• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم حجۃ الوداع

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
حجۃ الوداع

دعوت وتبلیغ کاکام پورا ہوگیا۔ اور اللہ کی الوہیت کے اثبات ، اس کے ماسوا کی الوہیت کی نفی اور محمد رسول اللہﷺ کی رسالت کی بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر وتشکیل عمل میں آگئی۔ اب گویا غیبی ہاتف آپ کے قلب وشعور کو یہ احساس دلارہا تھا کہ دنیا میں آپﷺ کے قیام کا زمانہ اختتام کے قریب ہے ، چنانچہ آپﷺ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو ۱۰ ھ میں یمن کا گورنر بنا کر روانہ فرمایا تو رخصت کرتے ہوئے منجملہ اور باتوں کے فرمایا : اے معاذ! غالباً تم مجھ سے میرے اس سال کے بعد نہ مل سکو گے۔ بلکہ غالباً میری اس مسجد اورمیری اس قبر کے پاس سے گذرو گے۔ اور حضرت معاذؓ یہ سن کر رسول اللہﷺ کی جدائی کے غم سے رونے لگے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
درحقیقت اللہ چاہتا تھا کہ اپنے پیغمبرﷺ کو اس دعوت کے ثمرات دکھلادے جس کی راہ میں آپﷺ نے بیس برس سے زیادہ عرصہ تک طرح طرح کی مشکلات اور مشقتیں برداشت کی تھیں۔ اور اس کی صورت یہ ہو کہ آپﷺ حج کے موقع پر اطرافِ مکہ میں قبائلِ عرب کے افراد و نمائندگان کے ساتھ جمع ہوں۔ پھر وہ آپﷺ سے دین کے احکام وشرائع حاصل کریں۔ اور آپﷺ ان سے یہ شہادت لیں کہ آپﷺ نے امانت ادا کردی۔ پیغام ِ رب کی تبلیغ فرمادی۔ اور امّت کی خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔ اس مَشیّتِ ایزدی کے مطابق نبیﷺ نے جب اس تاریخی حجِ مبرور کے لیے اپنے ارادے کا اعلان فرمایا۔ تو مسلمانانِ عرب جوق درجوق پہنچنا شروع ہوگئے۔ ہر ایک کی آرزو تھی کہ وہ رسول اللہﷺ کے نقش ِ پاکو اپنے لیے نشان ِ راہ بنائے۔ اور آپﷺ کی اقتدا کرے۔1پھر سنیچر کے دن جبکہ ذی قعدہ میں چار د ن باقی تھے رسول اللہﷺ نے کوچ کی تیاری فرمائی۔2بالو ں میں کنگھی کی۔ تیل لگایا۔ تہبند پہنا ، چادر اوڑھی ، قربانی کے جانوروں کو قَلادَہ پہنایا۔ اور ظہر کے بعد کوچ فرمایا۔ اور عصر سے پہلے ذو الحلیفہ پہنچ گئے۔ وہاں عصر کی نماز دورکعت پڑھی۔ اور رات بھر خیمہ زن رہے۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا : رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والے نے آکر کہا : اس مبارک وادی میں نماز پڑھو۔ اور کہو: حج میں عمرہ ہے۔3
پھر ظہر کی نمازسے پہلے آپﷺ نے اِحْرام کے لیے غسل فرمایا۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ نے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ بات صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ سے مروی ہے۔ دیکھئے باب حجۃ النبیﷺ ۱/۳۹۴
2 حافظ ابن حجرl نے اس کی بہت عمدہ تحقیق کی ہے۔ اور بعض روایات میں جو یہ آیا ہے کہ ذیقعدہ کے پانچ دن باقی تھے ، تب آپ روانہ ہوئے اس کی تصحیح بھی کی ہے۔ دیکھئے فتح الباری ۸/۱۰۴
3 اسے بخاری نے حضرت عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ ۱/۲۰۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آپﷺ کے جسمِ اطہر اور سرَ مبارک میں اپنے ہاتھ سے ذَرِیْرَہ اور مُشک آمیز خوشبو لگائی۔ خوشبو کی چمک آپﷺ کی مانگ اور داڑھی میں دکھائی پڑتی تھی۔ مگر آپﷺ نے یہ خوشبو دھوئی نہیں۔ بلکہ برقرار رکھی، پھر اپنا تہبند پہنا، چادر اوڑھی اور دورکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد مصلے ہی پر حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھتے ہوئے صدائے لَبَّیک بلند کی۔ پھر باہر تشریف لائے۔ قَصْوَاء اُونٹنی پر سوار ہوئے۔ اور دوبارہ صدائے لبیک بلند کی۔ اس کے بعد اُونٹنی پر سوار کھلے میدان میں تشریف لے گئے تو وہاں بھی لبَّیک پُکار ا۔
