میں انہیں ذاتی طور پر نہیں جانتا تھا لیکن اہل توحید کی گواہی کے بعد میں پورے خلوص کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ :
اللھم اغفرلہ وارفع درجتہ فی المھدین، اللھم اوسع قبرہ ونورلہ، اللھم ادخلہ الجنۃ الفردوس،
جامعہ لاہور الاسلامیہ کے ایک صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے بتایا کہ حسن ربانی صاحب ان کے کلاس فیلو تھے۔
ان سے کافی باتیں ہوئیں۔ سب کی سب باتیں اُن کے ایمان کی گواہی میں تھیں۔
کچھ باتوں پر تعجب ہوا اور کچھ باتوں پر غصہ بھی آیا۔
مثلاً:
کہنے کو تمام اساتذہ و طلباء یہی کہتے تھے کہ تمہارا موقف درست ہے۔
لیکن
شقاوت اختیار نہ کرو۔
اب وہ شقاوت والی کون سے باتیں تھیں جو حسن ربانی میں پائی جاتی تھیں
۱۔ کسی کی عزت و آبرو کو خاطر میں لائے بغیر سچ بات کہنا۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اس بات پر غصہ آیا)۔
۲۔ حق بات پر استقامت (اللہ اکبر!۔ شقاوت کہنے والوں نے بھی تو مرنا ہے)
۳۔ تحریکی ذہن رکھنا۔ (سبحان اللہ۔ جس علم پر عمل نہ ہو اُسے حاصل کرنا وبال ہی بنے گا)۔
غرض ایسی ایسی خوبیوں کو کہتے تو سب اچھا تھے۔ حسن ربانی کی دیانت و امانت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے تھے
لیکن
پھر بھی شقاوت اپنانے سے دُور رہنے کے مشورے دیتے تھے۔
میں ذاتی طور پر کہتا ہوں کہ
ایسی خوبیوں کے حامل شخص کو اگر انتہائی اذیتیں اُٹھانے کے بعد موت نے آلیا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی اس کسمپرسی کی وفات کو شہادت کا اعلیٰ درجہ عطا فرمائے۔ اور ان لوگوں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلائے جنہوں نے انہیں بقول ان کے شقاوت سے پرہیز کرنے کی نصیحتیں فرمائی تھیں۔ اور اللہ تعالیٰ انہیں راحت بھری زندگی میں ہی دکھا دے کہ شقاوت کیا ہے؟ آمین یارب العالمین