• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"حسن و حسین سیدا شباب اھل الجنة” والی حدیث موضوع ھے؟

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
ایک دوست نے گفتگو کے دوران کہا کہ جمعہ کے خطبہ میں جو حدیث عموماً پڑھی جاتی ہے "الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة" یہ شیعہ حضرات کی گھڑی ہوئی ہے، ورنہ اہل جنت میں تو حضرت ابو بکر عمر و عثمان رضی اللہ عنھم اجمعین اور انبیاء کرام بھی ہوں گے، کیا حضرت حسن و حسین ان کے بھی سردار ہوں گے؟ آپ سے گزارش ہے کہ اس پر روشنی ڈالیں کہ اس دوست کی بات کہاں تک صحیح ہے، اور حدیث کی تخریج بھی درکار ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الحَسَنُ وَالحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الجَنَّةِ» حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَزِيدَ، نَحْوَهُ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 656]

یہ حدیث صحیح ہے ۔

اگرکسی کو حدیث کا مفہوم سمجھ میں نہ آئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حدیث موضوع کہہ دے۔
حدیث میں نوجوانوں سے مراد وہ حضرات ہیں جو دنیا میں جوانی کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ، اورحسنین رضی اللہ عنہما انہیں کے سردار ہوں گے۔ ورنہ جنت میں تو سبھی جوان ہوں گے ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
شیخ کفایت اللہ در اصل یہ اعتراض منکرین حدیث کی جانب سے بھی اٹھایا جاتا ہے، اور وہ اس حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دلیل صحابی کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فضیلت میں بیان کی جانے والی مندرجہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں،

لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْ‌ۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰ‌ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬

جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔

ایسے ہی ایک حدیث میں آتا ہے کہ:
"فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں"
اس حدیث کی بھی وضاحت فرما دیں، آیا صحیح ہے یا ضعیف۔
اور اس روایت پر بھی ایسا ہی اعتراض ہے کہ کیا فاطمہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات، اور حضرت مریم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں؟

اس بات نے کچھ الجھن پیدا کر دی ہے، اس لئے اہل علم سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ جزاک اللہ۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیخ کفایت اللہ در اصل یہ اعتراض منکرین حدیث کی جانب سے بھی اٹھایا جاتا ہے، اور وہ اس حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دلیل صحابی کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فضیلت میں بیان کی جانے والی مندرجہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں،

لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْ‌ۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰ‌ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬

جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔

ایسے ہی ایک حدیث میں آتا ہے کہ:
"فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں"
اس حدیث کی بھی وضاحت فرما دیں، آیا صحیح ہے یا ضعیف۔
اور اس روایت پر بھی ایسا ہی اعتراض ہے کہ کیا فاطمہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات، اور حضرت مریم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں؟

اس بات نے کچھ الجھن پیدا کر دی ہے، اس لئے اہل علم سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ جزاک اللہ۔

