• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فضائل ومناقب

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
عبداللہ بن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ
  • آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے.بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے. آپ کی صاحب زادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ابتدائی زندگی

  • واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی.آپ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مل جاتا ہے.آپ کا نام پہلے عبداکعبہ تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بدل کر عبداللہ رکھا ، آپ کی کنیت ابوبکر تھی. آپ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا. آپ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا. مکہ میں آپ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا. کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعث سے قبل ہی آپ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے. ایک دوسرے کے پاس آمدرفت ، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا.مزاج ميں یکسانیت کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا.بعث کے اعلان کے بعد آپ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا. ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے موذن رسول حضرت بلال سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جارہا تھا. آپ کی دعوت پر ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جیسے اکابر صحابہ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئي.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ارادہ ہجرت

  • جب قریش مکہ کے مظالم اپنی انتہا کو چھونے لگے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی جانب ہجرت کی اجازت دے دی.اہل ایمان کی بڑی تعداد نے اس پر لبیک کہا اور حبشہ کی جانب ہجرت کرنا شروی کردی.اس موقع پر آپ بھی حکم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے حبشہ کے سفر پر روانہ ہوگئے۔ تاہم اہلیان مکہ میں آپ کی عزت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنے سفر کا کچھ ہی حصہ طے کیا تھا کہ کفار مکہ کے ایک طاقتور سردار ابن دغنہ سے برداشت نہ ہوسکا. اس نے باوجود ایمان نا لانے کے آپ کو روک لیا اور اپنی حمایت اور پناہ پیش کردی. اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمان ہوجانے کے باوجود آپ کی مکہ میں کس قدر عزت منزلت تھی.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
القاب و خطاب

  • صدیق اور عتیق آپ کے خطاب ہیں جو آپ کو دربار رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عطا ہوئے.آپ کو دو مواقعوں پر صدیق کا خطاب عطا ہوا.اول جب آپ نے نبوت کی بلا جھجک تصدیق کی اور دوسری بار جب آپ نے واقعہ معراج کی بلا تامل تصدیق کی .اس روز سے آپ کو صدیق اکبر کہا جانے لگا.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
مدینہ ہجرت

  • جب سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم دیا تو آپ کو سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہمسفر بننے کا اعزاز حاصل ہوا. اس سفر میں آپ نے تمام مواقعوں بالخصوص غار ثور میں قیام کے دوران حق دوستی ادا کردیا۔ آپ کو اس سفر ہجرت کے حوالے سے میں " ثانی الاثنین " کے لقب سے یاد کیا گیا ہے (سورۃ توبہ 40 )
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
ایثار و سخاوت
  • آپ کو بدر ،احد،خندق،تبوک،حدیبیہ،بنی نظیر ، بنی مصطلق ،حنین، خیبر،فتح مکہ سمیت تمام غزوات میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا.غزوہ تبوک میں آپ نے جو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اعلی مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا مشکل ہے.اس غزوہ میں سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ترغیب پر تمام صاحب اسطاعت صحابہ نے دل کھول کر لشکر اسلامی کی امداد کی مگر ابوبکر نے ان سب پر اس طرح سبقت حاصل کی کہ آپ اپنے گھر کا سارا سامان لے آئے.جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ " اے ابوبکر ! گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے"؟ تو آپ نے عرض کی " گھر والوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کافی ہے ".
  • پروانے کو چراغ ہے ، بلبل کو پھول بس صدیق کے لئے ہے اللہ کا رسول بس
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
حیات طیبہ میں امامت

  • حیات طیبہ کے آخری ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز وں کی امامت کا حکم دیاا. آپ نے مسجد نبوی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم پر مصلی رسول پر 17 نمازوں کی امامت فرمائي.رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ اقدام آپ کی خلافت کی طرف واضح اشارہ تھا. ایک دفعہ نماز کے اوقات میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ مدینہ سے باہر تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نہ پا کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو نماز کی امامت کو کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو امامت کرواتا دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ پسند کرتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز کی امامت کرے.یہ بات حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اعتماد کا اظہار تھا کہ آپ ہی مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہوں گے چنانچہ آپ پہلے خلیفہ المسلمین منتخب ہوئے.
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
اول امیر المومنین

