• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث خلافت (نقد وتبصرے )

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
متن کی نکارت کے حوالے سے جو روایات ہیش کی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سعید بن جمھان کی سفینہ سے روایت میں نکارت ہوتی ہے ویسے تو آئمہ جمھور کی سعید کی تصریحات کے بعد اس کی حاجت نہیں رہی مگر اس کی بھی وضاحت کردینی چاہیئے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں اور زیادہ اسانی ہو جائے۔
پہلی روایت یہ پیش کی ہے۔
پہلی مثال:
امام أحمد بن يحيى، البلاذري (المتوفى 279)نے کہا:
حدثنا خلف حدثنا عبد الوارث بن سعيد عن سعيد بن جمهان عن سفينة مولى أم سلمة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان جالسا فمر أبو سفيان على بعير ومعه معاوية وأخ له ، أحدهما يقود البعير والآخر يسوقه، فقال رسول الله صلى عليه وسلم: لعن الله الحامل والمحمول والقائد والسائق
اس کے بعد لکھتے ہیں
أنساب الأشراف للبلاذري، ط، دار الفكر: 5/ 136 رجالہ ثقات ومتنہ منکر و اخرجہ البزار فی مسندہ (9/ 286) من طریق سعیدبن جمھان بہ نحوہ ، وقال الھیثمی فی مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (1/ 113) : رواه البزار، ورجاله ثقات ]
اس کا متن واقعی انساب الاشراف للبلاذری کے حوالے سے منکر ہے کیونکہ یہ واحد سند ہے جس میں ابو سفیان اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے جبکہ مسند البزار وغیرہ میں سعید بن جمھان ہی کے طریق میں یہ نام نہیں ہیں ملاحظہ کریں۔

حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: نَا أَبِي، وَحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَعِيرٍ وَبَيْنَ يَدَيْهِ قَائِدٌ وَخَلْفَهُ سَائِقٌ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْقَائِدَ وَالسَّائِقَ وَالرَّاكِب
(مسند البزار رقم 3839)
یہ روایت بھی سعید بن جمھان کی سفینہ کی سند سے ہے مگر اس میں سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام نہیں ہے اس لئے یہ کہنا کہ سعید بن جمھان سے سفینہ کی سند میں نکارت ہوتی ہے ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ اگر ان کے متن میں نکارت ہوتی تو پھر مسند البزار کی اس روایت میں بھی سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا کیونکہ متن میں نکارت تو سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے تو پھر اس روایت میں بھی ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے اب ذرا بلاذری کی اس روایت کا جائزہ لیتے ہیں اس میں خلف نے عبدالوارث بن سعید سے روایت کی ہے مگر خلف کے اساتذہ میں عبدالوارث کا نام نہیں ہے اور نہ عبدالوارث کے تلامذہ میں خلف کا نام نہیں ہے بلاذری کے اساتذہ میں جس خلف کا نام ہے وہ خلف بن ہشام ہیں مگر خلف کا عبدالوارث کے تلامذہ میں نام نہیں ہے اور اسی کی سند سے یہ منکر متن نقل ہوا ہے یہ خلف کون ہے اس کا کچھ پتا نہیں ہے کیونکہ اسی کے طبقے میں ایک خلف اور ہے اور وہ خلف بن خلیفہ بن صاعد بن برام الاشجعی ہے جس کو آخری عمر میں تغیر ہو گیا تھا (دیکھیں طبقات ابن سعد طبقات الثامنۃ اہل البصرہ محدثین الفقھاء و تابعین ) (تقریب التھذیب)
تو یہ روایت خلف کی نامعلوم ہونے کی وجہ سے نکارت رکھتی ہے نہ کہ سعید بن جمھان کی وجہ سے ہے اگر ایسا ہوتا تو مسند البزار کی روایت میں بھی ابو سفیان رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام ہوتا مگر یہ نکارت خلف کے ہی طریق سے آئی ہے۔
دوسری روایت پیش کی ہے کہ

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
اس حدیث میں مومل ہے جس کو شیخ خود یہ کہہ چکے کہ اس حافظہ پر جرح ہوئی ہے

