• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
نسب نامہ : ابراہیم بن تارخ ، بن ناحور ، بن ساروغ ، بن راغو ، بن فالغ ، بن عابر ، بن شالح ، بن ارفخشد ، بن سام ، بن نوح {ع}
ابن عساکر نے حضرت ابراہیم {ع} کی سوانح حیات میں روایت کیا ہے کہ ان کی والدہ کا نام امیلہ تھا
اور کلبی فرماتے ہیں ان کی والدہ کا نام بونا بنت کربتا تھا اور یہ قبیلہ بنی ارفخشد سے تھیں
ابن عساکر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کی کنیت ابو الضیفان تھی ، جس کا مطلب ہے مہمانوں کے باپ
جب تارخ کی عمر 75 سال کو پہنچ گئی تو ان کے ہاں حضرت ابراہیم {ع} پیدا ہوئے ، ان کے علاوہ دو اور لڑکے جن کے نام ناحور اور ہاران تھا تارخ کی اولادوں میں شامل تھے ۔ ہاران کے ہاں حضرت لوط {ع} کی پیدائش ہوئی اس طرح حضرت لوط {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے بھتیجے ہوئے
پہلے ابن عساکر نے حضرت ابن عباس {رض} سے روایت کیا کہ حضرت ابراہیم {ع} غوطہ دمشق میں قاسیون کی پہاڑی علاقے میں برزہ نامی بستی میں پیدا ہوئے لیکن بعد میں ابن عساکر نے فرمایا جو صحیح قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} بابل شہر میں پیدا ہوئے
بابل کو حضرت ابراہیم {ع} کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا کہ جب آپ اپنے بھتیجے حضرت لوط {ع} کی مدد کے لیے یہاں تشریف لائے تو یہاں آپ نے نماز ادا فرمائی تھی
اہل تواریخ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} نے حضرت سارہ {ع} سے شادی کی اور حضرت سارہ بانجھ تھیں اور کوئی اولاد ان کے ہاں نہ ہوتی تھی
کہتے ہیں تارخ اپنے بیٹے حضرت ابراہیم {ع} اور ان کی بیوی یعنی اپنی بہو سارہ ، اور پوتے لوط بن ہاران کو لے کر کلدانیوں کی سرزمین بابل سے چلے گئے اور کنعانیوں کی سرزمین میں آباد ہوئے اور وہاں مقام حران میں اترے اور وہیں تارخ نے وفات پائی اس وقت ان کی عمر 250 سال تھی
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} کی جائے پیدائش کلدانیوں کی سرزمین بابل اور اس کے آس پاس کی جگہ ہے پھر یہ کنعانیوں کی سرزمین کا اردہ کرکے چلے اور وہ بیت المقدس کے شہر ہیں وہاں یہ حضرات حران نامی جگہ میں آباد ہوئے اس وقت یہ جگہ بھی اور شام کی سرزمین بھی کلدانیوں کے زیر سایہ ہی تھیں اور یہ سات سیاروں کی پوجا پاٹ کرتے تھے ۔ جن لوگوں نے شہر دمشق کو شروع میں بنایا یا آباد کیا وہ بھی اسی دین پر تھے ۔ یہ قطب شمالی کی طرف رخ کرتے تھے اور اقوال و افعال میں کئی طرح سے سات سیاروں کی عبادت کرتے تھے
اسی وجہ سے دمشق کے پرانے سات دروازوں میں سے ہر ایک پر ایک سیارے کی ہیکل بناکر نصب کر رکھی تھی ۔ اور ان کے پاس عید اور تہوار کی رسوم مناتے تھے
اسی طرح حران شہر کے لوگ بھی انہی بتوں کی عبادت کرتے تھے ۔ اور اس وقت روئے زمین پر جو بھی تھے سب کافر تھے سوائے حضرت ابراہیم {ع} کے اور ان کی بیوی سارہ ان کے بھتیجے حضرت لوط {ع} کے ۔
حضرت ابراہیم {ع} ہی وہ شخص ہیں جن کے ذریعے اللہ نے ان فتنوں اور شر کو زائل کیا اور ضلالت اور گمراہی کو مٹایا ۔ بےشک اللہ نے ان کو بچپن ہی سے سیدھی راہ دکھلا دی تھی ۔ اور اپنا رسول منتخب کر لیا تھا پھر سن رسیدگی میں ان کو اپنا دوست بنا لیا تھا
اللہ کا فرمان ہے " اور ہم نے پہلے ہی سے ابراہیم کو اس کی صلاحیت عطا کی تھی اور ہم اس سے واقف تھے ۔ " { سورۃ الانبیاء 51 }
