• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
تورات میں دی گئی ان دونوں خوشخبریوں یعنی ہاحرہ {ع} اور حضرت ابراہیم {ع} کو جو دی گئیں ، ان پر اہل علم اسلامی روایات پر کہتے ہیں کہ پہلی خوشخبری صادق آتی ہے محمد {ص} پر اس لئے کہ عرب آپ {ص} کی وجہ سے لوگوں کے سردار بنے ، مشرق و مغرب تمام ملکوں کے مالک ہوئے ۔ اور اللہ نے ان کو وہ علم نافع اور عمل صالح عطا فرمایا جو ان سے پہلے کسی امت کو نہیں دیا گیا تھا ۔ اور عرب کو یہ شرف نبی پاک {ص} کے تمام رسولوں پر اشرف ہونے سے ملا ۔ آپ {ص} کی رسالت کی برکت اور آپ {ص} کی بشارت کی برکت ، آپ {ص} کی کامل رسالت اور تمام اہل ارض کے لیے آپ کی بعثت کی وجہ سے یہ شرف امت محمدیہ اور عرب کو حاصل ہوا ۔
دوسری خوشخبری بھی امت محمدیہ کے ساتھ پوری ہوتی ہے اور یہ بارہ عظیم افراد بارہ خلفاء راشدین ہیں جن کی بشارت عبدالملک بن عمیر راوی کی حدیث میں مذکور ہے کہ وہ حضرت جابر بن سمرہ {رض} سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم {ص} نے فرمایا " بارہ امیر ہوں گے " پھر آپ {ص} نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی ، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ {ص} نے یہ فرمایا کہ " وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے ۔ "
اور جابر {رض} کی دوسری روایت میں ہے اسلام بارہ خلفاء تک غالب رہے گا ، سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔ ان ہی کی دوسری روایت ہے ، بلاشبہ یہ دین غالب و مضبوط رہے گا بارہ خلفاء تک ، وہ سب کے سب قریش کے ہوں گے ۔
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ہاجرہ {ع} کے یہاں جب اسماعیل {ع} پیدا ہوئے تو اس سے سارہ {ع} کو سخت غیرت آئی ۔ تو پھر انہوں نے حضرت ابراہیم {ع} کو کہا کہ ہاجرہ کومجھ سے کہیں دور لے جاؤ ۔ تو پھر ہاجرہ {ع} اور اسماعیل {ع} کو ابراہیم {ع} لے گئے اور چلے حتی کہ ان کو اس جگہ اتار دیا جہاں آج مکہ شہر آباد ہے ۔ اسماعیل {ع} اس وقت ایک شیرخوار بچے تھے ۔ جب ابراہیم {ع} ان دونوں کو وہاں چھوڑ کر پلٹنے لگے تو ہاجرہ {ع} ان سے چمٹ گئیں اور عرض کیا " اے ابراہیم آپ ہمیں یہاں تنہا چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں ؟ ، جبکہ ہمارے پاس کوئی سامان بھی نہیں جس سے ہم گزر بسر کرسکیں
حضرت ابراہیم {ع} خاموش رہے
ہاجرہ {ع} نے اصرار و اضطراب کے ساتھ دوبارہ اپنا سوال دہرایا اور حضرت ابراہیم {ع} نے پھر کوئی جواب نہ دیا
ہاجرہ {ع} بولیں " کیا اللہ نے اس کا حکم فرمایا ہے ؟ "
حضرت ابراہیم {ع} نے جواب دیا " ہاں "
پھر ہاجرہ {ع} نے بھی کہا " پھر وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا "
ابن عباس {رض} نے بیان کیا ، عورتوں میں کمر بند باندھنے کا رواج اسماعیل {ع} کی والدہ سے چلا ہے ۔ سب سے پہلے انہوں نے کمر بند اس لیے باندھا تھا تاکہ سارہ {ع} ان کا سراغ نہ پائیں پھر انہیں اور ان کے بیٹے اسماعیل کو ابراہیم {ع} ساتھ لے کر مکہ میں آئے ، اس وقت ابھی وہ اسماعیل کو دودھ پلاتی تھیں ۔ ابراہیم نے دونوں کو کعبہ کے پاس ایک بڑے درخت کے پاس بٹھا دیا جو اس جگہ تھا جہاں اب زمزم ہے ۔ مسجد کی بلند جانب میں ۔ ان دنوں مکہ میں کوئی انسان نہیں تھا ۔ اس لیے وہاں پانی نہیں تھا ۔ ابراہیم نے ان دونوں کو وہیں چھوڑ دیا اور ان کے لیے ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجور اور ایک مشک میں پانی رکھ دیا ۔ پھر ابراہیم روانہ ہوئے ۔ اس وقت اسماعیل کی والدہ ان کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا کہ اے ابراہیم ! اس خشک جنگل میں جہاں کوئی بھی آدمی اور کوئی بھی چیز موجود نہیں ، آپ ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں ؟