"
مؤمل بھی ثقہ ہے لیکن اس کے حافظہ پرجرح بھی ہوئی ہے ۔دیکھئے ہماری کتاب : انورالبدر فی وضع الیدین علی الصدر ۔"
تو جب مومل اس میں میں موجود ہے جس کے حافظہ پر جرح ہے تو پھر اس میں سعید بن جمھان سے کیسے نکارت ثابت ہوتی ہے جبکہ سعید بن جمھان کے حافظہ پر تو کسی نے بھی جرح نہیں کی ہے بلکہ مومل جیسی جرح تو سعید پر ہوئی بھی نہیں ہے ذیل میں مومل پر ہوئی جرح پر نظر ڈالیں
ابن حجر فرماتے ہیں
صدوق سىء الحفظ
قال البخارى : منكر الحديث .
قال أبو حاتم : صدوق ، شديد فى السنة ، كثير الخطأ .
قال الساجى : صدوق كثير الخطأ ، و له أوهام يطول ذكرها .
و قال ابن سعد : ثقة كثير الغلط .
و قال ابن قانع : صالح يخطىء .
و قال الدارقطنى : ثقة كثير الخطأ .
و قال إسحاق بن راهويه : حدثنا مؤمل بن إسماعيل ، ثقة .
و قال محمد بن نصر المروزى : المؤمل إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف و ( يتثبت ) فيه ، لأنه كان سيىء الحفظ كثير الغلط .
یہ مومل پر جرح ہے اس ک صرف یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے
اور اس کے مقابلے پر سعید بن جمھان کو کس کس نے ثقہ کہا ہے اس کو صاحب تحریر تقریب نے نقل کیا ہے



اس سے اپ خود ہی موازنہ کر سکتے ہیں کہ اس روایت میں کس سے خظا ہوئی ہے۔

اس کے بعد تیسری اور چوتھی مثال پیش کی ہے

’’حدثنا ابن المبارك، أخبرنا حشرج بن نباتة، عن سعيد بن جمهان، عن سفينة مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لما بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم مسجد المدينة جاء أبو بكر بحجر فوضعه، ثم جاء عمر بحجر فوضعه، ثم جاء عثمان بحجر فوضعه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هؤلاء يلون الخلافة بعدي»‘‘
اس میں حشرج بن نباتۃ ہے اور چوتھی میں بھی یہی ہے

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
’’حدثنا أبو النضر، حدثنا حشرج، حدثني سعيد بن جمهان عن سفينة مولى رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " ألا إنه لم يكن نبي قبلي إلا حذر الدجال أمته، وهو أعور عينه اليسرى، بعينه اليمنى ظفرة غليظة، مكتوب بين عينيه كافر، يخرج معه واديان: أحدهما جنة، والآخر نار، فناره جنة وجنته نار، معه ملكان من الملائكة يشبهان نبيين من الأنبياء، لو شئت سميتهما بأسمائهما وأسماء آبائهما، واحد منهما عن يمينه والآخر عن شماله، وذلك فتنة، فيقول الدجال: ألست بربكم؟ ألست أحيي وأميت؟ فيقول له أحد الملكين: كذبت. ما يسمعه أحد من الناس إلا صاحبه، فيقول له: صدقت. فيسمعه الناس فيظنون إنما يصدق الدجال، وذلك فتنة، ثم يسير حتى يأتي المدينة فلا يؤذن له فيها، فيقول: هذه قرية ذلك الرجل، ثم يسير حتى يأتي الشام فيهلكه الله عند عقبة أفيق‘‘
اس میں بھی حشرج بن نباتہ ہے اور اس کی روایات کو سعید بن جمھان سے منفرد کی وجہ سے نکارت مانا جاتا ہے اب اس حشرج کے بارے میں اقوال پڑھ لیں
قال أبو أحمد ابن عدى : و هذا الحديث قد روى بغير هذا الإسناد ; حدثناه على
ابن إسماعيل بن أبى النجم ، قال : حدثنا عقبة بن موسى بن عقبة ، عن أبيه عن
محمد بن الفضل بن عطية ، عن زياد بن علاقة عن قطبة بن مالك و هو عم زياد بن
علاقة ، قال : لما بنى المسجد وضع حجرا ، فذكر هذه القصة .
روى له أبو أحمد أحاديث ، ثم قال : و هذه الأحاديث لحشرج عن سعيد بن جمهان عن
سفينة ، و قد قمت بعذره فى الحديث الذى أنكره البخارى فأوردته بإسناد آخر ،
و غير ذلك الحديث لا بأس به فيه
امام بخاری نے حشرج کی خاص سعید بن جمھان کی روایات میں حشرج کی روایات کا نکارت کا اظہار کیا ہے اورتو امام علل امام بخاری حشرج کی سعید بن جمھان کی روایات میں نکارت فرما رہے ہیں تو یہ دونوں مثالیں جو شیخ صاحب نے پیش کی ہیں اس میں حشرج کی وجہ سے نکارت ہے نہ کہ سعید کی وجہ سے نکارت مانی گئی ہے اور شیخ البانی نے بھی اسی کو بیان کیا ہے سلسلہ الصحیحہ رقم 459)
چنانچہ محدثین کی تصریحات اور خاص اس روایت سے کثیر اہلسنت کا احتجاج اس روایت کی صحت اور حجت ہونے کی دلیل ہے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
سعید بن جمھان کے بارے میں محدثین کے اقوال پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس پر محدثین نے جرح کی ہے ذیل میں شیخ صاحب کے جرح کے اقوال نقل کر کے ان پر تبصرہ کریں گے
"اگریہ فرض کرلیا جائے کہ سعید بن جمھان کی سفینہ سے روایات بھی ضعیف نہیں ہیں تو بھی اس کی خاص اس روایت کی مذکورہ دونوں باتوں کو ضعیف مانا جائے گا کیونکہ وہ ان باتوں کی روایت میں منفرد ہے اوروہ علی الاطلاق ثقہ نہیں بلکہ اس پر جرح بھی ہوئی ہے "
اور وہ جرح کیا ہے یہ پیش خدمت ہے
۔

