• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کا انکار کیوں؟

شمولیت
جون 01، 2017
پیغامات
61
ری ایکشن اسکور
9
پوائنٹ
20
انکار حدیث کیوں؟
غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
انکار حدیث اصل میں انکار قرآن ہے، قرآن کا نام لے کر احادیث کو ٹھکرانے والے کون لوگ ہیں،رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بتاتے ہیں:
''وہ قرآن پڑھیں گے ، لیکن ان کے حلقسے تجاوز نہیں کرے گا، دین سے یوںنکل جائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔''(صحیح البخاری:٦٩٣١)
یہ حدیث خوارج کا حال بیان کرتی ہے، کہ وہ فہم دین سے ناآشنا ہوں گے، اسی وجہ سے خوارج قرآن و حدیث کی توہین اور مسلمانوں کی تکفیر کے مرتکب ہوئے ۔
حافظ ابنِ حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''بہت سے غیر اہل حدیث لوگوں نے احادیث ِ صحیحہ اور روایات ِ ثابتہ کا انکار کیا ہے ، ائمہ حدیث پرطعن کیاہے، یہ اقدام ان کے ناقص العقل و قاصر الفہم ہونے پر دلیل ہے، اسی وجہ سے علامہ کرمانی (شارحِ بخاری )نے کہا ہے کہ ثقہ راویوں کی طرف خوامخواہ غلطی کی نسبت کرنے کی ضرورت نہیں (بلکہ ان کی روایتوں میں جمع و توفیق اور تطبیق دینا ضروری ہے)۔'' (فتح الباری:١٣/٤٠١)
حدیث قرآن کی ضد نہیں، قرآن وحی ہے ، حدیث بھی وحی ہے، وحی حق ہے، حق حق کے معارض نہیں ہوسکتا، ایک حق کو دوسرے حق پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔مسلمانوں کا شیوہ یہ ہے جو بھی قرآن و حدیث کی صورت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیںدیا ہے، اسے دل و جان سے حق تسلیم کرتے اوراس پر ایمان لاتے ہیں، امامِ زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
علی اللّٰہ البیان وعلی الرّسول البلاغ وعلینا التّسلیم ۔
''اللہ نے بیان کیا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا ،ہم پہ لازم ہے کہ ہم سرتسلیم خم کریں۔''
(الزہد لابن أبی عاصم :٧١، حلیۃ الاولیاء لأبی نعیم :٣/٣٦٩، عقیدۃ السلف أصحاب الحدیث لأبی اسماعیل الصابونی، واللفظ لہ ، تغلیق التعلیق لابن حجر:٥/٣٦٥، وسندہ صحیح)
حافظ خطابی لکھتے ہیں :
''جن سنتوں کا ذکر قرآن میں نہیں ،ان کی مخالفت سے بھی اجتناب کریں، خوارج اور روافض نے صرف قرآن کے ظاہر کو لیا ہے اوران احادیث کو چھوڑ دیا ہے جو قرآن کی توضیح و تشریح پر مشتمل ہیں ، اس لیے وہ گمراہ ہو ئے۔''
(معالم السنن: ٤/٢٩٨)
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے بقیہ بن ولید رحمہ اللہ سے پوچھا ، جو لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے ہیں، ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟عرض کیا ،برے لوگ ہیں، تو اوزاعی رحمہ اللہ کہنے لگے :
''جس بدعتی کوبھی آپ اس کی بدعت کے خلاف حدیث سنائیں گے ، وہ اسے برا سمجھے گا ۔''
(شرف أصحاب الحدیث للخطیب: ١٥٠، الحجۃ لئابی القاسم الأصبہانی :١/٢٠٧، وسندہ صحیح)
امام ِآجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''کسی سے حدیث بیان کی جائے اور وہ کہے کہ میں صرف قرآن کو مانتا ہوں تو اسے برا کہنا چاہئے، یہ اہل علم و عقل کے ذمے ہے۔اسے کہیں کہ تیرے جیسے جاہل لوگوں سے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علماء نے خبردار کیا ہے ۔''(الشریعۃ : ٤٩)
امام ِ شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''کسی بھی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرآن کریم کے مخالف نہیں ہو سکتی۔'' (الرّسالۃ للشافعی: ٥٤٦)
شاطبی لکھتے ہیں :
''تعارض کی دو قسمیں ہیں ،حقیقت میں ہو گا یاصرف مجتہد کی نظر میں ہوگا ،حقیقی تعارض قرآن وحدیث میں ناممکن ہے ۔'' (الموافقات: ٤/٢٩٤)