یہ حدیث تین قسم کے الفاظ سے متعدد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے مروی ہے، چنانچہ حدیث کے جو الفاظ سوال میں مذکور ہیں، جامع صغیر میں اس کے لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے:
۱:...حضرت ابوسعید خدری: مسند احمد، ترمذی۔
۲:...حضرت عمر: طبرانی فی الکبیر۔
۳:...حضرت علی: طبرانی فی الکبیر۔
۴:...حضرت جابر: طبرانی فی الکبیر۔
۵:...حضرت ابوہریرہ: طبرانی فی الکبیر۔
۶:...حضرت اسامہ بن زید: طبرانی فی الاوسط۔
۷:...حضرت برأ بن عازب: طبرانی فی الاوسط۔
۸:...حضرت ابن مسعود: ابن عدی۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة وابواھما خیر منھما۔"
ترجمہ:..."حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدین ان سے افضل ہیں۔"
اس لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام کی روایت کا حوالہ دیا ہے:
۱:...ابن عمر: ابن ماجہ، مستدرک۔
۲:...قرہ بن ایاس: طبرانی فی الکبیر۔
۳:...مالک بن حویرث: طبرانی فی الکبیر۔
۴:...ابن مسعود: مستدرک۔
اس حدیث کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة الا ابنی الخالة عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا، وفاطمة سیدة نساء اھل الجنة الا ما کان من مریم بنت عمران۔"
ترجمہ:..."حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمران کے۔"
یہ روایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مسند احمد، صحیح ابن حبان، مسند ابی یعلیٰ، طبرانی، معجم کبیر اور مستدرک حاکم میں مروی ہے۔
مجمع الزوائد ج:۹ ص:۱۸۳، ۱۸۴ میں یہ حدیث حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بھی نقل کی ہے، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ۱۳ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے (جن میں سے بعض احادیث صحیح ہیں، بعض حسن اور بعض ضعیف) اس لئے یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے، بلکہ حافظ سیوطی نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے جیسا کہ فیض القدیر شرح جامع صغیر (ج:۲ ص:۴۱۵) میں نقل کیا ہے۔
رہا یہ کہ اہل جنت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہوں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ جوانانِ اہل جنت سے مراد وہ حضرات ہیں جن کا انتقال جوانی میں ہوا ہو، ان پر حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی سیادت ہوگی، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اس سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین اور وہ حضرات جن کا انتقال پختہ عمر میں ہوا وہ بھی اس میں شامل نہیں، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے:
"وابوبکر وعمر سیدا کھول اھل الجنة من الاولین والآخرین ما خلا النبیین والمرسلین۔"
ترجمہ:..."ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سردار ہیں اہل جنت کے پختہ عمر کے لوگوں کے اولین و آخرین سے، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔"
یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱:...حضرت علی (مسند احمد ج:۱ ص:۸، ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷، ابن ماجہ ص:۱۰)۔
۲:...حضرت انس (ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷)۔
۳:...حضرت ابوججیفہ (ابن ماجہ ص:۱۱)۔
۴:...حضرت جابر (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۵:...حضرت ابو سعید خدری (ایضاً)۔
۶:...حضرت ابن عمر (بزار، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۷:...حضرت ابن عباس (امام ترمذی نے اس کا حوالہ دیا ہے ج:۲ ص:۲۰۷)۔
اس حدیث میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے کہول (ادھیڑ عمر) اہل جنت کے سردار ہونے کے ساتھ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے استثناء کی تصریح ہے، ان دونوں احادیث کے پیش نظر یہ کہا جائے گا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اہل جنت میں سے جن حضرات کا انتقال پختہ عمر میں ہوا، ان کے سردار حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ہوں گے اور جن کا جوانی میں انتقال ہوا ان کے سردار حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہوں گے، والله اعلم!
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیخ کفایت اللہ در اصل یہ اعتراض منکرین حدیث کی جانب سے بھی اٹھایا جاتا ہے، اور وہ اس حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دلیل صحابی کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فضیلت میں بیان کی جانے والی مندرجہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں،

لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْ‌ۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰ‌ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬

جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10

دلیل یہ دی جاتی ہے کہ فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔

ایسے ہی ایک حدیث میں آتا ہے کہ:
"فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں"
اس حدیث کی بھی وضاحت فرما دیں، آیا صحیح ہے یا ضعیف۔
اور اس روایت پر بھی ایسا ہی اعتراض ہے کہ کیا فاطمہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات، اور حضرت مریم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں؟

اس بات نے کچھ الجھن پیدا کر دی ہے، اس لئے اہل علم سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ جزاک اللہ۔
شیعہ کی مشہور کتاب کشف الغمہ مین لکھا ہے:
وعنالنبي (صلى الله عليه وآله) في رواية رواها في كشف الغمة انه قال:
حسبك من نساء العالمين مريم بنت عمران، وخديجة بنت خويلد، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)، وآسية امرأة فرعون (1). وفي الخبر عن
عائشة انها قالت يوما لفاطمة (عليها السلام): ألا ابشرك ؟ اني سمعت
النبي (صلى الله عليه وآله) يقول:

سيدات نساء أهل الجنة أربع: مريم
بنت عمران، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)، وخديجة بنت
خويلد، وآسية بنت مزاحم امرأة فرعون

(2). وعن النبي (صلى الله عليه
وآله) انه قرأ قوله تعالى: * (إن الله اصطفاك وطهرك) * (3) الآية
فقال:

يا علي خير نساء العالمين أربع: مريم بنت عمران، وخديجة بنت
خويلد، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)، وآسية بنت مزاحم.

