• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث قدسی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791


حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔

  1. پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔
احادیث قدسیہ سینکڑوں ہیں اور ہر درجہ کی ہیں۔ یہ مجموعہ جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے یہ چالیس احادیث قدسیہ کا منتخب مجموعہ ہے۔ مصر کے ایک عالم الشیخ علی الدین محمد ابراہیم نے اس مجموعہ کا انتخاب اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ ان تمام احادیث کی سندیں صحیح ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بخاری و مسلم کی ہیں، چند ایک دوسری احادیث کی کتب سے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ایسی احادیث لیں جن کی روایت کے صحیح ہونے میں انہوں نے پوری تسلی کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔

http://zahidrashdi.org/1070
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
اب آپ اپنے زخم چاٹیں!
جس کا مقصد حیات دوسروں کو زخم لگانا ہو وہ اپنی اصلاح کیسے کرے گا؟ جب وہ اپنی اصلاح ہی نہیں کر پائے گا تو دوسروں کو گمراہ ہی کرے گا جیسا کہ یہ صاحب کر رہے ہیں۔
وحشی کو پنجرہ میں بند کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق محفوظ رہے۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39


حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔

  1. پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔
احادیث قدسیہ سینکڑوں ہیں اور ہر درجہ کی ہیں۔ یہ مجموعہ جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے یہ چالیس احادیث قدسیہ کا منتخب مجموعہ ہے۔ مصر کے ایک عالم الشیخ علی الدین محمد ابراہیم نے اس مجموعہ کا انتخاب اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ ان تمام احادیث کی سندیں صحیح ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بخاری و مسلم کی ہیں، چند ایک دوسری احادیث کی کتب سے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ایسی احادیث لیں جن کی روایت کے صحیح ہونے میں انہوں نے پوری تسلی کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔

http://zahidrashdi.org/1070
کیا آپ ان کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جس کا مقصد حیات دوسروں کو زخم لگانا ہو وہ اپنی اصلاح کیسے کرے گا؟ جب وہ اپنی اصلاح ہی نہیں کر پائے گا تو دوسروں کو گمراہ ہی کرے گا جیسا کہ یہ صاحب کر رہے ہیں۔
وحشی کو پنجرہ میں بند کرو تاکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق محفوظ رہے۔
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ شب کے باطل کا دم نکلتا ہے
کیا آپ ان کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں؟
یہ آپ کے حنفی کا کلام ہے میاں!
حنفیہ آپ کے نکتہ نظر سے متفق نہیں ہیں میاں!
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39


حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟

احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔

  1. پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔
  2. دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔
احادیث قدسیہ سینکڑوں ہیں اور ہر درجہ کی ہیں۔ یہ مجموعہ جو اس وقت میرے سامنے موجود ہے یہ چالیس احادیث قدسیہ کا منتخب مجموعہ ہے۔ مصر کے ایک عالم الشیخ علی الدین محمد ابراہیم نے اس مجموعہ کا انتخاب اس اہتمام کے ساتھ کیا ہے کہ ان تمام احادیث کی سندیں صحیح ہیں۔ ان میں زیادہ تر تو بخاری و مسلم کی ہیں، چند ایک دوسری احادیث کی کتب سے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ایسی احادیث لیں جن کی روایت کے صحیح ہونے میں انہوں نے پوری تسلی کر لی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔

http://zahidrashdi.org/1070
کیا آپ ان کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں؟
یہ آپ کے حنفی کا کلام ہے میاں!
حنفیہ آپ کے نکتہ نظر سے متفق نہیں ہیں میاں!
جواباً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں ہر جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا آپ ان کے نقطۂ نظر سے متفق ہیں؟
زاہدالراشدی صاحب ایک مشہور مقلد دیوبندی عالم ہیں ، یہاں ان کی تحریر ایک حنفی مقلد کیلئے لگائی ہے ،
اور یہ تحریر (شهد شاهد من اهلها، یعنی ان کے گھر کی گواہی ) کے قبیل سے ہے ،
اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو بصد شوق رد کریں ۔
میرے متفق و مختلف ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
زاہدالراشدی صاحب ایک مشہور مقلد دیوبندی عالم ہیں ، یہاں ان کی تحریر ایک حنفی مقلد کیلئے لگائی ہے ،
اور یہ تحریر (شهد شاهد من اهلها، یعنی ان کے گھر کی گواہی ) کے قبیل سے ہے ،
اگر آپ کو اس پر اعتراض ہے تو بصد شوق رد کریں ۔
میرے متفق و مختلف ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،
میرے بھائی میری نحث محدث فورم پر آپ لوگوں سے ہورہی ہے۔ زاہد الراشدی صاحب اس بحث میں حصہ دار نہیں۔ لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ یا تو جو آپ کسی کی تحریر دلیل میں لکھیں اس سے اتفاق بھی کریں وگرنہ یہ بحث کو خواہ مخواہ طول دینا اور خلط مبحث کرنا ہے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے بھائی میری نحث محدث فورم پر آپ لوگوں سے ہورہی ہے۔ زاہد الراشدی صاحب اس بحث میں حصہ دار نہیں۔ لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ یا تو جو آپ کسی کی تحریر دلیل میں لکھیں اس سے اتفاق بھی کریں وگرنہ یہ بحث کو خواہ مخواہ طول دینا اور خلط مبحث کرنا ہے۔
حنفی حنیف صاحب کی جے!
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حنفی حنیف صاحب کی جے!
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حنفی بھی نہیں ہیں ۔ جو اپنے ائمہ کی بات سے ہی متفق نہ ہو وہ ہماری بات سے کیسے متفق ہوگا ؟
اسحاق بھائی نے صاف لکھا کہ
اس موضوع پر محدثین کا کلام بعد میں نقل کریں گے پہلے برصغیر پاک وہند کے مقلدین کے ’’ مفتیان ‘‘ کرام کا بیان پڑھ لیں :
پھر بھی ۔۔
اب پھر یہی کہوں گا کہ بھینس کے آگے بین نہ بجائی جائے ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
بحث محدث فورم پر ہورہی ہے اور یہ احناف کا نہیں۔ یہاں لامذہبوں پر لازم ہے کہ وہ اپنا مطمحہ نظر پیش کرین۔
 
Top