- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
’حصنِ مسلم‘ کے معمار رخصت ہوئے
خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی، اس محاورے کی تازہ ترین مثال’ حصن المسلم‘ کے مؤلف کی وفات کی خبر ہے۔
شیخ ایک عرصہ سے کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے، آخر کار بروز سوموار یکم اکتوبر 2018 (21 محرم 1440ھ) کو بوقت فجر یہ چراغ گل ہوگیا۔
شیخ کا نام’ سعید بن علی بن وہف القحطانی‘ ہے۔ یہ "وہف‘ ف کے ساتھ ہی ہے، بعض جگہوں پر’وہب‘ ب کے ساتھ لکھا ہوا ہے، جو کہ درست نہیں۔
شیخ کی وجہ شہرت ان کی مشہور ومعروف تصنیف’حصن المسلم من أذکار الکتاب والسنۃ‘ ہے، اسی مناسبت سے میں نے انہیں ’حصن المسلم‘ کے ’مؤلف‘ لکھنے کی بجائے حصنِ مسلم کے معمار کہنے کی کوشش کی ہے۔ ’حصن‘ قلعہ کو کہتے ہیں۔ ذکر واذکارپر مشتمل اس سے پہلے بھی کئی ایک کتابوں میں’حصن‘ یعنی’قلعہ‘ کا لفظ موجود ہے۔ اس تشبیہ کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، کہ جس طرح دشمن اور چور اچکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہم قلعے یا قلعہ نما گھر تعمیر کرتے ہیں، ان کی سیکورٹی و حفاظت کا بندوبست کرتے ہیں، اسی طرح شیطان اور اس کے چیلوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں ذکر و اذکار اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ کھلی سڑک پر بیٹھ کر کہیں کہ میرا سامان چوری ہوگیا، لوگ آوازیں کستے ہیں، مجھے گھورتے ہیں، دروازہ کھلا چھوڑ کر کہیں کہ گھر میں کتے بلے گھس آتے ہیں، جس طرح یہ رویہ عقلمندانہ نہیں، اسی طرح صبح وشام کے مخصوص اذکار، تلاوت قرآن اور ذکر الہی چھوڑ کر یہ سمجھنا کہ ہم پر جادو اثر نہیں کرےگا، نظر نہیں لگے گی، گھر میں زحمتوں کی بارات نہیں ہوگی، لڑائیاں جھگڑے نہیں ہوں گے، یہ بھی غلط فہمی ہے۔
افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے شیخ کا مرثیہ کہتے ہوئے، حصن المسلم کے اس معنی کو کس خوبی سے ادا کیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
رحَل الذي نَفعَ الجميع بِحِصْنِهِ
حِصْنٌ يَقِي مِنْ نَزْغَةِ الشَّيْطَانِ
حِـــصْنٌ لِكُلِّ المُسْلِمِينَ أَقامَــهُ
بِالــوَحْــــيِ وَالآثَـارِ وَالــبُرْهَانِ
فِـيهِ الــسِّلَاحُ لِمَنْ أَرَادَ قِتَالَ مَنْ
حسَدُوا وَمَنْ جَارُوا مِنَ العميَانِ
شيخ كي تاليفات کی تعداد سو سے متجاوز ہے، اور اکثر وبیشتر کتابوں کے عناوین میں یہ لاحقہ موجود ہے’فی ضوء الکتاب والسنۃ‘ مثلا نور التوحید وظلمات الشرک فی ضوء الکتاب والسنۃ، الفوز العظیم والخسران المبین فی ضوء الکتاب والسنۃ، نور السنۃ وظلمات البدعۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ، نماز، روزہ ، حج ، زکاۃ، معاملات وغیرہ کے متعلق عمومی اور خصوصی موضوعات پر درجنوں کتابیں اسی ’لاحقے‘ کے ساتھ موجود ہیں۔
شیخ کی کتب کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی سب آسانی سے دستیاب ہیں، مثلا شاملہ میں ’شاشۃ المؤلفین‘ کھول کر دیکھا، اس میں ان کے نام کے ساتھ 97 کتابیں منسلک ہیں،، اسی طرح ان کی ویب سائٹ پر ان کی سب کتب ورڈ اور پی ڈی ایف وغیرہ میں دستیاب ہیں.