انہوں نے کئی دفعہ اس بات کو دہرایا لیکن ان کی طرف دیکھتے نہیں تھے ۔ آخر ہاجرہ نے پوچھا کیا اللہ تعالی نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا
ابراہیم {ع} نے فرمایا کہ ہاں ۔
اس پر ہاجرہ {ع} بول اٹھیں کہ پھر اللہ تعالی ہماری حفاظت کرے گا ، وہ ہم کو ہلاک نہیں کرے گا ۔ چنانچہ وہ واپس آ گئیں اور ابراہیم روانہ ہو گئے ۔ جب وہ ثنیہ پہاڑی پر پہنچے جہاں سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو ادھر رخ کیا ، جہاں اب کعبہ ہے ، پھر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! میں نے اپنی اولاد کو اس بےآب و دانہ میدان میں تیری حرمت والے گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ۔
قرآن میں آتا ہے " اے رب ہمارے ! میں نے اپنی کچھ اولاد ایسے میدان میں بسائی ہے جہاں کھیتی نہیں تیرے عزت والے گھر کے پاس ، اے رب ہمارے ! تاکہ نماز کو قائم رکھیں پھر کچھ لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور انہیں میووں کی روزی دے تاکہ وہ شکر کریں { سورۃ ابراہیم 37 }"
ادھر اسماعیل {ع} کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کے لخت جگر بھی پیاسے رہنے لگے ۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ سامنے ان کا بیٹا پیچ و تاب کھا رہا ہے یا زمین پر لوٹ رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیونکہ اس حالت میں بچے کو دیکھنے سے ان کا دل بےچین ہوتا تھا ۔ صفا پہاڑی وہاں سے نزدیک تر تھی ۔ وہ اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، وہ صفا سے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا " صفا اور مروہ کے درمیان لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔ "
جب وہ مروہ پر چڑھیں تو انہیں ایک آواز سنائی دی ، انہوں نے کہا " خاموش ! " یہ خود اپنے ہی سے وہ کہہ رہی تھیں اور پھر آواز کی طرف انہوں نے کان لگا دئیے ۔ آواز اب بھی سنائی دے رہی تھی پھر انہوں نے کہا کہ تمہاری آواز میں نے سنی ۔ اگر تم میری کوئی مدد کر سکتے ہو تو کرو ۔ کیا دیکھتی ہیں کہ جہاں آب زمزم ہے ، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے ۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا ، یا یہ کہا کہ اپنے بازو سے ، جس سے وہاں پانی ابل آیا ۔ ہاجرہ نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا اور چلو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں ۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا ۔
ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اللہ ! ام اسماعیل پر رحم کرے ، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ {ص} نے فرمایا کہ چلو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا ۔
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ پھر ہاجرہ {ع} نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا ۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ " اپنے برباد ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا ، جسے یہ بچہ اور اس کا باپ تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا " اب جہاں بیت اللہ ہے ، اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی ۔ سیلاب کا دھارا آتا اور اس کے دائیں بائیں سے زمین کاٹ کر لے جاتا ۔ اس طرح وہاں کے دن و رات گزرتے رہے
