• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرام جہیز اور حلال جہیز میں تمیز کیجئے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مروجہ جہیز کی برائیاں !!!

مطالبہ جہیز ہندوانہ رسم ہے۔ جہیز کا معنی جہیز دینا نہیں بلکہ سامان تیارکرنا ہے۔قرآن و سنت اور فقہ کی کتب میں جہیز کی کوئی بحث نہیں۔ جہیز دینا خاوند کی ذمہ داری ہے ،عورت یا اس کے گھر والوں کی نہیں۔جہیز کو سنت کا نام دے کر استحصال اور ظلم کیا جارہا ہے۔ جہیز کا سامان دکھانا نہ صرف عبث وفضول ہے بلکہ ریا کاری ہے۔ دلہن یا اس کے والدین سے جہیز کا مطالبہ کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔مروجہ جہیز معاشی خرابیوں کی جڑ ہے۔جہیز صرف اشیائے ضرورت تک محدود نہیں رہا بلکہ سامان تعیش تک نوبت آگئی ہے۔ غریب آدمی اپنی بیٹی کو جہیز دینے کی خاطر مقروض و مفلس ہو جاتا ہے۔ برادری میں ناک اونچا رکھنے اورشہرت کے حصول کے لئے حرام و حلال کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔ لڑکیاں مجبورا جہیز کی خاطر بسوں کے دھکے کھانے اور افسروں کی جھڑکیاں سہنے پر مجبور کر دی گئیں ہیں۔ جہیز کم ہونے کی وجہ سے عورتوں کو مارا پیٹا جاتا ہے بلکہ طلاق تک دی جا رہی ہے۔جہیز کی وجہ سے والدین بیٹی کو رحمت کی بجائے زحمت سمجھنے لگے ہیں۔ جہیز دو خاندانوں کے درمیان اخوت و محبت کی بجائے دشمنی کا بیج بو رہا ہے۔ اگر جہیز سنت ہوتا تو صحابہ کرام، تابعین ، محدثین اور فقہاء کرام اس کو اپنی زندگی کا معمول بناتے۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد بچیاں اپنے والدین کے گھر بیٹھی ذہنی کوفت کا شکار اور بوڑھی ہو رہی ہیں۔ جہیز نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے لڑکی تمام عمر سسرال والوں کے طعنے سننے، اپنے خاوند کا ظلم سہنے بلکہ بعض اوقات خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اسلام نےاپنے معاشرے میں نکاح کو انتہائی آسان اور سادہ بنایا تاکہ ہر امیر وغریب آسانی سے نکاح کی برکات حاصل کر سکے کیونکہ جس معاشرے میں نکاح کو مشکل بنا دیا جاتا ہے وہاں زنا عام ہوجاتا ہے اور جہاں زنا اور سود عام ہوجائے وہاں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ آج ہم نے غیر مسلموں کی اندھی تقلید کے ذریعے فضول خرچیوں اور رسومات کی بھرمار کرکے نکاح کو مشکل بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہمارا معاشرہ زنا کی دلدل میں پھنستا ہی چلا جارہا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
رواں لڑی کے حوالے سے چند باتیں کہنا چاہوں گا ۔
  1. بیٹی کے والدین یا بھائی اور دیگر رشتہ دار اگر اپنی بیٹی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی اس کے لیے کوئی وقت خاص ہے ۔ اس فعل کو حرام کہنے والوں کے پاس دلیل نہیں اور اس کو لازم کرنا بھی دلیل سے عاری ہے ۔ لیکن کوئی بھی جائز یا اچھا کام کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ میرے کسی فعل سے دوسرے مسلمان کی دل آزاری نہ ہو ۔
  2. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو جو جہیز دیا تھا اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مال سے نہیں تھا بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے دیا تھا تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بچپن سےحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں رہے اور آپ کی خدمت کرتے رہے ۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس تجہیز کو حالیہ ’’ جہیز‘‘ کی نگاہ دیکھنا قرین قیاس نہیں لگتا ۔ بلکہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ سامان خریدکر استعمال کے لیے دیا تھا ۔ لہذا اگر کوئی اپنی بیٹی کو جہیز نہیں دیتا یا دے سکتا تو اس کو ترک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا ۔
  3. حالات او رمعاشرے کے اطوار کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض جائز کاموں سے بھی پرہیز کرنا پڑتا ہے ۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ ’’ جہیز ‘‘ ایک قابل مذمت رسم بن چکا ہے ۔ اگر چہ سب نہیں لیکن معاشرے میں زیادہ لوگ اس کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ وإثمہما أکبر من نفعہما کے مصداق اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں ۔ لہذا ہمیں اس کی مذمت کرنی چاہیے اگرچہ ہم استطاعت رکھتے بھی ہیں اور ہماری نیت بھی ٹھیک ہے لیکن پھر بھی اس سے پرہیز کرنا چاہیے تاکہ استطاعت نہ رکھنے والوں کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں اور غلط سوچ رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو ۔
  4. خاوند اور بیوی میں سے ہر دو کی ہر قسم کی خرچے کی ذمہ داری خاوند کی ہے ۔ خاوند کو ذرا مردانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر لڑکی کے والدین کہیں بھی تو اچھے طریقے سے کچھ لینے سےشکریہ کے ساتھ معذرت کرلینی چاہیے ۔ عین ممکن ہے کے لڑکا مالی حالات کے حوالے سے کمزور ہو لیکن آپ ذرا سوچیں آپ اپنی اس صورت حال کو وجہ بناکر کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے لیے تیار ہیں ؟ یا کوئی آپ کے حال پر ترس کھا کر آپ کو دے توآپ لیے لیں گے ؟ استفت قلبک وإن أفتاک الناس ( لوگوں کی بجائے اپنے دل سے پوچھیے )
  5. رسم جہیز کی برائیوں میں سے ایک بنیادی برائی میرے ذہن میں یہ ہے کہ صرف جہیز ملنے نہ ملنے یا کم زیادہ کیوجہ سے بہت سارے لڑکے لڑکیوں کی شادیاں یا تو ہوتی نہیں یا پھر ہوتی ہیں تو تاخیر سے ہوتی ہیں اور اسی طرح غیر مناسب جگہوں پر ہوتی ہیں ۔ اگر اس جہیز کے تصور کو ختم ہی کردیا جائے اور لڑکے اور اس کے گھر والوں کے ذہن میں یہ تصور ہی نہ کہ لڑکی کی طرف سے ہمیں اس طرح کا کچھ ملنا ہے تو میرے خیال سے اس فساد کو بہت کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ مثلا ایک لڑکا ہے جو جہیز کا امید وار ہے اس کے پاس ایک رشتہ ہے کہ لڑکی کے والدین موٹر سائیکل دیں گے ایک دوسرا رشتہ ہے کہ لڑکی کے والدین کار دیں گے ایک تیسرا رشتہ ہے کہ فلاں جگہ پر اتنے مرلے کا پلاٹ بھی ملے گا تو ظاہر ہے صرف جہیز کی بنا وہ اپنی پسند نا پسند میں تبدیلی کرے گا جو کہ کسی طرح بھی ایک مرد کے لائق نہیں ۔ اس طرح کے لوگ جہیز کے لالچ میں آکر لڑکی کی صفات میں پسندیدگی و عدم پسندیدگی تو نظر انداز کرکے مال کی ہوس میں شادی کرلیتے ہیں بعد میں جب مال پکا کرلیتے ہیں تو پھر ادھر ادھر جھانکتے ہیں اور پہلی بیوی کو تنگ کرتے ہیں ۔
  6. شیخ البانی رحمہ اللہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ دانوں والی تسبیج کی مذمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس سے ’’ انگلیوں پر تسبیح ‘‘ والی سنت متأثر ہوتی ہے ۔ اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ رسم جہیز کی مذمت اس لیے بھی ہے کہ اس سے ایک دینی مسئلہ ( عورتوں کا حق وراثت ) بری طرح متأثر ہوتا ہے ۔
بات لمبی ہورہی ہے صرف ایک بات کرکے اجازت چاہتا ہوں کہ کسی چیز کے فوائد و نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اس کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ جہیز ایک ایسی چیز ہے کہ جس کے پانچ فوائد کے مقابلے میں 10 نقصانات ہیں ۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
Muhammad Aamir Younus
جزاک اللہ خیرا محمد عامر یونس بھائی
آپ نے علمی پوسٹس شئیر کیں ہیں، اس حوالے سے چند باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
(1) کیا جہیز کی تمام صورتیں کُلی طور پر درست ہیں؟
اس تھریڈ کا مقصد جہیز کو کُلی طور پر درست سمجھنا اور اس کے نقصان دہ پہلوؤں سے قطع نظر کرنا ، نہیں۔لیکن بعض حالات مختلف ہوتے ہیں جن کی میں نے چند مثالیں اوپر دی ہیں، اور آخر میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر لڑکا استطاعت رکھتا ہو تو بہتر یہی ہے کہ وہ خود گھر کا سامان لے، اور اگر وہ استطاعت نہیں رکھتا اور اس کی بیوی کو یہ سامان زندگی اس کے والدین مہیا کر دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا، اگر شریعت اسلامیہ میں اس بات کی ممانعت کی بھی کوئی دلیل ہو تو پیش کی جائے ہم اپنے موقف سے رجوع کریں گے۔ ان شاءاللہ

جاری ہے۔۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
(2)کبیرہ گناہ کے مرتکب کو ابدی جہنمی سمجھنا اہل سنت والجماعت کے عقیدے کے خلاف ہے
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ اس معاملے میں بہت افراط و تفریط کا شکار ہیں، ایک طبقہ تو اس حد تک ہے کہ وہ جہیز دینے والوں کو ابدی جہنمی سمجھتا ہے، میں نہیں جانتا کہ اُن کے کیا دلائل ہیں، لیکن اگر بالفرض جہیز دینے کو کبیرہ گناہ ثابت کر بھی دیا جائے تو شرک و کفر کے علاوہ اگر کوئی موحد کبیرہ گناہ سے توبہ کیے بغیر مر جائے تو (1) یا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت سے معاف فرما دیں گے (2) یا وہ اپنی سزا جس کی مدت اللہ تعالیٰ کی جانتا ہے ، پا کر جنت میں داخل ہو گا، جس طرح کافر و مشرک کا ٹھکانہ ہمیشہ کی جہنم ہے اس طرح موحد کا ٹھکانہ ہمیشہ کی جنت ہے۔ ان شاءاللہ
لہذا کبیرہ گناہ کے مرتکب کو خارج از اسلام اور ابدی جہنمی سمجھنا خوارج کی صفت ہے، اور خوارج وہ ظالم لوگ ہیں جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرتے پھرتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُلْ يَـٰعِبَادِىَ ٱلَّذِينَ أَسْرَ‌فُوا۟ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا۟ مِن رَّ‌حْمَةِ ٱللَّهِ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغْفِرُ‌ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلْغَفُورُ‌ ٱلرَّ‌حِيمُ ﴿٥٣﴾۔۔۔سورۃ الزمر
ترجمہ: (میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وه بڑی بخشش بڑی رحمت واﻻ ہے
جاری ہے۔۔۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
(3) کیا تمام جہیز دینے والے اپنی بہنوں، بیٹیوں کو وراثت سے حصے سے محروم سمجھتے ہیں
آپ نے لکھا:
اور جہیز در حقیقت وراثت کی نفی ہے۔
یہ غیر مسلم اقوام میں طریق کار ہو گا کہ وہ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت کے حق سے محروم سمجھتے ہیں، شریعت اسلامیہ میں عورتوں کو وراثت میں ضرور حق ملتا ہے، اگر کوئی اس نظریے سے جہیز دیتا ہے تو بالاتفاق ایسا شخص گناہ گار ہے اور اللہ کی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے، ہم اس کام سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں، لیکن اگر کوئی ایسا نہیں ہے اور جہیز دینے کے بعد بھی اپنی بہن اور بیٹی کو وراثت میں بھی حصہ دیتا ہے تو یہ درست ہے۔
بہرحال المختصر یہ کہ جو بات یوسف ثانی بھائی نے کی ہے، ور بالکل درست ہے کہ تمام جہیز کو جس طرح کُلی طور پر صحیح نہیں سمجھا جا سکتا، اسی طرح کُلی طور پر غلط بھی نہیں سمجھا جا سکتا، بعض صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ جس میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہیز کے متعلق..!

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 01 September 2012 04:19 PM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا جہیز ایک لعنت ہے؟ کیا جہیز دینے والا کافر ہے ؟کیا جہیز دینے والا دائمی جہنمی ہے ؟ کیا شادی کے موقع پر سرپرست / والد / ولی (منکوحہ) بچی کو سامان دے سکتا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ جہیز کا رسول اللہﷺسے ثبوت نہیں ملتا جو روایت اس سلسلہ میں پیش کی جاتی ہے وہ پایہ ٔ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔

وباللہ التوفیق
احکام و مسائل
نکاح کے مسائل ج1ص 320
محدث فتویٰ

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1956/0/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شادی کے موقع پر سامان وغیرہ دینا