شیخ سعید ابن وہف قحطانی 1372ھ میں پیدا ہوئے، ان کی حالات زندگی میں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ انہوں نےبچپن میں بکریاں چرانے والی سنت انبیاء پر بھی عمل کیا، اعلی تعلیم سعودی عرب کی معروف یونیورسٹی امام محمد بن سعود سے حاصل کی، ماسٹر کا مقالہ’ الحکمۃ فی الدعوۃ إلی اللہ‘ کے متعلق تھا، جبکہ پی ایچ ڈی کا مقالہ’ فقہ الدعوۃ فی صحیح البخاری‘ کے عنوان سے لکھا.
شیخ مرحوم ایک محقق تھے یا نہیں، یہ فیصلہ ان کی خدمات کا تفصیلی جائزہ لینے والاکوئی باحث ہی کرسکتا ہے، البتہ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ ایک بہترین جامع و مرتب ضرور تھے، حسن ترتیب و تنظیم آپ کی تصنیفات و تالیفات کا خاصہ ہے، حصن المسلم میں بھی یہی خاصہ نمایاں نظر آتا ہے، یقینا بہت سارے اہل علم کی تحقیقات سے واقفیت کا ذریعہ شیخ کا ’حسن تالیف‘ ہی ٹھہرا ہوگا۔
جیسا کہ امام سیوطی کے بارے میں معروف ہی نہیں، بلکہ ان کی کتابوں سے یہ بات ظاہر وباہر ہے، الدر المنثور، الجامع الکبیر، تدریب الراوی، الاتقان فی علوم القرآن، جیسی کتابیں اپنا لوہا منوا چکی ہیں، باوجودیکہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ سیوطی’ محقق‘ نہیں، بلکہ صرف ’ناقل‘ ہیں۔ بلکہ ان کی کتاب کے ایک محقق نے تو یہاں تک لکھا کہ اگر اس کتاب میں موجود اقتباسات کو الگ کرلیا جائے، تو امام سیوطی کا اس میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔
بہرصورت تحقیق اور حسن ترتیب یہ دو الگ الگ خوبیاں ہیں، اور دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، اور جنہیں دونوں نصیب ہوجائیں، وہ وقت کا امام ہے۔
شیخ کی تصنیفات میں حصن المسلم کو بالخصوص قبول عام حاصل ہوا، عربی میں تو یہ کتاب کروڑوں میں چھپی اور تقسیم ہوئی، لیکن اردو میں ترجمہ ہو کر بھی اس نے خوب نام کمایا، ہمارے ہاں اردو حلقوں میں پہلے پیارے رسول کی پیاری دعائیں از مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی بہت مشہور ومعروف تھی، لیکن جب حصن المسلم ترجمہ ہو کر آگئی، تو پھر لوگوں کی توجہ اس طرف زیادہ بڑھ گئی۔
اور صرف اردو زبان میں اس کتاب کے کئی ایک تراجم کیے گئے، بلکہ اس پر ’تحقیقات‘ بھی ہورہی ہیں، اور اس میں حصہ لینے والے محققین و محککین ہر دو صنف کے لوگ موجود ہیں۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کے مسائل جو لوگوں کو روز مرہ بہ کثرت پیش آتے ہیں، ان میں’ تحقیقات‘ ذرا کم ہونی چاہییں، یا یوں کہہ لیں، ان موضوعات پر پیش کی جانے والی تحقیقات کی تحقیق زیادہ ہونی چاہیے ، مطلب ان کو ’تحقیق وتدقیق‘ کے کڑے مراحل سے گزر کر سامنے آنا چاہیے۔ جس قدر ڈسپنسر اور سرجن کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے، اس سے زیادہ اہم کام ایک محقق اور ’ محکک‘ میں خط امتیاز کھینچنا ہے۔
