• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث خلافت (نقد وتبصرے )

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو شیعوں کے اماموں کے طرح معصومین میں نہ شامل کریں۔ وہ بھی انسان تھے۔ جذبات میں انسان کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کلی طور پر غلط ہے ۔
بہت سے صحابہ کرام سے گناہ سرزد ہوئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اقرار کر کے اپنے لئے شرعی سزا طلب کی ۔ کیا اس کی بھی تاویل کی جائے گی۔
ایسا نہ کریں بھائی۔
محترم -

اس نظریہ سے کسی کو اختلاف نہیں -تمام اہل سنّت کا یہی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں- اور ان سے بھی غلطیوں کا صدور ہوا- ان کی اجتہادی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور بات ہے- لیکن ان پاک ہستیوں پر فسق و فجور کا الزام عائد کرنا کبیرہ گناہ ہے- یہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم پر بہتان ہے کہ انہوں نے اپنے صحابہ کی تربیت صحیح طرز پر نہیں کی اور وہ آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے (نعوز باللہ )-

اس لئے ایسی روایات جن سے کسی صحابی رسول کا فسق فجور ثابت ہو رہا ہو ان روایات کو آئمہ و محدثین نے مختلف تاویلات کرکے ان کو رد کیا ہے-
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم -

اس نظریہ سے کسی کو اختلاف نہیں -تمام اہل سنّت کا یہی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں- اور ان سے بھی غلطیوں کا صدور ہوا- ان کی اجتہادی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور بات ہے- لیکن ان پاک ہستیوں پر فسق و فجور کا الزام عائد کرنا کبیرہ گناہ ہے- یہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم پر بہتان ہے کہ انہوں نے اپنے صحابہ کی تربیت صحیح طرز پر نہیں کی اور وہ آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے (نعوز باللہ )-

اس لئے ایسی روایات جن سے کسی صحابی رسول کا فسق فجور ثابت ہو رہا ہو ان روایات کو آئمہ و محدثین نے مختلف تاویلات کرکے ان کو رد کیا ہے-
السلام علیکم
محترم محمد علی جواد بھائی مرتد ہونا اور تقاضہ بشریت کے تحت کسی غلطلی کا ارتکاب ہوجانا ۔دو الگ باتیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہاں ذکر کہاں اور کسی کے ارتداد کی نسبت آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں گے۔
وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ کے مرتد لوگوں سے ابو بکر صدی
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم -

اس نظریہ سے کسی کو اختلاف نہیں -تمام اہل سنّت کا یہی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام معصوم نہیں ہیں- اور ان سے بھی غلطیوں کا صدور ہوا- ان کی اجتہادی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور بات ہے- لیکن ان پاک ہستیوں پر فسق و فجور کا الزام عائد کرنا کبیرہ گناہ ہے- یہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم پر بہتان ہے کہ انہوں نے اپنے صحابہ کی تربیت صحیح طرز پر نہیں کی اور وہ آپ صل اللہ علیہ و آ له وسلم کے وصال کے بعد مرتد ہو گئے (نعوز باللہ )-

اس لئے ایسی روایات جن سے کسی صحابی رسول کا فسق فجور ثابت ہو رہا ہو ان روایات کو آئمہ و محدثین نے مختلف تاویلات کرکے ان کو رد کیا ہے-
السلام علیکم
محترم محمد علی جواد بھائی مرتد ہونا اور تقاضہ بشریت کے تحت کسی غلطلی کا ارتکاب ہوجانا ۔دو الگ باتیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہاں ذکر کہاں اور کسی کے ارتداد کی نسبت آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں گے۔
وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ کے مرتد لوگوں سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنی پڑی کیا ان کے ارتداد کی نسبت (نعو ذ بااللہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں گے ۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق ایک شخص وحی کی کتابت کر تا تھا بعد میں مرتد ہوگیا تو اس کو کیا کہیں گے۔