امام يحيى بن سعيد القطان رحمه الله (المتوفى 198)سے منقول ہے:
لم يرضه
آپ اس سے راضی نہیں ہوئے [علل أحمد رواية المروذي وغيره: ص: 108 واسنادہ صحیح]
اس بارے میں امام احمد نے کیا نقل کیا ہے وہ پڑھ لیتے ہیں
قُلْتُ لِأَبى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَيَّاشٍ: ابْنُ صَالِحٍ حَكَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ ذَكَرَ عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ أَنَّهُ تَكَلَّمَ فِي سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، فَغَضِبَ وَقَالَ: بَاطِلٌ، مَا سَمِعْتُ يَحْيَى يَتَكَلَّمُ فِيهِ، قَدْ رَوَى عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانِ غَيْرُ وَاحِدٍ(السنہ الخلال رقم 626)
امام احمد نے اس جرح کا انکار کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ ٰیحیٰی بن سعید نے سعید بن جمھان پر کوئی کلام نہیں کیا ہے
تو یہ جرح ثابت ہی نہیں ہے
امام بخاری اور امام الساجی کے حوالے سے جو نقل کیا ہے اس پر شیخ البانی نے کیا تبصرہ کیا ہے
عارض هؤلاء قول البخاري: " في حديثه عجائب ".
وقول الساجى: " لا يتابع على حديثه ".
قلت: فهذا جرح مبهم غير مفسر، فلا يصح الأخذ به في مقابلة توثيق من وثقه كما
هو مقرر في " المصطلح "، زد على ذلك أن الموثقين جمع، ويزداد عددهم إذا ضم
إليهم من صحح حديثه، باعتبار أن التصحيح يستلزم التوثيق كما هو ظاهر.
تو یہ دونوں جرح مبھم ہیں مفسر نہیں ہیں اس لئے یہ حجت نہیں ہے اور ابن حجر اور امام ذہبی کے حوالے سے جو جرح پیش کی یا ان کے صدوق کے حوالے سے جو قول پیش کیے ہیں کہ صدوق کی روایات کب قبول ہو گی اور کب رد توان تمام باتوں کا جواب یہی ہے کہ ان دونوں محدثین نے اس روایت سے حجت لی ہے اور انہوں نے ہی یہ اقوال پیش کیے ہیں ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے تو قول ہم اوپر نقل کر آئے ہیں امام ذہبی کا قول اس حدیث کے حوالے سے پیش ہے
امام ذہبی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا کہ
أَنَا أَوَّلُ المُلُوْكِ.
قُلْتُ: نَعَمْ.
فَقَدْ رَوَى سَفِيْنَةُ: عَنْ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: (الخِلاَفَةُ بَعْدِي ثَلاَثُوْنَ سَنَةً، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْك
(سیر الاعلام النبلاء جلد 3 ص 150)
سلف سے خلف تک آئم و محدثین نے اس حدیث سے حجت لی ہے اور اس کو صحیح مانا ہے اس حوالے سے امام ابن تیمیہ کا قول نقل کر آئے ہیں کہ کثیر اہل سنت نے اس سے حجت لی ہے تو یہ روایت بالکل صحیح ہے اور اس کا انکار محال ہے۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
آخر میں روایات پر بحث کی ہے اس میں پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے ہم آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی خبر سے یہ ثابت کریں گے کہ 30 سال بعد ملک بادشاہت تھی اس سلسلے میں پہلے حدیث پیش ہے جس سے یہ ثابت ہو گا کہ 30 سال بعد بادشاہت تھی بلکہ ملک عضوض تھی
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا العلاء بن المنهال الغنوي ، حدثنا مهند القيسي ، وكان ثقة ، حدثني قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن حذيفة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم في نبوة ورحمة ، وستكون خلافة ورحمة ، ويكون كذا وكذا ، ويكون ملكا عضوضا ، يشربون الخمر ، ويلبسون الحرير ، ومع ذلك ينصرون إلى قيام الساعة
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نبوت او ر رحمت کے دور میں ہو، اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد ایسا دور اورایسا دور ہوگا ۔اس کے بعد کاٹنے والی ملوکیت کا دور ہوگا ، اس وقت لوگ شراب پئیں گے ، ریشم پہنیں گے ، اس کے باوجود بھی قیامت تک مدد کئے جاتے رہیں گے[مسند ابن ابی شیبہ بحوالہ المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 372 واسنادہ صحیح وصححہ البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة : 8/ 93 واخرجہ من طریق ابن ابی شیبہ الطبرانی فی المعجم الأوسط 6/ 345 و اخرجہ ابن الأعرابي في المعجم 2/ 803 ، والمستغفري في دلائل النبوة 1/ 370 من طریق زید بہ]
یہ روایت حدیث بالکل صحیح ہے اس میں ملک عضوض کی چند نشانیاں بتائی ہے ان میں سے ایک ہے کہ"
ریشم پہنیں گے"

