- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
حدیث قدسی کسے کہتے ہیں؟
احادیث مبارکہ میں ایک شعبہ ہے احادیث قدسیہ کا۔ ’’حدیث قدسی‘‘ اسے کہتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ اللہ تعالیٰ سے روایت فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا۔ یعنی ان احادیث میں حضورؐ راوی ہیں۔ ایسی باتیں ماضی کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا تھا، حال کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے یوں ارشاد فرما رہے ہیں، اور مستقبل کی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن یہ ارشاد فرمائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے جو بات جناب نبی کریمؐ نقل فرماتے ہیں اسے حدیث قدسی کہتے ہیں۔ ایسی باتیں حضورؐ کے ارشادات میں نہیں شمار ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات میں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن کریم بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اور حدیثِ قُدسی بھی اللہ تعالیٰ ہی کا ارشاد ہے۔ قرآن کریم کا ایک ایک جملہ، ایک ایک آیت، اور ایک ایک سورت اللہ کا کلام ہے۔ قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ اسی طرح حدیثِ قُدسی بھی اللہ کا کلام ہے اور اللہ کی بات ہے۔ حدیث قدسی کو بھی ہم تک پہنچانے والے جناب نبی کریمؐ ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم اور حدیث قدسی میں کیا فرق ہے؟ قرآن کریم اور حدیثِ قُدسی میں دو بنیادی فرق ہیں۔
- پہلا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم میں بات بھی اللہ تعالیٰ کی ہے اور الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔ جبکہ حدیث قدسی میں بات تو اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن الفاظ اللہ تعالیٰ کے ضروری نہیں ہیں بلکہ جناب نبی کریمؐ نے اپنے الفاظ میں اللہ کا پیغام ہم تک پہنچایا۔ جس طرح ہم روز مرہ زندگی میں کسی شخص سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی تک میرا یہ پیغام پہنچا دو۔ اب اس شخص کے لیے بعینہ میرے الفاظ میں پیغام پہنچانا ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ میرا پیغام اپنے الفاظ میں مطلوبہ شخص تک پہنچا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یوں ہوتا ہے کہ اکثر احادیث کے الفاظ صحابہ کرامؓ کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان میں پیغام حضورؐ کی طرف سے ہوتا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورؐ کے اپنے الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں لیکن اصل بات حضورؐ کے پیغام کا نقل ہونا ہے، آپؐ کے اپنے الفاظ کا نقل ہونا ضروری نہیں ہے۔ قرآن کریم میں الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کے ہیں اور پیغام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لیکن حدیثِ قُدسی میں یہ ضروری نہیں ہے کہ الفاظ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہوں۔ جناب نبی کریمؐ اپنے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی بات کا مفہوم بیان فرماتے ہیں۔
- دوسرا فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ، آیات اور سورتیں قطعی ہیں۔ ان میں کوئی تردّد نہیں ہے کہ فلاں آیت قرآن کی ہے یا نہیں، یا فلاں سورت قرآن کی ہے یا نہیں۔ لیکن حدیث قدسی میں باقی احادیث کی طرح سند کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے کہ یہ حدیث کس درجے کی ہے، صحیح ہے یا ضعیف۔ جس طرح باقی احادیث میں یہ امکان موجود ہے کہ کوئی کمزور راوی حضورؐ کی بات بیان کرتا ہے کہ حضورؐ نے یوں فرمایا، اسی طرح احادیث قدسیہ میں بھی یہ امکان موجود ہے کہ محدثین یہ بات کہہ دیں کہ فلاں حدیث کی سند کمزور ہے۔ باقی احادیث کی طرح یہ سارے امکانات احادیث قدسیہ میں بھی موجود ہیں کہ حدیث صحیح بھی ہو سکتی ہے، ضعیف بھی ہو سکتی ہے، متواتر بھی ہو سکتی ہے اور موضوع بھی ہو سکتی ہے۔ قرآن کریم میں یہ امکان نہیں ہے کہ الحمد للّٰہ رب العالمین سے لے کر من الجنۃ والناس تک ہر حرف قطعی ہے اور کسی بھی حرف پر شک جائز نہیں ہے۔ جبکہ احادیث قدسیہ میں سند پر بات ہوگی۔ جتنی مضبوط سند ہوگی حدیث بھی اتنی صحیح شمار ہوگی۔ سند صحیح ہے تو روایت صحیح ہے، سند کمزور ہے تو روایت بھی کمزور ہے، اور سند اگر جعلی ہے تو روایت بھی جعلی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ۔۔
http://zahidrashdi.org/1070