اس کے بعد آپﷺ نے اپنا سفر جاری رکھا۔ ہفتہ بھر بعد جب آپﷺ سر شام مکہ کے قریب پہنچے تو ذی طویٰ میں ٹھہر گئے۔ وہیں رات گذاری اور فجر کی نماز پڑھ کر غسل فرمایا۔ پھر مکہ میں صبح دم داخل ہوئے۔ یہ اتوار ۴ /ذی الحجہ ۱۰ ھ کا دن تھا۔راستے میں آٹھ راتیں گذری تھیں - اوسط رفتار سے اس مسافت کا یہی حساب بھی ہے - مسجد حرام پہنچ کر آپﷺ نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ پھر صفا مروہ کے درمیان سعی کی، مگر احرام نہیں کھولا۔ کیونکہ آپﷺ نے حج وعمرہ کا احرام ایک ساتھ باندھا تھا۔ اور اپنے ساتھ ہَدْی (قربانی کے جانور ) لائے تھے۔ طواف وسَعْی سے فارغ ہوکرآپﷺ نے بالائی مکہ میں حجون کے پاس قیام فرمایا لیکن دوبارہ طواف ِ حج کے سِوا کوئی اور طواف نہیں کیا۔
آپﷺ کے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے ساتھ ہَدْی (قربانی کا جانور ) نہیں لائے تھے۔ آپﷺ نے انہیں حکم دیا کہ اپنا احرام عمرہ میں تبدیل کردیں۔ اور بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سَعْی کر کے پُوری طرح حلال ہوجائیں لیکن چونکہ آپﷺ خود حلال نہیں ہورہے تھے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تردّد ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا: اگر میں اپنے معاملے کی وہ بات پہلے جان گیا ہوتا جو بعد میں معلوم ہوئی تو میں ہَدْی نہ لاتا۔ اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی حلال ہوجاتا۔ آپﷺ کا یہ ارشاد سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سرِ اطاعت خَم کردیا اور جن کے پاس ہدی نہ تھی وہ حلال ہوگئے۔
آٹھ ذی الحجہ - تَرویہ کے دن - آپ مِنی ٰتشریف لے گئے۔ اور وہاں ۹/ ذی الحجہ کی صبح تک قیام فرمایا۔ ظہر، عصر، مغرب ، عشاء اور فجر ( پانچ وقت ) کی نماز یں وہیں پڑھیں۔ پھر اتنی دیر توقف فرمایا کہ سورج طلوع ہوگیا۔ اس کے بعد عرفہ کوچل پڑے۔ وہاں پہنچے تو وادی نِمرَہ میں قبہ تیار تھا۔ اسی میں نزول فرمایا۔ جب سورج ڈھل گیا تو آپﷺ کے حکم سے قَصْواء پر کجاوہ کسا گیا۔ اور آپﷺ بطن وادی میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپﷺ کے گرد ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار انسانوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ آپﷺ نے ان کے درمیان ایک جامع خطبہ ارشاد فرمایا ، آپﷺ نے فرمایا :
لوگو! میری بات سن لو ، کیونکہ میں نہیں جانتا غالباً اپنے اس سال کے بعد اس مقام پر تم سے کبھی نہ مل سکوں گا۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۲/۶۰۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تمہار ا خون اور تمہار ا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے ، جس طرح تمہارے آج کے دن کی ، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو ! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے رونددی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیے گئے۔ اور ہمارے خون میں سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے - یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایّام میں قبیلہ ہُذَیْل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا۔ اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے، اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔
ہاں ! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے۔ اور اللہ کے کلمے کے ذریعہ حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مار نا اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ۔
اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہاہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑ ے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب۔1
لوگو ! یاد رکھو ! میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں۔ لہٰذا اپنے رب کی عبادت کرنا۔ پانچ وقت کی نماز پڑھنا۔ رمضان کے روزے رکھنا۔ خوشی خوشی اپنے مال کی زکوٰۃ دینا، اپنے پروردگار کے گھر کا حج کرنا اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرنا۔ ایسا کرو گے تو اپنے پروردگار کی جنت میں داخل ہوگے۔2
اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے ؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپﷺ نے تبلیغ کردی ، پیغام پہنچادیا۔ اور خیر خواہی کا حق ادا فرمادیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : اے اللہ گواہ رہ۔3
آپﷺ کے ارشادات کو ربیعہ بن امیہ بن خلف اپنی بلند آواز سے لوگوں تک پہنچارہے تھے۔4جب آپﷺ خطبہ سے فارغ ہوچکے تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَ‌ضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (۵: ۳)
''آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا۔ اورتم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا۔''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم باب حجۃ النبیﷺ ۱/۳۹۷
2 معدن الاعمال حدیث نمبر ۱۱۰۸، ۱۱۰۹، ابن جریر ، ابن عساکر ، رحمۃ للعالمین ۱/۲۶۳
3 صحیح مسلم ۱/ ۳۹۷ 4 ابن ہشام ۲/۶۰۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمرؓ رونے لگے۔ نبیﷺ نے دریافت کیا :کیوں روتے ہو؟کہا کہ ہم لوگ اپنے دین کے تعلق سے زیادتی میں تھے لیکن اب جبکہ وہ مکمل ہوگیا ہے توجو چیز مکمل ہو جاتی ہے گھٹنے لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے سچ کہا۔1
خطبہ کے بعد حضرت بلالؓ نے اذان اور پھر اقامت کہی۔ رسول اللہﷺ نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضرت بلالؓ نے پھر اقامت کہی اور آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھائی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد سوار ہو کر آپﷺ جائے وقوف پر تشریف لے گئے۔ اپنی اونٹنی قَصْواء کا شکم چٹانوں کی جانب کیا۔ اور حبل مشاۃ (پیدل چلنے والو ں کی راہ میں واقع ریتیلے تودے ) کو سامنے کیا۔ اور قبلہ رُ خ مسلسل ( اسی حالت میں) وقوف فرمایا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ تھوڑی زردی ختم ہوئی ، پھر سورج کی ٹکیہ غائب ہوگئی۔ اس کے بعد آپﷺ نے حضرت اسامہؓ کو پیچھے بٹھایا۔ اور وہاں سے روانہ ہوکر مُزْدَلْفہ تشریف لائے۔ مُزْدَلْفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دواقامت سے پڑھیں۔ درمیان میں کوئی نفل نماز نہیں پڑھی۔ اس کے بعد آپﷺ لیٹ گئے۔ اور طلوع فجر تک لیٹے رہے۔ البتہ صبح نمودار ہوتے ہی اذان واقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد قَصْواء پر سوار ہوکر مَشْعَر حَرَام تشریف لائے۔ اور قبلہ رخ ہوکر اللہ سے دعا کی۔ اور اس کی تکبیر وتہلیل اور توحید کے کلمات کہے۔ یہاں اتنی دیرتک ٹھہرے رہے کہ خوب اجالا ہوگیا۔ اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے منیٰ کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور اب کی بار حضرت فضل بن عباسؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ بَطنِ مُحسر میں پہنچے تو سواری کو ذرا تیزی سے دوڑایا۔ پھر جو درمیانی راستہ جمرۂ کبریٰ پر نکلتا تھا۔ اس سے چل کر جمرۂ کبریٰ پر پہنچے ... اس زمانے میں وہاں ایک درخت بھی تھا۔ اور جمرۂ کبریٰ اس درخت کی نسبت سے بھی معروف تھا۔ اس کے علاوہ جمرۂ کبریٰ کو جمرہ ٔ عقبہ اور جمرۂ اُ وْلیٰ بھی کہتے ہیں ... پھر آپﷺ نے جمرۂ کبریٰ کوسات کنکریاں ماریں۔ ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے جاتے تھے۔ کنکریاں چھوٹی چھوٹی تھیں۔ جنہیں چٹکی میں لے کر چلایا جاسکتا تھا۔ آپﷺ نے یہ کنکریاں بطن وادی میں کھڑے ہوکر ماری تھیں۔ اس کے بعد آپﷺ قربان گاہ تشریف لے گئے۔ اور اپنے دست مبارک سے ۶۳ اُونٹ ذبح کیے۔ پھر حضرت علیؓ کو سونپ دیا۔ اور انہوں نے بقیہ ۳۷ اونٹ ذبح کیے۔ اس طرح سواونٹ کی تعداد پوری ہوگئی۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ کو بھی اپنی ہَدْی (قربانی) میں شریک فرمالیا تھا۔ اس کے بعد آپﷺ کے حکم سے ہر اونٹ کا ایک ایک ٹکڑا کاٹ کرہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا۔ پھر آپﷺ نے اور حضرت علیؓ نے اس گوشت میں سے کچھ تناول فرمایا، اور اس کا شور باپیا۔
