• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
پھر لوگ اپنی عید گاہ سے واپس آئے تو دیکھا ان کے خداؤں پر کیا کچھ عذاب اتر چکا ہے تو کہنے لگے ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسا سلوک کس نے کیا ہے ؟ اور جس نے ایسا کیا ہے وہ یقینا بڑا ظالم ہوگا
حالانکہ ان کے پاس کچھ بھی عقل و سمجھ ہوتی تو وہ سوچتے جن خداؤں کے سامنے یہ اپنے سرجھکاتے ہیں ان پر کیسے یہ آفت آسکتی ہے ، اگر ہمارے خدا حقیقی خدا ہوتے تو کم از کم خود کو تو اس ظالم سے بچالیتے ، یہ بات سوچنا ان کے لیے حق کی ایک بہت بڑی دلیل بن جاتی مگر حضرت ابراہیم {ع} کا یہ سبق بھی بےسود رہا اور وہ لوگ اپنی کم عقلی اور کم سمجھ کے باعث صرف اس بات پر قائم رہے کہ ہمارے معبودوں کے ساتھ ایسا سلوک کس نے کیا ہے ؟
چونکہ قوم کے چند لوگوں کو علم تھا کہ حضرت ابراہیم {ع} ان کے خداؤں کا دشمن ہے اور انہوں نے ان کے خلاف ایک چال چلنے کا کہا تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ ایک بڑے اجتماع میں حضرت ابراہیم {ع} کو بلایا جائے تاکہ جن لوگوں کو حضرت ابراہیم {ع} کی دھمکی کا علم تھا ان سے گواہی لی جائے اور اس کے بعد حضرت ابراہیم {ع} سے پوچھا جائے ۔ انہیں یقین تھا اس طرح وہ اپنے خداؤں پر نازل شدہ عذاب کا بدلہ لے کر اپنے خداؤں کی مدد کرسکیں گے
اور یہی حضرت ابراہیم {ع} کی خواہش اور عظیم مقصد تھا کہ تمام قوم ایک جگہ جمع ہو اور ان کی بات سنجیدگی سے سنے ، اور وہ پوری قوم کے سامنے ان کے بتوں کی برائیاں اور خرابیاں بیان کریں
جب حضرت ابراہیم {ع} کی قوم جمع ہوگئی اور مجمع کے سامنے حضرت ابراہیم {ع} پیش ہوگئے تو قوم پوچھنے لگی کیا ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ سلوک آپ نے کیا ہے ؟
حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا چونکہ تمہارا سب سے بڑا بت سلامت ہے تو تم لوگ اس سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟
حضرت ابراہیم {ع} کا اصل مقصد تھا کہ اس طرح ان کی قوم کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ ان کے بت تو بول ہی نہیں سکتے ۔ اور وہ اس بات پر قائل ہوجائیں گے کہ یہ صرف اور صرف پتھر ہیں جیسے اور دوسرے عام پتھر ہوتے ہیں ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حضرت ابراہیم {ع} کے اس سوال پر کہ تم لوگ اپنے بچ جانے والے خدا سے کیوں نہیں پوچھ لیتے ؟ تو قوم کو سب سے پہلے حیرت ہوئی پھر انہوں نے اپنے سر جھکا لیے مگر تھوڑی دیر میں ان کے دل میں برائی نے سر اٹھالیا اور وہ کہنے لگے تجھ کو پتا ہے ہمارے خدا بولا نہیں کرتے پھر کیوں اس قسم کا سوال پوچھنے کا کہتے ہو ؟
پھر حضرت ابراہیم {ع} نے کھل کر حق بیان کیا اور ایک اچھا جواب اپنی قوم کو دیا جب تمہارے ساتھ تمہارے بت بھی مخلوق ہیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مخلوق کسی دوسرے مخلوق کی عبادت کرے
تم ان کی عبادت کرو یا وہ تمہاری عبادت کریں ، برابر ہے ۔ تو جان لو ایک دوسرے کی عبادت کرنا ایک دم باطل اور بےکار ہے ۔ اور عبادت تو صرف اللہ کی ہی صحیح ہے اور اللہ ہی تنہا اس کا مستحق ہے
