- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
چوتھا گروہ:
ان کی رائے یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد عرب لغات میں سے سات لغات ہیں۔اس کی وضاحت میں ان کے متعدد اقوال ہیں۔
قول اول:
لغات عرب میں سے یہ سات لغات ہیں قرآن انہی میں نازل ہوا۔ یعنی قرآن کے الفاظ ان سات لغات میں ہی محصور ہیں جو ان تمام لغات میں فصیح ترین ہیں۔ان کے اکثر الفاظ لغت قریش میں سے ہیں۔کچھ لغت ہذیل ، ثقیف، ہوازن، کنانہ ، تیم اور یمن کی لغات میں سے بھی ہیں۔ابوعبید القاسم لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک حرف کی سات صورتیں ہیں یہ تو آپ ﷺ سے بھی نہیں سنی گئیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ یہ ساتوں لغات قرآن مجید میں منتشر کردی گئی ہیں کچھ لغت قریش میں سے ہیں ، کچھ لغت ہذیل میں سے ، کچھ ہوازن میں سے، کچھ اہل یمن کی لغت میں سے۔ اسی طرح دیگر لغات میں مستعمل الفاظ اور ان کے معانی سبھی ایک ہی ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے جب چار افراد کو مصحف لکھنے کا حکم دیا تو انہیں فرمایا:
إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی عَرَبِیَْۃٍ مِنْ عَرَبِیَْۃِ الْقُرآن، فَاکْتُبُوْہُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ فَإِنَّ الْقُرآنَ أُنْزِلَ بِلِسَانِہِمْ۔
جب تم اور زید بن ثابت قرآن کریم کی کسی عربی میں اختلاف کرو تو اسے پھر لسان قریش میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ تفسیر القرطبی۱؍۴۳)
یہ دلیل ہے کہ قرآن پاک کا زیادہ تر حصہ لغت قریش میں نازل ہوا۔اور اس میں دیگر باقی لغات بھی ہیں۔اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا باب بھی یوں باندھا ہے:
بَابُ نَزَلَ القرآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ وَالعَرَبِ قُرآناً عَرَبِیا بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِیْنٍ۔
اعتراضات:
اس قول پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سیدنا عمر وہشام دنوں قریشی ہیں ان کی زبان ایک ہی ہے اگر احرف سے مراد لغت ہی ہوتی تو پھر ان دونوں کے درمیان اختلاف نہ ہوتا؟۔
نیزایسی تاویل میں پھر حکمت تو ثابت نہیں ہورہی اور نہ ہی قاری کا کسی حرف کو چننے کا کوئی اختیار باقی رہتا ہے۔ بلکہ اس کے لئے تو تمام حروف میں پڑھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ ایک آیت وہ ایک لغت میں پڑھے اور دوسری دوسری لغت میں؟
اورہر قاری پر مشقت کا اضافہ ہی اس مفہوم میں نظر آتا ہے کہ وہ ان تمام لغات کو قرآن پڑھنے سے پہلے سیکھ لے۔ اگر ایک حرف میں قراءت ہوتی تو کم از کم آسانی تو ہوتی؟۔
پھریہ علماء خود ان لغات کی تعیین وتحدیدمیں باہم مختلف ہیں۔اگر ان احرف سے مراد یہی لغات ہوتیں تو یہ صحابہ اور تابعین وغیرہ کے درمیان ضرور مشتہر ہوجاتیں؟۔
ان کی رائے یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد عرب لغات میں سے سات لغات ہیں۔اس کی وضاحت میں ان کے متعدد اقوال ہیں۔
قول اول:
لغات عرب میں سے یہ سات لغات ہیں قرآن انہی میں نازل ہوا۔ یعنی قرآن کے الفاظ ان سات لغات میں ہی محصور ہیں جو ان تمام لغات میں فصیح ترین ہیں۔ان کے اکثر الفاظ لغت قریش میں سے ہیں۔کچھ لغت ہذیل ، ثقیف، ہوازن، کنانہ ، تیم اور یمن کی لغات میں سے بھی ہیں۔ابوعبید القاسم لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک حرف کی سات صورتیں ہیں یہ تو آپ ﷺ سے بھی نہیں سنی گئیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ یہ ساتوں لغات قرآن مجید میں منتشر کردی گئی ہیں کچھ لغت قریش میں سے ہیں ، کچھ لغت ہذیل میں سے ، کچھ ہوازن میں سے، کچھ اہل یمن کی لغت میں سے۔ اسی طرح دیگر لغات میں مستعمل الفاظ اور ان کے معانی سبھی ایک ہی ہیں۔ان کا استدلال یہ ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے جب چار افراد کو مصحف لکھنے کا حکم دیا تو انہیں فرمایا:
إِذَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَیْدُ بْنُ ثَابِتٍ فِی عَرَبِیَْۃٍ مِنْ عَرَبِیَْۃِ الْقُرآن، فَاکْتُبُوْہُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ فَإِنَّ الْقُرآنَ أُنْزِلَ بِلِسَانِہِمْ۔
جب تم اور زید بن ثابت قرآن کریم کی کسی عربی میں اختلاف کرو تو اسے پھر لسان قریش میں لکھو کیونکہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ تفسیر القرطبی۱؍۴۳)
یہ دلیل ہے کہ قرآن پاک کا زیادہ تر حصہ لغت قریش میں نازل ہوا۔اور اس میں دیگر باقی لغات بھی ہیں۔اس لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا باب بھی یوں باندھا ہے:
بَابُ نَزَلَ القرآنُ بِلِسَانِ قُرَیْشٍ وَالعَرَبِ قُرآناً عَرَبِیا بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُبِیْنٍ۔
اعتراضات:
اس قول پر بھی یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ سیدنا عمر وہشام دنوں قریشی ہیں ان کی زبان ایک ہی ہے اگر احرف سے مراد لغت ہی ہوتی تو پھر ان دونوں کے درمیان اختلاف نہ ہوتا؟۔
نیزایسی تاویل میں پھر حکمت تو ثابت نہیں ہورہی اور نہ ہی قاری کا کسی حرف کو چننے کا کوئی اختیار باقی رہتا ہے۔ بلکہ اس کے لئے تو تمام حروف میں پڑھنا لازمی ہوجاتا ہے کہ ایک آیت وہ ایک لغت میں پڑھے اور دوسری دوسری لغت میں؟
اورہر قاری پر مشقت کا اضافہ ہی اس مفہوم میں نظر آتا ہے کہ وہ ان تمام لغات کو قرآن پڑھنے سے پہلے سیکھ لے۔ اگر ایک حرف میں قراءت ہوتی تو کم از کم آسانی تو ہوتی؟۔
پھریہ علماء خود ان لغات کی تعیین وتحدیدمیں باہم مختلف ہیں۔اگر ان احرف سے مراد یہی لغات ہوتیں تو یہ صحابہ اور تابعین وغیرہ کے درمیان ضرور مشتہر ہوجاتیں؟۔