كتاب مولد فاطمة لابن بابويه عن النبي (صلى الله عليه وآله) انه
قال:

إشتاقت الجنة إلى أربع من النساء: مريم بنت عمران، وآسية بنت
مزاحم زوجة فرعون، وهي زوجة النبي (صلى الله عليه وآله) في الجنة،
وخديجة بنت خويلد زوجة النبي (صلى الله عليه وآله) في الدنيا
والآخرة، وفاطمة بنت محمد (صلى الله عليه وآله)
(کشف الغمہ:ج1،ص79
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
حافظ عمران الٰہی بھائی، آپ نے فرمایا کہ حدیث میں ہے کہ:

"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة الا ابنی الخالة عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا، وفاطمة سیدة نساء اھل الجنة الا ما کان من مریم بنت عمران۔"
ترجمہ:..."حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمران کے۔"

نیز:
" یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے، بلکہ حافظ سیوطی نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے جیسا کہ فیض القدیر شرح جامع صغیر (ج:۲ ص:۴۱۵) میں نقل کیا ہے"

اور آگے آپ نے فرمایا:
"ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سردار ہیں اہل جنت کے پختہ عمر کے لوگوں کے اولین و آخرین سے، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔

مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا یہ دونوں روایات واقعتا صحیح ہیں؟ کیونکہ پھلی روایت سے معلوم پڑتا ہے کہ حسن و حسین سوائے عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے باقی تمام جنتیوں کے سردار ہیں۔ دو انبیاء کا نام لے کر ان کو ہی خاص کیا گیا ہے، اور "ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں تمام انبیاء و مرسلین کو مستثنی کیا گیا ہے ، مطلب حسن و حسین باقی انبیاء کے سردار ہوئے؟


مجھے دوسرا اشکال موصول ہونے والے مندرجہ اعتراض سے بھی ہے، برائے مہربانی اسکی بھی وضاحت کر دیں:

لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْ‌ۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰ‌ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬
جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10

اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
حافظ عمران الٰہی بھائی، آپ نے فرمایا کہ حدیث میں ہے کہ:

"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة الا ابنی الخالة عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا، وفاطمة سیدة نساء اھل الجنة الا ما کان من مریم بنت عمران۔"
ترجمہ:..."حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمران کے۔"

نیز:
" یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے، بلکہ حافظ سیوطی نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے جیسا کہ فیض القدیر شرح جامع صغیر (ج:۲ ص:۴۱۵) میں نقل کیا ہے"

اور آگے آپ نے فرمایا:
"ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سردار ہیں اہل جنت کے پختہ عمر کے لوگوں کے اولین و آخرین سے، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔


مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ آیا یہ دونوں روایات واقعتا صحیح ہیں؟ کیونکہ پھلی روایت سے معلوم پڑتا ہے کہ حسن و حسین سوائے عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے باقی تمام جنتیوں کے سردار ہیں۔ دو انبیاء کا نام لے کر ان کو ہی خاص کیا گیا ہے، اور "ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما والی روایت میں تمام انبیاء و مرسلین کو مستثنی کیا گیا ہے ، مطلب حسن و حسین باقی انبیاء کے سردار ہوئے؟


مجھے دوسرا اشکال موصول ہونے والے مندرجہ اعتراض سے بھی ہے، برائے مہربانی اسکی بھی وضاحت کر دیں:

لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَ‌ۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْ‌ۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰ‌ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬
جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10

اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔

ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ

عن الحارث عن علي قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ابو بكر وعمر سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين والمرسلين لا تخبرهما يا علي ما داما حيين


علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکرو عمر نبیوں اور رسولوں کے علاوہ جملہ اولین و آخرین میں سے جنتیوں کے كهول کے سردار ہوں گے، اور فرمایا اے علی! جب تک وہ دونوں زندہ رہیں انہیں یہ بات نہ بتانا


دین کوئی ایسی بات نہیں جو نبی علیہ السلام نے چھپائی ہو یا اس کو ظاہر نہ کرنے کا حکم دیا ہو لیکن اس کے باوجود

اس روایت کو البانی صحیح کہتے ہیں

روایت میں «كہول» کا لفظ ہے جو جمع ہے «كہل» کی- «كہل» سے مراد وہ مرد ہوتے ہیں جن کی عمر تیس سے متجاوز ہو گئی ہو، اور بعضوں نے کہا چالیس سے اور بعضوں نے تینتیس سے پچپن تک- تاریخ کے مطابق حسن کی پیدائش ٣ ہجری اور وفات ٥٠ ہجری میں ہوئی اور حسین کی پیدائش ٤ ہجری اور شہادت ٦١ ہجری میں ہوئی -

حسین رضی الله عنہ کی شہادت کے وقت ٥٧ سال عمر تھی اور حسن رضی الله عنہ کی ٤٧ سال تھی لہذا دونوں اس کھول کی تعریف پر پورا اترتے ہیں- لہذا ابو بکر ہوں یا عمر یا حسن یا حسین سب کھول بن کر اس دنیا سے گئے –

