شیخ
کفایت اللہ در اصل یہ اعتراض منکرین حدیث کی جانب سے بھی اٹھایا جاتا ہے، اور وہ اس حدیث کو قرآن کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ اور دلیل صحابی کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی فضیلت میں بیان کی جانے والی مندرجہ آیت کریمہ پیش کرتے ہیں،
لَا يَسۡتَوِى مِنكُم مَّنۡ أَنفَقَ مِن قَبۡلِ ٱلۡفَتۡحِ وَقَـٰتَلَۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ أَعۡظَمُ دَرَجَةً۬ مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُواْ مِنۢ بَعۡدُ وَقَـٰتَلُواْۚ وَكُلاًّ۬ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ خَبِيرٌ۬
جس شخص نے تم میں سے فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی کی وہ (اور جس نے یہ کام پیچھے کئے وہ) برابر نہیں۔ ان کا درجہ ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ (اموال) اور (کفار سے) جہاد وقتال کیا۔ اور خدا نے سب سے (ثواب) نیک (کا) وعدہ تو کیا ہے۔ اور جو کام تم کرتے ہو خدا ان سے واقف ہے: سورۃ الحدید- 10
دلیل یہ دی جاتی ہے کہ
فتح (مکہ) سے پہلے خرچ کرنے اور لڑنے والوں کا درجہ ان سے کئی بڑھ کر ہے
جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا۔ تو وہ تمام صحابہ درجہ میں رحسنین رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر ہوئے، اور ان صحابہ میں کافی ایسے بھی ہیں جو کم عمری (نوجوانی) میں فوت ہوئے، تو حسنین رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں سے درجہ مین کیسے بلند ہو سکتے ہیں؟ یہ تو قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہیں۔۔۔
ایسے ہی ایک حدیث میں آتا ہے کہ:
"فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں"
اس حدیث کی بھی وضاحت فرما دیں، آیا صحیح ہے یا ضعیف۔
اور اس روایت پر بھی ایسا ہی اعتراض ہے کہ کیا فاطمہ رضی اللہ عنہا ازواج مطہرات، اور حضرت مریم علیہ السلام سے بھی افضل ہیں؟
اس بات نے کچھ الجھن پیدا کر دی ہے، اس لئے اہل علم سے رہنمائی کا طلبگار ہوں۔ جزاک اللہ۔
یہ حدیث تین قسم کے الفاظ سے متعدد صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سے مروی ہے، چنانچہ حدیث کے جو الفاظ سوال میں مذکور ہیں، جامع صغیر میں اس کے لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے:
۱:...حضرت ابوسعید خدری: مسند احمد، ترمذی۔
۲:...حضرت عمر: طبرانی فی الکبیر۔
۳:...حضرت علی: طبرانی فی الکبیر۔
۴:...حضرت جابر: طبرانی فی الکبیر۔
۵:...حضرت ابوہریرہ: طبرانی فی الکبیر۔
۶:...حضرت اسامہ بن زید: طبرانی فی الاوسط۔
۷:...حضرت برأ بن عازب: طبرانی فی الاوسط۔
۸:...حضرت ابن مسعود: ابن عدی۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة وابواھما خیر منھما۔"
ترجمہ:..."حسن اور حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں اور ان کے والدین ان سے افضل ہیں۔"
اس لئے مندرجہ ذیل صحابہ کرام کی روایت کا حوالہ دیا ہے:
۱:...ابن عمر: ابن ماجہ، مستدرک۔
۲:...قرہ بن ایاس: طبرانی فی الکبیر۔
۳:...مالک بن حویرث: طبرانی فی الکبیر۔
۴:...ابن مسعود: مستدرک۔
اس حدیث کے یہ الفاظ بھی مروی ہیں:
"الحسن والحسین سیدا شباب اھل الجنة الا ابنی الخالة عیسیٰ بن مریم ویحییٰ بن زکریا، وفاطمة سیدة نساء اھل الجنة الا ما کان من مریم بنت عمران۔"
ترجمہ:..."حسن و حسین جوانانِ جنت کے سردار ہیں، سوائے دو خلیرے بھائیوں عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہم السلام کے اور فاطمہ خواتین جنت کی سردار ہیں، سوائے مریم بنت عمران کے۔"
یہ روایت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مسند احمد، صحیح ابن حبان، مسند ابی یعلیٰ، طبرانی، معجم کبیر اور مستدرک حاکم میں مروی ہے۔
مجمع الزوائد ج:۹ ص:۱۸۳، ۱۸۴ میں یہ حدیث حضرت حذیفہ بن یمان اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے بھی نقل کی ہے، اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث ۱۳ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے (جن میں سے بعض احادیث صحیح ہیں، بعض حسن اور بعض ضعیف) اس لئے یہ حدیث بلاشبہ صحیح ہے، بلکہ حافظ سیوطی نے اس کو متواترات میں شمار کیا ہے جیسا کہ فیض القدیر شرح جامع صغیر (ج:۲ ص:۴۱۵) میں نقل کیا ہے۔
رہا یہ کہ اہل جنت میں تو انبیاء کرام علیہم السلام بھی ہوں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ جوانانِ اہل جنت سے مراد وہ حضرات ہیں جن کا انتقال جوانی میں ہوا ہو، ان پر حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی سیادت ہوگی، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اس سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین اور وہ حضرات جن کا انتقال پختہ عمر میں ہوا وہ بھی اس میں شامل نہیں، چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے:
"وابوبکر وعمر سیدا کھول اھل الجنة من الاولین والآخرین ما خلا النبیین والمرسلین۔"
ترجمہ:..."ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سردار ہیں اہل جنت کے پختہ عمر کے لوگوں کے اولین و آخرین سے، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔"
یہ حدیث بھی متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱:...حضرت علی (مسند احمد ج:۱ ص:۸، ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷، ابن ماجہ ص:۱۰)۔
۲:...حضرت انس (ترمذی ج:۲ ص:۲۰۷)۔
۳:...حضرت ابوججیفہ (ابن ماجہ ص:۱۱)۔
۴:...حضرت جابر (طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۵:...حضرت ابو سعید خدری (ایضاً)۔
۶:...حضرت ابن عمر (بزار، مجمع الزوائد ج:۹ ص:۵۳)۔
۷:...حضرت ابن عباس (امام ترمذی نے اس کا حوالہ دیا ہے ج:۲ ص:۲۰۷)۔
اس حدیث میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے کہول (ادھیڑ عمر) اہل جنت کے سردار ہونے کے ساتھ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے استثناء کی تصریح ہے، ان دونوں احادیث کے پیش نظر یہ کہا جائے گا کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ اہل جنت میں سے جن حضرات کا انتقال پختہ عمر میں ہوا، ان کے سردار حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ہوں گے اور جن کا جوانی میں انتقال ہوا ان کے سردار حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہوں گے، والله اعلم!