• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی تصحیح اس کے تمام راویوں کی توثیق ہے!

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اسلام علیکم
میری یہ عادت ہے کہ کسی بھی عالم کی کوئی بات یا کسی اصول کی وضاحت جو اہم ہو اور بار بار استعمال میں آتی ہو، اس کو میں علیحدہ سے ایک ورڈ فائل میں لکھ لیتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر صرف اس کو کاپی پیسٹ کر لیتا ہوں۔ آج میں اس فائل میں سے صرف ایک مسئلہ پر تمام اکھٹا کیا ہوا مواد یہاں پر لگانے جا رہا ہوں تا کہ اس کو آئندہ کے لیے ریفرینس بنایا جا سکے اور محدثین کے طویل اقوال نقل کرنے کی بجائے صرف اس تھریڈ کا لنک دے دیا جائے۔
یہ تمام حوالہ جات شیخ کفایت اللہ السنابلی، شیخ زبیر علی زئی، اور شیخ ارشاد الحق اثری کی کتب و تحریروں سے اخذ کردہ ہے۔

کسی محدث کی طرف سے منفرد روایت کی تصحیح یا تحسین اس روایت کے تمام راویوں کی توثیق ہوتی ہے۔

۱- امام ابو الحسن ابن القطان الفاسی المغربی رحمہ اللہ نے زینب بنت کعب اور سعد بن اسحاق کے بارے میں لکھا:

وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395]۔
"اور ترمذی کی طرف سے اس حدیث کی تصحیح میں اُس کی اور سعد بن اسحاق کی توثیق ہے، اور ثقہ راوی کو یہ بات مضر نہیں کہ اس سے صرف ایک شخص ہی روایت کرے، واللہ اعلم"

۲- امام ترمذی نے عمرو بن بجدان راوی کی حدیث کو "حسن صحیح" کہا۔ اس کے بارے میں تقی الدین ابن دقیق العید رحمہ اللہ نے الامام (نامی کتاب) میں کہا:

"و أي فرق بين أن يقول: هو ثقة أو يصحح له حديث انفرد به؟"
"اس میں کیا فرق ہے کہ وہ اسے ثقہ کہیں یا اس کی انفرادی حدیث کی تصحیح کی جائے؟"
(نصب الرایہ للزیلعی ج ۱ ص ۱۴۹)

۳- امام الجرح والتعدیل شمس الدین الذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"الثقة: مَن وثَّقَه كثيرٌ، ولم يُضعَّف. ودُونَه: مَن لم يُوَثَّق ولا ضُعِّف. فإن خُرِّج حديثُ هذا في "الصحيحين"، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً. وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه."
"ثقہ وہ ہے جسے (محدثین کی) اکثریت ثقہ کہے، اور اس کی تضعیف نہ کی گئی ہو۔ اُس سے نچلے درجے میں وہ ہے جس کی نہ توثیق کی گئی اور نہ تضعیف، پس اگر ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین میں مروی ہو تو اس وجہ سے وہ اس کی توثیق ہو گی، اور اگر اس کی حدیث کی ترمذی، اور ابن خزیمہ جیسے محدثین تصحیح کریں تو وہ بھی اسی طرح جید ہو گی، اور اگر الدارقطنی اور الحاکم جیسے اس کی حدیث کی تصحیح کریں تو اس کا کم سے کم حال یہ ہو گا کہ وہ حسن الحدیث ٹھہرے گا"
(الموقظة في علم المصطلح : ۱/۷۸)

۴- امام الجرح والتعدیل حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ عبد الرحمن بن خالد بن جبل العدوانی کے ترجمے میں فرماتے ہیں:

"قلت صحّح بن خُزَيْمَة حَدِيثه وَمُقْتَضَاهُ أَن يكون عِنْده من الثِّقَات"
"میں کہتا ہوں: ابن خزیمۃ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے جو اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقات میں سے تھے"
(تعجيل المنفعة : ۱/۷۹۳، الشاملہ)

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں:

"وأخرج بن حبان في صحيحه من طريق أبي سلام عنه أحاديث صرح فيها بالتحديث ومقتضاه أنه عنده ثقة ۔"
"اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابو سلام کے حوالے سے ان سے روایات لی ہیں جن میں انہوں نے تحدیث کی صراحت بھی کی ہے، اور یہ اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ ان کے نزدیک ثقہ تھے"
[تعجيل المنفعة ص: 204]