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن عباس {رض} نے مزید بیان کیا کہ اور آخر ایک دن قبیلہ جرہم کے کچھ لوگ وہاں سے گزرے یا قبیلہ جرہم کے چند گھرانے مقام کداء کے راستے سے گزر کر مکہ کے نشیبی علاقے میں انہوں نے پڑاؤ کیا ۔ انہوں نے منڈلاتے ہوئے کچھ پرندے دیکھے ، ان لوگوں نے کہا کہ یہ پرندہ پانی پر منڈلا رہا ہے ۔ حالانکہ اس سے پہلے جب بھی ہم اس میدان سے گزرے ہیں یہاں پانی کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔ آخر انہوں نے اپنا ایک آدمی یا دو آدمی بھیجے ۔ وہاں انہوں نے واقعی پانی پایا چنانچہ انہوں نے واپس آ کر پانی کی اطلاع دی ۔ اب یہ سب لوگ یہاں آئے ۔ راوی نے بیان کیا کہ اسماعیل {ع} کی والدہ اس وقت پانی پر ہی بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ان لوگوں نے کہا کہ کیا آپ ہمیں اپنے پڑوس میں پڑاؤ ڈالنے کی اجازت دیں گی ۔ ہاجرہ {ع} نے فرمایا کہ ہاں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پانی پر تمہارا کوئی حق نہیں ہو گا ۔ انہوں نے اسے تسلیم کر لیا ۔
ابن عباس{رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} نے فرمایا : اب ام اسماعیل کو پڑوسی مل گئے ۔
انسانوں کی موجودگی ان کے لیے دلجمعی کا باعث ہوئی ۔ ان لوگوں نے خود بھی یہاں قیام کیا اور اپنے قبیلے کے دوسرے لوگوں کو بھی بلوا لیا اور وہ سب لوگ بھی یہیں آ کر ٹھہر گئے ۔ اس طرح یہاں ان کے کئی گھرانے آ کر آباد ہو گئے اور بچہ جوان ہوا اور ان سے عربی سیکھ لی ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
ابن عباس {رض} آگے کہتے ہیں جوانی میں اسماعیل {ع} ایسے خوبصورت تھے کہ آپ پر سب کی نظریں اٹھتی تھیں اور سب سے زیادہ آپ بھلے لگتے تھے ۔ چنانچہ جرہم والوں نے آپ کی اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے شادی کر دی ۔ اس عرصے میں ہاجرہ {ع} بھی عظیم قربانیاں دے کر اپنے پروردگار کے پاس چلی گئیں ۔ اسماعیل کی شادی کے بعد ابراہیم {ع} یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے ۔ اسماعیل گھر پر نہیں تھے ۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں ۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے ، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے ۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی ۔ ابراہیم نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں ۔ پھر جب اسماعیل واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا ، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے ، میں نے انہیں بتایا پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے ۔ اسماعیل نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی ؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں ، اب تم اپنے گھر جا سکتی ہو۔ چنانچہ اسماعیل نے انہیں طلاق دے دی اور بنی جرہم ہی میں ایک دوسری عورت سے شادی کر لی ۔ جب تک اللہ تعالی کو منظور رہا ، ابراہیم ان کے یہاں نہیں آئے ۔ پھر جب کچھ دنوں کے بعد وہ تشریف لائے تو اس مرتبہ بھی اسماعیل اپنے گھر پر موجود نہیں تھے ۔ آپ ان کی بیوی کے یہاں گئے اور ان سے اسماعیل کے بارے میں پوچھا ۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے لیے روزی تلاش کرنے گئے ہیں ۔ ابراہیم نے پوچھا تم لوگوں کا حال کیسا ہے ؟ آپ نے ان کی گزر بسر اور دوسرے حالات کے متعلق پوچھا ، انہوں نے بتایا کہ ہمارا حال بہت اچھا ہے ، بڑی فراخی ہے ، انہوں نے اس کے لیے اللہ کی تعریف و ثنا کی ۔ ابراہیم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ کھاتے کیا ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ گوشت ! آپ نے دریافت کیا فرمایا کہ پیتے کیا ہو ؟ بتایا کہ پانی ! ابراہیم نے ان کے لیے دعا کی ، اے اللہ ان کے گوشت اور پانی میں برکت نازل فرما ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
