بسم اللہ الرحمن الرحیمحجیت حدیث کے دلائل قرآن میں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :موجودہ دور میں منکرین حدیث احادیث کا شدت سے انکارکرتے ہیں۔ حالانکہ احادیث صحیحہ کا انکار گویا قرآن کریم کا انکار ہے ۔ احادیث کا اگر انکار کردیا جائے تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے دین اسلام کی وضاحت اور تشریح فرمادی تھی ۔ اور احادیث کے انکار سے پورا دین ہی مشکوک ہوجاتا ہے۔ نیز قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ احادیث کا دین اسلام میں ایک مقام ہے چنانچہ اس سلسلے میں کچھ وضاحت پیش کی جاتی ہے ۔
''اتَّبِعُواْ مَا أُنْزِلَ ِلَیْْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلاَ تَتَّبِعُواْ مِنْ دُوْنِہِ أَوْلِیَاءَ ط قَلِیْلاً مَّا تَذَ کَّرُوْنَ''۔
''جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہےاسکی اتباع کرواور اسکےعلاوہ دوسرےاولیاءکی اتباع نہ کرو۔ مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو''۔(سورة الاعراف آیت3)
''یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْا أَعْمَالَکُمْo''۔معلوم ہوا کہ اتباع صرف اس کی ہے جو رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا کسی اور کی اتباع ممنوع ہے مگر اس نصیحت کو کم لوگ ہی مانتے ہیں ۔ کیونکہ کوئی اپنے بڑوں کی اتباع وپیروی کرتا ہے ۔ کوئی اپنے اماموں اور علماء کی اتباع کرتا ہے اور کوئی اپنے نفس کی اتباع کرتا ہے ۔
''اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالیٰ کی اور اطاعت کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور (ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر ) اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو''۔(سورہ محمد آیت 33)
''مَّنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ''۔ (سورہ نساء آیت80)اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی ایک کی اطاعت سے انکار اعمال کو ضائع (برباد) کرنے کے مترادف ہے ۔ اور اطاعت کے لحاظ سے دونوں اطاعتوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے ۔
''جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی اس نے درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت کی ''۔
''وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی o اِنْ ہُوَ ِلَّا وَحْی یُوحَی ''۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جی سے کوئی بات نہیں کہتے تھے بلکہ وہ جو فرماتے تھے وحی کی بناء پر فرمایا کرتے تھے ۔
وہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے بلکہ ان کا بولنا تو وحی کی بناء پر ہے کہ جو ان پر نازل کی جاتی ہے ''۔(سورہ نجم آیت3,4)
''وَأَنزَلْنَا ِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo''۔ (سورہ نحل آیت44)ایک مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے :
''اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ذکر (قرآن کریم )نازل فرمایا ہے تاکہ جو کچھ ان کے لئے نازل کیا گیا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کی تشریح ووضاحت کرکے لوگوں کو بتادیں اورتاکہ لوگ غور وفکر کریں ''۔
اس آیت سے واضح ہوا کہ قرآن کریم کے احکامات اور فرامین کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول وعمل کے ذریعے تشریح وتوضیح فرمانے پر مقرر کئے گئے تھے ۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے پھرتے قرآن تھے چناچہ سیدنا سعد بن ہشام رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے ام المؤمنین ! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق خبر دیجئے ؟ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
''کان خلقہ القرآن'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق قرآن تھا ۔کیا تم نے قرآن کریم کا مطالعہ نہیںکیا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :وَِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورة القلم آیت4)
''اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبہ پر ہو ''۔ (مسند احمد جلد6صفحہ91، تفسیر ابن کثیر جلد4ص402)
''صلوا کما رایتمونی اصلی ''۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حکم فرمایا : واقیمواالصلوة ''نماز قائم کرو ''۔اب نماز کس طرح قائم کی جائے اس کا مکمل طریقہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً سکھایا یعنی استنجا ء ، وضو، نماز کی ادائیگی کا مکمل طریقہ ، قیام ، رکوع ، سجود ،قراء ت ، فرائض ، نوافل ، اذان، اقامت ، پنج وقتہ نمازیں وغیرہ وغیرہ ۔غرض نماز کے ہرہر مسئلہ کی تشریح ووضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قولاً وفعلا ً فرمادی اور امت سے ارشاد فرمایا:
''نماز اس طرح پڑھو جیساکہ مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ''۔(بخاری)
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واٰتواالزکوة یعنی ''اور زکوة ادا کرو''۔ اب زکوة کب ادا کی جائے کتنی ادا کی جائے ۔ اس کا مکمل طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ اسی طرح دین کے دوسرے معاملات کی وضاحت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول وعمل کے ذریعے فرمادی ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ دین قرآن وحدیث کا نام ہے ۔
"اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَیُرِیْدُوْنَ أَن یُفَرِّقُواْ بَیْْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَیْقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَیُرِیْدُوْنَ أَنْ یَتَّخِذُواْ بَیْْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً oأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقّاً وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِیْنَ عَذَاباً مُّہِیْناً o وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ وَلَمْ یُفَرِّقُواْ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ أُوْلٰئِکَ سَوْفَ یُؤْتِیْہِمْ أُجُوْرَہُمْ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماًo''۔(سورہ نساء آیت 152تا150)اب اگر کوئی شخص اپنے کسی باطل عقیدہ کی وجہ سے کسی حدیث کا انکار کرے تو اس نے حدیث کا انکار کرکے گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا انکار کردیا اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والا قرآن کا انکار کرنے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ ایسے لوگ بھی پیدا ہونگے جو قرآن کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی من مانی تشریح بیان کریں گے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کی ذمہ داری نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذمہ لگادی اور قیامت تک کسی کو بھی اس بات کا حق نہیں دیا کہ وہ قرآن کریم کی کوئی جدید تشریح بیان کرے اور جو لوگ خوارج، معتزلہ ، جہمیہ ، قدریہ ، مرجیہ ، پرویز ی، عثمانی ، مسعود ی، منکرین حدیث وغیرہ کی کسی تشریح پر راضی ہوچکے ہیں تو گویا انہوں نے قرآن کریم کا انکار کردیا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو بھی قرآن کریم کی تشریح کا حق حاصل نہیں ہے ۔ ثابت ہوا کہ حدیث کا انکار کرنے والے نہ صر ف منکرین حدیث ہیں بلکہ وہ منکر قرآن بھی ہیں اور جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم کو تو مانتے ہیں لیکن حدیث کا انکار کرتے ہیں تو انہوں نے قرآن کریم کو بھی نہیں مانا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں کہ ہم کسی کو مانیں گے اور کسی کو نہ مانیں گے اور کفر وایمان کے بیچ میں ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، وہ سب پکے کافر ہیں اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے وہ سزا مہیا کررکھی ہے جو انہیں ذلیل وخوار کردینے والی ہوگی ۔ بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کو مانیں اور ان کے درمیان تفریق نہ کریں ، ان کو ہم ضرور ان کے اجر عطا کریں گے اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے''۔