بعد ازاں رسول اللہﷺ سوار ہوکر مکہ تشریف لے گئے۔ بیت اللہ کا طواف فرمایا - اسے طوافِ افاضہ کہتے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسے ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: تفسیر ابن کثیر ۲/۱۵ ، اور الدرالمنثور ۲/۴۵۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ہیں- اور مکہ ہی میں ظہر کی نماز ادا فرمائی۔ پھر (چاہ زمزم پر )بنوعبد المطلب کے پاس تشریف لے گئے۔ وہ حجاج کرام کو زمزم کا پانی پلارہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا : بنو عبدالمطلب تم لوگ پانی کھینچو۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ پانی پلانے کے اس کام میں لوگ تمہیں مغلوب کردیں گے تو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ کھینچتا - یعنی اگر صحابہ کرام رسول اللہﷺ کو خود پانی کھینچتے ہوئے دیکھتے تو ہر صحابی خود پانی کھینچنے کی کوشش کرتا۔ اور اس طرح حجاج کو زمزم پلانے کا جو شرف بنو عبد المطلب کو حاصل تھا اس کا نظم ان کے قابو میں نہ رہ جاتا - چنانچہ بنو عبد المطلب نے آپﷺ کو ایک ڈول پانی دیا۔ اور آپﷺ نے اس میں سے حسبِ خواہش پیا۔1
آج یو م النحرتھا۔ یعنی ذی الحجہ کی دس تاریخ تھی۔ نبیﷺ نے آج بھی دن چڑھے (چاشت کے وقت ) ایک خطبہ ارشاد فرمایا تھا۔ خطبہ کے وقت آپﷺ خچر پر سوار تھے۔ اور حضرت علیؓ آپﷺ کے ارشادات صحابہ کو سنا رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کچھ بیٹھے اور کچھ کھڑے تھے۔ 2آپﷺ نے آج کے خطبے میں بھی کل کی کئی باتیں دہرائیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوبکرہؓ کا یہ بیان مروی ہے کہ نبیﷺ نے ہمیں یوم النحر (دس ذی الحجہ ) کو خطبہ دیا۔ فرمایا:
''زمانہ گھوم پھر کر اپنی اسی دن کی ہیئت پر پہنچ گیا ہے جس دن اللہ نے آسمان وزمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہے۔ جن میں سے چار مہینے حرام ہیں، تین پے در پے، یعنی ذی قعدہ ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب ِمُضَر جو جمادی الآخرہ اور شعبان کے درمیان ہے۔''
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپﷺ خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ آپﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن پھر آپﷺ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے ؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا : یہ کون سا شہر ہے ؟ ہم نے کہا : اللہ اور اس کے رسول بہترجانتے ہیں۔ اس پر آپﷺ خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا آپﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ مگر آپﷺ نے فرمایا: کیا یہ بلدہ (مکہ ) نہیں ہے ؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اچھا تو یہ دن کون سا ہے ؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ اس پر آپﷺ خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے سمجھا آپﷺ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے۔ مگر آپﷺ نے فرمایا : کیا یہ یوم النحر(قربانی کادن ، یعنی دس ذی الحجہ ) نہیں ہے ؟ہم نے کہا: کیوں نہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: اچھا تو سنو کہ تمہار امال اور تمہاری آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہے جیسے تمہارے اس شہر اور تمہارے اس مہینے میں تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے۔
اور تم لوگ بہت جلد اپنے پروردگار سے ملو گے۔ اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا ، لہٰذا دیکھو !