اب اس روایت کو غور سے پڑھیں
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
(سنن ابو داود رقم 4131)
اس میں المقدام رضی اللہ عنہ نے صاف کہا کہ
هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ،
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے لباس پہنے سے منع نہیں کیا تھا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں
اس کے بعد المقدام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ،
اور یہ سب اپ کے گھر میں ہوتا ہے (یعنی ریشم پہنا جاتا ہے)
اب اس خدیث کے الفاظ دوبارہ پڑھیں
ويلبسون الحرير
ریشم پہنیں گے
اس خبر غیبی سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ 30 سال بعد ملک عضوض تھا جس کو کثیر آئمہ نے بیان کیا ہے اس 30 سال خلافت والی حدیث کے تحت بیان کیا ہے
واللہ اعلم۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آخر میں روایات پر بحث کی ہے اس میں پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے ہم آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غیبی خبر سے یہ ثابت کریں گے کہ 30 سال بعد ملک بادشاہت تھی اس سلسلے میں پہلے حدیث پیش ہے جس سے یہ ثابت ہو گا کہ 30 سال بعد بادشاہت تھی بلکہ ملک عضوض تھی
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا العلاء بن المنهال الغنوي ، حدثنا مهند القيسي ، وكان ثقة ، حدثني قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن حذيفة رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنكم في نبوة ورحمة ، وستكون خلافة ورحمة ، ويكون كذا وكذا ، ويكون ملكا عضوضا ، يشربون الخمر ، ويلبسون الحرير ، ومع ذلك ينصرون إلى قيام الساعة
حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نبوت او ر رحمت کے دور میں ہو، اس کے بعد خلافت اور رحمت کا دور ہوگا، اس کے بعد ایسا دور اورایسا دور ہوگا ۔اس کے بعد کاٹنے والی ملوکیت کا دور ہوگا ، اس وقت لوگ شراب پئیں گے ، ریشم پہنیں گے ، اس کے باوجود بھی قیامت تک مدد کئے جاتے رہیں گے[مسند ابن ابی شیبہ بحوالہ المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 372 واسنادہ صحیح وصححہ البوصیری فی إتحاف الخيرة المهرة : 8/ 93 واخرجہ من طریق ابن ابی شیبہ الطبرانی فی المعجم الأوسط 6/ 345 و اخرجہ ابن الأعرابي في المعجم 2/ 803 ، والمستغفري في دلائل النبوة 1/ 370 من طریق زید بہ]
یہ روایت حدیث بالکل صحیح ہے اس میں ملک عضوض کی چند نشانیاں بتائی ہے ان میں سے ایک ہے کہ"
ریشم پہنیں گے"

