• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث’’کل ایام التشریق ذبح‘‘بلحاظ سند کیسی ہے؟ غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
1- امام ابن حزم الاندلسی (المتوفی 456) رحمہ اللہ نے ان کی اسی زیر بحث حدیث کی بنیاد پر المحلی (ج 5 ص 199) میں ایک علیحدہ مسالۃ کا باب باندھا ہے یعنی انہوں نے اس حدیث سے حجت پکڑی ہے اور وہ ان کے نزدیک صرف صحیح حدیثوں سے ہی حجت لیتے ہیں۔
جی بالکل درست فرمایا آپ نے اور بطور فائدہ عرض ہے کہ:

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
مُزْدَلِفَة موقف ، وارتفعوا عَن) محسر ، وكل فجاج منى منحر ، وَفِي كل أَيَّام التَّشْرِيق ذبح» . رَوَاهُ أَبُو حَاتِم بن حبَان فِي «صَحِيحه» عَن أَحْمد بن الْحسن بن عبد الْجَبَّار الصُّوفِي ، عَن أبي نصر التمار ، عَن سعيد بن عبد الْعَزِيز ، عَن سُلَيْمَان بن مُوسَى ، عَن عبد الرَّحْمَن بن أبي حُسَيْن ، عَن جُبَير بِهِ . واحتجَّ بِهِ ابْن حزم فِي «محلاه» ؛ فَأخْرجهُ من حَدِيث سُلَيْمَان بِهِ بِلَفْظ : «كل عَرَفَات موقف ، وَارْفَعُوا عَن بطن عُرَنَة ، والمزدلفة كُله موقف ، وَارْفَعُوا عَن بطن محسر» .[البدر المنير لابن الملقن: 6/ 239]۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قربانى كرنے كا وقت !!!

قربانى كا جانور كس وقت ذبح كيا جائيگا ؟

الحمد للہ:

قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.
ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنى قربانى كا گوشت كھائے.
مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے "
مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).

زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.
ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 ).

زاد المعاد ميں ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں"

اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.

اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:

" منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے، اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں " انتہى.

اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2476 ) ميں صحيح كہا ہے.
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 319 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " احكام الاضحيۃ " ميں قربانى كرنے كے وقت كے متعلق كہتے ہيں:


" يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ....

ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

" اہل علم كے صحيح قول كے مطابق حج تمتع اور حج قران كى قربانى كرنے كے چار دن ہيں، ايك عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد، اور قربانى كا وقت چوتھے روز كا سورج غروب ہونے پر ختم ہو جاتا ہے "
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 406 ).