سورۃ عنکبوت میں اللہ کا فرمان ہے " اور ابراہیم کو جب اس نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو تمہارے لیے یہی بہتر ہے ( 16 ) تم اللہ کے سوا بتوں ہی کی عبادت کرتے ہو اور جھوٹ بناتے ہو، جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ تمہاری روزی کے مالک نہیں سو تم اللہ ہی سے روزی مانگو اور اسی کی عبادت کرو اوراسی کا شکر کرو، اسی کے پاس لوٹائے جاؤ گے ( 17 ) اور اگر تم جھٹلاؤ تو تم سے پہلے بہت سی جماعتیں جھٹلا چکی ہیں، اور رسول کے ذمہ تو بس کھول کر پہنچا دینا ہی ہے ( 18 ) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ کس طرح پہلی دفعہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا ، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے ۔ ( 19 ) کہہ دو ملک میں چلو پھرو پھر دیکھو کہ اس نے کس طرح مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا ، پھر اللہ آخری دفعہ بھی پیدا کرے گا ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ( 20 ) جسے چاہے گا عذاب دے گا اور جس پر چاہے رحم کرے گا ، اور اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ( 21 ) اور تم زمین اور آسمان میں عاجز نہیں کر سکتے ، اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی دوست اور مددگار نہیں ہے ( 22 ) اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں اور اس کے ملنے سے انکار کیا وہ میری رحمت سے نا امید ہو گئے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے ( 23 ) پھر اس کی قوم کا اس کے سوا اور کوئی جواب نہ تھا کہ اسے مار ڈالو یا جلا ڈالو پھر اللہ نے اسے آگ سے نجات دی ، بے شک اس میں ان کے لیے نشانیاں ہیں جو ایماندار ہیں ( 24 ) اور کہا تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو تمہاری آپس کی محبت دنیا کی زندگی میں ہے ، پھر قیامت کے دن ایک دوسرے کا انکار کرے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا ، اور تمہارا ٹھکانہ آگ ہوگا اور تمہارے لیے کوئی بھی مددگار نہ ہوگا ( 25 ) پھر اس پر لوط ایمان لایا ، اور ابراہیم نے کہا بے شک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ، بے شک وہ غالب حکمت والا ہے ( 26 ) اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا اور اس کی نسل میں نبوت اور کتاب مقرر کردی اور ہم نے اسے اس کا بدلہ دنیا میں دیا ، اور وہ آخرت میں بھی البتہ نیکوں میں سے ہوگا ( 27 ) "
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} کی پہلی دعوت اپنے والد کو تھی اور ان کے والد بتوں کو پوجا کرتے تھے اس وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ نصحیت کے محتاج تھے
جیسے اللہ نے سورۃ مریم میں فرمایا " اور کتاب میں ابراہیم کا ذکر کر ، بے شک وہ سچا نبی تھا ( 41 ) جب اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ تو کیوں پوجتا ہے ایسے کو جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ تیرے کچھ کام آ سکے ( 42 ) اے میرے باپ بے شک مجھے وہ علم حاصل ہوا ہے جو تمہیں حاصل نہیں ، تو آپ میری تابعداری کریں میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا ( 43 ) اے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر ، بے شک شیطان اللہ کا نافرمان ہے ( 44 ) اے میرے باپ بے شک مجھے خوف ہے کہ تم پر اللہ کا عذاب آئے پھر شیطان کے ساتھی ہو جاؤ ( 45 ) کہا اے ابراہیم کیا تو میرے معبودوں سے پھرا ہوا ہے ، البتہ اگر تو باز نہ آیا میں تجھے سنگسار کردوں گا ، اور مجھ سے ایک مدت تک دور ہو جا ( 46 ) کہا تیری سلامتی رہے ، اب میں اپنے رب سے تیری بخشش کی دعا کروں گا ، بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے ( 47 ) اور میں چھوڑتا ہوں تمہیں اور جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو اور میں اپنے رب ہی کو پکاروں گا ، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کر محروم نہ رہوں گا ( 48 ) "
