• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حرام کاریوں سے کس طرح بچا جائے

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
محترم قارئین کرام انتہائی کوشش کے با وجود آپ حضرات کے حساب سے مضمون کچھ طویل ہوگیا ہے مضمون کومختصر کرنے کی وجہ سے کچھ گوشہ تشنہ رہ گئے بہرحال جب میں نے لکھنے میں بخل نہیں کیا تو آپ حضرات کو پڑھنے میں بخل نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ میں نے اس کو لکھنے میں کئی گھنٹے صرف کئے بس آپ صرف پانچ منٹ صرف کردیں تو اس احقر پر بڑا احسان ہوجائے گا۔ آپ حضرات کی کرم فرمائی اور عنایات کا پیشگی شکریہ!
پیش کردہ : (مفتی)عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری​

حرام کاریوں سے کس طرح بچا جائے​

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝۳۲
اللہ کے شعائر کی عظمت بجا لانا تو یہ (فعل) بلا شبہ دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے
ہماری شریعت کی بنیاد چار چیزوں پر ہے
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے چار بڑے شعار ہیں
۱۔قرآن پاک
۲۔ کعبۃاللہ
۳۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم
۴۔ نماز
’’معلوم رہے تما م شریعتوں کی بیناد شعار الٰہی لہ تعظیم پر ہے‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
عربی لغت کے اعتبار سے شعار کے معنی نشان یا علامت کے ہیں چنانچہ ہدی کے جانور بھی شعار اللہ کہلاتے ہیں اس لیے کہ وہ حج کے لیے ایک علامت مخصوصہ ہیں ،ہدی کے جانور (اونٹ) کی کوہان میں چیرا لگانے کو بھی شعار کہتے ہیں ،کیونکہ زمانہ جاہلیت میں ہدی کے اونٹ اور دیگر اونٹوں میں یہ شعار ہی وجہ امتیاز تھا اور اس علامت مخصوصہ کی وجہ سے ان جانوروں سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا ،الغرض شعار ایسی علامت یا نشان کو کہتے ہیں کہ وہ اس کی وجہ سے وہ چیز اپنی نوعیت کی تمام چیزوں میں نمایاں اور ممتاز ہوجائے ،چنانچہ اذان ،جماعت،نماز،ختنہ،وغیرہ چیزیں شعار اسلام ہیں۔اور اسی طرح عیسائیوں میں صلیب عیسائت کی اور زنار یاجنیئوو کفر اور شرک کی علامت یا شعار ہیں۔
حضرت شاوہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مذکورہ چاروں شعار کو شریعت محمدی (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)کی بنیاد قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت محمدی (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) میں یہ چار چیزیں بہت نمایاں ہیں اور تمام احکام شریعت ان ہی کے ساتھ قائم ہیں ، اس لیے ان چاروں چیزوں کی عظمت بجا لانے والااور ان پر عمل کرنے والا ہی اصل متقی ہے اوراس تقوے کا تعلق دل کے تقوے سے ہے۔
دل خیالات وھدایات کا مرکز ہے پہلے دل میں کسی چیز کو کرنے یا نہ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ دماغ میں منتقل ہوتا ہے دماغ سے جسم انسانی کو تحریک ملتی ہے اور پھر جسم کے اعضاء اچھے یا برے کام کو انجام دیتے ہیں:
اس دل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا:
اَلا اِن فی الجسد مضغۃ اِذا صلحت صلح الجسد کلہ و اِذا فسدت فسد الجسد کلہ اَلا وہی القلب۔ (متفق علیہ)
خبردار ر ہو! بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صالح ہےتو پورا جسم صالح ہوتا ہے، اور اگر وہ فاسد ہو تو پورا جسم فاسد ہوتا ہے، خبردار رہو!یہ دل ہے۔
جوارح(اعضاء جسمانی) کی درستگی کا انحصار قلب کی درستگی پرہے۔
حدیث شریف میں ہے:
یا عبادی، لو اَن اَولکم وآخرکم، و اِنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَتقیٰ قلب رجل منکم، ما زاد ذلک فی مُلکی شیئا یا عبادی، لو اَن اَولکم وآخرکم، وآنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَفجر قلب رجل واحد منکم، ما نقص ذلک من مُلکی شیئا (رواہ مسلم)