یہ کہناکہ حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے گا، قرآن کے موافق ہوئی تو درست ورنہ اسے چھوڑ دیا جائے گا،ایک مفروضہ تو ہوسکتا ہے، حقیقت میں صحیح حدیث کا قرآن کے مخالف ہونا ممکن نہیں۔اگر بات کسی ایک انسان یا بعض انسانوں کی عقل کومعیار ماننے کی ہے تو گزارش ہے کہ قرآ ن کی بعض آیات دوسری آیات سے ٹکراتی نظر آئیں تو کیا کیا جائے ؟کیا یہاں بھی عقل کو حاکم مان لیا جائے؟اگر ہاں تو کس آیت کو لیا جائے گا اور کس کو چھوڑا جائے گا۔اگر نہیں تو جو اصول قرآن کے بارے میں اپنایا جائے گا اسے حدیث پر بھی لاگو کر لیجئے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
''میں کسی کو اس طرح نہ دیکھوں کہ وہ صوفہ پر ٹیک لگائے ہوئے ہو اور اسے میری حدیث پہنچے ،تو وہ کہے کہ ہم نہیں جانتے ، ہم تو صر ف قرآن کااتباع کریں گے۔''
(أبوداؤد: ٤٦٠٥، ترمذی :٢٦٦٣، ابن ماجہ : ١٣، مسند الحمیدی:٥٥١، دلائل النبوۃ للبیہقی:٦/٥٤٩٩، وسندہ صحیح)
اس حدیث کو امام ِ ترمذی نے''حسن صحیح ''،نیز امام ابن حبان (١٣)اور امام ِ حاکم (١/١٠٨،١٠٩٩) نے ''صحیح ''کہا ہے۔حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے حافظ بغوی نے '' حسن''قرار دیاہے ۔(شرح السنۃ :١/٢٠١)
حافظ بغوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''یہ حدیث دلالت کناں ہے کہ حدیث کو قرآن پر پیش کرنے کی قطعاکوئی ضرورت نہیں ، وہ حدیث صحیح ہو ئی تو بذات ِ خود حجت ہو گی ۔''(شرح السنۃ : ١/٢٠١۔٢٠٢)
قرآن اور حدیث کے مابین تعارض کی مثال ملاحظہ فرمائیں :
متواتر حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انکم سترون ربکم کما ترون ہذا القمر ، لا تضامون فی رؤیتہ ۔۔۔۔
''آپ اپنے رب کو دیکھو گے ، جس طرح بھِیڑ کے بغیر چاند دیکھتے ہو ۔''
(صحیح بخاری :٧٤٣٤، صحیح مسلم : ٦٣٣)
قرآن میں ہے کہ جب موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی درخواست کی تو اللہ نے فرمایا :
(لَنْ تَرَانِیْ)(الاعراف: ١٤٣) ''موسی!آپ مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔''
حدیث میں دیدارِ الٰہی کا ثبوت ہے اور قرآن اس کی نفی کر رہا ہے ،بعض لوگ اس تعارض کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث ''صحیح'' نہیں ، بالفرض اس کو ''صحیح '' مان لیا جائے تو اس سے مراد '' علم '' ہے نہ کہ دیدارِ الٰہی ۔ اللہ کا فرمان ہے :
(اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ، مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ)(النور:٤١)
''آپ کو علم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اس کی تسبیح کرتی ہے؟''
یہ حدیث متواتر ہے ، اس کی صحت میں شبہ نہیں ، قرآن نے جس دیدارِ الٰہی کی نفی کی ہے ، اس کا تعلق دنیا سے ہے ، حدیث نے جس کا اثبات کیا ہے ، اس کا تعلق آخرت سے ہے ،دنیا میں کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی ، البتہ آخرت میںوہ مومنوں کو اپنا دیدار دے گا، لہٰذا تعارض ختم ہوا ، یہاں رؤیت کی تعبیر علم سے کرنا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام و سلف صالحین کے متفقہ فہم و تصریحات کے خلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ٭ اِِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ)(القیامۃ :٢٢۔٢٣)
''اس دن چہرے شگفتہ اور بارونق ہوں گے ، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے ۔''
نظر کی نسبت چہرے کی طرف ہے، جو آنکھوں کا محل ہے ، اس کو ''الیٰ '' کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے ، معلوم ہوا کہ یہ رؤیت بصری ہو گی نہ کہ قلبی ، یہ اہل جنت پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہو گااور منکر اس سے محروم رہے گا۔