حضرت ابراہیم {ع} کی جواب پر لاجواب ہوکر قوم اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی کیونکہ وہ حضرت ابراہیم {ع} کے دلائل سے عاجز آچکے تھے اور ان کے پاس خود کے سچے ہونے کی دلیل بھی نہیں تھی ۔ ایسی دلیل جس سے وہ اپنی سرکشی اور بےوقوفی پر مدد لے سکیں
تو ان کی قوم نے فیصلہ کیا ، جیسا کہ قرآن میں آیا " انہوں نے کہا اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ( 68 ) ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا ( 69 ) اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( 70 ) " { سورۃ الانبیاء }
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
تو حضرت ابرہیم {ع} کی قوم نے انہیں زندہ آگ میں جلانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کی تحریک یوں شروع ہوئی
سب کافر جہاں سے ہوسکے لکڑیوں کے ڈھیر جمع کرنے لگے یہاں تک کے ایک مدت گزر گئی ۔ اتنا وقت ہوگیا کہ اگر ان میں سے کوئی عورت بیمار پڑ جاتی وہ نذر مانتی کہ اگر اس کو شفا ہوجائے تو وہ حضرت ابرہیم {ع} کو جلانے کے لیے فلاں فلاں تعداد میں لکڑیوں کا گٹھا دے گی ۔ پھر انہوں نے ایک بہت لمبا چوڑا گڑھا کھودا اور اس میں وہ تمام لکڑیاں ڈال دیں جو انہوں نے ایک طویل مدت میں اکھٹی کی تھیں ۔ پھر اس میں آگ لگا دی ۔ آگ جلنا شروع ہوئی اور بھڑکنے لگی ۔ اس آگ کے شعلے اتنے بلند ہوگئے کہ اس جیسی آگ اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھی تھی ۔ پھر جب آگ اچھی طرح بھڑکنے لگی تو کافروں نے حضرت ابرہیم {ع} کو منجنیق کے ایک پلڑے میں رکھ دیا اس منجنیق کو بنانے والا ایک ہزن نامی شخص تھا ۔ یہ دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے اس قسم کی چیز ایجاد کی تھی ۔ جس کی پاداش میں اللہ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک دھنستا ہی رہے گا
واللہ اعلم
تو پھر کافروں نے حضرت ابرہیم {ع} کو قید کرکے اور رسیوں سے باندھ کر منجنیق میں رکھ دیا ۔ پھر منجنیق کے ذریعے پوری طاقت کے ساتھ آگ میں پھینک دیا
اس وقت حضرت ابرہیم {ع} کے الفاظ تھے " حَسْبُنَا اللّـٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ { ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے } "
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
امام بخاری نے ابن عباس {رض} سے روایت کی ہے کہ حضرت ابرہیم {ع} کو جب آگ میں پھینکا جانے لگا تو انہوں نے یہی کہا تھا " حَسْبُنَا اللّـٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ "
اس طرح جب محمد {ص} کو کفار قریش کی طرف سے ڈرایا گیا تو نبی پاک {ص} نے بھی یہی الفاظ ارشاد فرمائے
قرآن کی سورۃ آل عمران میں ہے " جنہیں لوگوں نے کہا کہ مکہ والوں نے تمہارے مقابلے کے لیے سامان جمع کیا ہے سو تم ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوا ، اور کہا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے ( 173 ) پھر مسلمان اللہ کی نعمت اور فضل کے ساتھ لوٹ آئے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور اللہ کی مرضی کے تابع ہوئے ، اور اللہ بڑے فضل والا ہے ( 174 ) "
حضرت ابوہریرہ {رض} سے مروی ہے کہ رسول اللہ {ص} نے فرمایا " جب حضرت ابراہیم {ع} کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا اے اللہ آپ آسمان میں تنہا ہیں اور میں زمین میں تیری عبادت کرنے والا تنہا ہوں "