نبی کریم {ص} نے فرمایا کہ ان دنوں انہیں اناج میسر نہیں تھا ۔ اگر اناج بھی ان کے کھانے میں شامل ہوتا تو ضرور آپ اس میں بھی برکت کی دعا کرتے ۔ صرف گوشت اور پانی کی خوراک میں ہمیشہ گزارہ کرنا مکہ کے سوا اور کسی زمین پر بھی موافق نہیں پڑتا ۔
ابراہیم {ع} نے اس سے فرمایا کہ جب تمہارے شوہر واپس آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور ان سے کہہ دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ باقی رکھیں ۔ جب اسماعیل {ع} تشریف لائے تو پوچھا کہ کیا یہاں کوئی آیا تھا ؟ انہوں نے بتایا کہ جی ہاں ایک بزرگ ، بڑی اچھی شکل و صورت کے آئے تھے ۔ بیوی نے آنے والے بزرگ کی تعریف کی پھر انہوں نے مجھ سے آپ کے متعلق پوچھا اور میں نے بتا دیا ، پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر بسر کا کیا حال ہے ۔ تو میں نے بتایا کہ ہم اچھی حالت میں ہیں ۔ اسماعیل نے دریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے تمہیں کوئی وصیت بھی کی تھی ؟ انہوں نے کہا جی ہاں ، انہوں نے آپ کو سلام کہا تھا اور حکم دیا تھا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو باقی رکھیں ۔ اسماعیل نے فرمایا کہ یہ بزرگ میرے والد تھے ، چوکھٹ تم ہو اور آپ مجھے حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ پھر جتنے دنوں اللہ تعالی کو منظور رہا ، کے بعد ابراہیم ان کے یہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ اسماعیل زم زم کے قریب ایک بڑے درخت کے سائے میں اپنے تیر بنا رہے ہیں ۔ جب اسماعیل نے ابراہیم کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہو گئے اور جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور بیٹا اپنے باپ کے ساتھ محبت کرتا ہے وہی طرز عمل ان دونوں نے بھی ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کیا ۔
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
پھر ابراہیم {ع} نے فرمایا ، اسماعیل اللہ نے مجھے ایک حکم دیا ہے ۔ اسماعیل {ع} نے عرض کیا ، آپ کے رب نے جو حکم آپ کو دیا ہے آپ اسے ضرور پورا کریں ۔ انہوں نے فرمایا اور تم بھی میری مدد کر سکو گے ؟ عرض کیا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ۔ فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اسی مقام پر اللہ کا ایک گھر بناؤں اور آپ نے ایک اور اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے چاروں طرف ! کہا کہ اس وقت ان دونوں نے بیت اللہ کی بنیاد پر عمارت کی تعمیر شروع کی ۔ اسماعیل پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے اور ابراہیم تعمیر کرتے جاتے تھے ۔ جب دیواریں بلند ہو گئیں تو اسماعیل یہ خاص پتھر لائے اور ابراہیم کے لیے اسے رکھ دیا ۔ اب ابراہیم اس پتھر پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے ۔ اسماعیل پتھر دیتے جاتے تھے اور یہ دونوں یہ دعا پڑھتے جاتے تھے ۔ ہمارے رب ! ہماری یہ خدمت تو قبول کر بیشک تو بڑا سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
قرآن میں آتا ہے " اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے { سورۃ البقرۃ 127 } " ۔۔۔
تو یہ مذکورہ طویل حدیث حضرت ابن عباس {رض} کا بیان ہے جو صحيح البخاری میں موجود ہے ، اس کے بعض حصے رسول اللہ {ص} سے بھی منسوب ہیں اور بعض حصوں میں غرابت ہے ۔ اس روایت کی بعض باتوں کی بنا پر لگتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کو یہ روایت اسرائیلیات سے ملی ہیں