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے آپ کو جانشین رسول مقرر کیا گیا.آپ کی تقرری امت مسلمہ کا پہلا اجماع کہلاتی ہے.بار خلافت سنبھالنے کے بعد آپ نے مسلمانوں کے سامنے پہلا خطبہ دیا.
  • میں آپ لوگوں پر خلیفہ بنایا گیا ہوں حالانکہ میں نہیں سمجھتا کہ میں آپ سب سے بہتر ہوں. اس ذات پاک کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں نے یہ منصب و امارت اپنی رغبت اور خواہش سے نہیں لیا، نہ میں یہ چاہتا تھا کہ کسی دوسرے کے بجائے یہ منصب مجھے ملے، نہ کبھی میں نے اللہ رب العزت سے اس کے لئے دعا کی اور نہ ہی میرے دل میں کبھی اس (منصب) کے لئے حرص پیدا ہوئی. میں نے تو اس کو بادل نخواستہ اس لئے قبول کیا ہے کہ مجھے مسلمانوں میں اختلاف اور عرب میں فتنہ ارتدار برپا ہوجانے کا اندیشہ تھا. میرے لئے اس منصب میں کوئی راحت نہیں بلکہ یہ ایک بارعظیم ہے جو مجھ پر ڈال دیا گیا ہے. جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں سوائے اس کے اللہ میری مدد فرمائے. اب اگر میں صحیح راہ پر چلوں تو آپ سب میری مدد کیجئے اور اگر میں غلطی پر ہوں تو میری اصلاح کیجئے. سچائي امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارے درمیان جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کے میں اس کا حق اس کو دلواؤں . اور جو تم میں قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے حق وصول کروں. ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی قوم نے فی سبیل اللہ جہاد کو فراموش کردیا ہو اور پھر اللہ نے اس پر ذلت مسلط نہ کی ہو،اور نہ ہی کبھی ایسا ہوا کہ کسی قوم میں فحاشی کا غلبہ ہوا ہو اور اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا نہ کرے.میری اس وقت تک اطاعت کرنا جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلوں اور ا گر میں اس سے روگردانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں (طبری. ابن ہشام)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,785
پوائنٹ
1,069
طرز حکمرانی
  • امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپ نے قصد کیا کہ آپ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جاسکے۔ راستے میں حضرت عمر سے ملاقات ہوئی . انہوں نے آپ سے عرض کیا " یا امیرالمومنین ! آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟" آپ نے فرمایا "تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا". حضرت عمر نے فرمایا " اب آپ امیر المومنین ہیں"،" تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟". آپ نے فرمایا " بات تو آپ (عمر) کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟". حضرت عمر نے عرض کیا " آئیے حضرت ابوعبیدہ کے پاس چلتے ہیں اور ان سے مشورہ کرتے ہیں.( واضح رہے کہ حضرت ابوعبیدہ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے بیت المال کی نگرانی بھی آپ ہی کے زمہ تھی). حضرات شیخین ، امین الامت کے پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی.امین الامت نے فرمایا " اب ابوبکر مسلمانوں کے خلیفہ ہیں.مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے زمہ دار ہیں.خلافت کے معاملات کو نبٹانے کے لئے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے.اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے.لہذا ان کی اور ان کے اہل وعیال کی ضرورت کے لئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے.اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو ؟ اس موقعہ پر حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ " جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا" عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ کا گزارہ نہیں ہوسکے گا " آپ نے فرمایا "اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا". چناچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا. بعد ازاں آپ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروادی. واقعہ یوں ہے کہ آپ کو میٹھا مرغوب تھا.اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چاجائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپ کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا.جب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا. آپ نے فرمایا " یہ کہاں سے آيا؟ ".زوجہ محترمہ نے عرض کیا " گھر میں بنایا ہے" آپ نے فرمایا " جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں؟".زوجہ محترمہ نے سارا ماجرہ عرض کیا. آپ نے یہ سن کر فرمایا " اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے.لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروادیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے".
  • یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیمبر حضرت ابو بکر صدیق نے خلافت کا منصب و زمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہر حروف کی مکمل پاسداری کی.آپ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں.مغربی مورخین (جو عموما تاریخ اسلام کے واقعات بیان کرنے میں تعصب اور جانبداری سے کام لیتے آئے ہیں) عہد صدیقی کی کچھ ان الفاظ میں تشریح کرتے ہیں. " حضرت ابوبکر کا دور گو کہ نہایت مختصر تھا مگر خود اسلام ، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور کا اتنا احسان مند نہیں جتنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہے.
 
Top