اے میرے بندو! اگرتم اول تا آخر، انسان سے جنات تک، سب کے سب دنیا کے کسی پارسا ترین شخص جیسے نیک دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذر برابرہ نہ بڑھے گی، اگرتم اول تا آخر، انسان سے جنات تک، سب کے سب دنیا کے کسی بد ترین شخص جیسےکوڑھ دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذر برابرہ نہ گھٹے گی ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
حدیث پاک کے یہ الفاظ
’’کانوا علیٰ اَتقیٰ قلب رجل منکم‘‘اور’’کانوا علیٰ اَفجر قلب رجل منکم‘‘ یہ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ نیکی اور بدی کا اصل مرکز دل ہی ہے۔ دل میں نیکی یا بدی اس کا اثر جوارح( اعضاء) پر محسوس ہونے لگتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’التقوٰی ھا ھنا ‘‘ سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تقویٰ یہاں ہے ،
یہ قلب کبھی ایک حالت پر نہیں رہتا اس کی حالت و کیفیت بدلتی رہتی ہے اس وجہ اس کو قلب کہا جاتا ہے
حدیث شریف میں ہے:
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے:
إنما مثل القلب كمثل ريشة في أصل شجرة يقلبها الريح ظهراً لبطن
اس دل کی مثال ایک پر کی سی ہے جو بیابان میں پڑا ہو اور ہوا اس کو الٹ پلٹ کرتی پھرے ۔( رواہ مسند احمد، ابن ماجہ)
حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات کا سنا تواس وقت سے میں نے یہ طے کرلیاکہ میں کسی آدمی کے بارے میں اچھا یا برا اس وقت نہ کہوں گاجب تک یہ نہ دیکھ لوں کہ اس کا خاتمہ کس چیز پر ہواہے۔ پوچھنے والے نے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لقلب ابن آدم أشد انقلاباً من القدر إذا اجتمعت غلياً
یقیناً، ابن آدم کا دل اس سے کہیں زیادہ شدت سے حالتیں بدلتا ہے جتنا کہ ایک ہنڈیا کا ابال جب وہ پورے جوبن پر ہو۔ (مسند احمد)
برائیاں اور اچھائیاں بھی قلب کو متاءثر کرتی ہیں
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے:
حديث حُذيفة بن اليمان رضي الله تعالى عنه : قال : قال النبي صلى الله عليه وسلّم : تُعرض الفتن على القلوب كالحصير عوداً عوداً فأي قلب أشربها نُكت فيه نُكتة سوداء وأي قلب أنكرها نُكت فيه نُكتة بيضاء حتى تصير القلوب على قلبين : على أبيض مثل الصفا فلا تضره فتنة ما دامت السماوات والأرض، والآخر أسود مرباداً كالكوز مجخياً لا يعرف مَعروفاً ولا ينكر منكراً إلا ما أشرب من هواه . (رواہ مسلم)
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:قلوب فتنوں کی زد میں اس طرح آتےہیں جس طرح سے کھجور کی چٹائی ایک ایک تنکا کر کے بنی جاتی ہے۔ جو دل فتنے کو جذب کر لیتا ہے اس میں ایک سیا ہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اورجو دل فتنوں کو قریب نہ آنے دے اس پر ایک سفید نشان لگ جاتا ہے۔ ہوتے ہوتے قلوب کا معاملہ دو طرح کا ہوجاتاہے: یا تودل بالکل کالا سیاہ ہوجائیگا، اس کوزے کی طرح جو الٹا کرکے رکھا گیا ہو، نہ اس کو معروف معروف لگے اور نہ منکر اسے منکر لگے، سوائےان اہواءاورافکار کے جو اس نے جذب کرلیےہوں،اور یا پھر ایک نہایت سفید صاف ستھرا دل، جس کوجب تک یہ دنیا اور آسمان قائم ہے کوئی فتنہ کچھ نہ بگاڑ سکےگا۔
قلب انسانی اچھائیوں اور برائیوں کی آماجگاہ ہے جو دھیرے دھیرے دل کو متاءثر کرتی ہیں ،جب یہ دل کسی برائی کو قبول کرلیتا ہے تو اس پر ایک سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔لیکن اول وقت میں جو برائی یا منکر یا برا خیال دل میں آتا ہے تواس وقت دل کا پروٹیکشن نظام حرکت پذیر ہوجاتاہے اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہےیہ
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ یہ عمل یا بات قلب کے لیے خطرناک اور مضر ہےاس کو باہر کیا جائے لیکن جب یہ انسان اس نوٹس پر کوئی دھیان نہیں دیتا تو یہ منکراور برائی قلب میں جم جاتی ہے اور ایک سیاہ نشان بن جاتا ہے جو برائیوں کی کثرت کے ساتھ پھیلتا رہتا ہے ، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ دل بالکل سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر برائیاں برائیاں نہیں رہتیں اور اچھائیاں اس پر اثر انداز نہیں ہوتیں ،اور اچھائیاں اس پر سے ایسے ہوکر گزر جاتی ہیں جس طرح سے کہ ایک گھڑے کو الٹا کرکے رکھ دیا جائے اور پھراس پر پانی ڈالا جائے تا وہ پانی رکتانہیں بلکہ بہہ جاتا ہے اور ضائع ہوجاتا ہےٹھیک اسی طرح سے قلب میں اچھائیوں کو قبول کرنے صلاحیت ختم ہوجاتی ہے اور کوئی نیکی اس پر اثر نہیں کرتی اور یہ برائیاں (منکرات ) برائیاں نہیں رہتیں اور یہ پروٹیکشن نظام بھی ناکارہ ہوجا تا ہے۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نےایک مرتبہ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ تقویٰ کیا ہے؟ انھوں کہا یا امیر المومنین !کبھی آپ نے کسی ایسی پگڈنڈی پر سفر کیا ہے جس کے دونوں طرف خاردار جھاڑیاں ہو، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ،بارہا کیا ہے، اس پر اُبیٔ بن کعب رضی اللہ عنہ نے سوال کیا تو اس راستہ سے گزرتے ہوئے آپ کیا کرتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لیتا ہوں تاکہ کسی کانٹے میں اُلجھ کر پھٹ نہ جائیں اور آہستہ آہستہ بچتا بچاتا اُس راہ سے گزر جاتا ہوں۔ اس پر اُبیٔ بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا امیر المؤمنین بس یہی تقویٰ ہے کہ دنیا ایک پگڈنڈی ہے اور دنیا کی آلائشیں خاردار جھاڑیاں ہیں ان سے بچ بچا کر دنیا سے گزرنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے :
”برباد ہوا وہ شخص ایسا دل نہ پائے جو اس کو معروف، معروف دکھائے اور منکر، منکر“۔اسی دل کو مردہ دل کہا جاتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دل بیمار کیسے ہوتا ہے تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے
صحبت صالح ترا صالح کند
انسان کی شخصیت اور اس کے اخلاق و کردار پرصحبت کا گہرا اثر پڑتا ہے،ایک شخص دوسرے شخص کے اوصاف سے عملی اور روحانی طور پر لازماً متاءثر ہوتا ہے
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ۝۱۱۹
اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور راست بازوں کے ساتھ رہو
ۡوَّاتَّبِــعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ۝۰ۚ
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عرض کیاگیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کون سا ہمنشیں زیادہ بہتر ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،وہ جس کو دیکھ کر تمہیں اللہ یاد آئے،جس کے کلام سے تمہارے عمل میں اضافہ ہو،اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔(مجمع الزوائد،کتاب الزھد)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’آدمی اپنے ساتھی کے دین پر ہوتا ہے،پس خیال رکھو تم کسے اپنا دوست بنا رہے ہو‘‘ (جامع ترمذی،کتاب الزھد)
اسی کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس طرح فرمایا ہے:
يَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ۝۰ۭ لَبِئْسَ الْمَوْلٰى وَلَبِئْسَ الْعَشِيْرُ۝۱۳ (الحج)
ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے۔ ایسا دوست برا بھی اور ایسا ہم صحبت بھی برا
اور یہ آیات قرآنیہ پیش نظر رہنی چاہئیں:
(۱)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُو الرَّسُوْلَ (النساء)
(۲)یٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَافَّہً وَّلاَ تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطٰنِ۔ (البقرہ)
(۳) ثم جعلنٰک علی شریعۃ من الامرفتبعھا ولا تتبع اھواء الذین لا یعلمون (الآیہ)

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
(۴)ھذا بصائر للناس وھدی ورحمۃلقوم یوقنون۔ (الجاثیۃ)
اے ایمان والوحکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
اے ایمان والوداخل ہوجائو اسلام میں پورے طور پر اور مت چلو قدموں پر شیطان کے۔