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 01 September 2012 04:24 PM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اگر شادی کے موقع پر سامان دیا جائے تو شرعی قباحت تو نہیں ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جہیز کے متعلق مجھے کوئی آیت یا صحیح حدیث معلوم نہیں۔
وباللہ التوفیق

احکام و مسائل
نکاح کے مسائل ج1ص 320
محدث فتویٰ

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1956/0/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہیز کی حقیقت اور حکم

شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 09 September 2013 09:55 AM

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جہیز کیا ہے؟ کیا اسلام میں جہیز فرض ہے یا سنت ہے؟ اگر فرض ہے تو کتنا جہیز عورتوں کو دینا
چاہیے۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہیز بنیادی طور پر ایک معاشرتی رسم ہے جو ہندوؤں کے ہاں پیدا ہوئی اور ان سے مسلمانوں میں آئی۔ خود ان کے ہاں اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔

اسلام نے نہ تو جہیز کا حکم دیا اور نہ ہی اس سے منع فرمایا کیونکہ عرب میں اس کا رواج نہ تھا۔ جب ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ اس رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔

ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔

اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ لڑکے والے اگر اس میں سے کوئی چیز استعمال بھی کریں گے تو اس کے لیے لڑکی کی آزادانہ اجازت انہیں درکار ہو گی۔ دباؤ ڈال کر اجازت لینا، جائز نہیں ہے۔

سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔

جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ والدین اپنے بیٹوں کی تعلیم پر جو کچھ خرچ کرتے ہیں، کیا اسے بھی وہ وراثت میں ایڈجسٹ کرتے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔ اس وجہ سے کسی بھی تحفے کو وراثت میں ایڈجسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب

محدث فتوی
فتوی کمیٹی

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6893/0/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہیز میں تعاون !!!

شروع از کلیم حیدر بتاریخ : 18 March 2013 03:16 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امید ہے ایمان و صحت کی بہترین حالت میں ہوں گے ۔اگر کسی لڑکی کے والدین اپنی بیٹی کی شادی پر جہیز کے لیے مالی مدد کا تقاضا کریں تو کیا ان کی مدد کرنی چاہیے۔ ؟جب کہ جہیز دینا 'اسلام میں بذات خود اچھا فعل تو نہیں ہے (ہمارے تشنہ علم کے مطابق ) ۔۔ براہ کرم اس معاملے میں رہنمائی فرمادیجیے ۔۔۔۔۔جزاک اللہ خیرا۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے اسباب یا سامان ؛ یہ اس سامان کو کہتے ہیں جو لڑکی کو نکاح میں اس کے ماں باپ کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ جہیز دینے کی رسم پرانے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے میں جہیز مختلف صورتوں میں دیا جاتا ہے۔ لیکن عام طور پر زیورات ، کپڑوں ، نقدی اور روزانہ استعمال کے برتنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں میں یہ رسم ہندو اثرات کی وجہ سے داخل ہوئی اور ایک لعنت کی شکل اختیار کر لی ۔

کتنی ہی عورتیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ۔ کم جہیز کی وجہ سے بہت سی عورتوں کی زندگی عذاب ہو جاتی ہے؛ مار پیٹ کے علاوہ بعض دفعہ ان کو جلا دیا جاتا ہے یا ان پر تیزاب پھینکا جاتا ہے ۔ دوسری طرف آج کل کا معاشرہ انسانی رشتوں سے زیادہ دولت کو اہمیت دیتا ہے جس کی وجہ سے یہ لعنت اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسلام میں جہیز کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام سادگی کا دین ہے اور اسلام کی نظر میں عورت کا بہترین جہیز اس کی بہترین تعلیم و تربیت ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایک غریب آدمی نا چاہتے ہوئے بھی جہیز دینے پر مجبور ہوتا ہے،حالانکہ یہ خاوند کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ گھر کا سامان مہیا کرے۔ اس کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایسے لڑکوں کے رشتے تلاش کئے جائیں جو جہیز کے طالب نہ ہوں ،اور ایساکرنے سے اللہ تعالی ضرور کوئی نہ کوئی راہ نکال دے گا۔

لہذا جہیز میں مدد کرنے کی بجائے شادی کے دیگر امور جیسے کھانا کھلانا وغیرہ میں تعاون کیا جا سکتا ہے۔ اور حتی الامکان اس بری رسم کے خاتمے کی کوشش کی جانی چاہئے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2840/0/
 
Top