حُذَيْفَةَ رضی الله عنہ کی سند

ایک دوسری روایت ہے

أَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس روایت کو ترمذی نے بھی عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل کیا ہے اور وہ کہتے ہیں

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الوَجْهِ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ


یہ حدیث حسن غریب ہے اس طرق سے اس کو ہم نہیں جانتے سوائے اسرئیل کی سند سے

سند میں إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ بن أبى إسحاق السبيعى الهمدانى ہے

مسند احمد میں یہ إِسْرَائِيلُ، عَنِ ابْنِ أَبِي السَّفَرِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ حُذَيْفَةَ کی سند سے نقل ہوئی ہے

الذھبی سیر الاعلام میں لکھتے ہیں

وَرَوَى: عَبَّاسٌ، عَنْ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ، قَالَ: كَانَ القَطَّانُ لاَ يُحَدِّثُ عَنْ إِسْرَائِيْلَ، وَلاَ عَنْ شَرِيْكٍ.


عبّاس کہتے ہیں کہ يَحْيَى بنِ مَعِيْنٍ کہتے ہیں کہ یحیی القَطَّانُ اسرائیل اور شریک سے روایت نہیں کرتے تھے


احمد کہتے ہیں یہ مناکیر روایت کرتے ہیں

إِسْرَائِيلَ بْنُ يُونُسَ صحیحین کے راوی ہیں لیکن ان کی ظاہر ہے بعض مناکیر نقل نہیں کی گئیں- سند میں المِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو بھی ہے جو روایت کرتا تھا کہ معاویہ نے سنت کو بدلا اور علی صدیق اکبر ہیں لہذا ایسے مفرط شیعوں کی روایت کس طرح قابل قبول ہے؟

روایت کی ایک تاویل کی جاتی ہے کہ اس دنیا کے وہ لوگ جو جوانی میں ہلاک ہوئے ان کے سردار حسنین ہوں گے

لیکن حدیث کے الفاظ اس مفروضے کے خلاف ہیں کیونکہ اس میں ہے کہ اہل جنت کے جوانوں کے سردار حسنین ہوں گے

یہ مفروضہ اس لئے گھڑا گیا کیونکہ دیگر صحیح روایات کے مطابق جنت میں سب ہی جوان ہوں گے جن میں انبیاء و رسل

بھی شامل ہیں اس حساب سے زیر بحث روایت حسنین کو انبیاء و رسل کا سردار بھی بنا دیتی ہے جو اہل جنت میں سے ہیں

أَبِي سَعِيدٍ رضی الله عنہ کی سند
یہ روایت ایک اور سند سے بھی ترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے

حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ


اس کی سند میں عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي ہیں جن کے لئے میزان میں الذھبی لکھتے ہیں كوفي، تابعي مشهور ہیں

وقال أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين، قال: ابن أبي نعم ضعيف، كذا

نقل ابن القطان، وهذا لم يتابعه عليه أحد.


ابن معین، ابن القطان ان کو ضعیف کہتے ہیں

عبد الرحمن بن أبي نعم البجلي صحیحین کے راوی ہیں لیکن یہ مخصوص روایت صحیح میں نہیں دوم ان سے سنے والے يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ ہیں جو کوفہ کے کٹر شیعہ ہیں

أبي هُرَيْرَة رضی الله عنہ کی سند
نسائی نے یہ روایت کتاب خصائص علی میں أبي هُرَيْرَة کی سند سے نقل کی ہے

أخبرنَا مُحَمَّد بن مَنْصُور قَالَ حَدثنَا الزبيرِي مُحَمَّد بن عبد الله قَالَ حَدثنَا أَبُو جَعْفَر واسْمه مُحَمَّد بن مَرْوَان قَالَ حَدثنِي أَبُو حَازِم عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ أَبْطَأَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَنَّا يَوْم صدر النَّهَار فَلَمَّا كَانَ العشى قَالَ لَهُ قائلنا يَا رَسُول الله قد شقّ علينا لم نرك الْيَوْم قَالَ إِن ملكا من السَّمَاء لم يكن رَآنِي فَأَسْتَأْذِن الله فِي زيارتي فَأَخْبرنِي أَو بشرني أَن فَاطِمَة ابْنَتي سيدة نسَاء أمتِي وَإِن حسنا وَحسَيْنا سيدا شباب أهل الْجنَّة


محمد بن مروان الذهلى ، أبو جعفر الكوفى مجھول ہے جس کا کسی نے ذکر نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کی سند
ابن ماجہ کی روایت ہے

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا”


حسن و حسین اہل جنت کے سردار ہیں اور ان کے باپ ان سے بہتر ہیں


ضعفاء العقيلي کے مطابق
قال أَبُو داود : سمعت يحيى بْن مَعِين: وسئل عن المعلى ابن عَبْد الرحمن – فقال: أحسن أحواله عندي أنه قيل لَهُ عند موته: ألا تستغفر اللَّهِ. فقال: ألا أرجو أن يغفر لي وقد وضعت فِي فضل علي بْن أَبي طالب سبعين حديثا

ابو داود کہتے ہیں میں نے يحيى بْن مَعِين سے سنا اور ان سے المعلى ابن عَبْد الرحمن کے حوالے سے سوال کیا انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک اس کا حال احسن ہے ان کی موت کے وقت ان سے کہا گیا کہ آپ الله سے توبہ کریں پس کہا بے شک میں امید رکھتا ہوں کہ میری مغفرت ہو گی اور میں نے علی بن ابی طالب کی فضیلت میں ٧٠ حدیث گھڑیں


البانی اس روایت کو صحیح کہتے ہیں اور امام حاکم مستدرک میں اس کو اسی سند سے نقل کرتے ہیں

چونکہ یہ تمام روایات ضعیف ہیں لہذا یہ روایت امام ترمذی کے حساب سے حسن ہے – اس کو منقبت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اس کا متن جلیل القدر اصحاب رسول کو بھی حسن و حسین کی سرداری قبول کروا رہا ہے حالانکہ خود ان اصحاب رسول نے اپنی زندگی میں حسین کی بغاوت کو قبول نہیں کیا

ابن عمر رضی الله عنہ کا موقف خروج حسین پرامام بخاری بیان کرتے ہیں کہ

باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ

نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے


عبد الله ابن عمر رضی الله عنہ کی رائے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کے لئے کتنی سخت ہے مسلم بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر کی حدیث ہے

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مُطِيعٍ حِينَ كَانَ مِنْ أَمْرِ الْحَرَّةِ مَا كَانَ، زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: اطْرَحُوا لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وِسَادَةً، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ آتِكَ لِأَجْلِسَ، أَتَيْتُكَ لِأُحَدِّثَكَ حَدِيثًا سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً»


نافع کہتے ہیں عبد الله ابن عمر عبد الله بن نِ مُطِيعٍ کے پاس گئے جب حرہ میں ہوا جو ہوا یزید بن معاویہ کے دور میں اس نے کہا ابی عبد الرحمان اور ان کے سرداروں کے لئے ہٹاؤ عبد الله ابن عمر نے کہا میں یہاں بیٹھنے نہیں آیا تم کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث سنانے آیا ہوں جو رسول الله سے سنی کہ جو اطاعت میں سے ایک ہاتھ نکلا اس کی الله سے ایسے ملاقات ہو گی کہ اس کے پاس کوئی حجت نہ ہو گی اور جو مرا کہ اس کی گردن پر اطاعت کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کو موت مرا


جو اصحاب رسول زندگی میں حسین کو سردار نہیں مان رہے وہ ان کو اہل جنت کا سردار کہیں نہایت عجیب بات ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ یہ روایت مشکوک ہے

واضح رہے کہ بحث اس پر ہے ہی نہیں کہ حسنین اہل بہشت میں سے ہیں یا نہیں- بحث اس مسئلہ پر ہے کہ کیا جنت میں بھی اس دنیا کی طرح کا کوئی نظام ہے جس میں سردار یا غیر سردار کی تقسیم ہو گی

قرآن جو نقشہ کھینچتا ہے اس میں تو سب جنتی سرداروں کی طرح مسندوں پر ہوں گے

گروہ بندی اور سرداری تو دنیا کی سیاست کے معاملات ہیں جن میں ایک گروہ کسی سردار پر متفق ہوتا ہے اور

اس کی سربراہی میں کام کرتا ہے جبکہ جنت تو کسی بھی سیاست سے پاک ہو گی اوراس طرح کی گروہ بندی یا سرداری کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اب

چونکہ یہ کہنا ہی صحیح نہیں لہذا یہ ایک مہمل بات بنتی ہے جو حدیث رسول نہیں ہو سکتی

ابو بکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں

ارقبوا محمدًا صلی اللہ علیہ وسلم في أھل بیتہ


محمد صلی الله علیہ وسلم کے اہلِ بیت (سے محبت) میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت تلاش کرو۔


صحیح البخاری

لیکن محبت میں غلو سب کے لئے منع ہے اور اس میں احتیاط ضروری ہے
 
Top