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسلم عن جابر باب حجۃ النبی ﷺ ۱/۳۹۷ تا ۴۰۰ 2 ابو داؤد : باب اَیّ وقت یخطب یوم النحر ۱/۲۷۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
میرے بعد پلٹ کر گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ بتاؤ ! کیا میں نے تبلیغ کردی ؟ صحابہ نے کہا: ہاں ! آپﷺ نے فرمایا : اے اللہ ! گواہ رہ۔ جو شخص موجود ہے وہ غیر موجود تک (میری باتیں ) پہنچادے۔ کیونکہ بعض وہ افراد جن تک ( یہ باتیں) پہنچائی جائیں گی وہ بعض ( موجودہ) سننے والے سے کہیں زیادہ ان باتوں کے دَروبست کو سمجھ سکیں گے۔1
ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے اس خطبے میں یہ بھی فرمایا : یادر کھو ! کوئی بھی جرم کرنے والا اپنے سوا کسی اور پر جرم نہیں کرتا۔ (یعنی اس جرم کی پاداش میں کوئی اور نہیں بلکہ خود مجرم ہی پکڑا جائے گا ) یاد رکھو! کوئی جرم کرنے والا اپنے بیٹے پر یاکوئی بیٹا اپنے باپ پر جرم نہیں کرتا۔ (یعنی باپ کے جرم میں بیٹے کو یا بیٹے کے جرم میں باپ کو نہیں پکڑا جائے گا ) یاد رکھو ! شیطان مایوس ہوچکا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی بھی اس کی پوجا کی جائے، لیکن اپنے جن اعمال کو تم لوگ حقیر سمجھتے ہو ان میں اس کی اطاعت کی جائے گی اور وہ اسی سے راضی ہوگا۔2
اس کے بعد آپﷺ ایام تشریق (۱۱۔ ۱۲۔ ۱۳۔ ذی الحجہ کو ) منیٰ میں مقیم رہے۔ اس دورا ن آپﷺ حج کے مناسک بھی ادا فرمارہے تھے ، اور لوگوں کو شریعت کے احکام بھی سکھا رہے تھے۔ اللہ کا ذکر بھی فرمارہے تھے۔ سنت ابراہیمی کے سنن ہدی بھی قائم کررہے تھے۔ اور شرک کے آثار ونشانات کا صفایا بھی فرمارہے تھے۔ آپﷺ نے ایام تشریق میں بھی ایک دن خطبہ دیا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں بہ سند حسن مروی ہے کہ حضرت سراء بنت نبہانؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں رؤس کے دن3خطبہ دیا۔ اور فرمایا: کیا یہ ایام تشریق کا درمیانی دن نہیں ہے۔4آپﷺ کا آج کا خطبہ بھی کل (یوم النحر ) کے خطبے جیسا تھا، اور یہ خطبہ سورہ ٔ نصر کے نزول کے بعد دیا گیا تھا۔
ایام تشریق کے خاتمے پر دوسرے یوم النفر یعنی ۱۳۔ ذی الحجہ کو نبیﷺ نے منیٰ سے کو چ فرمایا۔ اور وادی اَبْطح کے خیف بنی کنانہ میں فروکش ہوئے۔ دن کا باقی ماندہ حصہ اور رات وہیں گذاری۔ اور ظہر ، عصر ، مغرب اور عشاء کی نمازیں وہیں پڑھیں۔ البتہ عشاء کے بعد ایک نیند سو کر اٹھے پھر سوار ہوکر بیت اللہ تشریف لے گئے اور طوافِ وداع فرماآئے۔ اور اب تمام مناسک ِ حج سے فارغ ہوکر آپﷺ نے سواری کا رُخ مدینہ منورہ کی راہ پر ڈال دیا۔ اس لیے نہیں کہ وہاں پہنچ کر راحت فرمائیں، بلکہ اس لیے کہ اب پھر اللہ کی خاطر اللہ کی راہ میں ایک نئی جدوجہد کا آغاز فرمائیں۔ 5
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری : باب الخطبہ ایام منیٰ ۱/۲۳۴
2 ترمذی ۲/۳۸ ، ۱۳۵ ، ابن ماجہ کتاب الحج ، مشکوٰۃ ۱/۲۳۴