نبی کا کام پیغام پہنچانا ہے اور اس بات کا یہ ذکر حجتہ الوداع میں آپ نے کیا کہ "کیا میں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا"۔
نوٹ : پچھلے جواب غلطی سے نامکمل پوسٹ ہوگیا۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم
محترم محمد علی جواد بھائی مرتد ہونا اور تقاضہ بشریت کے تحت کسی غلطلی کا ارتکاب ہوجانا ۔دو الگ باتیں ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا یہاں ذکر کہاں اور کسی کے ارتداد کی نسبت آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں گے۔
وفات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ کے مرتد لوگوں سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جنگ کرنی پڑی کیا ان کے ارتداد کی نسبت (نعو ذ بااللہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کریں گے ۔ بخاری کی ایک حدیث کے مطابق ایک شخص وحی کی کتابت کر تا تھا بعد میں مرتد ہوگیا تو اس کو کیا کہیں گے۔

نبی کا کام پیغام پہنچانا ہے اور اس بات کا یہ ذکر حجتہ الوداع میں آپ نے کیا کہ "کیا میں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا"۔
نوٹ : پچھلے جواب غلطی سے نامکمل پوسٹ ہوگیا۔
وعلیکم سلام و رحمت الله -

اہل سنّت کا عقیدہ یہی ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین "کلھم عدول" ہیں-

قرآن کریم میں الله رب العزت ان پاک ہستیوں کے بارے میں اس طرح ارشاد فرماتا ہے کہ :

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ آللَّـهُ خَيْرٌ‌ أَمَّا يُشْرِ‌كُونَ ۔۔۔ سورة النمل-٥٩

کہہ دیجئے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے چنے ہوئے بندوں پر سلام ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وه جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا رہے ہیں

سیدنا ابن عباس رضی الله عنہ اس آیت کی تفسیر کے مطابق فرماتے ہیں کہ اللہ کے چنے ہوئے بندوں سے مراد نبی کریمﷺ کے ساتھی ہیں۔ دیکھئے تفسیر ابن کثیر

نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی مشہور حدیث مبارکہ میں ہے:
« لا تسبوا أحدا من أصحابي . فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ، ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه » ۔۔۔ صحيح مسلم
میرے صحابہ میں سے کسی کو گالی نہ دو، اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو وہ ان کے ایک یا آدھ چلو (گندم یا جو وغیرہ) کے صدقے کے برابر بھی نہ ہوگا۔

اب اسی سے اندازہ لگا لیں کہ صحابہ کرام کا الله اور ان کے نبی کے سامنے کیا مقام ہے -

جو لوگ نبی کے وصال کے بعد مرتد ہوے وہ آپ کے زمانے میں بھی منافق ہی مشھور تھے - جیسے عبدللہ بن ابی وغیرہ - بعض مرتبہ نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے ایسے منافقوں کو بھی صحابی کہا لیکن وہ حقیقی صحابی نہیں تھے -صحیح بخاری کی ایک حدیث میں ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کی گردن مار دینے کی اجازت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ : دعه لا يتحدث الناس ان محمدا يقتل اصحابه کہیں یوں نہ کہا جانے لگے کہ محمد اپنے صحابه کو قتل کرتا ہے۔ صحیح بخاری ، کتاب التفسیر -یہاں عبدللہ بن ابی منافق کو بھی صحابی کہا گیا- لہذا وہی لوگ مرتد ہوے جن کے دل میں خالص ایمان نہیں تھا - -

لہذا حقیقی اصحاب رسول کے متعلق فسق و فجور کا عقیدہ رکھنا ہمارے دین میں جائز نہیں ہے -اب چاہے وہ امیر معاویہ رضی الله عنہ ہوں یا کوئی اور صحابی رسول ہوں - اور جہاں تک صحابہ کرام کی اجتہادی غلطیوں کا تعلق ہے تو اس سے تو حضرت علی رضی الله عنہ بھی مبرّا نہیں ہیں ان سے بھی اجتہادی غلطیاں سرزد ہوئیں - لیکن رافضی جس طرح امیر معاویہ رضی الله عنہ کی تنقیص و تنقید کرتے ہیں اور ان کو ظالم و فاسق بادشاہ ثابت کرتے ہیں اور ان کی برایوں کا پرچار کرتے ہیں ہم حضرت علی رضی الله عنہ اور اہل بیعت سے متعلق اس قسم کی لغو نظریات ہرگز نہیں رکھتے - ہمارے نزدیک سب اصحاب رسول انتہائی محترم اور قابل ادب ہیں-