اب اس روایت کو غور سے پڑھیں
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: وَفَدَ الْمِقْدَامُ بْنُ مَعْدِي كَرِبَ، وَعَمْرُو بْنُ الْأَسْوَدِ، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ مِنْ أَهْلِ قِنَّسْرِينَ إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِلْمِقْدَامِ: أَعَلِمْتَ أَنَّ الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ تُوُفِّيَ؟ فَرَجَّعَ الْمِقْدَامُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: أَتَرَاهَا مُصِيبَةً؟ قَالَ لَهُ: وَلِمَ لَا أَرَاهَا مُصِيبَةً، وَقَدْ وَضَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حِجْرِهِ فَقَالَ: «هَذَا مِنِّي» وَحُسَيْنٌ مِنْ عَلِيٍّ؟، فَقَالَ الْأَسَدِيُّ: جَمْرَةٌ أَطْفَأَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: فَقَالَ الْمِقْدَامُ: أَمَّا أَنَا فَلَا أَبْرَحُ الْيَوْمَ حَتَّى أُغَيِّظَكَ، وَأُسْمِعَكَ مَا تَكْرَهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُعَاوِيَةُ إِنْ أَنَا صَدَقْتُ فَصَدِّقْنِي، وَإِنْ أَنَا كَذَبْتُ فَكَذِّبْنِي، قَالَ: أَفْعَلُ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ الذَّهَبِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «نَهَى عَنْ لُبْسِ جُلُودِ السِّبَاعِ وَالرُّكُوبِ عَلَيْهَا؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْكَ يَا مِقْدَامُ، قَالَ خَالِدٌ: فَأَمَرَ لَهُ مُعَاوِيَةُ بِمَا لَمْ يَأْمُرْ لِصَاحِبَيْهِ وَفَرَضَ لِابْنِهِ فِي الْمِائَتَيْنِ، فَفَرَّقَهَا الْمِقْدَامُ فِي أَصْحَابِهِ، قَالَ: وَلَمْ يُعْطِ الْأَسَدِيُّ أَحَدًا [ص:69] شَيْئًا مِمَّا أَخَذَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ، فَقَالَ: أَمَّا الْمِقْدَامُ فَرَجُلٌ كَرِيمٌ بَسَطَ يَدَهُ، وَأَمَّا الْأَسَدِيُّ فَرَجُلٌ حَسَنُ الْإِمْسَاكِ لِشَيْئِهِ
(سنن ابو داود رقم 4131)
اس میں المقدام رضی اللہ عنہ نے صاف کہا کہ
هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَى عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ؟» قَالَ: نَعَمْ،
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشم کے لباس پہنے سے منع نہیں کیا تھا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں
اس کے بعد المقدام رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
فَوَاللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ هَذَا كُلَّهُ فِي بَيْتِكَ يَا مُعَاوِيَةُ،
اور یہ سب اپ کے گھر میں ہوتا ہے (یعنی ریشم پہنا جاتا ہے)
اب اس خدیث کے الفاظ دوبارہ پڑھیں
ويلبسون الحرير
ریشم پہنیں گے
اس خبر غیبی سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ 30 سال بعد ملک عضوض تھا جس کو کثیر آئمہ نے بیان کیا ہے اس 30 سال خلافت والی حدیث کے تحت بیان کیا ہے
واللہ اعلم۔
یہ بھی پڑھ لیں -

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی جب صدوق وثقہ ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں ۔
تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعیدبن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند البزار: 9/ 281]

یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
هذا إسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]

اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیا ہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔

اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟

یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء

عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اورہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله
ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے۔[التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]

دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]

اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی یہ روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔
اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کادور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ۔ بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے ۔البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں ۔

http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-خلافت-تیس-30-سال-،تحقیقی-جائزہ.33105/page-2
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
یہ بھی پڑھ لیں -

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی جب صدوق وثقہ ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں ۔
تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعیدبن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند البزار: 9/ 281]

یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
هذا إسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]

اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیا ہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔

اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟

یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء

عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اورہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله
ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے۔[التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]

دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]

اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی یہ روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔
اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کادور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ۔ بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے ۔البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں ۔

http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-خلافت-تیس-30-سال-،تحقیقی-جائزہ.33105/page-2
محترم محمد علی صاحب

دونو ں کا طرز زندگی دیکھ لیں پتا چل جائے گا کہ کون بادشاہ تھا اور کون خلیفہ ۔ اس ثقیل مبحث کی حاجت نہیں رہے گی۔
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46

محترم اوپر والی دونوں روایات ضعیف ہیں
مومل نے اس میں خلافت کے الفاظ داخل کر دیے ہیں ابوداؤد میں یہ روایت صحیح سند کے ساتھ نقل ہے اس میں مومل ہے جس کے حفظ میں کلام ہے جو سنابلی صاحب نے بھی نقل کیا اور اسی نے اس الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے اصلا روایت میں خلافت والے الفاظ نہیں ہیں پڑھ لیں
حدثنا محمد بن المثنى ثنا محمد بن عبد الله الأنصاري ثنا الأشعث عن الحسن عن أبي بكرة
Y أن النبي صلى الله عليه و سلم قال ذات يوم " من رأى منكم رؤيا ؟ " فقال رجل أنا رأيت كأن ميزانا نزل من السماء فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت أنت بأبي بكر ووزن عمر وأبو بكر فرجح أبو بكر ووزن عمر وعثمان فرجح عمر ثم رفع الميزان فرأينا الكراهية في وجه رسول الله صلى الله عليه
4634

اور دوسری روایت میں زید بن علی جدعان ہے یہ بھی ضعیف ہی ہے اور اس ایک ادھ ضعیف روایت سے علی رضی الله عنہ کی خلافت پر کوئی حرف نہیں آتا ان کی خلافت پر اجماع ہے اور وہ خلیفہ راشد ہے مگر معاویہ رضی الله عنہ پر امت کا اجماع ہے کے وہ ملوک ہیں اور یہ کسی ایک ادہ کا قول نہیں پورے ١٤٠٠ سال کے آئمہ اور محدثین اس کے پیچھے ہیں الله ہدایت دے