یوں اللہ نے حضرت ابراہیم {ع} اور ان کے والد کے درمیان مناظرے کا ذکر فرمایا اور کیسے حضرت ابراہیم {ع} نے اپنے والد کو حق کی طرف بلایا اور ان بتوں کی برائی اور خرابی کو بیان فرمایا
پس جب یہ رشد و ہدایت ان کے والد پر پیش کی گئی اور یہ نصحیت و خیر خواہی ہدیہ کی گئی تو والد نے بیٹے سے اس کو قبول نہ کیا اور نہ کچھ بھی فائدہ اس سے وصول کیا بلکہ الٹا بیٹے کو ڈرایا دھمکایا ۔ اور خود الگ ہونے اور جدائی بڑھانے کو کہا
اس پر حضرت ابراہیم {ع} نے والد پر سلامتی بھیجی اور اللہ سے ان کی مغفرت کی امید اور دعا کے وعدے کے ساتھ جدا ہوگئے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
تو حضرت ابراہیم {ع} نے اپنے والد کے لیے وعدے کے مطابق دعائیں مانگیں ۔ لیکن جب یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ اللہ کے دشمن ہیں تو پھر حضرت ابراہیم {ع} نے بھی والد سے علیحدگی ظاہر کردی
اللہ فرماتا ہے " اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش کی دعا کرنا ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے ، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزار ہو گئے ، بے شک ابراہیم بڑے نرم دل تحمل والے تھے " { سورۃ التوبہ : 114 }
سورۃ الانعام 74 میں فرمایا " اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ کیا تو بتوں کو خدا جانتا ہے ، میں تجھے اور تیری قوم کو صریح گمراہی میں دیکھتا ہوں "
صحیح بخاری کی ایک حدیث ہے " نبی کریم {ص} نے فرمایا کہ ابراہیم {ع} اپنے والد آذر سے قیامت کے دن جب ملیں گے تو ان کے چہرے پر سیاہی اور غبار ہو گا ۔ ابراہیم {ع} کہیں گے کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ میری مخالفت نہ کیجئے ۔ وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا ۔ ابراہیم {ع} عرض کریں گے کہ اے رب ! تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا ۔ آج اس رسوائی سے بڑھ کر اور کون سی رسوائی ہو گی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں ۔ اللہ فرمائے گا کہ میں نے جنت کافروں پر حرام قرار دی ہے ۔ پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم ! تمہارے قدموں کے نیچے کیا چیز ہے ؟ وہ دیکھیں گے تو ایک ذبح کیا ہوا جانور خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہو گا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ "
اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کا نام آذر تھا جبکہ نسب بیان کرنے والوں میں سے زیادہ تر حضرات جن میں ابن عباس {رض} بھی ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کا نام تارخ تھا اور اہل کتاب کے نزدیک بھی یہی نام تارخ تھا
تو پھر آذر کیا ہے ؟
ایک قول یہ ہے کہ آذر ان کے ایک بت کا نام تھا جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے ۔ تو اس وجہ سے یہ ان کا لقب بن گیا ۔
ابن حریر فرماتے ہیں آذر ان کا نام ہی تھا ۔
شاید ان کے دو نام تھے یا پھر ایک ان کا لقب تھا اور دوسرا نام ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