بعض بزرگوں کا قول ہے جب حضرت ابراہیم {ع} ہوا میں تھے تو حضرت جبرائیل {ع} ان سے ملے اور عرض کیا آپ کو کوئی ضروت ہے ؟ ۔ جواب دیا آپ کی طرف سے کوئی ضرورت نہیں ۔
ابن عباس {رض} اور سعید بن جبیر {رض} سے مروی ہے کہ اس وقت بارش والا فرشتہ کہہ رہا تھا کہ کب مجھے حکم ملے ؟ اور پھر میں بارش برساؤں ۔ لیکن اللہ کا حکم زیادہ تیز تھا
قرآن میں ہے " ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سرد اور راحت ہوجا " { سورۃ الانبیاء : 69 }
علی ابن طالب {رض} فرماتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ اے آگ ایسی ہوجا کہ ان کو نقصان نہ پہنچائے اور ابن عباس {رض} فرماتے ہیں اگر اللہ یہ نہ فرماتے اے آگ ابراہیم پر سلامتی والی ہوجا تو ابراہیم {ع} کو اس کی ٹھنڈک سے تکلیف پہنچتی
کعب احبار {رض} فرماتے ہیں کہ جس روز حضرت ابراہیم {ع} کو آگ میں پھینکا گیا اس روز کوئی شخص آگ سے نفع نہ اٹھا سکا اور فرمایا اس روز آگ نے حضرت ابراہیم {ع} سے بندھی ہوئی رسی کے علاوہ کچھ نہ جلایا
ضحاک {رح} فرماتے ہیں مروی ہے کہ حضرت جبرائیل {ع} حضرت ابراہیم {ع} کے ساتھ ساتھ تھے اور ان کی پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے تھے اور اس پسینے کے علاوہ ان کو اور کچھ نہ لاحق ہوا
سدی {رح} فرماتے ہیں حضرت ابراہیم {ع} کے ساتھ سایہ کرنے والا فرشتہ بھی تھا ، اور ایک میل تک سایہ اور ٹھنڈک اور سلامتی تھی اور سرسبز باغ گل گلزار بن گیا تھا ، جبکہ آس پاس آگ اپنے شعلوں اور شراروں کے ساتھ بھڑک رہی تھی ۔ اور لوگ حضرت ابراہیم {ع} کی طرف دیکھ رہے تھے لیکن کسی کو اندر آنے کی سکت نہیں تھی اور حضرت ابراہیم {ع} بھی ان کی طرف نکل کر نہیں آرہے تھے
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابوہریرہ {رض} سے مروی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} کے والد کے کہے کلمات میں سب سے اچھے کلمات وہ ہیں جو اس نے اپنے بیٹے کو آگ کے اندر اس حالت میں دیکھنے کے وقت کہا " نعم الرب ربک یا ابراھیم یعنی اے ابراہیم تیرا پروردگار بہترین پروردگار ہے "
ابن عساکر {رح} حضرت عکرمہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم {ع} کی والدہ نے جب اپنے لخت جگر کو دیکھا تو اس نے پکارا " اے میرے بیٹے میں بھی تیرے پاس آنا چاہتی ہوں ، اللہ سے دعا کر کہ تیرے ارد گرد کی آگ کی حرارت سے مجھے نجات دے "
تو حضرت ابراہیم {ع} نے ارشاد کیا " جی اماں "
پھر آپ کی والدہ حضرت ابراہیم {ع} کی طرف چلیں اور آگ نے ان کو کچھ نہیں کہا ۔ پھر بیٹے کے پاس پہنچ کر بیٹے کو گلے سے لگایا اور بوسہ دیا پھر واپس لوٹ آئیں ۔
منہال بن عمرو سے مروی ہے فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} وہاں میں چالیس دن یا پچاس دن ٹھہرے اور انہوں نے فرمایا کہ دنوں اور راتوں میں میں نے ان سے اچھی زندگی نہیں گزاری اور میری تمنا رہی کہ میری تمام زندگی و حیات اسی کی طرح ہوجائے ۔
واللہ اعلم
الغرض کفار و مشرکین نے انتقام لینا چاہا مگر رسوا و ذلیل ہوئے ، بلند ہونا چاہا مگر پست و خوار ہوئے اور غالب ہونا چاہا مگر مغلوب ہوگئے ۔
جیسا قرآن میں اللہ نے فرمایا
" اور انہوں نے اس کی برائی چاہی سو ہم نے انہیں ناکام کر دیا ( سورۃ الانبیاء 70 ) "