3 یعنی ۱۲/ ذی الحجہ (عون المعبود ۲/۱۴۳) 4 ابو داؤد باب ایّ یو م یخطب بمنی ۱/۲۶۹
5 حجۃ الوداع کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ صحیح بخاری کتاب المناسک ج ۱ و ج ۲/۶۳۱ ، صحیح مسلم باب حجۃ النبیﷺ ، فتح الباری ج ۳۔ شرح کتاب المناسک اور ج ۸/۱۰۳ تا ۱۱۰ ابن ہشام ۲/۶۰۱ تا ۶۰۵ زاد المعاد ۱/۱۹۶ ، ۲۱۸ تا ۲۴۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آخری فوجی مہم

رومن امپائر کی کبریائی کو گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام اور اہل اسلام کے زندہ رہنے کا حق تسلیم کرے۔ اسی لیے اس کے قلمرو میں رہنے والا کوئی شخص اسلام کا حلقۂ بگوش ہوجاتا تو اس کے جان کی خیر نہ رہتی، جیسا کہ معان کے رومی گورنر حضرت فروہ بن عمرو جذامیؓ کے ساتھ پیش آچکا تھا۔
اس جرأت بے محابا اور اس غرور بے جا کے پیش نظر رسول اللہﷺ نے صفر ۱۱ ھ میں ایک بڑے لشکر کی تیاری شروع فرمائی اور حضرت اسامہ بن زید بن حارثہؓ کو اس کاسپہ سالار مقرر فرماتے ہوئے حکم دیا کہ بلقاء کا علاقہ اور داروم کی فلسطینی سر زمین سواروں کے ذریعہ روند آئو۔ اس کارروائی کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کو خوف زدہ کرتے ہوئے ان کی حدود پر واقع عرب قبائل کا اعتماد بحال کیا جائے۔ اور کسی کو یہ تصور کرنے کی گنجائش نہ دی جائے کہ کلیسا کے تشدد پر کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اسلام قبول کرنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اپنی موت کو دعوت دی جارہی ہے۔
اس موقع پر کچھ لوگوں نے سپہ سالار کی نو عمری کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا۔ اور اس مہم کے اندر شمولیت میں تاخیر کی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ان کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کر رہے ہو تو ان سے پہلے ان کے والد کی سپہ سالاری پر طعنہ زنی کرچکے ہو۔ حالانکہ وہ اللہ کی قسم ! سپہ سالاری کے اہل تھے۔ اور میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے تھے۔ اور یہ بھی ان کے بعد میرے نزدیک محبوب ترین لوگوں میں سے ہیں۔1
بہر حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت اسامہ ؓ کے گردا گرد جمع ہوکر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔ اور لشکر روانہ ہوکر مدینہ سے تین میل دور مقام جرف میں خیمہ زن بھی ہوگیا لیکن رسول اللہﷺ کی بیماری کے متعلق تشویشناک خبروں کے سبب آگے نہ بڑھ سکا بلکہ اللہ کے فیصلے کے انتظار میں وہیں ٹھہرنے پر مجبور ہوگیا۔ اور اللہ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ لشکر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت کی پہلی فوجی مہم قرار پائے۔2
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری :باب بعث النبیﷺ اُسامۃ ۲/۶۱۲
2 ایضا صحیح بخاری ، وابن ہشام ۲/۶۰۶ ، ۶۵۰
 
Top