کس نے مینڈک پر تجربہ کرنا ہے، اور کس میں انسانی جسم کو تختہ مشق بنانے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے، مختلف المراتب لوگوں کے درمیان یہ فرق واضح ہونا ضروری ہے۔ اور یہ ذمہ داری ان علما کی زیادہ ہے، جو خود کو’مستند‘ اور’ روایت پسند‘ طبقوں میں سمجھتےہیں۔
بہر صورت عوام الناس کا شیخ کی کتاب پر بہ کثرت اعتماد، اور علمی حلقوں میں اس کے متعلق تبصرے و تجزیے اسکی قبولیت کی ایک واضح دلیل ہے۔
حصن المسلم کے علاوہ شیخ کی مزید کئی کتب ہیں، جو اردو زبان میں منتقل ہوئیں، ان میں سے دو درجن کے قریب کتب پی ڈی ایف میں کتاب وسنٹ ڈاٹ کام پر موجود ہیں۔ دیکھنے کے لیے یہ لنک ملاحظہ کیجیے۔
چند ایک کے عناوین ذکر کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الوداعی کلمات،جنت و جہنم کے نظارے، نور وظلمات کتاب و سنت کے آئینے میں،نفل نماز کتاب وسنت کی روشنی میں، عقیدہ اہل سنت کا بیان اور اس کی پابندی کی اہمیت،زبان کی تباہ کاریاں، خضاب کی شرعی حیثیت، شرعی علاج بذریعہ دم، یہ مؤخر الذکر کتاب حصن المسلم کے بعد شیخ کی سب سے مشہور کتاب کا ترجمہ ہے۔ اسی کا ذکر ان کے مرثیہ نگار نے یوں کیاہے:
وَلِشَيْخِنَاســفــر يُقَالُ لَهُ الرّقَىشیخ ایک عرصہ سے کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے، آخر کار بروز سوموار یکم اکتوبر 2018 (21 محرم 1440ھ) کو بوقت فجر یہ چراغ گل ہوگیا۔
شیخ کا نام’ سعید بن علی بن وہف القحطانی‘ ہے۔ یہ "وہف‘ ف کے ساتھ ہی ہے، بعض جگہوں پر’وہب‘ ب کے ساتھ لکھا ہوا ہے، جو کہ درست نہیں۔
شیخ کی وجہ شہرت ان کی مشہور ومعروف تصنیف’حصن المسلم من أذکار الکتاب والسنۃ‘ ہے، اسی مناسبت سے میں نے انہیں ’حصن المسلم‘ کے ’مؤلف‘ لکھنے کی بجائے حصنِ مسلم کے معمار کہنے کی کوشش کی ہے۔ ’حصن‘ قلعہ کو کہتے ہیں۔ ذکر واذکارپر مشتمل اس سے پہلے بھی کئی ایک کتابوں میں’حصن‘ یعنی’قلعہ‘ کا لفظ موجود ہے۔ اس تشبیہ کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، کہ جس طرح دشمن اور چور اچکوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہم قلعے یا قلعہ نما گھر تعمیر کرتے ہیں، ان کی سیکورٹی و حفاظت کا بندوبست کرتے ہیں، اسی طرح شیطان اور اس کے چیلوں سے محفوظ رہنے کے لیے ہمیں ذکر و اذکار اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کرنا پڑے گا۔ کھلی سڑک پر بیٹھ کر کہیں کہ میرا سامان چوری ہوگیا، لوگ آوازیں کستے ہیں، مجھے گھورتے ہیں، دروازہ کھلا چھوڑ کر کہیں کہ گھر میں کتے بلے گھس آتے ہیں، جس طرح یہ رویہ عقلمندانہ نہیں، اسی طرح صبح وشام کے مخصوص اذکار، تلاوت قرآن اور ذکر الہی چھوڑ کر یہ سمجھنا کہ ہم پر جادو اثر نہیں کرےگا، نظر نہیں لگے گی، گھر میں زحمتوں کی بارات نہیں ہوگی، لڑائیاں جھگڑے نہیں ہوں گے، یہ بھی غلط فہمی ہے۔
افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین نے شیخ کا مرثیہ کہتے ہوئے، حصن المسلم کے اس معنی کو کس خوبی سے ادا کیا ہے، ملاحظہ کیجیے:
رحَل الذي نَفعَ الجميع بِحِصْنِهِ
حِصْنٌ يَقِي مِنْ نَزْغَةِ الشَّيْطَانِ
حِـــصْنٌ لِكُلِّ المُسْلِمِينَ أَقامَــهُ
بِالــوَحْــــيِ وَالآثَـارِ وَالــبُرْهَانِ
فِـيهِ الــسِّلَاحُ لِمَنْ أَرَادَ قِتَالَ مَنْ
حسَدُوا وَمَنْ جَارُوا مِنَ العميَانِ
شيخ كي تاليفات کی تعداد سو سے متجاوز ہے، اور اکثر وبیشتر کتابوں کے عناوین میں یہ لاحقہ موجود ہے’فی ضوء الکتاب والسنۃ‘ مثلا نور التوحید وظلمات الشرک فی ضوء الکتاب والسنۃ، الفوز العظیم والخسران المبین فی ضوء الکتاب والسنۃ، نور السنۃ وظلمات البدعۃ فی ضوء الکتاب والسنۃ، نماز، روزہ ، حج ، زکاۃ، معاملات وغیرہ کے متعلق عمومی اور خصوصی موضوعات پر درجنوں کتابیں اسی ’لاحقے‘ کے ساتھ موجود ہیں۔
شیخ کی کتب کی خصوصیت یہ ہے کہ سب کی سب آسانی سے دستیاب ہیں، مثلا شاملہ میں ’شاشۃ المؤلفین‘ کھول کر دیکھا، اس میں ان کے نام کے ساتھ 97 کتابیں منسلک ہیں،، اسی طرح ان کی ویب سائٹ پر ان کی سب کتب ورڈ اور پی ڈی ایف وغیرہ میں دستیاب ہیں.
شیخ سعید ابن وہف قحطانی 1372ھ میں پیدا ہوئے، ان کی حالات زندگی میں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ انہوں نےبچپن میں بکریاں چرانے والی سنت انبیاء پر بھی عمل کیا، اعلی تعلیم سعودی عرب کی معروف یونیورسٹی امام محمد بن سعود سے حاصل کی، ماسٹر کا مقالہ’ الحکمۃ فی الدعوۃ إلی اللہ‘ کے متعلق تھا، جبکہ پی ایچ ڈی کا مقالہ’ فقہ الدعوۃ فی صحیح البخاری‘ کے عنوان سے لکھا.
شیخ مرحوم ایک محقق تھے یا نہیں، یہ فیصلہ ان کی خدمات کا تفصیلی جائزہ لینے والاکوئی باحث ہی کرسکتا ہے، البتہ یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ ایک بہترین جامع و مرتب ضرور تھے، حسن ترتیب و تنظیم آپ کی تصنیفات و تالیفات کا خاصہ ہے، حصن المسلم میں بھی یہی خاصہ نمایاں نظر آتا ہے، یقینا بہت سارے اہل علم کی تحقیقات سے واقفیت کا ذریعہ شیخ کا ’حسن تالیف‘ ہی ٹھہرا ہوگا۔
جیسا کہ امام سیوطی کے بارے میں معروف ہی نہیں، بلکہ ان کی کتابوں سے یہ بات ظاہر وباہر ہے، الدر المنثور، الجامع الکبیر، تدریب الراوی، الاتقان فی علوم القرآن، جیسی کتابیں اپنا لوہا منوا چکی ہیں، باوجودیکہ یہ بات زبان زد عام ہے کہ سیوطی’ محقق‘ نہیں، بلکہ صرف ’ناقل‘ ہیں۔ بلکہ ان کی کتاب کے ایک محقق نے تو یہاں تک لکھا کہ اگر اس کتاب میں موجود اقتباسات کو الگ کرلیا جائے، تو امام سیوطی کا اس میں کچھ بھی نہیں بچے گا۔
