضرور ہوتا ہے۔ حالانکہ تصوف اس قدر خطرناک چیز ہے جنتا نقصان اسلام کو ان صوفیوں سے پہنچا ہے۔ اس تصوف کے چکر میں جتنے مسلمان برباد ہوئے ہیں۔ جتنا اسلام کے اندر اس کے ذریعے پلیدی شامل ہوئی اتنا کسی چیز نے بھی اسلام کو برباد نہیں کیا۔۔ شاہ عبدالعزیز دہلوی جنہوں نے حدیث کی بہت خدمت کی۔ صوفیوں کے بنیادی عقیدے وحدۃ الوجود کا شکار ہیں۔ یہ ہمہ اوست کا عقیدہ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ یہ وحدۃ الوجود خالصتاً کفر کا عقیدہ ہے ایسا گندہ عقیدہ ہے جس کی انتہا نہیں جن علماء نے تھوڑا سا سوچا اور انہیں ہمہ اوست کا عقیدہ کفر نظر آیا انھوں نے تھوڑی سی ترمیم کی۔ کیوں کہ یہ بڑے بڑے بزرگوں کا عقیدہ تھا۔ انھوں نے اسے وحدہ الشہود میں تبدیل کر دیا۔ ہمہ اوست نہیں ہمہ از اوست۔ وحدۃ الوجود کا انکار نہیں کرتے کیوں کہ بڑے بڑے لوگوں کا عقیدہ ہے اسکو نرم کرتے ہیں۔ تاکہ اس کی حدت اور شدت کم ہو جائے۔ حالانکہ دونوں نظریات کفر ہی کفر ہیں۔ شاہ اسمعیل دہلوی کی "تقویۃ الایمان" توحید کی بڑی معیاری کتاب ہے۔ لیکن اپنے اس ماحول میں جس میں وہ پلے بڑھے کیوں کہ تصوف کا چکر تھا چنانچہ صراط مسقیم میں وہ وہ کھچیں ماری ہیں کہ پڑھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ کہ کیا یہ شاہ اسماعیل کی کتاب ہے؟ ایسا آدمی کبھی مسلمان ہو سکتا ہے۔ (خطبہ جمعہ)
ڈاکڑ محمد لقمان سلفی کی نظر ثانی سے شائع شدہ ڈاکڑ ابو عدنان سہیل کی کتاب "اسلام میں بدعت و ضلالت کے محرکات" میں شاہ ولی اللہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
"شاہ ولی اللہ صاحب کی کتاب "انفاس العارفین" میں تصوف کی دیگر کتابوں کی طرح ہر طرح کی رطب و یابس باتیں پائی جاتی ہیں جیسے کشف و کرامات، عجیب و غریب واقعات، غیر اللہ کو سجدے، اللہ کا مشاہدہ بلکہ اس سے جسمانی اتصال، قبولیت، عرس، قوالی، ختم خواجگان، جنت کی بشارت، اپنی بات منوانے کے لیے اللہ کے سامنے مچل جانا اور اس سے اپنی بات منوا لینا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو بدلوا ڈالنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجلسوں میں تشریف لانا، اللہ تک پہنچ جانے کے بعد عبادات کی ضرورت باقی نہ رہنا وغیرہ اس طرح کی تمام چیزیں اس کتاب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس کتاب میں یہ بات بھی موجود ہے کہ بزرگوں کی قبروں سے سب کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جو لوگ شاہ ولی اللہ صاحب سے نسبت اور تعلق رکھتے ہیں اور ان کے نظریات تصوف کے قائل ہیں وہ بریلوی مکتب فکر کی بوالعجبیوں اور بزرگوں کی قبروں پر ہونے والے شرک و بدعات کے ہنگاموں پر جو شور و غوغا مچاتے ہیں یا اس کا رونا روتے ہیں، وہ محض دکھاوا اور مگر مچھ کے آنسو ہیں۔" (صفحہ ۲۷۲)
شاہ اسمعیل کے متعلق لکھتے ہیں:
۱۔ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ مولانا اسمعیل شہید جیسا توحید کا علمبردار بھی جب تصوف کے کوچے میں گم ہوتا ہے تو اپنے سارے عقائد اور شرعی احکام و نصوص کی خلاف ورزی کرتا ہوا کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔ (صفحہ ۲۸۵)
۲۔ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ جب یہی مولانا اسمعیل شہید تصوف پر قلم اٹھاتے ہیں تو شاید ان پر ایسی محویت کا عالم طاری ہو جاتا ہے کہ وہ قرآن و حدیث کی صریح نصوص اور خود اپنی تحریروں کو بھول کر کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمایئے "صراط مسقیم۔" میں وہ لکھتے ہیں:
"عنایت غیبیہ اس کو چن کر اپنا خاص چیلہ بنا لیتی ہے جس طرح بااقتدار بادشاہ اپنے بعض فرماں برداروں کو تمام رعایا سے ممتاز کر کے اپنے لیے چن لیتے ہیں اور اس کو "چیلہ خاص" سے ملقب کرتے ہیں۔ پس جس طرح چیلہ خاص کو اپنے آقا کے سامان میں تصرف کی اجازت ہوتی ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنے آقا کی تمام سلطنت کو اپنی سلطنت کہہ دیتا ہے۔ اسی طرح یہ بلند مراتب و مناصب والے (یعنی اولیاء کاملین) مجاز مطلق ہوتے ہیں عالم مثال و شہادت میں تصرف کرنے کے لیے۔" (صراط مستقیم فارسی) عام طور پر "اولیاء" کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ انہیں صرف "عالم شہادت" یعنی اس دنیا میں جسے ہم سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تصرف کرنے کی قدرت حاصل ہے، لیکن مولانا اسمعیل شہید کے اس بیان سے یہ انکشاف ہوا کہ اولیاء کے زیر اقتدار عالم مثال بھی ہے یعنی وہ غیر مرئی عالم جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے۔" (اسلام میں بدعت وضلالت کے محرکات، صفحہ:۲۵۵۔)
جناب عبدالمجید صاحب اڈیٹر اخبار اہلحدیث سوہدرہ شاہ اسمعیل اور محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کا موازنہ کرتے ہیں محسوس یوں ہوتا ہے کہ جناب عبدالمجید صاحب نے منصب امامت اور صراط مسقیم پڑھی ہی نہیں ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: لکھتے ہیں:
کیا سید احمد اہلحدیث تھے؟
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا سید احمد رائے بریلوی اور شاہ اسمعیل شہید اہلحدیث تھے۔ یا یونہی ان کو اہلحدیث سمجھا گیا ہے۔ مثل مشہور ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہنچانا جاتا ہے اور یہ صحیح ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو ہر شخص بھی اپنے عقائد اور اعمال سے ہی پہچانا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں شاہ شہید کی تصنیفات "تنویر العینین فی اثبات رفع یدین، الایضاح الحق الصریح، منصب امامت، صراط مسقیم" دیکھ لیجئے کہ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ اس کے بعد ان کے مواعظ حسنہ میں شرک و بدعات کی تردید کا پہلو اتنا نمایاں ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کی تقریر میں بھی اتنا نمایاں نہ ہو گا۔ (حقانیت مسلک اہلحدیث حصہ اول صفحہ ۷۶ مرتبہ ابو معاویہ عبدالرحمن منیر راجووالوی)
صراط مستقیم میں فوت شدہ بزرگوں کی روحوں سے ملاقات اور لوح محفوظ سے کسی بات کی دریافت کا طریقہ لکھا ہے سوچئے کیا یہ بات بھی قرآن و سنت سے ثابت کی جا سکتی ہے؟ ملاحظہ فرمائیں:
"آسمانوں کے حالات کے انکشاف، ملاقات ارواح و ملائکہ، بہشت و دوزخ کی سیر، اس مقام کے حقائق کی اطلاع، اس جگہ کے مکانوں کی دریافت اور لوح محفوظ سے کسی امر کے انکشاف کے لیے یا حی یا قیوم کا ذکر کیا جاتا ہے۔" (صراط مسقیم، صفحہ: ۲۲۵۔)
اسی لیے شیخ عبدالعزیز نورستانی صاحب مہتمم جامعہ الاثریہ اثر آباد پشاور ایک خط میں لکھتے ہیں:
"جب سے شریعت مطہرہ میں تصوف و سلوک کو جگہ دی گئی اس وقت سے صوفیت نے بڑے بڑے اکابرین امت کے شرعی ہوش و حواس مضمحل کر کے غیر شعوری طور پر شریعت کے جادہ مستقیم سے ہٹا دیا۔ میں مروجہ تصوف و سلوک کو بالخصوص طرق اربعہ کو جو پاک و ہند اور افغانستان میں مروج ہیں شریعت مطہرہ کے لیے سم قاتل سمجھتا ہوں۔
۳۔ شیطان نے ہمیشہ انسان کو تباہ کرنے کے لیے اولیاء اللہ سے محبت کا رخ اندھی عقیدت کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ قوم نوح میں ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر اولیاء اللہ تھے اور اللہ نے ان کے تقویٰ کی بنا پر انہیں لوگوں کا محبوب بنا دیا لیکن شیطان ان اولیاء اللہ کو آڑ بنا کر ان سے محبت میں غلو کرنے والوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا شیطان کے اس وار سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری نظریاتی مشق یوں کروائی کہ سورۃ الانعام میں جلیل القدر انبیاء کا ذکر کیا ابراہیم، اسحاق، یعقوب، نوح، سلیمان، ایوب، یوسف، موسی، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، الیاس، اسمعیل، یسع، یونس، اور لوط علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا اور ان کی تعریف کی اور قانون کی انتہائی بالا دستی یوں بیان کر دی:
{وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾} (الأنعام)
"اور اگر یہ لوگ بھی ارتکاب شرک کر بیٹھتے تو جو اعمال یہ کرتے تھے سب ضائع ہو جاتے۔"
اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی فرمائی:
{وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} (الزمر:۶۵)
"یقینا تیری طرف اور تجھ سے پہلے (کے تمام نبیوں) کی طرف وحی کی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو بلا شبہ تمہارا عمل ضائع ہو جائے گا اور یقینا تم زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا۔”
سبائی فتنہ جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا باعث بنا اس نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کی محبت کو غلو میں بدل کر بہت سا جھوٹ اور بدعقیدگی اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی چنانچہ ایک دفعہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کسی نے چند مسئلے پوچھے تو آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فیصلے منگوائے ان فیصلوں کو پڑھ کر ابن عباس رضی اللہ عنہما فرمانے لگے کہ علی نے یہ فیصلے نہیں کیے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بھٹک جاتے۔ (مقدمہ صحیح مسلم)
غور فرمایئے! ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسا کیوں کہا کیا یہ کافی نہ تھا کہ وہ کہتے کہ علی رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلے نہیں کیے ۔۔۔ نہیں نہیں!۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما جو مفسر قرآن ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہیں غالباً انہوں نے ایسا اس لیے کہا کہ جو علی رضی اللہ عنہ سے اللہ کی طرح محبت کرنے لگ گیا ہے وہ سن لے کہ علی رضی اللہ عنہ بھی اللہ کی مخلوق ہیں بالفرض محال اگر علی رضی اللہ عنہ بھی اللہ کی نافرمانی کرتے تو وہ بھی گمراہ ہو جاتے نافرمانی ان کے لیے بھی فرماں برداری نہیں کہلوا سکتی۔
لہٰذا ہم عقیدہ شرک کے حاملین کو یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ تم ان علماء کی تحریرات کو شرک کی دلیل نہیں بنا سکتے اللہ کا قانون ہے کہ اگر ان علماء نے بھی عقیدہ شرک اپنایا اور توبہ نہ کی تو قیامت کے دن ان کے اعمال بھی ان کے کام نہ آئیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق پر چلنے اور باطل سے بچنے کی توفیق دے، آمین۔
اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه
وصلي الله علي محمد وآله واصحابه وسلم تسليما كثيرا وحسبنا الله ونعم الوكيل۔ آمين۔
 
Top