 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
اور سعید بن جمھان کے بارے میں محدثین کے قول نقل کر آیا انہوں نے خاص اس روایت ہی کو صحیح کہا ہے اور امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ کثیر اہل سنت نے اس سے نس صریح لی ہے کہ علی رضی الله عنہ خلافت راشدہ میں سے ہیں پہلے اوپر پڑھ لیں اس کے بعد بات کرتے ہیں
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
یہ بھی پڑھ لیں -

امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو جن لوگوں نے پہلے بادشاہ کہا ہے ان کی بنیادی دلیل وہی سعیدبن جمھان کی منفرد روایت ہے جس کی حقیقت اوپر پیش کردی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص سعیدبن جمھان کے تفرد کی حقیقت سامنے آجانے کے بعد بھی محض ظاہرپرستی کا ثبوت دیتے ہوئے ضد کرے کہ سعدبن جمھان مختلف ومتکلم فیہ ہونے کے باوجود بھی جب صدوق وثقہ ہے تو اس کی روایت قابل قبول ہے ۔لہٰذا اس کی روایت کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں ۔
تو ایسے شخص کی خدمت میں عرض ہے کہ اصول حدیث میں اس ظاہر پرستی کی بناپر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے پہلے علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ثابت ہوجائیں گے کیونکہ ان کے پہلے بادشاہ ہونے سے متعلق بھی ایک حدیث سعیدبن جمھان عن سفینہ ہی کے طریق سے وارد ہوئی ہے ملاحظ ہو:

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حدثنا رزق الله بن موسى ، قال : حدثنا مؤمل ، قال : حدثنا حماد بن سلمة ، عن سعيد بن جمهان ، عن سفينة ، رضي الله عنه ، أن رجلا قال : يا رسول الله ، رأيت كأن ميزانا دلي من السماء فوزنت بأبي بكر فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر بعمر فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستهلها رسول الله صلى الله عليه وسلم خلافة نبوة ثم يؤتي الله الملك من يشاء.
سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خواب کی تاویل یہ کی کہ یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند البزار: 9/ 281]

یہ حدیث بھی سفینہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے ۔اوریہاں بھی سفینہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کرنے والا سعیدبن جمھان ہی ہے اور اس کے نیچے کی مکمل سند صحیح ہے۔
امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840) نے اسی حدیث کو اسی سند ومتن کے ساتھ نقل کرنے کے بعد فرمایا:
هذا إسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 11]

اب اس حدیث میں غور کیجئے اس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے خواب کی تعبیر بتلاتے ہوئے ابوبکر ،عمراورعثمان رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے بعد ان کے دور کو خلافت نبوت کا دور قراردیا ہے اور پھر اس کے بعد ملوکیت کا دور بتلایا ہے۔

اب سوال یہ کہ کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ کہنا شروع کردیا جائے کہ علی رضی اللہ عنہ پہلے بادشاہ ہیں؟

یاد رہے کہ اس حدیث کے بھی شواہد موجود ہیں بلکہ اس کا ایک شاہد تو بالکل اسی سند سے ہے جس سند سے علامہ البانی رحمہ اللہ نے تیس سال خلافت والی حدیث کا پہلا شاہد پیش کیا ہے۔ملاحظہ ہو:

امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، أخبرنا علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة ، قال : وفدنا مع زياد إلى معاوية بن أبي سفيان ، وفينا أبو بكرة ، فلما قدمنا عليه لم يعجب بوفد ما أعجب بنا ، فقال : يا أبا بكرة حدثنا بشيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعجبه الرؤيا الحسنة ، ويسأل عنها ، فقال ذات يوم : أيكم رأى رؤيا ؟ فقال رجل : أنا رأيت ، كأن ميزانا دلي من السماء ، فوزنت أنت وأبو بكر ، فرجحت بأبي بكر ، ثم وزن أبو بكر وعمر ، فرجح أبو بكر بعمر ، ثم وزن عمر بعثمان ، فرجح عمر بعثمان ، ثم رفع الميزان ، فاستاء لها ، وقد قال حماد أيضا : فساءه ذاك ، ثم قال : خلافة نبوة ، ثم يؤتي الله الملك من يشاء