پھر سورۃ الانعام میں اللہ نے مزید فرمایا " اور ہم نے اسی طرح ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کے عجائبات دکھائے اور تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائے ( 75 ) پھر جب رات نے اس پر اندھیرا کیا تو اس نے ایک ستارہ دیکھا ، کہا یہ میرا رب ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا میں غائب ہونے والوں کو پسند نہیں کرتا ( 76 ) پھر جب چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرا رب ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرے گا تو میں ضرور گمراہوں میں سے ہوجاؤں گا ( 77 ) پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم ! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ( 78 ) سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ( 79 ) اور اس کی قوم نے اس سے جھگڑا کیا ، اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور اس نے تو میری رہنمائی کی ہے ، اور میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم شریک کرتے ہو مگر یہ کہ میرا رب ہی کچھ چاہے ، میرے رب نے اپنے علم سے سب چیزوں پر احاطہ کیا ہوا ہے ، کیا تم سوچتے نہیں ۔ ( 80 ) اور کیوں ڈروں تمہارے شریکوں سے حالانکہ تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو اس چیز کو جس کی اللہ نے تم پر کوئی دلیل نہیں اتاری ، سو دونوں جماعتوں میں سے امن کا زیادہ مستحق کون ہے ، اگر تم کو سمجھ ہے ( 81 ) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں ( 82 ) اور یہ ہماری دلیل ہے جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلہ میں دی تھی ، ہم جس کے چاہیں درجے بلند کرتے ہیں ، بے شک تیرا رب حکمت والا جاننے والا ہے ۔ ( 83 ) "
یہ کلام و مقام اپنی قوم سے بطور مناظرہ کے تھا ۔ اور ان کو سمجھانا مقصود تھا کہ یہ چمکدار ستارے سیارے وغیرہ معبود بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ کیونکہ وہ تو خود پیدا کئے گئے ہیں اور یہ دھیرے دھیرے پروان چڑھتے ہیں ۔ اور یہ سب مخلوقات میں سے ہیں جو اللہ کی تدبیر کے ساتھ انسان کے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ کبھی طلوع ہوتے ہیں اور کبھی غائب ہوجاتے ہیں ۔
جبکہ اللہ سے کوئی چیز غائب نہیں ہوتی ، نہ مخفی ہوتی ہے اور نہ ہی پوشیدہ ۔
اللہ دائمی باقی ہے اور لازوال ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی اس جہاں کو پالنے والا ہے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} نے پہلے تو قوم کے سامنے ستاروں سیاروں وغیرہ کی عدم صلاحیت بیان فرمائی
ایک قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے پہلے جس چمکدار چیز کو دیکھا وہ زہرہ ستارہ تھا پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کی طرف ترقی کی پھر اس سے بھی زیادہ روشن چیز یعنی سورج کی طرف ترقی کی جو نظر آنے والے تمام اجسام فلکی میں سب سے زیادہ روشن اور چمک دمک والا تھا ۔ لیکن پھر ان کے سامنے بالکل ظاہر ہوگیا کہ یہ سب کسی ذات کی طرف سے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ اسی کے حکم سے چلائے جاتے ہیں اور اس کے حکم سے ان کے اوقات مقرر ہیں ۔ اور وہی ان کا کرنے والا ہے
اللہ نے فرمایا " اور اس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں ، سورج کو سجدہ نہ کرو اور نہ چاند کو اور اس اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا ہے اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو " { سورۃ فصلت : 37 }