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.com/ur/36651
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
لگتا ہے چاردن قربانی والےرسالہ میں میری طرف سے بعض کی تردید سے کچھ لوگوں کو بہت دکھ پہنچا ہے ۔
جس کا اظہار وہ گالی اوربدزبانی کے ذرریعہ کررہے ہیں۔
اگرکسی پر رد کرنا ان لوگوں کے نزدیک جرم ہے تو خود اپنے گریبان میں یہ لوگ جھانک کر دیکھیں کہ یہ کس پر اور کیا کیا رد کررہے ہیں ۔
اگرچاردن قربانی کا موقف اپنانے والے جمہور اہل علم پر یہ لوگ رد کرنا اپنا حق سمجھتے تو پھر تین دن قربانی والے شاذ موقف پر ہم نے رد کردیا تو کون سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرلیا؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لگتا ہے چاردن قربانی والےرسالہ میں میری طرف سے بعض کی تردید سے کچھ لوگوں کو بہت دکھ پہنچا ہے ۔
جس کا اظہار وہ گالی اوربدزبانی کے ذرریعہ کررہے ہیں۔
اگرکسی پر رد کرنا ان لوگوں کے نزدیک جرم ہے تو خود اپنے گریبان میں یہ لوگ جھانک کر دیکھیں کہ یہ کس پر اور کیا کیا رد کررہے ہیں ۔
اگرچاردن قربانی کا موقف اپنانے والے جمہور اہل علم پر یہ لوگ رد کرنا اپنا حق سمجھتے تو پھر تین دن قربانی والے شاذ موقف پر ہم نے رد کردیا تو کون سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرلیا؟؟
کفایت اللہ بھائی ویسے مجھے یہی محسوس ہوا ہے کہ زبیر علی زئی صاحب کے موقف سے اختلاف کرنے والے بعض ہمارے اہلحدیث بھائیوں کا لہجہ ذرا سخت ہوتا ہے ۔
یہ بات میں نے آپ کی تحریروں میں بھی محسوس کی ہے اور ابن بشیر الحسینوی صاحب کے بعض مقالات میں بھی ۔
اور میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ یہ ’’ مکافات عمل ‘‘ کے قبیل سے ہے ۔ زبیر صاحب ـ شفاہ اللہ و عافاہ ـ کی تحریریں بہی اسی اسلوب کی ہوتی ہیں انہوں نے بھی اپنے سے پہلے یا معاصرین علماء کرام کے بارے میں سختی سے کام لیا ہے ۔
اور آج کل زبیر علی زئی صاحب کے شیدائی جس طرح کا رویہ آپ جیسے اہل علم و قلم کے ساتھ اپنا رہے ہیں اور جو قواعد وضع کر رہے ہیں اگر یہی اصول زبیر صاحب کی تحریروں پر لاگو کیے جائیں تو شاید وہ بھی ان اصولوں پر پورے نہیں اتریں گے ۔
آپ کی کتاب پر نظر ثانی نہ کروانے کے حوالےسے اعتراض کیے جار ہے ہیں حالانکہ خود زبیر صاحب کی کئی کتابیں ہیں جن پر نہ کسی معتبر کی نظر ثانی اور نہ مقدمہ ۔
بہرصورت علم کے تقاضے کچھ اور ہیں اور آج ہم کچھ اور قسم کی بحثوں میں الجھے ہوئے ہیں ۔
اللہ آپ کو توفیق دے اور مزید تحقیقی کام آپ سے لے ۔
میں آپ سے گزارش کرنا چاہوں گے کہ فیس بکی رنگیلوں کی چیں بہ چیں سے ہرگز پریشان نہ ہوں ۔ اللہ آپ کو ہمت سے نوازے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
نظر ثانی سےمتعلق میں نے جو لکھا ہے شاید بعض لوگ اسے سمجھ نہیں پائے یا شاید میں ہی صحیح طور سے سمجھا نہیں سکا۔
ایسانہیں ہے کہ میں سرے سے نظرثانی کا قائل نہیں ہوں بلکہ میرا مقصود یہ تھا کہ انفرادی نظر ثانی کے علاوہ اجتماعی نظرثانی کروانی چاہئے۔
یعنی میں اپنی تحریر کی اشاعت سے قبل کسی ایک ہی شخصیت سے نظرثانی کا قائل نہیں ہوں البتہ تحریر کی اشاعت ہوجانے کے بعد میں تمام اہل علم وقارئین کو نظرثانی کی دعوت دیتاہوں۔
اورتحریر کی دوسری اشاعت میں تمام قارئین کے تاثرات کو سامنے رکھتے ہوئے جو چیزیں غلط معلوم ہوں گی ان کی اصلاح کی جائے گی جو بے جا تنقید ہوگی اس کا جواب دیا جائے گا ۔
اور میرا یہ طرزعمل کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے خلاف اتنا وایلا مچایا جائے ۔ علاوہ بریں یہ جوکچھ بھی ہے میرا ذاتی معاملہ ہے اس میں دوسروں کو ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے۔
جہاں تک زبیر علی زئی صاحب شفاہ اللہ سے اختلاف کے وقت سخت لہجے کی بات ہے تو موصوف کے سخت لہجے کی بنسبت ہمارا لہجہ تو کچھ بھی نہیں ۔نیز یہ ہمارا معمول بھی نہیں ہے کہ کسی سے اختلاف کے وقت شدت اپنائی جائے لیکن کیا کیا جائے کہ خود موصوف ہی فریق مخالف کو اس پر مجبور کردیتے ہیں۔
