• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث کی حجیت اور شیخ بن باز کا موقف

شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
حدیث کی حجیت اور شیخ بن باز کا موقف
یہ بات تو مسلّم ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شخصیت کا قرآن کریم سے ناقابل انقطاع تعلق ہے ۔
قرآن کریم کو مکمل طور سے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہنمائی کے بغیر ناممکن ہے ۔
چنانچہ حدیث جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قول ، فعل اور تقریر سے عبارت ہے قرآن کریم کے پہلو بہ پہلو ہدایت انسانی کا دوسرا اہم ترین سر چشمہ ہے ۔ حدیثِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ صرف قرآن مجید کی علمی و عملی شرح و تفسیر ہے بلکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں جو انقلاب اس دنیا عالم میں بپا کیا گیاہے، اس کی صحیح ترین عملی تشکیل بھی حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی پیش کرتی ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) دشمنان اسلام کی سازشوں کا مستقل محور رہی ہے ۔ اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر قسم کے وسائل کو نہ صرف بروئے کار لایا گیا بلکہ جید علماء و محدثین ، جن کی زندگیاں حدیث و سنت کی خدمت و حفاظت میں گزر گئیں ، ان کے اقوال و مقالات میں خیانت کر کے یا مختلف نوعیت کے مہمل سوالات کر کے من پسند جوابات حاصل کئے گئے اور ان کے ذریعہ عوام ا لناس کو گمراہ کرنے کی کوششیں کی گئیں ۔
مثلاً ڈاکٹر شبیر نے اپنی تصنیف "اسلام کے مجرم" میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ و امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب کے حوالے دے کر نا معقول اقوال ان کی طرف منسوب کیے ہیں۔
بالکل یہی حال سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ کے فتویٰ کا بھی ہے۔

کوئی بھی ذی شعور مسلمان ، جو حجیتِ حدیث پر ایمان رکھتا ہو ، اس فتویٰ سے اتفاق نہیں کرے گا کہ جس کی نقل ڈاکٹر شبیر نے اپنی کتاب "اسلام کے مجرم" میں دی ہے ۔
کیونکہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ تو حدیث رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سچے شیدائی تھے اور آپ کی پوری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزری بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ آپ نے قرآن و حدیث کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا ۔
چودہ (14) جلدوں پر مشتمل "فتح الباری شرح صحیح بخاری" کی تصحیح اور بیس (20) مجلدات میں آپ رحمہ اللہ کے فتاویٰ و مقالات اور سینکڑوں کتب اس دعویٰ کی بیّن دلیل ہے۔
یہ نا ممکن ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ صرف قرآن مجید کو تھامے رکھنے کی تلقین کریں اور حدیثِ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کوئی شرعی اور قانونی حیثیت نہ دیں ۔
بلکہ آپ تو ایسے لوگوں کو ملحد اور یہود و نصاریٰ کے قبیل میں شمار کرتے تھے کہ جو دین اسلام کی تفہیم کے لئے صرف قرآن مجید کو کافی سمجھتے ہیں ۔
ذیل میں ہم شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے اس مقالے سے کچھ اقتباسات نقل کئے دیتے ہیں کہ جو انہوں نے "حجت حدیث" کے سلسلے میں ترتیب دیا تھا۔ تاکہ حق اور باطل کے درمیان فرق واضح ہو جائے۔
والأصل الثاني من الأدلة سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقول رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة، لدلالة المعجزة على صدقه، ولأمر الله بطاعته، وتحذيره من مخالفة أمره). انتهى المقصود، وقال الحافظ ابن كثير رحمه الله في تفسير قوله تعالى:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
أي: عن أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو سبيله ومنهاجه وطريقته، وسنته وشريعته، فتوزن الأقوال والأعمال بأقواله وأعماله، فما وافق ذلك قبل، وما خالفه فهو مردود على قائله وفاعله كائنا من كان، كما ثبت في الصحيحين وغيرهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد أي: فليخش وليحذر من خالف شريعة الرسول باطنا وظاهرا

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنن و اقوال قطعی حجت ہیں۔ اس لئے کہ :
اولاً : قرآن آپ کے صدق کی گواہی دیتا ہے ۔
ثانیاً: اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا آپ کے حکم کی مخالفت سے لازمی طور پر اجتناب کرنا ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ آیت درج ذیل کے تحت فرماتے ہیں :
فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہیئے کہ ان پر کوئی آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے
( سورة النور : 24 ، آیت : 63 )
یہاں امر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مراد آپ کا رستہ ، منہج ، طریقہ ، سنت اور شریعت ہے ۔ ہر قسم کے ا قوال اور اعمال کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اقوال و اعمال پر پیش کیا جائے گا اگر ان میں موافقت ہوئی تو اس کو قبول کیا جائے گا اور مخالفت ہوئی تو اسے کہنے اور کرنے والے ہی کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔
اسی طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ہےکہ :
جس نے کوئی ایسا عمل کیا کہ جس پر ہمارا حکم موجود نہ ہو تو وہ مردود ہے۔
شریعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ظاہر ی اور باطنی مخالفت کرنے والے کو ڈرنا چاہیئے۔
(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:163)
شیخ ابن باز رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ :
اعلموا رحمكم الله أن من أنكر أن كون حديث النبي صلى الله عليه وسلم قولا كان أو فعلا بشرطه المعروف في الأصول حجة كفر وخرج عن دائرة الإسلام وحشر مع اليهود والنصارى
جان لو کہ اللہ تم پر رحم کرے کہ جس شخص نے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کسی قولی یا فعلی حدیث کا انکار کیا تو وہ کافرہے اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور قیامت کے روز اس کو یہود و نصاریٰ کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
(مجموع الفتاویٰ ومقالات ، جلد:1، صفحہ:220)
ملاحظہ فرمائیں کہ متذکرہ بالا فتویٰ میں تو سماحۃ الشیخ علامہ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ، حدیث کا انکار کرنے والے پر کفر کا فتویٰ لگائیں اور کوئی ڈاکٹر شبیر احمد یہ بلند بانگ دعویٰ کریں کہ : بن باز نے احادیث کی صحت پر شکوک ظاہر کیے ہیں۔
ظاہر ہے ایسے بےبنیاد دعوؤں کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے !
بحوالہ : اسلام کے مجرم کون؟
لنک
 
Top