بہرصورت تحقیق اور حسن ترتیب یہ دو الگ الگ خوبیاں ہیں، اور دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں، اور جنہیں دونوں نصیب ہوجائیں، وہ وقت کا امام ہے۔
شیخ کی تصنیفات میں حصن المسلم کو بالخصوص قبول عام حاصل ہوا، عربی میں تو یہ کتاب کروڑوں میں چھپی اور تقسیم ہوئی، لیکن اردو میں ترجمہ ہو کر بھی اس نے خوب نام کمایا، ہمارے ہاں اردو حلقوں میں پہلے پیارے رسول کی پیاری دعائیں از مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی بہت مشہور ومعروف تھی، لیکن جب حصن المسلم ترجمہ ہو کر آگئی، تو پھر لوگوں کی توجہ اس طرف زیادہ بڑھ گئی۔
اور صرف اردو زبان میں اس کتاب کے کئی ایک تراجم کیے گئے، بلکہ اس پر ’تحقیقات‘ بھی ہورہی ہیں، اور اس میں حصہ لینے والے محققین و محککین ہر دو صنف کے لوگ موجود ہیں۔ حالانکہ ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کے مسائل جو لوگوں کو روز مرہ بہ کثرت پیش آتے ہیں، ان میں’ تحقیقات‘ ذرا کم ہونی چاہییں، یا یوں کہہ لیں، ان موضوعات پر پیش کی جانے والی تحقیقات کی تحقیق زیادہ ہونی چاہیے ، مطلب ان کو ’تحقیق وتدقیق‘ کے کڑے مراحل سے گزر کر سامنے آنا چاہیے۔ جس قدر ڈسپنسر اور سرجن کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے، اس سے زیادہ اہم کام ایک محقق اور ’ محکک‘ میں خط امتیاز کھینچنا ہے۔
کس نے مینڈک پر تجربہ کرنا ہے، اور کس میں انسانی جسم کو تختہ مشق بنانے کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے، مختلف المراتب لوگوں کے درمیان یہ فرق واضح ہونا ضروری ہے۔ اور یہ ذمہ داری ان علما کی زیادہ ہے، جو خود کو’مستند‘ اور’ روایت پسند‘ طبقوں میں سمجھتےہیں۔
بہر صورت عوام الناس کا شیخ کی کتاب پر بہ کثرت اعتماد، اور علمی حلقوں میں اس کے متعلق تبصرے و تجزیے اسکی قبولیت کی ایک واضح دلیل ہے۔
حصن المسلم کے علاوہ شیخ کی مزید کئی کتب ہیں، جو اردو زبان میں منتقل ہوئیں، ان میں سے دو درجن کے قریب کتب پی ڈی ایف میں کتاب وسنٹ ڈاٹ کام پر موجود ہیں۔ دیکھنے کے لیے یہ لنک ملاحظہ کیجیے۔
چند ایک کے عناوین ذکر کرتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الوداعی کلمات،جنت و جہنم کے نظارے، نور وظلمات کتاب و سنت کے آئینے میں،نفل نماز کتاب وسنت کی روشنی میں، عقیدہ اہل سنت کا بیان اور اس کی پابندی کی اہمیت،زبان کی تباہ کاریاں، خضاب کی شرعی حیثیت، شرعی علاج بذریعہ دم، یہ مؤخر الذکر کتاب حصن المسلم کے بعد شیخ کی سب سے مشہور کتاب کا ترجمہ ہے۔ اسی کا ذکر ان کے مرثیہ نگار نے یوں کیاہے:
فَــهُـــوَ العِلَاجُ وَجُـنَّــةُ الإِخْوَانِ
ہمارے استاد محترم شیخ شفیع طاہر صاحب دم ودرود کے ذریعے علاج کرنے میں مشہور ہیں، ان کے پاس یہ کتاب کئی مرتبہ دیکھنے کو ملی۔
خلیجی ممالک میں اہل علم و مشایخ کی جو قدر دانی ہے، شاید ہم برصغیر والے ابھی کوئی صدی بعد اس مرحلے کو پہنچیں گے، ہمارے اہل علم ، مدرسین، مصنفین و ناشرین کی روزی روٹی اس شعبے سے اس طرح منسلک ہے کہ علم و تحقیق کی خدمت کرنے والا یہ طبقہ’ بیچاروں‘ کا طبقہ مشہور کردیا گیاہے۔ جبکہ سعودی وغیرہ خلیجی ممالک میں یہ لوگ ’سفید پوش‘ طبقہ میں شمار ہوتےہیں، حالانکہ عزتیں برکتیں ان کو بھی ساری کی ساری اسی دین کے سبب ملی ہیں۔
وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں پہلے تو کسی عالم دین کو لکھنے کی فرصت نہیں، لکھ لے تو چھاپنے چھپوانے والے مراحل ایسے ہیں، کہ کئی تصنیفات و تحقیقات انہیں غلام گردشوں میں دم توڑ جاتی ہیں، اور اگر کوئی کتاب چھپ کر آجائے، تو پھر تیرے حقوق اور میرے حقوق کی کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔ شیخ سعید ابن وہف کی کتابوں کو قبولیت عامہ ملنے کا ایک بنیادی سبب ان کی تصنیفات کا اس ’روزی روٹی‘ والے مخصوص تصور سے بھی آزاد ہونا ہے۔
شیخ مرحوم کثیر التصنیف ہونے کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ کثیر العیال بھی ہیں، کوئی صاحب بتارہے تھے، اولاد کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔
کچھ ماہ پہلے میں نے شاملہ میں موجود ایک کتاب کا ذکر کیا تھا، جس کا نام ہے ’ ابراج الزجاج فی سیرۃ الحجاج ‘ یہ شیخ قحطانی مرحوم کے مرحوم صاحبزادے عبد الرحمن کی تصنیف ہے ، جو اس نے سکول میں بطور ہوم ورک لکھی تھی ، بعد میں وہ دو بھائی ایک حادثے میں وفات پاگئے ، شیخ نے اس کتاب میں کچھ اضافہ جات کرکے اسے طبع کروا دیا ۔ بیٹے باپ کی خدمات کو اجاگر کرتے ہیں ، یہ تو معروف بات ہے، البتہ باپ بیٹے کی تالیف کو منظر عام پر لائے ، میرے علم میں یہ پہلا واقعہ ہے ۔ اللہ والدین واولاد سب کی دینی کاوشوں اور کوششوں کو قبول فرمائے۔
تحریر کے خاتمہ کے طور پراوپر ذکر کردہ قصیدہ کا بقیہ حصہ ملاحظہ کرلیجیے:
رَحَلَ السَّعِيدُ الجِهْبِذُ القَحْطَانِي
النَّاصِـــحُ الــــمُــتَــعَـــبِّدُ الرَّبَّانِي
وَقَد اسْتَفَادَ المُسلِمُونَ بِشَيْخِنَا
وَبِسفرِهِ المَـــشْهُورِ فِي الأَوْطَانِ
هُوَ حِصْنُ كُلّ المُسْلِمِينَ كَمَا أَتَى
عُـــنْــوَانُهُ عَنْ شَيْخِنَا القَحْطَانِي
يارب نَـــوِّرْ قَــــبْــــرَهُ واغْــفِــرْلَهُ
وارْحَمْــهُ يَا. ذَا الجُــودِ وَالغُفْرَانِ
وَاغْفِرْ لِمَوْتَى المُسْلِمِينَ جَمِيعَهُمْ