ہمارا حال تو یہ تھا کہ ہم آں جناب کو ان کی حیثیت سے بڑھ کر قابل احترام سمجھتے تھے ، اور اس احترام میں اس قدر غلو تھا کہ آنکھ بند کرکے ہم موصوف کی بعض تحقیقات پر اعتماد کرجاتے تھے اور از سر نو تحقیق کا خیال بھی نہیں آتاتھا۔
لیکن محض معمولی اختلاف پر موصوف کے حددرجہ پرتشددد رویہ نے نہ صرف یہ کہ غلو آمیزاحترام کو متاثر کیا بلکہ اس بات کا بھی محرک ہوا کہ موصوف کی تحقیقات کا جائزہ بھی لینا چاہئے ۔ پھر جب اس وادی میں قدم رکھا تو واللہ ایسے اوجھل امور منکشف ہوئے جن کے تصور سے بھی ذہن ودماغ کانپ جاتاہے۔
اللہ ہم سب کی اصلاح کرے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جہاں تک زبیر علی زئی صاحب شفاہ اللہ سے اختلاف کے وقت سخت لہجے کی بات ہے تو موصوف کے سخت لہجے کی بنسبت ہمارا لہجہ تو کچھ بھی نہیں ۔نیز یہ ہمارا معمول بھی نہیں ہے کہ کسی سے اختلاف کے وقت شدت اپنائی جائے لیکن کیا کیا جائے کہ خود موصوف ہی فریق مخالف کو اس پر مجبور کردیتے ہیں۔
ہمارا حال تو یہ تھا کہ ہم آں جناب کو ان کی حیثیت سے بڑھ کر قابل احترام سمجھتے تھے ، اور اس احترام میں اس قدر غلو تھا کہ آنکھ بند کرکے ہم موصوف کی بعض تحقیقات پر اعتماد کرجاتے تھے اور از سر نو تحقیق کا خیال بھی نہیں آتاتھا۔
لیکن محض معمولی اختلاف پر موصوف کے حددرجہ پرتشددد رویہ نے نہ صرف یہ کہ غلو آمیزاحترام کو متاثر کیا بلکہ اس بات کا بھی محرک ہوا کہ موصوف کی تحقیقات کا جائزہ بھی لینا چاہئے ۔ پھر جب اس وادی میں قدم رکھا تو واللہ ایسے اوجھل امور منکشف ہوئے جن کے تصور سے بھی ذہن ودماغ کانپ جاتاہے۔
اللہ ہم سب کی اصلاح کرے۔
خير الأمور أوسطها
میرے خیال سے دو انتہاؤں کی بجائے درمیانی راہ اپنانی چاہیے ۔
شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تو پاکستان ( هندوستان كو بھی ساتھ شامل کرلیں ) کی بات ہے ۔ اس سے پہلے عرب و عجم میں یہی معاملہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی ذات کے حوالے سے تھا ۔ بہترین لوگ وہی تھے اور ہیں جو درمیانی راہ پر ہیں ۔
خدمت حدیث کے حوالے سے شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ مشہور تھے شیخ البانی رحمہ اللہ آئے تو انہوں نے بعض جگہ پر شیخ احمد شاکر کے بارے میں سخت رویہ اپنایا پھر بعد والوں میں سے بعض نے شیخ البانی کے بارے میں سخت رویہ اپنایا انہیں لوگوں میں سے شیخ زبیر شفاہ اللہ ہیں اب ان کے بعد والے بعض یہی رویہ ان کے ساتھ اپنا رہے ہیں ۔
حالانکہ میں سمجھتا ہوں شیخ احمد شاکر کی تحقیقات سے شیخ البانی کو بہت زیادہ مدد ملی جیساکہ شیخ زبیر کے طبقہ کو شیخ البانی کی تحقیقات سے ایک راہ ملی و علی ہذا القیاس بعض تحقیقات کو لے کر بعد والے پہلوں سے نالاں ہیں ۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے جیساکہ امام دار قطنی رحمہ اللہ نے کہا تھا :
لو لا البخاري لما راح مسلم و لا جاء
کتاب کی نظر ثانی کے حوالے سے آپ کا ایک نقطہ نظر ہے مجھے بھی اس سے اختلاف ہے لیکن بعض رنگیلوں نے اس کو جو رنگ دیا ہے بالکل بھی اچھا نہیں لگا ۔
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,869
پوائنٹ
157
بھائی جان’’بطور فائدہ‘‘یہ بات عرض کرتا چلا جاوں۔۔۔’’قربانی کے تین ایام‘‘والے موقف میں ’’شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تنہا نہیں ہیں بلکہ’’شیخ مصطفے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ‘‘بھی اسی موقف کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔۔۔
دوسری بات:’’آثار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی’’ان دو شیوخ‘‘کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
اگر سلف میں اس مسئلہ میں’’اختلاف واقع‘‘ہوا ہے،تو اتنی رعایت ان افراد کو بھی دیجیے جو تین دن سے زیادہ قربانی کو جائز تسلیم نہیں کرتے۔۔۔۔
باقی ان شاء اللہ۔۔۔۔جب شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ’’شفائے کاملہ‘‘سے بہرہ ور ہوکر قلم اور کتاب کی دنیا سے دوبارہ وابستگی اختیار کریں گے،تو’’شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ‘‘کی کتاب کا رد بھی منظر عام آجائے گا۔۔۔
ان شاء اللہ
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top