" پس انہوں نے اس سے داؤ کرنے کا ارادہ کیا سو ہم نے انہیں ذلیل کر دیا ( سورۃ الصافات 98 ) "
کفار و مشرکین دنیا میں بھی ذلت و رسوائی میں رہے اور آخرت میں بھی ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا ، بےشک جو ایک برا ٹھکانہ اور مقام ہے
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
بخاری میں ہے ام شریک {رض} سے مروی ہے کہ رسول اکرم {ص} نے چھپکلی کو مارنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ یہ ابراہیم {ع} پر پھونک مار رہی تھی ۔
مسند احمد میں بھی ہے حضرت عائشہ {رض} نے خبر دی کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا کہ چھپکلی کو قتل کرو کیونکہ وہ ابراہیم {ع} پر آگ کو پھونکیں مار رہی تھی راوی کہتے ہیں کہ پھر عائشہ {رض} بھی ان کو مارتی تھیں
مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ {رض} کے پاس گئیں تو وہاں ایک نیزہ گڑا ہوا دیکھا تو عورت نے پوچھا یہ کیسا نیزہ ہے ؟ عائشہ {رض} نے فرمایا ہم اس کے ساتھ چھپکلیوں کو مارتے ہیں پھر عائشہ {رض} نے حضور {ص} کی حدیث بیان کی کہ جب ابراہیم {ع} آگ میں ڈال دیے گئے تو تمام جاندار اس آگ کو بجھا رہے تھے سوائے چھپکلی کے یہ اس پر پھونکیں مار رہی تھی ۔
امام نافع ، فاکہ بن مغیرہ کی لونڈی سائبہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدہ عائشہ {رض} کے پاس گئی اور ان کے گھر میں ایک نیزہ دیکھ کر پوچھا : اے ام المومنین ! اس نیزے کو کیا کرتی ہو ؟ انہوں نے کہا : ہم اس سے چھپکلیاں مارتی ہیں ، کیونکہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : جب ابراہیم {ع} کو آگ میں ڈالا گیا تو ہر جانور نے آگ بجھانے کی ، سوائے اس چھپکلی کے ، کہ یہ پھونک مارتی تھی ۔ آپ {ص} نے اسے مارنے کا حکم دیا ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
اللہ تعالی سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے " کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی ، جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، کہا ابراھیم نے بے شک اللہ سورج مشرق سے لاتا ہے تو اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا ، اور اللہ بے انصافوں کی سیدھی راہ نہیں دکھاتا ( 258 ) "
اس آیت میں اللہ تعالی حضرت ابراہیم {ع} کے مناظرے کا ذکر کرہے ہیں ۔ اس سرکش بادشاہ کے ساتھ جس نے اپنی ذات کے لیے خدائی کا دعوی کردیا تھا ۔ تو حضرت ابراہیم {ع} نے اس کے دعوی اور دلیل کو باطل و زیر کر دکھایا ۔ اور اس کی جہالت اور کم عقلی کو واضح کردیا ۔ اسے چپ کی لگام لگا دی اور دلیل کے ساتھ حق کا راستہ دکھلا دیا ۔
مفسرین کہتے ہیں وہ بادشاہ ملک بابل کا بادشاہ تھا اور اس کا نام نمرود تھا ۔ بعض لوگ نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
نمرود بن کنعان ، بن کوش ، بن سام ، بن نوح
بعض لوگ جن میں مجاہد {رح} بھی شامل ہیں نمرود کا نسب کچھ یوں بیان کرتے ہیں
عمرو ، بن فالح ، بن عابر ، بن صالح ، بن ارفخشاں ، بن سام ، بن نوح ۔
مجاہد {رح} یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے بادشاہوں میں سے ایک گزرا ہے