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں اللہ سورۃ الانعام میں فرماتا ہے " پھر جب آفتاب کو چمکتا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہی میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے ، پھر جب وہ غائب ہو گیا تو کہا اے میری قوم ! میں ان سے بیزار ہوں جنہیں تم اللہ کا شریک بناتے ہو ( 78 ) سب سے یکسو ہو کر میں نے اپنے منہ کو اسی کی طرف متوجہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ، اور میں شرک کرنے والوں سے نہیں ہوں ( 79 ) اور اس کی قوم نے اس سے جھگڑا کیا ، اس نے کہا کیا تم مجھ سے اللہ کے ایک ہونے میں جھگڑتے ہو اور اس نے تو میری رہنمائی کی ہے ، اور میں ان سے نہیں ڈرتا جنہیں تم شریک کرتے ہو مگر یہ کہ میرا رب ہی کچھ چاہے ، میرے رب نے اپنے علم سے سب چیزوں پر احاطہ کیا ہوا ہے، کیا تم سوچتے نہیں ۔ ( 80 ) "
یعنی میں تمہارے ان معبودوں کی کوئی پرواہ نیہں کرتا جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو کیونکہ وہ مجھے کسی بھی چیز کا نفع نہیں دے سکتے ، نہ وہ سن سکتے ہیں اور نہ وہ عقل رکھتے ہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں جیسے ستاروں سیاروں کی طرح اور انہیں ہم انسانوں کے لیے ہی پیدا کیا گیا ہے ، یا تمہارے معبود تمہارے ہاتھوں سے ہی تراشے ہوئے پتھر ہیں اور کچھ نہیں ۔
ظاہری طور سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کا ستاروں کے ساتھ نصحیت فرمانا یہ اہل حران کے لیے ہوگا کیونکہ وہ ہی لوگ ستاروں اور سیاروں کی پرستش کیا کرتے تھے ۔
اور بتوں کے ساتھ نصیحت فرمانا اہل بابل کے لیے ہوگا کیونکہ بابل کے لوگ بتوں کی پرستش کیا کرتے تھے ۔
بابل کے لوگ وہ ہیں جن سے حضرت ابراہیم {ع} نے ان کے بتوں کے بارے میں مناظرہ کیا جیسا قرآن میں ہے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
سورۃ الانبیاء میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
" جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا کہ یہ کیسی مورتیں ہیں جن پر تم مجاور بنے بیٹھے ہو ( 52 ) انہوں نے کہا ہم نے اپنے باپ دادا کو انہیں کی پوجا کرتے پایا ہے ( 53 ) کہا البتہ تحقیق تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں رہے ہو ( 54 ) انھوں نے کہا کیا تو ہمارے پاس سچی بات لایا ہے یا تو دل لگی کرتا ہے ( 55 ) کہا بلکہ تمہارا رب تو آسمانوں اور زمین کا رب ہے جس نے انہیں بنایا ہے ، اور میں اسی بات کا قائل ہوں ۔ ( 56 ) اور اللہ کی قسم ! میں تمہارے بتوں کا علاج کروں گا جب تم پیٹھ پھیر کر جا چکو گے ( 57 ) پھر ان کے بڑے کے سوا سب کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تاکہ اس کی طرف رجوع کریں ( 58 ) انہوں نے کہا ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے یہ کیا ہے ، بے شک وہ ظالموں میں سے ہے ( 59 ) انہوں نے کہا ہم نے سنا ہے کہ ایک جوان بتوں کو کچھ کہا کرتا ہے اسے ابراہیم کہتے ہیں ۔ ( 60 ) کہنے لگے اسے لوگوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں ۔ ( 61 ) کہنے لگے اے ابراہیم کیا تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا ہے ( 62 ) کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں ( 63 ) پھر وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف ہو ( 64 ) پھر انہوں نے سر نیچا کر کے کہا تو جانتا ہے کہ یہ بولا نہیں کرتے ( 65 ) کہا پھر کیا تم اللہ کے سوا اس چیز کی پوجا کرتے ہو جو نہ تمہیں نفع دے سکے اور نہ نقصان پہنچا سکے ( 66 ) میں تم سے اور جنہیں اللہ کے سوا پوجتے ہو بیزار ہوں ، پھر کیا تمہیں عقل نہیں ہے ( 67 ) انہوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ( 68 ) ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا ( 69 ) اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( 70 ) "