الله حق بات کہنے کی توفیق دے (آمین)
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
محترم جواد بھائی
میں نے آپ کی اس بات کا جواب دیا تھا کہ اگر کسی صحابی سے کو ئی غلطی اجتہادی ہو یا کوئی اور ہو اس کی نسبت یہ نہیں ہوسکتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضوان اللہ اجمعین کو تربیت صحیح نہیں کی۔ صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے ۔لیکن ان درجات میں تو فرق ہے ۔ جس نے بھی ایمان کی حالت میں رسول کو دیکھا اور ایمان پر موت ہوئی وہ صحابی ہے ۔ میں نے آپ کو کاتب وحی کی مثال دی تھی وہ منافق تو نہیں تھا لیکن تکبر میں مارا گیا۔

اور جو حدیث آپ نے بیان کی ہے اس میں آپ اپنے صحابہ کرام سے ہی مخاطب تھے براہ راست صحابہ کے بعد آنے والے سے نہیں کیوں کہ اس وقت ان کے مخاطب صحابہ ہی تھے ۔ یہ میرا گمان ہے میں نے یہ حدییث مکمل طور پر نہیں پڑھی ہے اگر اس کو مکمل سیاق و سباق کے ساتھ پوسٹ کر دیں کہ نبی نے کس موقع پر یہ فرمایا تو جناب کی عنایت ہوگی ۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46

اس پرجمہور کا قول ہے کے یہ روایت صحیح ہے اور اس پر جو دو تین اقوال پیش کر کے جرح ثابت کی گئی ہے اس کے بارے میں محدث عصر شیخ البانی کا تبصرہ قابل غور
ہے


qool albani.png



یہ وہ آئمہ اور محدثین ہیں جنھوں نے اس کی توثیق کی ہے اور ان میں ابھی چند نام اور بھی ہے جو بعد میں نقل ہوں گے اور جنہوں نے جرح کی ہے اس کے بارے میں شیخ کیا فرماتے ہیں خود اوپر پڑھ لیں

 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
qool albani1.png



اس کو لا صح پر شیخ فرماتے ہیں کی یہ کوئی علمی رد نہیں کے بغیرکسی علت کے کہہ دینا یہ صحیح نہیں خصوصا جبکہ اہل علم جو اس کی معرفت رکھتے ہیں انھوں نے اس کی صحیح کہا ہے
سلسلہ الصحیحہ رقم ٤٥٩
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
علت کی پہلی وجہ کا رد
اس حوالے سے جو نقل کیا کہ
سعیدبن جمھان کی خاص سفینہ سے روایات پر محدثین نے خاص کلام کیا ہے ۔

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
هو ثقة إن شاء الله، وقوم يقعون فيه(وقوم يضعفونه )، إنما يخاف ممن فوقه وسمى رجلا.يعني سفينة
وہ (سعیدبن جمھان) ان شاء اللہ ثقہ ہے اور بعض لوگ اسے ضعیف قراردیتے ہیں انہیں اس سے اوپر کے طریق میں یعنی سفینہ والے طریق میں خوف ہے[سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود، ت الأزهري: ص: 218، تهذيب الكمال للمزي: 10/ 377 ومابین القوسین عندہ]
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے سفینہ والے طریق میں سعیدبن جمھان کی تضعیف کی تردید نہیں کی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ بھی ان محدثین سے متفق ہیں جو سفینہ کے طریق میں سعیدبن جمھان کو ضعیف مانتے ہیں ۔
امام ابوداؤد رحمہ اللہ خود ایک ناقد امام ہیں اور وہ سعیدبن جمھان کی تضعیف کرنے والوں کی مراد یہ بتلارہے ہیں کہ وہ سفینہ کے طریق میں سعیدبن جمھان کی تضعیف کرتے ہیں اس سے معلوم ہوتا کہ امام ابوداؤد کی نظر میں جن ائمہ نے سعید بن جمھان کی تضعیف کی ہے انہوں نے سفینہ ہی کے طریق میں ان کی تضعیف کی ہے۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ سفینہ کے طریق سے سعیدبن جمھان کی روایات میں شدید نکارت پائی جاتی ہے جیساکہ اس کی چار مثالیں آگے آرہی ہیں۔