۵- حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته."
"اور دوسروں نے کہا کہ اس میں جھالت ہے کیونکہ ابن خنیس کے علاوہ کوئی بھی اس سے روایت نہیں کرتا، اور ذھبی نے تو جزم کے ساتھ یہ بات المغنی میں کہی ہے کہ: وہ معروف نہیں ہے لیکن - جیسا کہ آپ نے دیکھا - الحاکم نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ہے، اور اسی طرح ابن حبان نے بھی اس کی تصحیح کی ہے، اور وہ اپنی معرفت اور ثقاہت کی وجہ سے پکارا جاتا ہے۔"
(البدر المنیر: ۴/۲۶۹)

۶- علامہ جمال الدین الزیلعی الحنفی عمرو بن بجدان کے بارے میں فرماتے ہیں:

"فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ"
"پس اسی طرح کسی ایک راوی کے ان سے روایت کرنے میں جھالتِ حال لازم نہیں آتی جبکہ ایسی چیز موجود ہو جو اس کی تعدیل پر متقاضی ہے، اور وہ ہے ترمذی کی تصحیح۔"
(نصب الرایہ: ۱/۱۴۹)

۷- محدث العصر ناصر السنہ امام ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي."
"اور اسی طرح ان تمام محدثین نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے جنہوں نے اس کی حدیث کی تصحیح کی چاہے وہ اس کی حدیث کو "صحیح" میں روایت کرنے کی صورت میں ہو جیسے مسلم اور ابو عوانہ، یا وہ اس کی صحت پر صراحتاََ حکم کے ساتھ ہو جیسے ترمذی"
(سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16)

پس محدثین کی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے جب کوئی عالم کسی حدیث کو صحیح قرار دیتا ہے تو یہ اُس کی طرف سے اُس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے، اِلا یہ کہ کوئی صریح دلیل اس کی تخصیص کر دے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
چند مزید حوالے:

1- امام ابو عبد اللہ الحاکم النیسابوری المستدرک کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: "وأنا أستعين الله على إخراج أحاديث رواتها ثقات قد احتج بمثلها الشيخان رضي الله عنهما ، أو أحدهما ، وهذا شرط لصحيح عند كافة فقهاء أهل الإسلام" (مقدمہ المستدرک)
یعنی اگر صاحب الصحیح کسی حدیث سے احتجاج کرے یا اسے صحیح کہے تو اس کے نزدیک اس کے رواۃ بھی ثقہ ہوتے ہیں۔

2- چنانچہ امام ابن دقیق العید فرماتے ہیں جس کا خلاصہ ہے کہ:"أن من طرق معرفة كون الراوي ثقة ، تخريج البخاري ومسلم ، أو أحدهما له ، في الصحيح محتجين به ، ثم عمم عندما قال: "فيستفاد من ذلك جملة كثيرة من الثقات ، إذا كان المخرج قد سمى كتابه الصحيح أو ذكر لفظا يدل على اشتراطه لذلك فلينتبه لذلك" (الاقتراح ص 55)

3- امام ابن عبد البر فرماتے ہیں: "وقد تكلم البخاري في أحاديث سليمان بن موسى وطعن فيما انفرد به منها وأكثر أهل العلم يصححون حديثه بأنه إمام من أئمة أهل الشام وفقيه من جلة فقهائهم" (الاستذکار: 5/67)

4- امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں بے شمار راویوں کے ترجمہ میں صرف یہ کہہ کر اکتفاء کیا ہے کہ صحح فلان یا اس طرح کہہ کر انہوں نے راویوں کے موثقین و معدلین شمار کیے ہیں۔ اسی طرح ایک جگہ پر وہ کسی راوی کے متعلق فرماتے ہیں: "ما علمت روى عنه سوى عبد الله بن عثمان بن خثيم، ولكن صحح هذا الترمذي.
اسی طرح حفص بن عبد اللہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: "ما علمت روى عنه سوى أبي التياح، ففيه جهالة، لكن صحح الترمذي حديثه" (ت 2125)۔
زید بن ظبیان کے ترجمہ میں فرماتے ہیں: "ما روى عنه سوى ربعى ابن خراش، لكن صحح الترمذي حديثه." (ت 3014)۔
اور اس طرح کی بے شمار مثالیں صرف میزان ہی سے مل سکتی ہیں۔