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
مذکورہ روایت میں کئی باتیں قابل غور ہیں ایک تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم {ع} نے ہاجرہ {ع} اور اپنے لخت جگر کو وادی بیابان میں چھوڑنے کے بعد صرف تین چکر لگائے اور ان میں پہلی مرتبہ جب تشریف لائے تو ہاجرہ {ع} کی وفات اور اسماعیل {ع} کی پہلی شادی ہوچکی تھی تو یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ ابراہیم {ع} نے اپنے بچے کو بچپن سے شادی تک کیسے چھوڑا ؟ کہ ان کے حالات کی بھی خبر نہ لی ۔ جبکہ کتابوں میں آیا ہے کہ ابراہیم {ع} کے لیے زمین کو لپیٹ دیا گیا تھا ۔ اور یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ جب وہ ان کی طرف جاتے تو براق پر سوار ہوکر تشریف لے جاتے تھے ۔ دوسری بات یہ قابل غور ہے کہ اس میں اللہ کی راہ میں اسماعیل {ع} کے ذبح ہونے کا ذکر نہیں اور بنی اسرائیل کے یہاں اسماعیل {ع} کے بجائے اسحاق {ع} کو اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والا سمجھا جاتا ہے ، اس لئے ان باتوں کی بنیاد پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس {رض} کی مذکورہ روایت اسرائیلیات میں سے لی گئی ہے اور کچھ کچھ باتیں احادیث صحیح مرفوعہ میں سے ملائی گئی ہے ۔ اس لئے اس اسرائیلی روایت میں قصہ ذبیح موجود نہیں ہے
واللہ اعلم
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
قرآن کی سورۃ الصافات میں اللہ فرماتا ہے :
اور کہا میں نے اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے راہ بتائے گا ۔ ( 99 )
اے میرے رب ! مجھے ایک صالح عطا کر ( 100 )
پس ہم نے اسے ایک لڑکے حلم والے کی خوشخبری دی ۔ ( 101 )
پھر جب وہ اس کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا کہا اے بیٹے ! بے شک میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں پس دیکھ تیری کیا رائے ہے ، کہا اے ابا ! جو حکم آپ کو ہوا ہے کر دیجیے ، آپ مجھے ان شا اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ ( 102 )
پس جب دونوں نے تسلیم کر لیا اور اس نے پیشانی کے بل ڈال دیا ۔ ( 103 )
اور ہم نے اسے پکارا کہ اے ابراھیم ! ۔ ( 104 )
تو نے خواب سچا کر دکھایا ، بے شک ہم اسی طرح نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 105 )
البتہ یہ صریح آزمائش ہے ۔ ( 106 )
اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض دیا ۔ ( 107 )
اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لیے رہنے دی ۔ ( 108 )
ابراہیم پر سلام ہو ۔ ( 109 )
اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں ۔ ( 110 )
بے شک وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے ۔ ( 111 )
اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ۔ ( 112 )
اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ۔ ( 113 )
اللہ اپنے دوست حضرت ابراہیم {ع} کے بارے میں فرماتا ہے جب انہوں نے اپنے علاقے کو خیرباد کہا اور اپنے پروردگار کے حضور التجاء کی کہ اسے کوئی صالح اولاد عدا فرما دے ۔ تو اللہ نے خوشخبری سنائی کہ ان کے یہاں ایک بردبار لڑکا جنم لے گا ۔
وہ حضرت اسماعیل {ع} ہیں کیونکہ ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد وہ ہی ہیں ۔ اس وقت ابراہیم {ع} کی عمر تقریبا چھیاسی سال تھی ۔ اور اس بات میں کسی مذہب والے کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اسماعیل {ع} ابراہیم {ع} کی پہلی اولاد ہیں
 
Top