'فما وافق کتاب اللہ فخذوہ وما خالف کتاب اللہ فدعوہ 'ثابت ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ماننے کا مطلب یہی ہے کہ سب پر ایمان رکھا جائے اور ان میں سے کسی کے درمیان بھی تفریق نہ کی جائے یعنی اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ میں اللہ تعالیٰ کو مانتا ہوں لیکن رسولوں کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی ماننا نہ ہوا ۔ اور کوئی یہ دعوی کرے کہ میں بعض رسولوں کو مانتا ہوں اور بعض کا انکار کرتا ہوں تو یہ بھی کھلا کفر ہے ۔اسی طرح کسی کا یہ دعوی کہ میں قرآن کریم کو مانتا ہوں لیکن حدیث رسول کو نہیںمانتا تو واضح رہے کہ ایسا شخص قرآن کریم کا بھی انکاری ہے کیونکہ اس نے قرآن کریم کے حکم ' ' واطیعوا الرسول ۔اور رسول کی اطاعت کرو'' ۔کا انکار کردیا ہے بعض لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ فلاں حدیث قرآن کریم کی فلاں آیت سے ٹکراتی ہے یا اس کا مضمون قرآن کریم کے فلاں مضمون کے خلاف ہے تو یہ لوگ بھی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور حدیث کو قرآن کریم سے ٹکرانے والے فرقہ باطلہ ہی تھے ۔ اور انہوں نے ہی یہ اصول وضع کئے تھے واضح رہے کہ یہ باطل عقیدہ بھی شیعہ کا ہے چنانچہ شیعہ کی معتبر کتاب اصول کافی میں ہے ۔
'پس جو حدیث کتاب اللہ کے موافق ہو تو اسے لے لو اور جو کتاب اللہ کے خلاف ہو اسے چھوڑ دو'۔ (اصول کافی جلد1ص55)
اب اگر کوئی یہ اصول بیان کرے تو سمجھ لیں وہ شیعہ مذہب کی تبلیغ کررہا ہے ۔ کیا اما م بخاری وامام مسلم وغیرہ دین سے اس قدر ناواقف تھے کہ انہوں نے قرآن کریم کے خلاف آئی ہوئی احادیث کو اپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ احادیث قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ قرآن کریم کی توضیح وتفسیر بیان کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پرقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
''انما حرم علیکم المیتة .......تم پر تو حرام کیا گیا ہے مردہ .......(سورہ بقرة آیت173)
''ھو االطور ماء ہ والحل میتتہ ''۔قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوا کہ مردہ (یعنی جو حلال جانور اپنی طبعی موت مرجائے )حرام ہے ۔ اور اب کسی بھی مردہ کو کھانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ وہ حرام ہے ۔ لیکن حدیث میں ہے :
''سمند ر کا پانی پاک ہے اور اس کا ''مردہ''(مچھلی )حلال ہے''۔(رواہ مالک والترمذی وابو داؤد والنسائی وابن ماجہ والدارمی ، مشکاةالمصابیح وسندہ صحیح )
"اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ ''۔(سورةالحجرات آیت15)اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مچھلی اگرچہ مردہ ہے لیکن اس کا کھانا حلال ہے اگرچہ بظاہر یہ حدیث قرآن کریم کے خلاف ہے لیکن جب قرآن وحدیث میں بظاہر تضاد ہوگا تو ان میں تطبیق دی جائے گی ۔ یعنی اگرچہ ہر مردہ حرام ہے لیکن مچھلی مردہ ہونے کے باوجود بھی حلال ہے کیونکہ یہ ایک استثنائی صورت ہے اور دیکھا گیا ہے کہ منکر عذاب القبر اور منکرین حدیث بھی اس ''مردہ''کو مزے لے لے کر کھاتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث پر سچے دل سے ایمان رکھا جائے اور ان پر شک وشبہ نہ کیا جائے ۔
''حقیقت میں تو مؤمن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ۔ وہی سچے لوگ ہیں ''۔
احادیث کے متعلق اگر ذرا بھی ایمان متزلزل ہو جائے تو پھر گویا اس شخص کا پورا اسلام ہی مشکوک ہوجائے گا اور جو لوگ انکار حدیث کی تبلیغ کررہے ہیں تو وہ اس سلسلہ میں یہود ونصاری اور دشمنان اسلام کے پروپیگنڈہ سے متاثر ہوئے ہیں اور یا وہ اسلام کی پابندیوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مردم شماری میں ان کا نام مسلمانوں کی لسٹ میں بھی رہے اور دوسری طرف وہ اسلام کی پابندیوں سے بھی آزاد رہیں ۔
اختلافات کے حل کا قرآنی اصول
''یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَطِیْعُواْ اللّٰہَ وَأَطِیْعُواْ الرَّسُوْلَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْکُمْ فَِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْئٍ فَرُدُّوْہُ اِِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْْر وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاً''۔(سورہ نساء آیت59)جب کسی مسئلہ میں لوگوں کے درمیان اختلاف ونزاع ہوجائے اور لوگ اس مسئلہ کے متعلق مختلف آراء ونظریات رکھتے ہوں تو ایسی صورت میں اس کے حل کی کیا صورت ہوگی ؟ اس کا جواب قرآن کریم نے اس طرح دیا ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف پھیردو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ''۔
معلوم ہوا کہ جب بھی کسی مسئلہ میں اہل اسلام کے درمیان اختلاف ہوگا تو اس کے حل کی صورت یہ ہوگی کہ اس مسئلہ کا حل قرآن وحدیث سے دریافت کیا جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن وحدیث کو حکم قراردیا ہے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان کا دعوے دار ہے تو وہ اختلافی مسائل کا حل قرآن وحدیث ہی میں تلاش کرے گا ۔ بصورت دیگر ایسے شخص کا دعوی ایمان ہی مشکوک ہے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ مختلف فرقے اختلافی مسئلہ کا حل قرآن وحدیث کے بجائے اپنی منظور نظر شخصیات سے حاصل کرتے ہیں۔ اور جو حل انہیں اپنے قائد ، امام اپنے امیر جماعت سے مل جائے تو وہ اسے قبول کرتے ہیں اور قرآن وحدیث کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حنفی اپنے امام کی بات حرف آخر سمجھتا ہے اور احادیث صحیحہ کو خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں ۔ اسی طرح مالکی اپنے امام ، شافعی اپنے امام ، حنبلی اپنے امام ، خوارج ، معتزلہ ، جہمیہ ، مرجیہ ، پرویزی ، عثمانی ، مسعودی وغیرہ اپنے اپنے بانی وامام کی بات کو حجت اور حرف آخر سمجھتے ہیں اور وہ ''فردوہ الی اللہ والرسول '' کے بجائے ''فردوہ الی الامام یا الی الامیر الجماعتہ''پر عمل پیرا ہیں ۔
'فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰیَ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُواْ فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجاً مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُواْ تَسْلِیْماً''۔(سورہ نساء آیت65)
''پس نہیں اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ''۔
''وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِیْراً''۔(سورہ نساء آیت115)معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اختلافی مسائل میں حکم نہ ماننے والا ایمان سے خارج ہے چاہے وہ اپنے آپ کو لاکھ مسلم یا توحیدی کہے ۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہے :
''اور جو شخص رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد اور اہل ایمان کے راستہ کے سوا کسی دوسرے راستہ پر چلے تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جو بد ترین جائے قرار ہے ''۔
ایک اور مقام پر ارشاد ہے :قرآن وحدیث راہ ہدایت ہے اور اس راہ ہدایت پر چلنا ہر مسلم پر لازم ہے لیکن جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد بھی سنت کو ترک کردیتا ہے تو وہ رسول کی مخالفت کررہا ہے اور مؤمنین یعنی صحابہ کرام کے راستے کو چھوڑکر کسی دوسری راہ پر چل پڑا ہے تو اس کا انجام ظاہر ہے یعنی جہنم کے سوا اس کا اور کونسا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس آیت سے واضح ہوگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہدایت ہے اور اس کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے ۔
''فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہِ أَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَة أَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَاب أَلِیْم ''۔
''پس جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو (کسی ناگہانی) آفت یا دردناک عذاب کے نازل ہونے سے ڈرنا چاہئیے ''۔ (سورة النور آیت 63)
لنکاس مضمون کی دیگر آیات بھی موجود ہیں لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں ۔