5- حافظ ابن عبد الہادی ایک راوی پر جرح کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "وَقَدْ احْتَجَّ - بِحَدِيثِ قَيْسٍ، عَنْ أَبِيهِ -: النِّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ أَبُو حَاتِمٍ الْبُسْتِيُّ، وَحَسَّنَهُ التِّرْمِذِيُّ" (تعلیقات علی العلل: 1/87)
یعنی جرح کے مقابلے میں انہوں نے ان تصحیحات سے حجت پکڑی۔
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: "فإن قيل: قد قال أبو حنيفة: زيد أبي عيَّاش مجهولٌ قلنا: إن كان هو لا يعرفه، فقد عرفه أهل النَّقل، وذكر روايته التِّرمذيُّ وصحَّحها، والحاكم وصحَّحها، وذكره مسلمٌ في كتاب " الكنى " وقال: سمع من سعدٍ، وروى عنه عبد الله بن بزيد. وذكره ابن خزيمة في " رواية العدل عن العدل "، وقال الدَّارَقُطْنِيُّ: هو ثقةٌ." (تنقیح التحقیق: 4/31)

6- حافظ ابو الفضل العراقی، ابن القطان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "حكى ابْن الْقطَّان هَذَا الإختلاف ثمَّ قَالَ وَكَيف مَا كَانَ فَهُوَ من لَا يعرف لَهُ حَال وَلَا سنَن قلت روى عَن أبي سعيد حَدِيث بِئْر بضَاعَة وَقد صَححهُ أَحْمد وروى عَنهُ جمَاعَة مِنْهُم مُحَمَّد بن كَعْب الْقرظِيّ وَهِشَام بن عُرْوَة وسليط بن أَيُّوب وَغَيرهم وَذكره ابْن حبَان فِي الثِّقَات" (ذیل میزان الاعتدال: 1/155)
اور حجر بن العنبس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: "قلت قد وَثَّقَهُ ابْن معِين وَأَبُو حَاتِم بن حبَان وَأَبُو بكر الْخَطِيب وَحسن لَهُ التِّرْمِذِيّ حَدِيث مد الصَّوْت بآمين وَصَححهُ الدَّارَقُطْنِيّ لَا جرم أَن ابْن الْقطَّان لما نقل تَصْحِيح الدَّارَقُطْنِيّ لَهُ قَالَ كَأَنَّهُ عرف من حَال حجر الثِّقَة" (ایضا 1/75)
اور اسماعیل بن عبد الکریم کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: "قَالَ ابْن الْقطَّان لَا يعرف وَلم تثبت عَدَالَته قَالَ وَذكره مسلمة بن قَاسم فَقَالَ صنعاني جَائِز الحَدِيث قلت احْتج بِهِ ابْن خُزَيْمَة وَابْن حبَان فِي صَحِيحهمَا وَذكره حبَان فِي الثِّقَات" (ص 55)

7- تنقیح التحقیق کے محققین (شیخ سامی بن محمد بن جاد اللہ اور شیخ عبد لعزیز بن ناصر الخبانی) فرماتے ہیں: "أحكام العلماء على الرواة تنقسم إلى قسمين: أحكام صريحة، وأحكام ضمنية، والمقصود بالأحكام الضمنية الأحكام التي تكون غير صريحة ولكنها مضمنة في حكم آخر، فمثلاً عندما يصحح البخاري حديثًا، فهذا يتضمن: ثقة رواة الإسناد، وسماع بعضهم من بعض" (مقدمہ تنقیح التحقیق: ص 168)

8- شیخ حاتم الشریف کا اس متعلق مفصل فتوی: لنک

9- شیخ محمود الطحان کا فتوی: لنک

حنفی علماء کے حوالے:

بعض حنفیوں نے اس اصول پر اعتراض کیا ہے تو ان کے لئے خصوصی یہ حوالے پیش کئے جاتے ہیں:
1- علامہ زیلعی الحنفی فرماتے ہیں: "قَالَ ابْنُ الْقَطَّانِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ لِاتِّصَالِهِ وَثِقَةِ رُوَاتِهِ" (نصب الرایۃ: 1/19)