عبدالرحمان بن ابی بکرۃ کہتے ہیں کہ ہم زیاد کے ساتھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، اورہمارے ساتھ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، تو جب ہم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جس قدر ہمارے وفد کی آمد پر خوش ہوئے اس طرح کسی اور وفد پرخوش نہ ہوئے ، پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ ! آپ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنا ہے اس میں سے کچھ ہمیں بھی سنائے ! تو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھے خواب پسند تھے اورآپ اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے ۔تو ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ تو ایک صحابی نے کہا : میں نے دیکھا ہے۔ میں نے (خواب)دیکھا کہ گویا آسمان سے ایک ترازو اتری ہے تو آپ کا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بھاری ہو گئے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئے۔ اور عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو عمر رضی اللہ عنہ بھاری ہو گئی، پھر ترازو اٹھا لی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات ناگوار گذری اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اس خواب کی تاویل کرتے ہوئے ) فرمایا: یہ خلافت نبوت کی طرف اشارہ ہے اس کے بعد اللہ جس کو چاہے گا ملوکیت دے دے گا۔[مسند أحمد ط الميمنية: 5/ 50]

اورجس طرح امیر معاویہ رضی اللہ کے دور کو بعض علماء نے ملوکیت کا دور قراردیا ہے اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی ایک صحابی کا یہ بیان ملتا ہے کہ انہوں نے اس دور کو ملوکیت کا بلکہ جبری ملوکیت کا دور قراردیا ہے چناں چہ :

امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حدثنا موسى حدثنا وهيب عن أيوب عن أبي قلابة عن أبي الأشعث كان ثمامة القرشي على صنعاء وله صحبة فلما جاءه قتل عثمان بكى فأطال وقال اليوم نزعت الخلافة من أمة محمد صلى الله عليه وسلم وصارت ملكا وجبرية من غلب على شيء أكله
ابوالاشعث روایت کرتے ہیں کہ صحابی رسول ثمامۃ القرشی رضی اللہ عنہ صنعاء میں تھے ، انہیں جب عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبرملی تو رو پڑے اوردیر تک روئے پھر فرمایا: آج امت محدیہ سے خلافت لے لی گئی ہے اور اب جبری ملوکیت کادور شروع ہوگیا ہے جو جس چیز پرغلبہ پائے اسے کھا جائے۔[التاريخ الأوسط للبخاري، ن الرشد: 1/ 600 واسنادہ صحیح علی شرط مسلم ]

دکتوراکرم ضیاء العمری نے بھی اس کی سند کو صحیح کہا ہے دیکھئے: [عصرالخلافة الراشدة ،محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين ، 1/442،]

اب کیا ان روایات کی بناپر یہ کہا جائے گا کہ علی رضی اللہ عنہ کا دور بھی ملوکیت بلکہ جبری ملوکیت کا دور ہے ؟
ہماری نظر میں علی رضی اللہ عنہ کے دور سے متعلق بھی یہ روایت اسی طرح ضعیف ہے جس طرح امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت بتانے والی روایت ضعیف ہے۔
اس لئے نہ ہم علی رضی اللہ عنہ کے دور کو ملوکیت کادور مانتے ہیں اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو ۔ بلکہ ہمارے نزدیک دونوں صحابہ کرام کا دور خلافت کا دور ہے ۔البتہ اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فضل و مقام میں بڑھ کر ہیں ۔

http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-خلافت-تیس-30-سال-،تحقیقی-جائزہ.33105/page-2

اور جو لنک اپ پیش کر رہے ہیں میں نے اوپر اسی کا رد کیا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم اوپر والی دونوں روایات ضعیف ہیں
مومل نے اس میں خلافت کے الفاظ داخل کر دیے ہیں ابوداؤد میں یہ روایت صحیح سند کے ساتھ نقل ہے اس میں مومل ہے جس کے حفظ میں کلام ہے جو سنابلی صاحب نے بھی نقل کیا اور اسی نے اس الفاظ کا اضافہ کر دیا ہے اصلا روایت میں خلافت والے الفاظ نہیں ہیں پڑھ لیں
حدثنا محمد بن المثنى ثنا محمد بن عبد الله الأنصاري ثنا الأشعث عن الحسن عن أبي بكرة
Y أن النبي صلى الله عليه و سلم قال ذات يوم " من رأى منكم رؤيا ؟ " فقال رجل أنا رأيت كأن ميزانا نزل من السماء فوزنت أنت وأبو بكر فرجحت أنت بأبي بكر ووزن عمر وأبو بكر فرجح أبو بكر ووزن عمر وعثمان فرجح عمر ثم رفع الميزان فرأينا الكراهية في وجه رسول الله صلى الله عليه
4634


اور دوسری روایت میں زید بن علی جدعان ہے یہ بھی ضعیف ہی ہے اور اس ایک ادھ ضعیف روایت سے علی رضی الله عنہ کی خلافت پر کوئی حرف نہیں آتا ان کی خلافت پر اجماع ہے اور وہ خلیفہ راشد ہے مگر معاویہ رضی الله عنہ پر امت کا اجماع ہے کے وہ ملوک ہیں اور یہ کسی ایک ادہ کا قول نہیں پورے ١٤٠٠ سال کے آئمہ اور محدثین اس کے پیچھے ہیں الله ہدایت دے
"امّت کا اجماع ہے کہ امیر معاویہ رضی الله عنہ ملوک ہیں ؟؟ اس جملے کو کون ثابت کرے گا ؟؟-

حقیقت یہ ہے کہ:

اس حدیث کی سند کی ابتدا میں یہی دو حضرات ہیں: ایک حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے سعید بن جُمْهان۔ پھر نبی کریم صل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ایک اہم حقیقت کو بیان فرما رہے ہیں اور بعض طرق کے مطابق خلافت کے تیس سال والی یہ بات آپ نے خطبہ دیتے وقت ارشاد فرمائی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی اہم بات کو صرف ایک صحابی حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ ہی کیوں بیان کرتے ہیں؟ ان کے علاوہ کوئی اور صحابی اس حدیث کو بیان نہیں کرتا ہے۔ پھر حضرت سفینہ سے جن لوگوں نے یہ روایت سنی، ان میں صرف ایک سعید بن جُمْهان ہیں جو اسے بیان کرتے ہیں۔ حالانکہ سعید سے سن کر بیسیوں افراد اسے روایت کرتے ہیں-

مزید یہ کہ : ‘یہ سعید ، حضرت سفینہ رضی الله عنہ کے باقاعدہ شاگرد نہیں ہیں بلکہ حج کے دنوں میں ان کے پاس آٹھ دن تک رکے تھے اور ان سے احادیث حاصل کی تھیں۔ (تہذیب الکمال راوی نمبر ٢٢٤)- اگر حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو بیان کیا ہوتا تو پھر ان کے اور بھی بہت سے شاگرد اس حدیث کو بیان کر رہے ہوتے۔ نہ صرف سفینہ رضی الله عنہ بلکہ دیگر صحابہ کرام رضوان الله آجمعین بھی اسے بیان کرتے؟؟۔

روایت میں ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نبوت کی خلافت تیس برس تک رہے گی۔ پھر اللہ تعالی اس حکومت کو جسے چاہیں گے، عطا فرما دیں گے۔ ‘‘ سعید کہتے ہیں کہ سفینہ نے مجھ سے کہا: ’’اسی پر قائم رہیے۔ ابوبکر کی خلافت دو سال تھی، عمر کی دس سال، عثمان کی بارہ سال اور اسی طرح علی کی (ساڑھے چار سال۔)‘‘ سعید کہتے ہیں کہ میں نے سفینہ سے کہا: ’’یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ علی خلیفہ نہیں تھے۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ’’یہ ایسا جھوٹ ہے جسے ان بنی زرقاء نے اپنی سرین سے گھڑ کر نکالا ہے۔‘‘ (راوی کہتے ہیں بنی زرقاء سے مراد بنو مروان ہیں۔) ابو داؤد، کتاب السنۃ )

ملاحظه کریں
روایت کے آخری حصے میں جس فحش گوئی کو حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان جملوں کا تخلیق کار، بنو امیہ کی حکومت سے شدید بغض رکھتا تھا-
ورنہ صحابی رسول حضرت حضرت سفینہ رضی الله عنہ سے ایسی فحش گوئی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

مزید یہ کہ: ابن خلدون لکھتے ہیں: مناسب تو یہی تھا کہ حضرت معاویہ کے حالات بھی سابق خلفاء کے حالات کے ساتھ ہی بیان کر دیے جاتے کیونکہ فضیلت، امانت و دیانت اور صحابیت میں یہ انہی کے تابع تھے۔ حدیث ’’میرے بعد خلافت تیس سال تک رہے گی‘‘ کی طرف توجہ نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس کی صحت پایہ ثبوت کو نہیں پہنچی۔ حق یہی ہے کہ حضرت معاویہ کا شمار خلفاء ہی میں ہے (مقدمہ- باب خلافت حسن)-

مزید یہ کہ : کہ اگر حضرت امیر معاویہ رضی الله عنہ اسں روایات کے مطابق فاسق و فاجر اور ظالم تھے (نعوز باللہ)- تو حضرت حسن رضی الله عنہ نے خلافت ان کے سپرد ہی کیوں کی - کیا حضرت حسن رضی الله عنہ اس حدیث رسول سے نابلد تھے یا انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی خلافت کے ٦ ماہ پورے ہونے پر تیس سال مکمل ہو جائیں گے ؟؟ اور اگر وہ روایت کو جانتے تھے -تو ظاہر ہے کہ دوسرے لفظوں میں خود حضرت حسن رضی الله عنہ قصور وار ٹھہرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں پر ظالم بادشاہ کو مسلط کرکے خلافت سے دست بردار ہو گئے؟؟-
 
Last edited:
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top