اسی حدیث میں ہے کہ جب صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیدارِ الٰہی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا :
''جب سورج نصف النہار پر ہو اور بادل بھی نہ ہو تو کیا سورج دیکھنے میں دقت یا دشواری ہوتی ہے؟ اور جب چودھویں کاچاند جلوہ آراہو اور بادل بھی نہ ہو تو کیا چاند دیکھنے میں دقت ہوتی ہے ؟ عرض کیا ، نہیں ، یارسول اللہ! فرمایا ، جس طرح دنیا میں سورج یا چاند کو دیکھتے ہو ، اسی طرح روزِ قیامت اللہ کا دیدار کرلو گے ۔''(صحیح مسلم: ١٨٣)
واضح ہوا کہ دیدار بصر ی ہو گا نہ کہ قلبی ۔
امام ابن قتیبہ لکھتے ہیں :
''اگر کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار نا ممکن ہوتو یہ لاز م آئے گا کہ اللہ کے جس وصف کو موسیٰ علیہ السلام نہ جان سکے ، اسے منکرین حدیث جان گئے ۔''(تاویل مختلف الحدیث :٢٠٧)
حدیث کو قرآ ن پر پیش کرنے والا اصول غلط ہوا، یاد رہے کہ کوئی صحیح حدیث قرآ ن کے مخالف نہیں ہوتی ، ظاہری مخالفت ہو سکتی ہے ، حقیقت میں مخالفت نہیںہو سکتی ، لہٰذا ایک صحیح ، مرفوع اور متصل حدیث پیش کی جائے جو قرآ ن کے خلاف ہو ،اللہ کی توفیق سے ہم اس تعارض کو رفع کر دیں گے ، اگر قرآن کا ظاہری تعارض رفع ہو سکتا ہے تو قرآن و حدیث کا ظاہری تعارض بھی رفع ہو سکتا ہے۔
انکار حدیث ایک مرض ہے ،یہ عقل کو شیطان کے تابع کر دیتا ہے، شیطان اس کی طرف باطل القاء کرتا ہے ، شبہات و وساوس کے اندھیروں سے اسے بھر دیتا ہے۔
امام ابو القاسم اسماعیل بن محمد اصبہانی لکھتے ہیں :
''منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ سنت کو قرآن پر پیش کیا جائے گا ، اگر وہ قرآن کے موافق ہوئی تو ٹھیک ورنہ ہم قرآن کے ظاہر کو لے لیں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے ، نری جہالت ہے ، سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے موافق ہے ، بلکہ اللہ کی طرف سے قرآن کی تفسیر و تشریح ہے ، کوئی سنت قرآن کے مخالف و معارض نہیں ہے ، اللہ نے اپنی مخلوق کو بتلایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سیدھی راہ کی راہنمائی فرماتے ہیں ، فرمایا :(وَاِِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِِلٰی صِرَاطٍ مُسْتَقِیْمٍ)(الشورٰی: ٥٢)''آپ ضرور صراطِ مستقیم کی ارشاد و راہنمائی فرماتے ہیں ۔'' ہمارے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کے بغیر چا رہ نہیں ،حدیث کو عقل پر بھی پیش نہیں کیا جائے گا، امتیوں کے اقوال و افعال تو حدیث کے تابع ہیں ،جان بوجھ کر سنت کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف جانے کی گنجائش نہیں ہے ، جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول صحیح ثابت ہو جائے تو اس کے خلاف کسی کا قول حجت نہیں ہے ۔''(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ٢/٤٢٥۔٤٢٦)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''جس نے حدیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کر دیا ، وہ تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑ ا ہے ۔''
(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ١/٢٠٧، منا قب الامام احمدلابن الجوزی : ١٨٢، وسندہ حسن)
قوام السنۃ ابو اسماعیل اصبہانی لکھتے ہیں :