امام ابو داؤد کا اسی کتب میں ایک اور قول ہے جس میں سعید بن جمہان کو مطلق ثقہ کہا ہے اور دوسری بار یا قول نقل کیا ہے اور اس قول سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ امام ابوداؤد نے اس کو اپنی طرف منسوب کیا ہے انہوں نے بعض کی یہ رائے بتائی ہے اگر وہ اس سے متاثر ہوتے تو اپنی جانب اس قول کی نسبت کرتے کہ میں یہ کہتا ہوں مگر ایسی کوی بات نہیں ہے اور اسی وجہ سے محقق کتاب نے بھی ان کے مطلق قول کو ترجیح دی ہے اور شیخ البانی اور شیخ شعیب نے بھی ان کی مطلق قول کو مانا ہے جس سے یہی تائید ہوتی ہے کہ امام ابو داود کی مطلق توثیق ہی قبول ہے اور چونکہ یہ ان کا اپنا قول نہیں اس لئے کسی نے اس کی جانب توجہ نہیں کی ہے

tahreer taqreeb saeed bn jhman.png



abudaod albani.png




جمہور محدثین اور آئمہ امام احمد بن حنبل سے لے کر اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی بنا پر علی رضی الله عنہ کو خلیفہ قرار دیا ہے جیسا ہم اوپر قول نقل کر آئے ہیں اور کچھ نام یہاں پیش ہیں
حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں


قُلْتُ: وَالسُّنَّةُ أَنْ يُقَالَ لِمُعَاوِيَةَ مَلِكٌ، وَلَا يُقَالُ لَهُ خليفة لحديث «سفينة الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَضُوضًا» .( البدایہ الالنھایہ ترجمہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)
حافظ ابن حجر
الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء وَالله أعلم
فتح الباری تحت رقم 7005


اور امام ابن تیمیہ نے کثیر اہل سنت کی دلیل اس حدیث کو نقل کیا ہے

.
وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ جُهْمَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ» ". أَوْ [قَالَ] (4) : " الْمُلْكَ ". قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: [أَمْسِكْ] ، مُدَّةُ (5) أَبِي بَكْرٍ سَنَتَانِ (6) ، وَعُمَرَ عَشْرٌ، وَعُثْمَانَ اثْنَتَا عَشْرَةَ (7) ، وَعَلِيٍّ كَذَا. قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ. قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ، يَعْنِي بَنِي مَرْوَانَ (8) . وَ [أَمْثَالُ]هَذِهِ (1) الْأَحَادِيثِ وَنَحْوُهَا مِمَّا يَسْتَدِلُّ بِهَا مَنْ قَالَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ. وَالْمَقْصُودُ هُنَا أَنَّ كَثِيرًا مِنْ أَهْلِ السُّنَّةِ يَقُولُونَ (2) : إِنَّ خِلَافَتَهُ ثَبَتَتْ بِالنَّصِّ، وَهُمْ يُسْنِدُونَ ذَلِكَ إِلَى أَحَادِيثَ مَعْرُوفَةٍ صَحِيحَةٍ.
منہاج السنہ جلد ٤ ص ٥١٢


اس معلوم ہوا کہ اہل سنت کے یہاں یہ روایت معروف ہے اور اس سے استدلال کرتے رہے ہیں
باقی آئندہ






 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
گزشتہ سے پیوستہ

ابن حجر اور ابن عدی کے اقوال نقل کر کے جو یہ کہا گیا ہے کہ محدثین نے خاص سعید بن جمھان کی سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں محدثین نے کلام کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عدی نے اس کی روایات نقل کر کے کہا ہے کہ لا باس بہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا خود شیخ سنابلی نے نقل کیا ہے اور ابن حجر کے حوالے سے ہم اوپر نقل کر آئے کہ وہ اس کو صدوق لہ افراد کہہ کر بھی اس کی اس روایت سے احتجاج اخذ کر رہے ہیں تو محدثین نے سعید بن جمھان کی اس روایت کو صحیح کہا ہے اور اس سے احتجاج اخذ کیا ہے
امام احمد بن حنبل کی توثیق پر جو اعتراض کیا ہے کہ