واعْتِقْ رِقَابَهُمُوا مِــــنَ النِّيــرَانِ
صَلَّى الإِلَـهُ عَـلَى النَّبِيِّ وَآلِــهِ
وَالصَّــحْـــبِ وَالإِخْوانِ وَالخِلَّانِ
خلیجی ممالک میں اہل علم و مشایخ کی جو قدر دانی ہے، شاید ہم برصغیر والے ابھی کوئی صدی بعد اس مرحلے کو پہنچیں گے، ہمارے اہل علم ، مدرسین، مصنفین و ناشرین کی روزی روٹی اس شعبے سے اس طرح منسلک ہے کہ علم و تحقیق کی خدمت کرنے والا یہ طبقہ’ بیچاروں‘ کا طبقہ مشہور کردیا گیاہے۔ جبکہ سعودی وغیرہ خلیجی ممالک میں یہ لوگ ’سفید پوش‘ طبقہ میں شمار ہوتےہیں، حالانکہ عزتیں برکتیں ان کو بھی ساری کی ساری اسی دین کے سبب ملی ہیں۔
وجہ یہی ہے کہ ہمارے ہاں پہلے تو کسی عالم دین کو لکھنے کی فرصت نہیں، لکھ لے تو چھاپنے چھپوانے والے مراحل ایسے ہیں، کہ کئی تصنیفات و تحقیقات انہیں غلام گردشوں میں دم توڑ جاتی ہیں، اور اگر کوئی کتاب چھپ کر آجائے، تو پھر تیرے حقوق اور میرے حقوق کی کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے۔ شیخ سعید ابن وہف کی کتابوں کو قبولیت عامہ ملنے کا ایک بنیادی سبب ان کی تصنیفات کا اس ’روزی روٹی‘ والے مخصوص تصور سے بھی آزاد ہونا ہے۔
شیخ مرحوم کثیر التصنیف ہونے کے ساتھ ساتھ ماشاء اللہ کثیر العیال بھی ہیں، کوئی صاحب بتارہے تھے، اولاد کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔
کچھ ماہ پہلے میں نے شاملہ میں موجود ایک کتاب کا ذکر کیا تھا، جس کا نام ہے ’ ابراج الزجاج فی سیرۃ الحجاج ‘ یہ شیخ قحطانی مرحوم کے مرحوم صاحبزادے عبد الرحمن کی تصنیف ہے ، جو اس نے سکول میں بطور ہوم ورک لکھی تھی ، بعد میں وہ دو بھائی ایک حادثے میں وفات پاگئے ، شیخ نے اس کتاب میں کچھ اضافہ جات کرکے اسے طبع کروا دیا ۔ بیٹے باپ کی خدمات کو اجاگر کرتے ہیں ، یہ تو معروف بات ہے، البتہ باپ بیٹے کی تالیف کو منظر عام پر لائے ، میرے علم میں یہ پہلا واقعہ ہے ۔ اللہ والدین واولاد سب کی دینی کاوشوں اور کوششوں کو قبول فرمائے۔
تحریر کے خاتمہ کے طور پراوپر ذکر کردہ قصیدہ کا بقیہ حصہ ملاحظہ کرلیجیے:
رَحَلَ السَّعِيدُ الجِهْبِذُ القَحْطَانِي
النَّاصِـــحُ الــــمُــتَــعَـــبِّدُ الرَّبَّانِي
وَقَد اسْتَفَادَ المُسلِمُونَ بِشَيْخِنَا
وَبِسفرِهِ المَـــشْهُورِ فِي الأَوْطَانِ
هُوَ حِصْنُ كُلّ المُسْلِمِينَ كَمَا أَتَى
عُـــنْــوَانُهُ عَنْ شَيْخِنَا القَحْطَانِي
يارب نَـــوِّرْ قَــــبْــــرَهُ واغْــفِــرْلَهُ
وارْحَمْــهُ يَا. ذَا الجُــودِ وَالغُفْرَانِ
وَاغْفِرْ لِمَوْتَى المُسْلِمِينَ جَمِيعَهُمْ
واعْتِقْ رِقَابَهُمُوا مِــــنَ النِّيــرَانِ
صَلَّى الإِلَـهُ عَـلَى النَّبِيِّ وَآلِــهِ
وَالصَّــحْـــبِ وَالإِخْوانِ وَالخِلَّانِ
Last edited: