- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
حدیث وسنت : فرق اور باہمی تعلق
…عقیدہ کے اعتبار سے قرآن کریم بھی سنت میں شامل ہے جو حدیث ہی کے ذریعے ہمیں ملا۔ اس لئے عموماًمحدثین حدیث وسنت کو مترادف سمجھتے ہیں مگر صحیح بات یہ ہے کہ ان میں عموم وخصوص کا فرق ہے۔ یعنی حدیث عام ہے اور سنت خاص۔ وہ اس طرح:
حدیث سند و متن کے مجموعے کا نام ہے اور اس متن کے ثبوت کے بعد جومسئلہ(خواہ وہ فرض ہو یا مسنون، عقیدہ ہو حرام ہو یا حلال ، قول ہویا عمل ) معلوم ہو اسے سنت کہتے ہیں۔
…فقہی اعتبار سے سنت اسے کہیں گے جو فرض کے بعد کا درجہ رکھتی ہے۔جس میں سنت مؤکدہ یا راتبہ اور سنت غیر مؤکدہ یا راتبہ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔
… چونکہ علوم نبوت کے لئے حدیث و سنت کا استعمال عام ہے ۔اس لئے محدثین و متکلمین کے ہاں جب بھی حدیث یا سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبی ﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات ہی ہوتے ہیں۔ اس مفہوم کے علاوہ کسی اور طرف ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا۔
…سنت کا تعلق آپ ﷺ کے قول ، فعل اور تقریر سے ہوتاہے ۔مگرصحابہ کرام ؓ اور تابعین ؒ کے اقوال و افعال گو کتب حدیث میں موجود ہیں انہیں سنت نہیں بلکہ اثر، موقوف ، مقطوع یا خبر کہاجاتا ہے ۔
…صرف صحیح یا حسن حدیث سے سنت ثابت ہوگی اس لئے کہ صحیح حدیث کے علاوہ دیگر اقسام حدیث جیسے ضعیف، موضوع، متروک، مرسل یا اجتہاد وفتوی وغیرہ سے سنت ثابت ہوتی ہے اور نہ ہی اسے سنت نام دیا جاسکتا ہے۔نیز حدیث کو تو ضعیف وموضوع کہا جاتا ہے مگر سنت کو نہیں۔
… سنت و حدیث میں تعداد کے لحاظ سے بھی فرق ہے مثلاً آپ ﷺ کی یہ قولی سنت ہے: إنما الأعمال بالنیات۔۔۔ یہ سنت تقریباً(۷۰۰) سات سو طریقوں سے بیان ہوئی ہیں۔ یوں یہ سنت ایک ہے مگر ا س کی احادیث (۷۰۰) سات سو ہیں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ امام بخاری کو چھ لاکھ احادیث یاد تھیں تو اس سے مراد اسانید ہیں نہ کہ سنت۔ اسی طرح ایک ہی حدیث میں بے شمار سنتوں کا استنباط فقیہ کا کام ہے۔