اس وجہ تضعیف کے جواب میں کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے سفینہ سے ہی سعید بن جمھان کی روایت کو صحیح قراردیا ہے ۔
تواس کا جواب یہ کہ امام احمد نے صرف سعیدسے بعض ثقہ رواۃ کے روایت کرنے کی بناپر اسے ثقہ تسلیم کیا ہے اور اس بنیاد پر ان کی اس روایت کو صحیح کہاہے۔چناں چہ :
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:

قلت لأبي سعيد بن جمهان هذا هو رجل مجهول قال لا روى عنه غير واحد حماد بن سلمة وحماد بن زيد والعوام بن حوشب وحشرج بن نباته
امام احمد بن حنبل نے راویوں کے کی بنیاد پر یا اس کی مرویات کو دیکھ کر اسے ثقہ نہیں کہا ہے بلکہ اس خاص روایت کو بیان کر کے اس روایت کو بھی صحیح کہا ہے اور جمھان کو ثقہ بھی کہا ہے اس حوالے سے چند اقوال پیش ہیں
امام احمد سے ابو زرعہ نے پوچھا کہ

قال أبو زرعة الدمشقي: سألت أحمد بن حنبل عن حديث سفينة، الخلافة بعدي ثلاثون سنة، يثبت؟ قال: نعم(مسوعۃ اقوال احمد بن حنبل جلد 4 ص 316)


128- أخبرنا المروذي قال: ذكرت لأبي عبد الله حديث سفينة، فصححه، وقال: هو صحيح.
قلت: إنهم يطعنون في سعيد بن جمهان؟
فقال: سعيد بن جمهان ثقة، روى عنه غير واحد، منهم: حماد وحشرج والعوام.
(المنتخب من علل الخلال جلد 1 ص 218)

اس میں موجود ہے کہ خاص امام سے اس حدیث سفینہ اور سعید بن جمھان کے بارے میں پوچھا گیا ہے انہوں نے دونوں کو صحیح اور ثقہ کہا ہے
اور دیگر اقوال میں اور وضاحت سے موجود ہے
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ حَسَّانَ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ سُئِلَ عَنِ السُّنَّةِ فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: «أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فِي حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَلِيٌّ مِنَ الْخُلَفَاءِ فِي حَدِيثِ سَفِينَةَ، عَلِيٌّ مِنَ الْخُلَفَاءِ، الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَامًا(السنہ فی الخلال 630)

اس میں امام نے واضح طور پر حدیث سفینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی دلیل لی ہے۔

626 - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثَ سَفِينَةَ، فَصَحَّحَهُ، وَقَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَطْعَنُونَ فِي سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، فَقَالَ: سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، مِنْهُمْ حَمَّادٌ، وَحَشْرَجٌ، وَالْعَوَّامُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ،(السنہ فی الخلال رقم 625)
اس میں صاف موجود ہے کہ امام نے حدیث سفینہ کو صحیح کہا ہے اور اس کا بھی رد کیا جو سعید بن جمھان پر جرح کرتے ہیں اس کو ثقہ کہہ کر ان کا رد کیا ہے۔

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ،: قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَخَذْتُهُ مِنْ فَوْزَانَ وَصَحَّحَهَا، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْأَحْوَلِ الْمِشْكَانِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَكَتَبَ إِلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَرَّاقُ مِنَ الْمَوْصِلِ قَالَ: ثَنَا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ: " أَلَيْسَ تُثْبِتُ خِلَافَةَ عَلِيٍّ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ، كَانَ إِمَامًا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ رَوَى عَنْهُ عِدَّةٌ، وَسَأَلْتُهُ عَمَّنْ ضَعَّفَ حَدِيثَ سَفِينَةَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، فَقَالَ: " بِئْسَ الْقَوْلُ هَذَا، سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ رَجُلٌ مَعْرُوفٌ، رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالْعَوَّامُ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، وَحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، هَؤُلَاءِ خَمْسَةٌ أَحْفَظُ أَنَّهُمْ رَوَوْا عَنْهُ(السنہ ابی بکر الخلال رقم 649)
اس میں صاف موجود ہے کہ سفینہ والی حدیث میں خاص طور پر امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا ہے جمھان بن سعید کے بارے میں پوچھا گیا جس پر امام نے اس کو ثقہ کہا اور جو یہ کہتا ہے کہ اس میں ضعف ہے اس کے قول کو رد کردیا ہے۔
امام احمد کے ان اقوال کو امام ابن تیمیہ نے بھی حجت مانا ہے اور شیخ البانی نے بھی ان کے حوالے سے ہی اس بات کو نقل کیا ہے کہ امام احمد سفینہ والی حدیث سے حجت لیتے تھے (دیکھئے سلسلہ احادیث الصحیحہ رقم 459)

[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]امام کے ان تمام اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث سفینہ کو امام حجت مانتے تھے اور سعید بن جمھان کو ثقہ مانتے تھے اور اس کی خاص سفینہ سے روایت کے بارے میں جو ضعف مانتا ہے اس کو رد کرتے ہیں۔
اس سے ثابت ہے کہ حدیث سفینہ والی حدیث بالکل صحیح ہے اور مقدمین سے لے کر متاخرین نے اس سے حجت لی ہے جیسا امام ابن تیمیہ کے حوالے سے ان کا قول اوپر نقل کیا ہے
[/FONT]
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
گزشتہ سے پیوستہ

ابن حجر اور ابن عدی کے اقوال نقل کر کے جو یہ کہا گیا ہے کہ محدثین نے خاص سعید بن جمھان کی سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں محدثین نے کلام کیا ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عدی نے اس کی روایات نقل کر کے کہا ہے کہ لا باس بہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جیسا خود شیخ سنابلی نے نقل کیا ہے اور ابن حجر کے حوالے سے ہم اوپر نقل کر آئے کہ وہ اس کو صدوق لہ افراد کہہ کر بھی اس کی اس روایت سے احتجاج اخذ کر رہے ہیں تو محدثین نے سعید بن جمھان کی اس روایت کو صحیح کہا ہے اور اس سے احتجاج اخذ کیا ہے
امام احمد بن حنبل کی توثیق پر جو اعتراض کیا ہے کہ

اس وجہ تضعیف کے جواب میں کوئی یہ کہہ سکتاہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے سفینہ سے ہی سعید بن جمھان کی روایت کو صحیح قراردیا ہے ۔
تواس کا جواب یہ کہ امام احمد نے صرف سعیدسے بعض ثقہ رواۃ کے روایت کرنے کی بناپر اسے ثقہ تسلیم کیا ہے اور اس بنیاد پر ان کی اس روایت کو صحیح کہاہے۔چناں چہ :
امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:

قلت لأبي سعيد بن جمهان هذا هو رجل مجهول قال لا روى عنه غير واحد حماد بن سلمة وحماد بن زيد والعوام بن حوشب وحشرج بن نباته
امام احمد بن حنبل نے راویوں کے کی بنیاد پر یا اس کی مرویات کو دیکھ کر اسے ثقہ نہیں کہا ہے بلکہ اس خاص روایت کو بیان کر کے اس روایت کو بھی صحیح کہا ہے اور جمھان کو ثقہ بھی کہا ہے اس حوالے سے چند اقوال پیش ہیں
امام احمد سے ابو زرعہ نے پوچھا کہ

قال أبو زرعة الدمشقي: سألت أحمد بن حنبل عن حديث سفينة، الخلافة بعدي ثلاثون سنة، يثبت؟ قال: نعم(مسوعۃ اقوال احمد بن حنبل جلد 4 ص 316)


128- أخبرنا المروذي قال: ذكرت لأبي عبد الله حديث سفينة، فصححه، وقال: هو صحيح.
قلت: إنهم يطعنون في سعيد بن جمهان؟
فقال: سعيد بن جمهان ثقة، روى عنه غير واحد، منهم: حماد وحشرج والعوام.
(المنتخب من علل الخلال جلد 1 ص 218)

اس میں موجود ہے کہ خاص امام سے اس حدیث سفینہ اور سعید بن جمھان کے بارے میں پوچھا گیا ہے انہوں نے دونوں کو صحیح اور ثقہ کہا ہے
اور دیگر اقوال میں اور وضاحت سے موجود ہے
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ حَسَّانَ، أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ سُئِلَ عَنِ السُّنَّةِ فِي أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: «أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فِي حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، وَعَلِيٌّ مِنَ الْخُلَفَاءِ فِي حَدِيثِ سَفِينَةَ، عَلِيٌّ مِنَ الْخُلَفَاءِ، الْخِلَافَةُ ثَلَاثُونَ عَامًا(السنہ فی الخلال 630)

اس میں امام نے واضح طور پر حدیث سفینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی دلیل لی ہے۔

626 - أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: ذَكَرْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثَ سَفِينَةَ، فَصَحَّحَهُ، وَقَالَ: قُلْتُ: إِنَّهُمْ يَطْعَنُونَ فِي سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، فَقَالَ: سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ثِقَةٌ، رَوَى عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، مِنْهُمْ حَمَّادٌ، وَحَشْرَجٌ، وَالْعَوَّامُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ،(السنہ فی الخلال رقم 625)
اس میں صاف موجود ہے کہ امام نے حدیث سفینہ کو صحیح کہا ہے اور اس کا بھی رد کیا جو سعید بن جمھان پر جرح کرتے ہیں اس کو ثقہ کہہ کر ان کا رد کیا ہے۔

أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ،: قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَبِيبٍ، قَالَ: أَخَذْتُهُ مِنْ فَوْزَانَ وَصَحَّحَهَا، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْأَحْوَلِ الْمِشْكَانِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، وَكَتَبَ إِلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْوَرَّاقُ مِنَ الْمَوْصِلِ قَالَ: ثَنَا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ لَهُ: " أَلَيْسَ تُثْبِتُ خِلَافَةَ عَلِيٍّ؟ سُبْحَانَ اللَّهِ، كَانَ إِمَامًا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ. قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ رَوَى عَنْهُ عِدَّةٌ، وَسَأَلْتُهُ عَمَّنْ ضَعَّفَ حَدِيثَ سَفِينَةَ مِنْ قِبَلِ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، فَقَالَ: " بِئْسَ الْقَوْلُ هَذَا، سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ رَجُلٌ مَعْرُوفٌ، رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالْعَوَّامُ، وَعَبْدُ الْوَارِثِ، وَحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، هَؤُلَاءِ خَمْسَةٌ أَحْفَظُ أَنَّهُمْ رَوَوْا عَنْهُ(السنہ ابی بکر الخلال رقم 649)
اس میں صاف موجود ہے کہ سفینہ والی حدیث میں خاص طور پر امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا ہے جمھان بن سعید کے بارے میں پوچھا گیا جس پر امام نے اس کو ثقہ کہا اور جو یہ کہتا ہے کہ اس میں ضعف ہے اس کے قول کو رد کردیا ہے۔
امام احمد کے ان اقوال کو امام ابن تیمیہ نے بھی حجت مانا ہے اور شیخ البانی نے بھی ان کے حوالے سے ہی اس بات کو نقل کیا ہے کہ امام احمد سفینہ والی حدیث سے حجت لیتے تھے (دیکھئے سلسلہ احادیث الصحیحہ رقم 459)

[FONT=KFGQPC Uthman Taha Naskh, Trad Arabic Bold Unicode, Tahoma]امام کے ان تمام اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حدیث سفینہ کو امام حجت مانتے تھے اور سعید بن جمھان کو ثقہ مانتے تھے اور اس کی خاص سفینہ سے روایت کے بارے میں جو ضعف مانتا ہے اس کو رد کرتے ہیں۔
اس سے ثابت ہے کہ حدیث سفینہ والی حدیث بالکل صحیح ہے اور مقدمین سے لے کر متاخرین نے اس سے حجت لی ہے جیسا امام ابن تیمیہ کے حوالے سے ان کا قول اوپر نقل کیا ہے
[/FONT]
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top