پھر آپ کورکھا ہم نے ایک رستہ پر دین کے سو آپ اس پر چلئے اور مت چلو نا دانوں کی خواہشوں پر۔
یہ تعلیم لوگوں کیلئے سمجھ بوجھ اور ہدایت ہے اور رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہیں
مندرجہ بالا آیات شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ارشاد فرمادیا ہے کہ ہدایت وکامرانی صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرما ںبرداری ہی میں ہے۔ اور دین کا وہ خاص طریقہ (شریعت )جو ہم نے بھیجا ہے اس پر مکمل طور پر عمل کیجئے۔جا ہلوں کی اتباع سے بچواور ان کی خواہشات کی پے روی نہ کرو ۔اس لئے کہ ہمارا بتایا ہوا طریقہ یعنی شریعت ہی تمام انسانوں کے لئے دانشمندی کا سبب اور ہدایت کا ذریعہ ہے ۔اور جو ہماری باتوںپر یقین یعنی ایمان رکھتے ہیں ان کے لئے رحمت کا باعث ہے۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ومن یتبع غیر الاسلام دیناًفلن یقبل منہ ‘‘
اور جو کوئی دین اسلام کے علاوہ اور کوئی دین چاہے ،تو اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا ۔
انسان جو کہ فطرتاً جلد باز ہے اور اپنے گردوپیش کے ماحول اور معاشرہ سے بہت جلدمتائثر ہو جاتا ہے اور کشف وکرامات وظاہری چمک دمک کو ہی اصل دین اور شریعت سمجھ بیٹھتا ہے نتیجتاً راہ راست سے بھٹک جاتاہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت کو بطور خاص نازل فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو فطری طور پر کچھ ایسے اوصاف حمیدہ ،اخلاق وعادات اور جوہر لطیفہ سے نوازہ ہے کہ اگر وہ ان کو ماحول اور معاشرہ کی آلودگیوں سے محفوظ رکھ لے تو انسان اس راہ مستقیم کی طرف قدم بقدم بڑھتا چلا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر فرما رکھا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’فطرۃاللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللّٰہ‘‘ (الآیہ)
وہی تراش ہے اللہ کی جس پر تراشا لوگوں کو ۔اللہ کے بنائے ہوئے کو بد لنا نہیں ہے
اور رہبر انسانیت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رشاد گرامی ہے۔
انما الولد یولد علی الفطرۃ فا بواہ یہوِّدانہ او ینصرانہ او یمجّسانہ (الحدیث)
بیشک بچہ فطرت کے مطابق پیدا ہوتاہے لیکن اسکے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
’’جتنےبھی اخلاق رذیلہ ہیں ان کی کم سے کم تر اور بد سے بدتر صورت ما حول اور معاشرہ کی پروردہ ہے مثلاًفطرت انسانیہ کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ صرف اپنے کسب سے مستفید ہو اور دوسروں کے کسب پر نظر نہ رکھے ۔لیکن اس کے خلاف چوری ڈاکہ زنی ،قطع طریق،طراری، نباشی ،سود ،سٹہ،کسب مال کی بد ترین صورتیں انسان اپنے ماحول اور معاشرہ سے متأثر ہو کر اختیار کرتاہے ۔
اسی طرح اطوار خوش اور اخلاق پسندیدہ کا مظاہرہ ان ہی شخصیتوں سے ہو تا ہے کہ جن کی تربیت صالح ترین ہاتھوں میں ہوئی ہو، کیونکہ مبدائے فیاض کے عطا کردہ جواہرات جب نمو پزیر ہو تے ہیں تو وہ اپنی لطافت و نزاکت کے باعث مربیانہ ماحول ومعاشرہ کے اثرات جلد قبول کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ کوئی شجر نوخیز اپنے نمو کے وقت راہ میں آڑ پا کر اپنی بڑھوتڑی کے لئے راہ کج اختیار کرکے ٹیڑھا ہو جاتا ہے ورنہ سیدھا چل کر برگ وبار لاتا ہے۔
اسلام اور تعلیمات اسلام کا صرف یہی منشأہے کہ انسانی دل ودماغ نے جب اپنے نمو کے وقت ماحول سے متأثر ہوکر جو اخلاق رذیلہ اور اطوار نا پسندیدہ اختیارکر لئے تھے کہ جنہوںنے اپنے عروج پر پہونچ کر کفر وشرک ،یہودیت ،نصرانیت، دہریت ، فسق وفجور ،عصیان وطغیان کی صورتیں اختیار کرلی تھیں ان سب کو ملیا میٹ کردیا جائے۔اورفطری اخلاق کے اوپر سے ان سیاہ ترین تودوںکو کھرچ دیا جائے۔تاکہ یہ اخلاق پلٹ کر اپنی فطری راہ (جس کو صراط مستقیم کہا جاتاہے)پر گامزن ہوجائے ؎
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گزشتہ سے پیوستہ:
’’دل بدل جاتے ہیں تعلیم بدل جانے سے‘‘​
چونکہ ان فطری اخلاق وعادات میں ایک قسم کی نورانیت ہے لہٰذا جب ان کو صالح ترین معاشرہ نیک ترین مربی مل جاتے ہیںتو ان کی نورانیت کا پاور بڑھ جاتا ہے گویا یہ سب چیزیں ان کے لئے پاور ہاؤس کا کام کرتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان اخلاق حسنہ کا مجسمہ نورانیت کے پسندیدہ القاب، ولایت کا مسمیٰ ہوتا ہے۔جس کو ہر وقت اپنے خالق کا قرب حاصل ہوتا ہے اور یہی منشاءربانی ہے۔
’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون ‘‘
اور ہم نے جن اور انس کواپنی ہی تابعداری کے لئے پیدا کیا ہے۔
اور انسان کی صل تابعداری یہی ہے کہ وہ خدا کی عطا کردہ قوتوں کو صراط مستقیم سے نہ بھٹکنے دے۔
حضرات انبیاء علیہم السلام یہی کام کیاہے کہ اپنی قوت ملکوتیہ کے ذریعہ بگڑے ہوئے انسانوں کو اخلاقی پستی سے نکال کر اسی صراط مستقیم پر ڈالدیا جس سے ماحول اور معاشرے نے بھٹکا دیا تھا۔چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے۔
انی بعثت لاتمم مکارم الاخلاق (الحدیث)
میں اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہوں۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہؓ نے اخلاقیات کی اسی شاہراہ پر لگائے رکھا اور اس سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ادھر بلایا۔
یہ حضرات چونکہ تربیت یافتہ از علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اوران کا ماحول بھی خیر القرون تھا اس لئے اس وقت بھٹکے ہوؤں کو صرف’’ الطریق الطریق‘‘ کہہ د ینا ہی کا فی تھا اور بس ،لیکن جوں جوںزمانہ رسالت سے بعد ہوتا گیا ویسے ہی ماحول پر طغیانی وعصیانی بادل چھاتے گئے اور طاغوتیت کی مسموم ہوائیں چلنے لگیں لہٰذا اس ماحول میںجو بھی طاغوتیت کے قریب ہوا برباد ہوگیا لیکن جس نے صالح ہاتھوں میںتربیت پائی اور جو علوم نبوت کی نگرانی میں رہا اس کے لئے وہی فطری راہ کھلی رہی‘‘جس کو ہم شریعت کہتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان کا یہ گراں قدر مفہوم پیش نظر رہنا چاہئے،’’اگر کوئی آدمی لوہار کی دوکان پر گیا اولا تو یہ ہوگا کہ چنگاری اڑے گی اور کپڑیں جلیں گے اور اگر یہ نہ ہوا تو کم ازکم دھوئیں کا اثر تو اس پر ضرور آئیگا ،مگر ایک آدمی جو عطر فروش کی دوکان پر بیٹھتاہے ،اولا تو یہ ہوگا کہ وہ عطر خریدے گا ،اور اگر اس نے عطر خریدا بھی نہیں تو کم از کم عطر کی دوکان پر بیٹھنے کی وجہ سے اس کے کپڑوں سے خوشبو ضرور آئے گی‘‘
خیر الغرض میری بات بہت طویل ہوگئی خلاصہ کلام یہ ہے
صالح معاشرے صالح افراد جنم لیتے ہیں اور معاشرے کا صالح بناے کے لیے ہمیں شعائرہ اللہ کا احترام کرنا ہوگا اور شعائر اللہ میں اولیت اور فوقیت قرآن پاک کو حاصل ہے جب تک ہماری زندگی قرآنی ہدایات کے مطابق نہ ہوگی تب تک ہم صالح معاشرے کا تصور نہیں کر سکتے ۔قرآنی تعلیمات کو چھوڑنے اور غلط صحبت اختیار کرنے اور تقویٰ والی زندگی نہ گزارنے کی وجہ سے ہمارے قلوب بیمار ہوگئے جس کی وجہ زناکاری فحاشی شراب نوشی حرام خوری ناپ تول میں گڑ بڑ عام ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ برائیاں برائیاں نہ رہیں بلکہ آج کل یہ فیشن بن گیا ہے یہی وجہ ہے کہ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زنا کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔اور یہ سب ماں باپ کی چشم پوشی کا نتیجہ ہے کیوں کہ انہوں نے اپنے بچوں کی نگرانی بند کردی جس کی وجہ سے یہ بچے غلط صحبت میں پڑ جاتے ہیں ۔جس کی وجہ صرف قلوب ہی بیمار نہیں ہوئے بلکہ پورہ معاشرہ بیمار ہوگیا ہے ۔اور یہ سب مخلوط تعلیم کا نتیجہ ہے ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے والا بنائے ہمیں اور ہمای اولاد کو متقی اور صالح بنائے ۔ اٰمین
صحبت صالح ترا صالح کند = صحبت طالح ترا طالح کند
کبوتر با کبوتر بازباباز =کند ہم جنس باہم جنس پرواز​
 
Top