سورۃ الشعراء میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
" جب اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس کو پوجتے ہو ( 70 ) کہنے لگے ہم بتوں کو پوجتے ہیں پھر انہی کے گرد رہا کرتے ہیں ( 71 ) کہا کیا وہ تمہاری بات سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو ( 72 ) یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں ( 73 ) کہنے لگے بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے ( 74 ) کہا کیا تمہیں خبر ہے جنہیں تم پوجتے ہو ( 75 ) تم اور تمہارے پہلے باپ دادا جنہیں پوجتے تھے ( 76 ) سو وہ سوائے رب العالمین کے میرے دشمن ہیں ( 77 ) جس نے مجھے پیدا کیا پھر وہی مجھے راہ دکھاتا ہے ( 78 ) اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے ( 79 ) اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے ( 80 ) اور وہ جو مجھے مارے گا پھر زندہ کرے گا ( 81 ) اور وہ جو مجھے امید ہے کہ میرے گناہ قیامت کے دن مجھے بخش دے گا ( 82 ) "
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
سورۃ الصافات میں اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں مزید فرماتا ہے
" اور بے شک اسی کے طریق پر چلنے والوں میں ابراہیم بھی تھا ( 83 ) جب کہ وہ پاک دل سے اپنے رب کی طرف رجوع ہوا ( 84 ) جب کہ اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو ( 85 ) کیا تم جھوٹے معبودوں کو اللہ کے سوا چاہتے ہو ( 86 ) پھر تمہارا پروردگارِ عالم کی نسبت کیا خیال ہے ( 87 ) پھر اس نے ایک بار ستاروں میں غور سے دیکھا ( 88 ) پھر کہا بے شک میں بیمار ہوں ( 89 ) پس وہ لوگ اس کے ہاں سے پیٹھ پھیر کر واپس پھرے ( 90 ) پس وہ چپکے سے ان کے معبودوں کے پاس گیا پھر کہا کیا تم کھاتے نہیں ( 91 ) تمہیں کیا ہوا کہ تم بولتے نہیں ( 92 ) پھر وہ بڑے زور کے ساتھ دائیں ہاتھ سے ان کے توڑنے پر پل پڑا ( 93 ) پھر وہ اس کی طرف دوڑتے ہوئے بڑھے ( 94 ) کہا کیا تم پوجتے ہو جنہیں تم خود تراشتے ہو ( 95 ) حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور جو تم بناتے ہو ( 96 ) انہوں نے کہا اس کے لیے ایک مکان بناؤ پھر اس کو آگ میں ڈال دو ( 97 ) پس انہوں نے اس سے داؤ کرنے کا ارادہ کیا سو ہم نے انہیں ذلیل کر دیا ( 98 ) "
اللہ حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں خبر دے رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو بتوں کی عبادت سے منع فرمایا اور ان کی ذلالت و حقارت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ، یہ کیا شکلیں ہیں ؟
جن کو تم پوجنے پر قائم ہو ؟
کیوں ان کے سامنے ذلت اختیار کی ہوئی ہے ؟
قوم نے جواب دیا ، ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے
یعنی ان کے پاس ان بتوں کو پوجنے کی کوئی دلیل و حجت نہیں تھی سوائے اس کے کہ انہوں نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا کرتے دیکھا
