• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حسد کے اسباب سات ہیں:

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
حسد کے اسباب سات ہیں:

اسباب حسد
حسد کے اسباب سات ہیں:
(۱) بغض و عناد اور عداوت ہے۔ کیوںکہ یہ غیرممکن ہے کہ ایک شخص کے نزدیک دشمن کی بھلائی و برائی دونوں برابر ہوں اس لیے دشمن اور مخالف کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے دشمن پر بلا اور مصیبت آئے اور جب یہ مصیبت آتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اس کے بجائے جب خدا اس پر کوئی احسان کرتا ہے تو وہ اس کو پسند نہیں کرتا۔ اسی کا نام حسد ہے۔ منافقین اور کفار کو مسلمانوں کے ساتھ جو عداوت تھی وہ اسی حسد آمیز طریقہ سے ظاہر ہوتی تھی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا۝۰ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ۝۰ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاہِھِمْ۝۰ۚۖ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ۝۰ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۝۱۱۸ ھٰٓاَنْتُمْ اُولَاۗءِ تُحِبُّوْنَھُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّہٖ۝۰ۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْٓااٰمَنَّا۝۰ۚۤۖ وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظ۝۰ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝۱۱۹ اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَـنَۃٌ تَـسُؤْھُمْ۝۰ۡوَاِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَۃٌ يَّفْرَحُوْا بِھَا۝۰ۭ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُھُمْ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ مُحِيْطٌ۝۱۲۰ۧ (اٰل عمران: ۱۱۸ تا ۱۲۰)
اے ایمان والو! تم اپنا دلی دوست ایمان والوں کے سوا کسی کو نہ بناؤ۔ تم نہیں دیکھتے کہ دوسرے لوگ تو تمہاری تباہی میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے، وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم دکھ میں پڑو، ان کی عداوت تو خود ان کی زبان سے ظاہر ہوچکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ بہت زیادہ ہے، ہم نے تمہارے لیے آیتیں بیان کردی ہیں اگر عقل مند ہو تو غور کرلو۔ ہاں تم تو انہیں چاہتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں رکھتے۔ تم پوری کتاب کو مانتے ہو وہ نہیں مانتے پھر محبت کیسی، یہ تمہارے سامنے تو ایمان کا اقرار کرتے ہیں لیکن تنہائی میں مارے غصہ کے انگلیاں چباتے رہتے ہیں۔ کہہ دو کہ اپنے غصے ہی میں مرجاؤ، اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید وں کو بخوبی جانتا ہے، تمہیں اگر بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں، اگر تم کو برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں، تم اگر صبر اور پرہیزگاری کرو تو ان کا مکر تمہیں نقصان نہیں دے گا، اللہ تعالیٰ نے ان کے عملوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔
ان آیتوں میں یہود و نصاریٰ، کفار اور مشرکین سے ترک موالات کا حکم ہے، یہ تمہارے دشمن ہیں، تمہاری بھلائی کو دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں۔ تم صبر و استقلال اور تقویٰ سے کام لے کر ان کی حسد کی آگ کو بجھا دو۔ بغض، عناد اور عداوت سے جو حسد پیدا ہوتا ہے اس کے لیے مساوات اور برابری ضروری نہیں بلکہ ایک ادنیٰ اور معمولی آدمی بھی بڑے شخص کا بدخواہ اور حاسد ہوسکتا ہے۔
(۲) حسد کا دوسرا سبب ذاتی فخر کا غلط خیال ہے کیوںکہ امثال اور اقران میں جب ایک شخص کسی بلند منصب پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے دوسرے ہم چشموں کو گراں گزرتا ہے اور وہ اس کے اس ترفع و بلندی کو پسند نہیں کرتے اور یہ چاہتے ہیںکہ یہ منصب اس سے چھین لیا جائے تاکہ وہ ان کے مساوی اور برابر ہوجائے۔
(۳) حسد کا تیسرا سبب یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو اپنا مطیع و منقاد بنانا چاہتا ہے۔ اس لیے جب وہ کسی شرف و امتیاز کی وجہ سے اس کے حلقہ اطاعت سے نکل جاتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کا یہ شرف جاتا رہے تاکہ وہ اس کا مطیع و منقاد نہ ہوسکے۔ کفارِ قریش اسی بنا پر مسلمانوں کی جماعت کو دیکھ کر کہتے تھے:
اَہٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللہُ عَلَيْہِمْ مِّنْۢ بَيْنِنَا۝۰ۭ (الانعام: ۵۳)
کیا ہی ذلیل لوگ ہیں جن پر اللہ نے ہم میں سے اسلام کی توفیق دے کر اپنا فضل کیا ہے۔
حسد کا یہ سبب اکابر و اشراف سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے لیے کبر و غرور اور دوسروں کی تحقیر و تذلیل لازمی ہے۔
(۴) حسد کا چوتھا سبب یہ ہے کہ اپنے پندار میں جس کو معمولی آدمی سمجھتے ہیں، اس کو کوئی غیرمعمولی شرف حاصل ہوجاتا ہے تو ان کو تعجب ہوتا ہے اور اس تعجب کی بناپر وہ اس کے اس شرف کا انکار کر دیتے ہیں۔ کفار اسی وجہ سے پیغمبروں کی رسالت کا انکار کرتے تھے اور تعجب سے کہتے تھے:
اَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُوْلًا (بنی اسرائیل:۹۴)
کیا خدا نے آدمی کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔
(۵) حسد کا پانچواں سبب یہ ہے کہ دو شخصوں کا مقصد ایک ہوتا ہے کہ دونوں باہم ایک دوسرے کو رشک و حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان میں سے ایک کو جب اس مقصد میں کامیابی حاصل ہوجاتی ہے تو دوسرا قدرتی طور پر اس کا بدخواہ ہوجاتا ہے۔ ایک شوہر کی متعدد بیویوں اور ایک باپ کے متعدد بیٹوں میں جو رشک و حسد ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے قتل کرنے کی جو سازش کی تھی اس کا سبب یہی تھا۔
اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓي اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ۝۰ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِۨ۝۸ۚۖ (یوسف:۸)
جب یوسف کے بے ماں بھائیوں نے آپس میں کہا کہ باوجودیکہ ہم حقیقی بھائیوں کی بڑی جماعت ہے۔ تاہم یوسف ؑ اور ان کا حقیقی بھائی بنیامین ہمارے والد کو ہم سے البتہ بہت ہی عزیز ہیں۔
(۶) حسد کا چھٹا سبب جاہ پرستی اور ریاست طلبی ہے۔ اس لیے جو لوگ اس حیثیت سے یگانہ روزگار ہونا چاہتے ہیں جب ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور شخص اس میں ان کا شریک و سہیم ہوگیا ہے تو یہ ان کو سخت گراں گزرتا ہے اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جس شرف و امتیاز سے دوسرا شخص جاہ و منزلت میں ان کا شریک ہوگیا ہے، وہ اس کے ہاتھ سے چھن جائے۔ مسلمانوں سے یہودی اسی لیے حسد کرتے تھے کہ اسلام سے پہلے ان کو علمی اور مذہبی حیثیت سے اہل عرب پر تفوق حاصل تھا لیکن اسلام کی وجہ سے ان کا تفوق جاتا رہا، اس لیے وہ اسلام کی بیخ کنی پر آمادہ ہوگئے اور منافقین میں عبداللہ بن ابی کو اہل مدینہ اپنا بادشاہ بنانا چاہتے تھے لیکن اسلام نے اس کی شاہانہ ریاست کا خاتمہ کردیا۔ اس لیے اس کو یہ سخت ناگوار گزرا اور اسی ناگواری کی وجہ سے ایک مجمع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گستاخانہ پیش آیا۔
(۷) حسد کا ساتواں سبب خبث نفس اور بدطینتی ہے کیوں کہ بعض اشخاص کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے کہ جب کسی کو بہتر حالت میں دیکھتے ہیں تو ان کو ناگوار ہوتا ہے اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو اس پر ان کو مسرت ہوتی ہے۔ اس صورت میں حسد کے پیدا ہونے کے لیے اشتراک رابطہ یا کسی اور خواہش کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس قسم کے خبیث النفس لوگ ہر شخص پر حسد کرتے ہیں۔
حسد کے یہ اسباب زیادہ تر ان لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کوئی چیز مابہ الاشتراک ہوتی ہے۔ اس لیے بے گانوں میں یہ جذبہ نہیں ہوتا بلکہ صرف ایسے لوگوں میں ہی ہوتا ہے جن میں باہم ربط و اشتراک ہوتا ہے۔ ایک عالم دوسرے عالم سے، ایک عابد دوسرے عابد سے، ایک تاجر دوسرے تاجر سے، اسی لیے حسد کرتا ہے کہ ان میں ایک چیز یعنی علم، عبادت اور تجارت مشترک ہے۔ حسد کے یہ سات اسباب ہیں جن کو امام غزالی ؒ نے احیاء العلوم میں اور علامہ سید سلیمان ندوی نے سیرۃ النبیﷺ میں بیان کیاہے۔ حسد دل کی نہایت ہی خطرناک بیماری ہے جس کاعلاج و اصلاح نہایت ضروری ہے۔ شیخ الاسلام امام غزالیؒ نے حسد کے علاج کے سلسلے میں نہایت بسیط تقریر فرمائی ہے، جس کا خلاصہ ذیل میں درج کرتے ہیں۔ حاسدوں کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بیماری وہ ہے جس کا علاج علم و عمل سے ہوتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ حاسد کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ حسد اس کے حق میں دین و دنیا میں ہر طرح سے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے اور محسود کا کسی طرح کا نقصان نہیں، نہ دین میں نہ دنیا میں۔ حاسد کو حسد کی وجہ سے جو دین میں ضرر اور نقصان ہے وہ یہ ہے کہ حسد کی وجہ سے خدا حاسد سے راضی و خوش نہیں رہتا۔ اس لیے کہ جو نعمت اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی خاص بندے کو اپنے فضل و کرم سے دی ہے، حاسد اسے برا جانتا ہے اور اس کے سلب ہونے کی خواہش کرتا ہے اور اس سے زیادہ کون سا گناہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قضاؤ قدر سے ناخوش ہوتا ہے، باوجود مسلمان ہونے کے اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ کینہ کپٹ رکھ کر اس کی خیرخواہی نہیں کی اور اللہ کے بندوں سے نکل کر نافرمانوں اور شیطانوں کی جماعت میں شامل ہوگیا اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کے ساتھ اُٹھے گا بموجب فرمان رسول اکرم ﷺ :
اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ۔ (ترمذی)
آدمی جس کے ساتھ تعلق اور محبت رکھے گا ان ہی لوگوں کے ساتھ ہوگا۔
تو اس حاسد کی دنیا بھی تباہ ہوئی اور آخرت بھی برباد ہوئی ’’خَسِرَالدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ‘‘محسود بشرط صبر و اعمال صالحہ کے دنیا میں بھی نیکی اور مال و دولت کی ترقیات سے مالا مال رہا اور آخرت میں بھی ترقی کے بڑے بڑے درجات ملیں گے، حاسد حسد کی وجہ سے دنیا میں رنج و غم بلکہ حسد کی آگ میں جلتا ہے اور آخرت میں بھی آگ میں جلے گا۔
گندے عقیدے اور عداوت و دشمنی سے دل کو پاک و صاف رکھنا تزکیہ قلب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىہَا۝۷۠ۙ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىہَا۝۹۠ۙ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰـىہَا۝۱۰ۭ (الشمس: ۷ تا ۱۰)
قسم ہے نفس کی اور جس نے اس کو ٹھیک کیا ہے پھر اس میں نیکی اور بدی الہام کردی ہے، بے شک جس نے اس نفس کو صاف ستھرا بنایا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس کو مٹی میں ملایا وہ ناکام رہا۔
مٹی میں ملانے سے گندے عقیدے اور یہی کینہ کپٹ مراد ہے۔ صاف دل اور صاف سینے کی بڑی فضیلت ہے۔ دراصل دنیا میں اور آخرت میں صاف دل اور صاف سینے والے نجات کے مستحق ہوں گے۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یَابُنَیَّ اِنْ قَدَرْتَ عَلٰی اَنْ تُصْبِحَ وَتُمْسِیَ وَلَیْسَ فِیْ قَلْبِکَ غِشٌ لِّاَحَدٍ فَافْعَلْ۔ (الحدیث، ترمذی)
اے میرے صاحب زادے! اگر تم سے ہوسکے کہ صبح و شام اس حالت میں گزارو کہ تمہارے دل میں کسی کی طرف سے کینہ نہ ہو تو ایسا ہی کرو۔
یہی میری سنت ہے۔ اور دوسری روایت میں ہے کہ جس نے میری سنت سے محبت رکھی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللہِ اَیُّ النَّاسِ اَفْضَلُ قَالَ کُلُّ مَخْمُوْمِ الْقَلْبِ صَدُوْقِ اللِّسَانِ قَالُوْا صَدُوْقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُہٗ فَمَا مَخْمُوْمِ الْقَلْبِ قَالَ ہُوَ النَّقِیُّ التَّقِیُّ لَا اِثْمَ فِیْہِ وَلَا بَغْیَ وَلَا غِلَّ وَلَا حَسَدَ۔ (ابن ماجۃ)
عرض کیا گیا اے اللہ کے رسولﷺ سب سے بہتر کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر مخموم القلب اور سچی زبان والا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ سچی زبان والے کو تو ہم جانتے ہی ہیں، مگر یہ مخموم القلب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ہر پرہیزگار، صاف ستھرا، نہ جس میں گناہ ہو اور نہ ظلم، نہ کینہ کپٹ ہو اور نہ حسد۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ صاف دل والا سب سے بہتر ہے۔ دل کی صفائی اور سلیم الصدر کی وجہ سے زیادہ تر لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اِنَّ بَدْلَائَ اُمَّتِیْ لَمْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِکَثْرَۃِ صَلوٰۃٍ وَلَا صَوْمٍ وَلَا صَدَقَۃٍ وَلٰکِنْ دَخَلُوْہَا بِرَحْمَۃِ اللہِ وَسَخَاوَۃِ الْاَنْفُسِ وَسَلَامَۃِ الصُّدُوْرِ۔ (ترغیب، ابن ابی الدنیا)
میری امت کے ابدال زیادہ نماز، روزہ، صدقہ، خیرات کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سخاوت اور نفس اور سینہ کی صفائی کی وجہ سے داخل ہوں گے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
ما شاء اللہ۔

بہت خوب۔ بہت عمدہ انتخاب۔ اللہ تعالی سمجھنے اور عمل کرنے کے بعد استقامت عطا فرمائے۔ آمین
 
Top