2- علامہ ابن الہمام الحنفی فرماتے ہیں: "تحسين الترمذي الحديث فرع معرفته حاله وعينه" (فتح القدیر 2:134)

3- علامہ مغلطائی الحنفی ایک راوی پر ابن حزم کی جرح کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "أما قول ابن حزم حين أراد ردّه: حديث جابر رواه أبان بن صالح، وليس بالمشهور، فقول مردود لما أسلفنا من توثيقه عند من صحح حديثه" (شرح ابن ماجہ: 1/120)
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: "وأما ما ذكره الخلال في كتاب العلل عن الإِمام أحمد بن حنبل: عاصم لم يسمع غير مكي رواية- أي ليس/بمشهور في الرواية عنه- فمردود، بما أسلفنا ذكره عند من صحح حديثه" (شرح ابن ماجہ: 1/266)
ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں: "هذا حديث إسناده حسن؛ للاختلاف في حال كثير؛ فإنه ممن صحح له الترمذي حديثا" (ایضا 1/309)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "أمّا قول ابن معين فيه ضعيف فليس يعارض ما أسلفناه من توثيقه عند من صحح حديثه أو حسنه ويكون ضعيفَا بالنسبة إلى غيره من الثقات" (ایضا 1/319)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "وأعلّه بيحيى بن علي بن خلاد فإنه لا يعرف له حال، وليس فيه مزيد على الإِسناد انتهى كلامه وفيه نظر لما أسلفنا ذكره عند من صححّ حديثه، وذلك لا يكون إلَّا بعد معرفة حاله خصوصًا ابن حبان فإنه ذكره في كتاب الثقات" (ایضا 1/365)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "وذكره ابن حبان في الثقات مع تقدّم من صحح حديثه، فزالت عنه الجهالة- واللَّه أعلم" (ایضا 1/1380)

4- علامہ عینی الحنفی فرماتے ہیں: "والحديث: أخرجه ابن ماجه، وابن خزيمة، والبَيْهقي، ثم العجبُ من البيهقي صحح هذا الحديث، وفيه ابن إسحاق، فقال: إذا ذكر سماعَه وكان الراوي ثقةً استقام الإسناد، وقال في " باب تحريم قتل ما له روحٌ ": الحُفاظ يتوقون ما يَنفردُ به ابن إسحاق، والحالُ أنه قد تفرد به هاهنا فكيف يكون هذا الإسناد صحيحاً؟" (شرح ابی داود: 4/396)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "قال ابن حزم: مجهول. قلت: ليس كذلك، فإن ابن حبان ذكره فى الثقات، وصحح الحاكم حديثه." (مغانی الاخیار: 1/59)

5- علامہ ملا علی قاری الحنفی فرماتے ہیں: "أَنه قد صحّح حَدِيث مُوسَى ابْن خُزَيْمَة، وَابْن حبَان وَالْحَاكِم وَقَالَ: إِنَّه على شَرط مُسلم. وَقَالَ التِّرْمِذِيّ: إِنَّه حسن صَحِيح. قلت: لَعَلَّهُم غفلوا عَن شذوذ الْمَتْن ونظروا إِلَى الْإِسْنَاد فَقَط فحكموا عَلَيْهِ بِمَا حكمُوا" (شرح النخبہ: ص 334)۔

6- علامہ ابن الترکمانی الحنفی ، اسماعیل بن عیاش پر امام بیہقی کی جرح کا رد کرتے ہوئےترمذی کی تصحیح سے حجت پکڑتے ہیں اور کہتے ہیں: "وقد صحح الترمذي لابن عياش عدة احاديث" (الجوہر النقی: 9/325)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں: "وفي كتاب المزى توثيقهما فزالت جهالة الحال ايضا ولهذا صحح الترمذي هذا الحديث وحكى عن البخاري تصحيحه وصححه ابن خزيمة وغيره" (1/4)

7- علامہ انور شاہ کاشمیری الحنفی فرماتے ہیں: "إن بقيةَ مدلس، والبخاري صحح روايته في مواقيت الصلاة ذكره في التلخيص فإذا صرح بالسماع تقبل روايته" (العرف الشذی: 1/153)
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ @اسحاق سلفی
شیخ @خضر حیات
ذرا وقت نکال کر ترجمہ کر دیں تو ہم جیسوں کا بھی کچھ فائدہ ہو جائے ۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top