ایسے چار بادشاہ گزرے ہیں ، دو مومن اور دو کافر ، مومن تو ایک حضرت ذوالقرنین تھے اور دوسرے حضرت سلیمان {ع} تھے ۔ اور کافر ایک نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر تھا
مزید فرماتے ہیں اس نمرود بادشاہ نے اپنی سلطنت چار سو سال چلائی اور وہ بہت ہی سرکش اور ظالم شخص تھا ۔ اور دنیاوی زندگی میں خوب مگن اور اس کو ترجیح دینے والا تھا
جب حضرت ابراہیم {ع} نے نمرود کو ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلایا تو نمرود کی جہالت ، گمراہی اور بادشاہت کے غرور نے اسے اللہ تعالی ہی کے انکار پر کھڑا کردیا ۔ اور پھر اس بات پر حضرت ابراہیم {ع} سے جھگڑنا شروع کردیا ۔ جب حضرت ابراہیم {ع} نے کہا میرا اللہ تو وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تب نمرود نے بھی جواب میں کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
محمد بن اسحاق {رض} اور قتادہ {رح} فرماتے ہیں نمرود نے وہ جواب عملی طور پر یوں دیا تھا کہ دو ایسے شخص جن کے قتل کا حتمی فیصلہ کر دیا گیا تھا ۔ ان کو منگوایا اور ایک کے قتل کا حکم دے دیا اور دوسرے کو معاف کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ اس نے بھی ایک کو زندہ کردیا اور ایک کو مار دیا ۔
جبکہ یہ فعل حضرت ابراہیم {ع} کی بات کے مقابل اور معارض نہیں تھا اور صحیح جواب نہیں تھا بلکہ مناظرے کے مقام سے ہی خارج تھا کیونکہ اس بات کے مانع اور معارض بن ہی نہیں سکتے تھے
نمرود کا یہ جواب بےوقوفی تھا ، اور مقصود سے منقطع تھا ۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے روزمرہ کے مشاہدات میں کسی کے مرنے کسی کے پیدا ہونے کے ساتھ دلیل دی تھی ۔ ان کا مطلب تھا یہ چیزیں بغیر کسی پیدا کرنے والے کے ہو نہیں سکتیں ۔ بلکہ ان تمام امور کا کرنے والا کوئی ضرور ہے جو ان کو پیدا بھی کرتا ہے اور انہیں طرح طرح کے کاموں میں لگاتا بھی ہے ۔ جیسے ستاروں ، سیاروں ، ہواؤں ، بادلوں اور بارشوں کو کام میں لگا رکھا ہے ۔ اور طرح طرح کے حیوانات پیدا کئے ہیں پھر ان کو مارتا بھی ہے ۔ وہ بھی بغیر ظاہری اسباب کے ، مگر جب انسان کسی کو مارتا ہے تو کسی سبب کے ذریعے مثلا تلوار وغیرہ ۔ اللہ اپنے ارادے سے سب کچھ کرتا ہے ۔
اسی لیے حضرت ابراہیم {ع} نے فرمایا میرا رب تو وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت طاری کرتا ہے جس کے جواب میں نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں اور اس نے خیال کیا ان مشاہدات عالم کا کرنے والا میں ہی ہوں اور پھر مکمل سرکشی پر اتر آیا ، نمرود نے اپنے خیال میں حضرت ابراہیم {ع} کی دلیل کا توڑ پیش کیا
اب حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ تعالی کے وجود پر دوسری دلیل پیش فرمائی ۔ کہا یہ سورج اللہ کی طرف سے ہر روز مشرق سے نکنے پر مامور ہے وہ بھی بالکل اسی طرح جیسے اس کے خالق نے اس کو متعین کر رکھا ہے اور اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ہر چیز کا خالق ہے ۔ اگر تیرے خیال سے تو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو سورج کو بھی مغرب سے نکال کر دکھا ؟ کیونکہ جو زندگی اور موت جیسی عظیم قدرت اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے تو وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ، اگر تو سچا ہے تو سورج مغرب سے نکال کر دکھا ؟ ۔
