عابدالرحمٰن
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 1,124
- ری ایکشن اسکور
- 3,234
- پوائنٹ
- 240
السلام علیکم
محترم قارئین کرام انتہائی کوشش کے با وجود آپ حضرات کے حساب سے مضمون کچھ طویل ہوگیا ہے مضمون کومختصر کرنے کی وجہ سے کچھ گوشہ تشنہ رہ گئے بہرحال جب میں نے لکھنے میں بخل نہیں کیا تو آپ حضرات کو پڑھنے میں بخل نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ میں نے اس کو لکھنے میں کئی گھنٹے صرف کئے بس آپ صرف پانچ منٹ صرف کردیں تو اس احقر پر بڑا احسان ہوجائے گا۔ آپ حضرات کی کرم فرمائی اور عنایات کا پیشگی شکریہ!
پیش کردہ : (مفتی)عابد الرحمٰن مظاہری بجنوری
حرام کاریوں سے کس طرح بچا جائے
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۳۲
اللہ کے شعائر کی عظمت بجا لانا تو یہ (فعل) بلا شبہ دلوں کی پرہیزگاری میں سے ہے
ہماری شریعت کی بنیاد چار چیزوں پر ہے
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے چار بڑے شعار ہیں
۱۔قرآن پاک
۲۔ کعبۃاللہ
۳۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم
۴۔ نماز
’’معلوم رہے تما م شریعتوں کی بیناد شعار الٰہی لہ تعظیم پر ہے‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
عربی لغت کے اعتبار سے شعار کے معنی نشان یا علامت کے ہیں چنانچہ ہدی کے جانور بھی شعار اللہ کہلاتے ہیں اس لیے کہ وہ حج کے لیے ایک علامت مخصوصہ ہیں ،ہدی کے جانور (اونٹ) کی کوہان میں چیرا لگانے کو بھی شعار کہتے ہیں ،کیونکہ زمانہ جاہلیت میں ہدی کے اونٹ اور دیگر اونٹوں میں یہ شعار ہی وجہ امتیاز تھا اور اس علامت مخصوصہ کی وجہ سے ان جانوروں سے تعرض نہیں کیا جاتا تھا ،الغرض شعار ایسی علامت یا نشان کو کہتے ہیں کہ وہ اس کی وجہ سے وہ چیز اپنی نوعیت کی تمام چیزوں میں نمایاں اور ممتاز ہوجائے ،چنانچہ اذان ،جماعت،نماز،ختنہ،وغیرہ چیزیں شعار اسلام ہیں۔اور اسی طرح عیسائیوں میں صلیب عیسائت کی اور زنار یاجنیئوو کفر اور شرک کی علامت یا شعار ہیں۔
حضرت شاوہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مذکورہ چاروں شعار کو شریعت محمدی (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام)کی بنیاد قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت محمدی (علی صاحبہا الصلوۃ والسلام) میں یہ چار چیزیں بہت نمایاں ہیں اور تمام احکام شریعت ان ہی کے ساتھ قائم ہیں ، اس لیے ان چاروں چیزوں کی عظمت بجا لانے والااور ان پر عمل کرنے والا ہی اصل متقی ہے اوراس تقوے کا تعلق دل کے تقوے سے ہے۔
دل خیالات وھدایات کا مرکز ہے پہلے دل میں کسی چیز کو کرنے یا نہ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے پھر وہ دماغ میں منتقل ہوتا ہے دماغ سے جسم انسانی کو تحریک ملتی ہے اور پھر جسم کے اعضاء اچھے یا برے کام کو انجام دیتے ہیں:
اس دل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا:
اَلا اِن فی الجسد مضغۃ اِذا صلحت صلح الجسد کلہ و اِذا فسدت فسد الجسد کلہ اَلا وہی القلب۔ (متفق علیہ)
خبردار ر ہو! بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صالح ہےتو پورا جسم صالح ہوتا ہے، اور اگر وہ فاسد ہو تو پورا جسم فاسد ہوتا ہے، خبردار رہو!یہ دل ہے۔
جوارح(اعضاء جسمانی) کی درستگی کا انحصار قلب کی درستگی پرہے۔
حدیث شریف میں ہے:
یا عبادی، لو اَن اَولکم وآخرکم، و اِنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَتقیٰ قلب رجل منکم، ما زاد ذلک فی مُلکی شیئا یا عبادی، لو اَن اَولکم وآخرکم، وآنسکم وجنکم، کانوا علیٰ اَفجر قلب رجل واحد منکم، ما نقص ذلک من مُلکی شیئا (رواہ مسلم)
اے میرے بندو! اگرتم اول تا آخر، انسان سے جنات تک، سب کے سب دنیا کے کسی پارسا ترین شخص جیسے نیک دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذر برابرہ نہ بڑھے گی، اگرتم اول تا آخر، انسان سے جنات تک، سب کے سب دنیا کے کسی بد ترین شخص جیسےکوڑھ دل ہو جاؤ، تو اس سے میری بادشاہت ذر برابرہ نہ گھٹے گی ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