''اہل بدعت سے بغض لازم ہے ، وہ جہاں بھی ہوں ، تاکہ آپ اللہ کی خاطر محبت اور اللہ کی خاطر نفرت کرنے والوں سے ہو جائیں ، اہل سنت سے محبت اور اہل بدعت سے بغض کی چند علامات ہیں ، کسی کو امام ِ مالک بن انس ، سفیان ثوری ، عبدالرحمن بن مہدی ، عبداللہ بن مبارک ، محمد بن ادریس شافعی اور دیگر صحیح العقیدہ ائمہ کا ذکر ِ خیر کرتے دیکھیں ، تو جا ن لیں کہ وہ اہل سنت سے ہے اور جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اللہ کے دین اور اس کی کتاب میںجھگڑا کر رہا ہے، اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یو ں فرمایا ہے ، وہ کہتا ہے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے، جان لیں کہ وہ بدعتی ہے ، جب کسی سے کہا جائے کہ آپ حدیث کیوں نہیں لکھتے ؟ وہ کہتا ہے کہ عقل بہتر ہے ، جان لیں کہ وہ بھی بدعتی ہے، جب آپ دیکھیں کہ کوئی اہل فلسفہ و ہندسہ کی مدح سرائی کر رہا ہے ، تو جان لیں کہ وہ گمراہ ہے ، جب کسی کو دیکھیں کہ وہ اہل حدیث کو حشویہ ، مشبہہ اور ناصبہ کہہ رہا ہو ، تو جان لیں کہ وہ بدعتی ہے ، جب کوئی صفاتِ الٰہی کی نفی یا انہیںمخلوق سے تشبیہ دے رہا ہو ، تو جان لیں کہ وہ گمراہ ہے۔''
(الحجۃ فی بیان المحجۃ : ٢/٥٣٩۔٥٤٠)
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: (مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ) (النسائ: ٨٠)
''جس نے رسول کی اطاعت کی ،درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔''
یہ آیت نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال اللہ کی وحی ہیں ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال اللہ کی وحی کے تابع ہیں ، تو انہیں قرآ ن کریم پر پیش کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟
حافظ ابن ِ حزم فرماتے ہیں :
''یہ لا ریب حقیقت ہے کہ دین کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام باتیں وحی ِ الٰہی ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی وحی کے منزل من اللہ ہونے میں اہل لغت وشرع میں کوئی اختلاف نہیں۔''(الاحکام لابن حزم: ١/١٣٥)
حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
''جبریل امین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سنت لے کربھی نازل ہوتے تھے ، جس طرح کہ قرآن لے کر نازل ہوتے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت کی ویسے ہی تعلیم دیتے تھے ، جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔''(السنۃ لمحمد بن نصر المروزی : ٢٨،١١٦، وسندہ صحیح)
ابو البقاء حسینی حنفی کہتے ہیں :
''الحاصل ،فرمان الٰہی :(اِِنْ ہُوَ اِِلَّا وَحْیٌ یُّوحٰی)(النجم:٥٥) کے مطابق قرآن و حدیث دونوں وحی ہیں ۔'' (کلیات ابی البقائ: ٢٨٨)
علامہ شوکانی لکھتے ہیں :
''معتبر علمائے اسلام سنت ِمطہرہ کی مستقل تشریعی حیثیت پر متفق ہیں ، یہ حلال و حرام میں قرآن کی طرح ہے ۔''(ارشاد الفحول للشوکانی : ٣٣)
نیز فرماتے ہیں :
''سنت ِ مطہرہ کی حجیت اور اس کا احکام شرعیہ کا مستقل مصدر ہونے کا ثبوت ضرورت ِ دینی ہے، اس میں اختلاف وہی کرتاہے، جس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔''(ارشاد الفحول : ٣٣)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
''اہل ایمان ! اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی بھی ۔''
اللہ نے اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا تو ''اطیعوا''کا صیغہ امر الگ الگ ذکر فرمایا ، جب اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا ، تو صیغہ امر نہیں دہرایا ، بلکہ عطف پر اکتفاکیا ، ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مستقل بالذات دلیل ہیں ، لہٰذا آپ کی احادیث کو کتاب اللہ پر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ۔
امام عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں :
''اولی الامر سے مراد علماء و فقہاء ہیں اور اطاعت ِ رسول کتاب و سنت کی پیروی کا نام ہے۔''(سنن الدارمی: ٢٢٥، تفسیر ابن جریر: ٥/١٤٧، وسندہ صحیح)
قرآن و حدیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہو اکہ حدیث وحی ہے ، اسے قرآن پر پیش کرنا ضلالت ہے.
 
Top