حضرت ابراہیم {ع} کے اس سوال پر نمرود کی بےوقوفی اور جہالت عیاں ہوگئی ، اور اس کا وہ جھوٹ جسے اپنی رعایا کے سامنے بول کر خدائی کا دعوی کر رکھا تھا سب کے سامنے آگیا ۔ اس کے پاس ایسی کوئی دلیل نہ رہی جس سے وہ حضرت ابراہیم {ع} کو جواب دے سکے
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
سعدی {رح} فرماتے ہیں نمرود اور حضرت ابراہیم {ع} کے درمیان یہ مناظرہ اسی روز ہوا تھا جس روز حضرت ابراہیم {ع} آگ سے صحیح سلامت تشریف لائے تھے ۔
عبدالرزاق ، معمر سے روایت کرتے ہیں کہ زید بن اسلم سے مروی ہے کہ قحط سالی تھی ، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے اس دن نمرود کے پاس غلہ تھا اور لوگ وفد در وفد غلہ لینے کے لیے آرہے تھے تو حضرت ابراہیم {ع} بھی غلے کے بہانے سے نمرود کے پاس گئے ۔ اور ان دونوں کی ملاقات صرف اسی روز ہوئی تھی ۔
اور پھر ان دونوں کے درمیان مناظرہ شروع ہوگیا ۔ نمرود نے اور لوگوں کو تو غلہ دیا لیکن حضرت ابراہیم {ع} کو کچھ بھی نہ دیا بلکہ حضرت ابراہیم {ع} اس کے پاس سے بالکل خالی واپس نکلے ۔ اور ان کے پاس غلے کی کچھ بھی مقدار موجود نہ تھی ، تو جب حضرت ابراہیم {ع} اپنے گھر کے پاس پہنچے تو مٹی کے ایک ٹیلے پر گئے اور دو تھیلے مٹی سے بھر لیے ۔ اور سوچا جب گھر والوں کے پاس جاؤنگا تو اس سے اہل خانہ کو شغل لگاؤنگا ۔ پھر جب حضرت ابراہیم [ع} گھر پہنچے اور اپنی سواری کو اتار دیا چونکہ سفر کی وجہ سے انتہائی تھک چکے تھے ، اس لئے گھر پہنچتے ہی ٹیک لگا کر سوگئے
جب حضرت ابراہیم {ع} کی بیوی حضرت سارہ {ع} ان تھیلوں کے پاس گئیں تو دیکھا وہ دونوں تھیلے عمدہ عمدہ طعام سے بھرے ہوئے ہیں ۔ سارہ {ع} نے ان سے کھانا بنالیا ۔ حضرت ابراہیم {ع} جاگے تو دیکھا کھانا تیار ہے بولے ، یہ تمہارے ہاں کہاں سے آیا ؟
سارہ {ع} نے عرض کیا جو آپ لائے ہیں اس سے نکالا ہے ۔
پھر حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ سب اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
زید بن اسلم {رح} فرماتے ہیں اللہ تعالی نے اس متکبر سرکش بادشاہ کی طرف فرشتے کو بھی بھیجا ۔ جس نے اس کو ایمان باللہ کی دعوت دی لیکن نمرود نے انکار کردیا ۔ دوسری مرتبہ پھر دعوت دی پھر انکار کردیا ۔ پھر تیسری مرتبہ بھی دعوت دی اس نے پھر ہٹ دھرمی دکھائی اور انکار کیا ، بولا تم اپنے لشکر اکٹھے کرلو میں بھی اپنا لشکر اکٹھا کرتا ہوں ۔
جب نمرود نے سورج کے طلوع ہونے کے وقت اپنے لشکر کو اکٹھا کیا تو اللہ نے مچھروں کا ایک لشکر بھیج دیا ، اور وہ مچھروں کا لشکر سورچ کی روشنی میں دکھائی بھی نہیں دیتا تھا ۔ پھر اللہ نے مچھروں کو نمرود کے لشکر پر مسلط کردیا ۔ کہتے ہیں مچھروں نے نمرود کے لشکر کا خون تو کیا گوشت تک کھالیا یہاں تک کہ ان کی ہڈیاں نظر آنے لگیں ۔ کہتے ہیں ان مچھروں میں سے ایک مچھر نمرود کی ناک میں گھس گیا اور وہ مچھر چار سو سالوں تک نمرود کے دماغ میں رہا ۔ نمرود اس ساری مدت اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا ۔ اور سخت عذاب میں رہا ۔ حتی کہ اللہ تعالی نے اس مچھر کے ذریعے نمرود کو نیست و نابود فرمادیا ۔
واللہ اعلم
 
Top