حضرت ابراہیم {ع} بولے تمہارے آباؤ اجداد گمراہ تھے
سورۃ الصفات کی آیات 85 تا 87 کے بارے میں حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس سے مراد ہے کہ تم نے غیر اللہ کی پرستش کی ہے تو جب اللہ سے ملاقات کروگے تو تمہیں پتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا ؟
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اس طرح حضرت ابراہیم {ع} کے سامنے ان کی قوم نے تسلیم کرلیا کہ ان کے بت نہ کسی پکار سنے والی کی پکار سنتے ہیں اور نہ کسی چیز کا نفع یا نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔ اور ان کو ان کے بتوں کی پرستش پر اکسانے والی چیز صرف اور صرف اپنے باپ دادا کی پیروی کرنا ہے
قوم جن بتوں کی پرستش کرتی تھی حضرت ابراہیم {ع} کے لیے وہ باطل تھا اسی لیے انہوں نے اس سے بیزاری ظاہر کی اور ان کے عیوب و نقائص عیاں کئے اور اگر ان کی قوم ان کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی اہلیت رکھتی تو نقصان پہچاتی مگر اتنی ان کی اہلیت نہیں تھی
ان کی قوم نے کہا تم جو ہمارے بتوں کی برائیاں کر رہے ہو اور ہمارے آباؤ اجداد کو لعن طعن کر رہے ہو تو کیا یہ سب حق ہے یا تم ہمارے ساتھ محض ہنسی کھیل کر رہے ہو ؟
پھر حضرت ابراہیم {ع} بولے تمہارا رب تو وہ ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے ، جس نے تم کو پیدا کیا اور میں اس پر گواہ ہوں اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی حق ہے ۔ تمہارا رب اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ وہی تمہارا اور تمام چیزوں کی پرورش کرنے والا ہے ۔ وہ اکیلا عبادت کا مستحق ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں
جب حضرت ابراہیم {ع} نے ان کے بتوں پر دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جب تم سب اپنے تہوار کے موقع پر یہاں سے چلے جاؤ گے تو ضرور تمہارے بتوں کو جن کی تم عبادت کرتے ہو بتاؤں گا
بعض مفسرین کا خیال ہے کہ انہوں نے یہ دھمکی دل میں کہی تھی اور قوم سے کسی نے ان کے یہ الفاظ نہیں سنے تھے مگر ابن مسعود {رض} فرماتے ہیں ان کے بعض لوگوں نے سن لی تھی
ان کی قوم کی ایک عید گاہ تھی اور یہ اپنے تہوار کے موقع پر ہر سال وہاں جایا کرتے تھے ۔ وہ عید گاہ شہر سے باہر تھی ۔ جب وہ تہوار کا دن آیا تو حضرت ابراہیم {ع} کے والد نے انہیں چلنے کو کہا تو انہوں نے بیماری کا بہانہ کردیا تاکہ قوم کے پیچھے ان کے خداؤں کو سبق سیکھایا جاسکے اور ان بتوں کو توڑ کر جو اسی کے لائق تھے اللہ کے دین حق کی مدد کی جاسکے
لہذا جب لوگ عید کے دن عید گاہ کی طرف نکلے تو حضرت ابراہیم {ع} شہر میں ہی ٹھہر گئے اور ان کے جانے کے بعد تیزی سے ان کے بتوں کے پاس گئے دیکھا بت بڑی عظیم شان و شوکت میں ہیں ان کے سامنے عمدہ کھانے بطور نذرانے کے رکھے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر کہنے لگے کیا بات ہے تم کھانے کیوں نہیں کھاتے ؟ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ پھر جو ہتھوڑا اپنے ساتھ لائے تھے سیدھے ہاتھ سے ان بتوں کو توڑنا شروع کردیا اور ایسا توڑا کہ تمام بت ریزہ ریزہ ہوگئے سوائے ایک بت کے جو ان میں سب سے بڑا تھا
ایک قول ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے ہتھوڑا اس باقی ماندہ بڑے بت کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا یعنی اشارہ دلاتے ہوئے کہ اس بڑے بت کو اس بات سے غیرت آئی کہ اس کی موجودگی میں چھوٹے بتوں کی کیوں پرستش کی جائے ۔
 
Top