abdullah786
رکن
- شمولیت
- نومبر 24، 2015
- پیغامات
- 428
- ری ایکشن اسکور
- 25
- پوائنٹ
- 46
متن کی نکارت کے حوالے سے جو روایات ہیش کی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سعید بن جمھان کی سفینہ سے روایت میں نکارت ہوتی ہے ویسے تو آئمہ جمھور کی سعید کی تصریحات کے بعد اس کی حاجت نہیں رہی مگر اس کی بھی وضاحت کردینی چاہیئے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں اور زیادہ اسانی ہو جائے۔
پہلی روایت یہ پیش کی ہے۔
پہلی مثال:
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق
اس کے بعد لکھتے ہیں
أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات ]
اس کا متن واقعی انساب الاشراف للبلاذری کے حوالے سے منکر ہے کیونکہ یہ واحد سند ہے جس میں ابو سفیان اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے جبکہ مسند البزار وغیرہ میں سعید بن جمھان ہی کے طریق میں یہ نام نہیں ہیں ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: نَا أَبِي، وَحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَعِيرٍ وَبَيْنَ يَدَيْهِ قَائِدٌ وَخَلْفَهُ سَائِقٌ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْقَائِدَ وَالسَّائِقَ وَالرَّاكِب
(مسند البزار رقم 3839)
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی سفینہ کی سند سے ہے مگر اس میں سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس لئے یہ کہنا کہ سعید بن جمھان سے سفینہ کی سند میں نکارت ہوتی ہے ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ اگر ان کے متن میں نکارت ہوتی تو پھر مسند البزار کی اس روایت میں بھی سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا کیونکہ متن میں نکارت تو سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے تو پھر اس روایت میں بھی ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے اب ذرا بلاذری کی اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں اس میں خلف نے عبدالوارث بن سعید سے روایت کی ہے مگر خلف کے اساتذہ میں عبدالوارث کا نام نہیں ہے اور نہ عبدالوارث کے تلامذہ میں خلف کا نام نہیں ہے بلاذری کے اساتذہ میں جس خلف کا نام ہے وہ خلف بن ہشام ہیں مگر خلف کا عبدالوارث کے تلامذہ میں نام نہیں ہے اور اسی کی سند سے یہ منکر متن نقل ہوا ہے یہ خلف کون ہے اس کا کچھ پتا نہیں ہے کیونکہ اسی کے طبقے میں ایک خلف اور ہے اور وہ خلف بن خلیفہ بن صاعد بن برام الاشجعی ہے جس کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا (دیکھیں طبقات ابن سعد طبقات الثامنۃ اہل البصرہ محدثین الفقھاء و تابعین ) (تقریب التھذیب)
تو یہ روایت خلف کی نامعلوم ہونے کی وجہ سے نکارت رکھتی ہے نہ کہ سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے اگر ایسا ہوتا تو مسند البزار کی روایت میں بھی ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا مگر یہ نکارت خلف کے ہی طریق سے آئی ہے۔
دوسری روایت پیش کی ہے کہ
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
اس حدیث میں مومل ہے جس کو شیخ خود یہ کہہ چکے کہ اس حافظہ پر جرح ہوئی ہے
"
مؤمل بھی ثقہ ہے لیکن اس کے حافظہ پرجرح بھی ہوئی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : انورالبدر فی وضع الیدین علی الصدر ۔"
تو جب مومل اس میں میں موجود ہے جس کے حافظہ پر جرح ہے تو پھر اس میں سعید بن جمھان سے کیسے نکارت ثابت ہوتی ہے جبکہ سعید بن جمھان کے حافظہ پر تو کسی نے بھی جرح نہیں کی ہے بلکہ مومل جیسی جرح تو سعید پر ہوئی بھی نہیں ہے ذیل میں مومل پر ہوئی جرح پر نظر ڈالیں
ابن حجر فرماتے ہیں
صدوق سىء الحفظ
قال البخارى : منكر الحديث .
قال أبو حاتم : صدوق ، شديد فى السنة ، كثير الخطأ .
قال الساجى : صدوق كثير الخطأ ، و له أوهام يطول ذكرها .
و قال ابن سعد : ثقة كثير الغلط .
و قال ابن قانع : صالح يخطىء .
و قال الدارقطنى : ثقة كثير الخطأ .
و قال إسحاق بن راهويه : حدثنا مؤمل بن إسماعيل ، ثقة .
و قال محمد بن نصر المروزى : المؤمل إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف و ( يتثبت ) فيه ، لأنه كان سيىء الحفظ كثير الغلط .
یہ مومل پر جرح ہے اس ک صرف یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے
اور اس کے مقابلے پر سعید بن جمھان کو کس کس نے ثقہ کہا ہے اس کو صاحب تحریر تقریب نے نقل کیا ہے
اس سے اپ خود ہی موازنہ کر سکتے ہیں کہ اس روایت میں کس سے خظا ہوئی ہے۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی مثال پیش کی ہے
’’حدثنا ابن المبارك، أخبرنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم مسجد المدينة جاء أبو بكر بحجر فوضعه، ثم جاء عمر بحجر فوضعه، ثم جاء عثمان بحجر فوضعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هؤلاء يلون الخلافة بعدي»‘‘
اس میں حشرج بن نباتۃ ہے اور چوتھی میں بھی یہی ہے
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
’’حدثنا أبو النضر، حدثنا حشرج، حدثني سعيد بن جمهان عن سفينة مولى رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " ألا إنه لم يكن نبي قبلي إلا حذر الدجال أمته، وهو أعور عينه اليسرى، بعينه اليمنى ظفرة غليظة، مكتوب بين عينيه كافر، يخرج معه واديان: أحدهما جنة، والآخر نار، فناره جنة وجنته نار، معه ملكان من الملائكة يشبهان نبيين من الأنبياء، لو شئت سميتهما بأسمائهما وأسماء آبائهما، واحد منهما عن يمينه والآخر عن شماله، وذلك فتنة، فيقول الدجال: ألست بربكم؟ ألست أحيي وأميت؟ فيقول له أحد الملكين: كذبت. ما يسمعه أحد من الناس إلا صاحبه، فيقول له: صدقت. فيسمعه الناس فيظنون إنما يصدق الدجال، وذلك فتنة، ثم يسير حتى يأتي المدينة فلا يؤذن له فيها، فيقول: هذه قرية ذلك الرجل، ثم يسير حتى يأتي الشام فيهلكه الله عند عقبة أفيق‘‘
اس میں بھی حشرج بن نباتہ ہے اور اس کی روایات کو سعید بن جمھان سے منفرد کی وجہ سے نکارت مانا جاتا ہے اب اس حشرج کے بارے میں اقوال پڑھ لیں
قال أبو أحمد ابن عدى : و هذا الحديث قد روى بغير هذا الإسناد ; حدثناه على
ابن إسماعيل بن أبى النجم ، قال : حدثنا عقبة بن موسى بن عقبة ، عن أبيه عن
محمد بن الفضل بن عطية ، عن زياد بن علاقة عن قطبة بن مالك و هو عم زياد بن
علاقة ، قال : لما بنى المسجد وضع حجرا ، فذكر هذه القصة .
روى له أبو أحمد أحاديث ، ثم قال : و هذه الأحاديث لحشرج عن سعيد بن جمهان عن
سفينة ، و قد قمت بعذره فى الحديث الذى أنكره البخارى فأوردته بإسناد آخر ،
و غير ذلك الحديث لا بأس به فيه
امام بخاری نے حشرج کی خاص سعید بن جمھان کی روایات میں حشرج کی روایات کا نکارت کا اظہار کیا ہے اورتو امام علل امام بخاری حشرج کی سعید بن جمھان کی روایات میں نکارت فرما رہے ہیں تو یہ دونوں مثالیں جو شیخ صاحب نے پیش کی ہیں اس میں حشرج کی وجہ سے نکارت ہے نہ کہ سعید کی وجہ سے نکارت مانی گئی ہے اور شیخ البانی نے بھی اسی کو بیان کیا ہے سلسلہ الصحیحہ رقم 459)
چنانچہ محدثین کی تصریحات اور خاص اس روایت سے کثیر اہلسنت کا احتجاج اس روایت کی صحت اور حجت ہونے کی دلیل ہے
پہلی روایت یہ پیش کی ہے۔
پہلی مثال:
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق
اس کے بعد لکھتے ہیں
أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات ]
اس کا متن واقعی انساب الاشراف للبلاذری کے حوالے سے منکر ہے کیونکہ یہ واحد سند ہے جس میں ابو سفیان اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے جبکہ مسند البزار وغیرہ میں سعید بن جمھان ہی کے طریق میں یہ نام نہیں ہیں ملاحظہ کریں۔
حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: نَا أَبِي، وَحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَعِيرٍ وَبَيْنَ يَدَيْهِ قَائِدٌ وَخَلْفَهُ سَائِقٌ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْقَائِدَ وَالسَّائِقَ وَالرَّاكِب
(مسند البزار رقم 3839)
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی سفینہ کی سند سے ہے مگر اس میں سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس لئے یہ کہنا کہ سعید بن جمھان سے سفینہ کی سند میں نکارت ہوتی ہے ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ اگر ان کے متن میں نکارت ہوتی تو پھر مسند البزار کی اس روایت میں بھی سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا کیونکہ متن میں نکارت تو سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے تو پھر اس روایت میں بھی ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے اب ذرا بلاذری کی اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں اس میں خلف نے عبدالوارث بن سعید سے روایت کی ہے مگر خلف کے اساتذہ میں عبدالوارث کا نام نہیں ہے اور نہ عبدالوارث کے تلامذہ میں خلف کا نام نہیں ہے بلاذری کے اساتذہ میں جس خلف کا نام ہے وہ خلف بن ہشام ہیں مگر خلف کا عبدالوارث کے تلامذہ میں نام نہیں ہے اور اسی کی سند سے یہ منکر متن نقل ہوا ہے یہ خلف کون ہے اس کا کچھ پتا نہیں ہے کیونکہ اسی کے طبقے میں ایک خلف اور ہے اور وہ خلف بن خلیفہ بن صاعد بن برام الاشجعی ہے جس کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا (دیکھیں طبقات ابن سعد طبقات الثامنۃ اہل البصرہ محدثین الفقھاء و تابعین ) (تقریب التھذیب)
تو یہ روایت خلف کی نامعلوم ہونے کی وجہ سے نکارت رکھتی ہے نہ کہ سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے اگر ایسا ہوتا تو مسند البزار کی روایت میں بھی ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا مگر یہ نکارت خلف کے ہی طریق سے آئی ہے۔
دوسری روایت پیش کی ہے کہ
امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
اس حدیث میں مومل ہے جس کو شیخ خود یہ کہہ چکے کہ اس حافظہ پر جرح ہوئی ہے
"
مؤمل بھی ثقہ ہے لیکن اس کے حافظہ پرجرح بھی ہوئی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : انورالبدر فی وضع الیدین علی الصدر ۔"
تو جب مومل اس میں میں موجود ہے جس کے حافظہ پر جرح ہے تو پھر اس میں سعید بن جمھان سے کیسے نکارت ثابت ہوتی ہے جبکہ سعید بن جمھان کے حافظہ پر تو کسی نے بھی جرح نہیں کی ہے بلکہ مومل جیسی جرح تو سعید پر ہوئی بھی نہیں ہے ذیل میں مومل پر ہوئی جرح پر نظر ڈالیں
ابن حجر فرماتے ہیں
صدوق سىء الحفظ
قال البخارى : منكر الحديث .
قال أبو حاتم : صدوق ، شديد فى السنة ، كثير الخطأ .
قال الساجى : صدوق كثير الخطأ ، و له أوهام يطول ذكرها .
و قال ابن سعد : ثقة كثير الغلط .
و قال ابن قانع : صالح يخطىء .
و قال الدارقطنى : ثقة كثير الخطأ .
و قال إسحاق بن راهويه : حدثنا مؤمل بن إسماعيل ، ثقة .
و قال محمد بن نصر المروزى : المؤمل إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف و ( يتثبت ) فيه ، لأنه كان سيىء الحفظ كثير الغلط .
یہ مومل پر جرح ہے اس ک صرف یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے
اور اس کے مقابلے پر سعید بن جمھان کو کس کس نے ثقہ کہا ہے اس کو صاحب تحریر تقریب نے نقل کیا ہے
اس سے اپ خود ہی موازنہ کر سکتے ہیں کہ اس روایت میں کس سے خظا ہوئی ہے۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی مثال پیش کی ہے
’’حدثنا ابن المبارك، أخبرنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم مسجد المدينة جاء أبو بكر بحجر فوضعه، ثم جاء عمر بحجر فوضعه، ثم جاء عثمان بحجر فوضعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هؤلاء يلون الخلافة بعدي»‘‘
اس میں حشرج بن نباتۃ ہے اور چوتھی میں بھی یہی ہے
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
’’حدثنا أبو النضر، حدثنا حشرج، حدثني سعيد بن جمهان عن سفينة مولى رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " ألا إنه لم يكن نبي قبلي إلا حذر الدجال أمته، وهو أعور عينه اليسرى، بعينه اليمنى ظفرة غليظة، مكتوب بين عينيه كافر، يخرج معه واديان: أحدهما جنة، والآخر نار، فناره جنة وجنته نار، معه ملكان من الملائكة يشبهان نبيين من الأنبياء، لو شئت سميتهما بأسمائهما وأسماء آبائهما، واحد منهما عن يمينه والآخر عن شماله، وذلك فتنة، فيقول الدجال: ألست بربكم؟ ألست أحيي وأميت؟ فيقول له أحد الملكين: كذبت. ما يسمعه أحد من الناس إلا صاحبه، فيقول له: صدقت. فيسمعه الناس فيظنون إنما يصدق الدجال، وذلك فتنة، ثم يسير حتى يأتي المدينة فلا يؤذن له فيها، فيقول: هذه قرية ذلك الرجل، ثم يسير حتى يأتي الشام فيهلكه الله عند عقبة أفيق‘‘
اس میں بھی حشرج بن نباتہ ہے اور اس کی روایات کو سعید بن جمھان سے منفرد کی وجہ سے نکارت مانا جاتا ہے اب اس حشرج کے بارے میں اقوال پڑھ لیں
قال أبو أحمد ابن عدى : و هذا الحديث قد روى بغير هذا الإسناد ; حدثناه على
ابن إسماعيل بن أبى النجم ، قال : حدثنا عقبة بن موسى بن عقبة ، عن أبيه عن
محمد بن الفضل بن عطية ، عن زياد بن علاقة عن قطبة بن مالك و هو عم زياد بن
علاقة ، قال : لما بنى المسجد وضع حجرا ، فذكر هذه القصة .
روى له أبو أحمد أحاديث ، ثم قال : و هذه الأحاديث لحشرج عن سعيد بن جمهان عن
سفينة ، و قد قمت بعذره فى الحديث الذى أنكره البخارى فأوردته بإسناد آخر ،
و غير ذلك الحديث لا بأس به فيه
امام بخاری نے حشرج کی خاص سعید بن جمھان کی روایات میں حشرج کی روایات کا نکارت کا اظہار کیا ہے اورتو امام علل امام بخاری حشرج کی سعید بن جمھان کی روایات میں نکارت فرما رہے ہیں تو یہ دونوں مثالیں جو شیخ صاحب نے پیش کی ہیں اس میں حشرج کی وجہ سے نکارت ہے نہ کہ سعید کی وجہ سے نکارت مانی گئی ہے اور شیخ البانی نے بھی اسی کو بیان کیا ہے سلسلہ الصحیحہ رقم 459)
چنانچہ محدثین کی تصریحات اور خاص اس روایت سے کثیر اہلسنت کا احتجاج اس روایت کی صحت اور حجت ہونے کی دلیل ہے