• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ !!!



عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا اجْتَمَعْنَ فِى امْرِئٍ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ »

﴿صحیح مسلم2421﴾


1926811_383352665136334_5983081934353999177_n (1).JPG


 
Last edited:

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
سیرت حضرت سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

ولادتِ باسعادت :
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے تقریباً دوسال چارماہ بعد ہوئی۔(الاکمال فی اسماء الرجال للخطیب التبریزی )، حافظ ابن عساکر، حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت سے نقل کرتے ہیں، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’ لما ولد ابوبکر الصديق اقبل الله تعالی علی جنةعدن فقال وعزتی وجلالی لا ادخلک الامن يحب هذا المولود ‘‘(مختصر تاریخ دمشق ، جلد 13، صفحہ69)، ترجمہ :جب ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالی جنت عدن سے مخاطب ہوکر فرمایا: مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم! ائے جنت !تجھ میں صرف ان ہی لوگوں کو داخل کروں گا جو اس نومولود سے محبت رکھیں گے ۔
نام مبارک اورنسب:
شرح مواہب زرقانی ج 1،ص 445میں ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی زمانۂ جاہلیت میں عبد رب الکعبہ تھا اور" الإستيعاب في معرفة الأصحاب " میں عبدالکعبہ مذکور ہے ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبدیل کرکے عبداللہ تجویز فرمایا:
’’ عبد الله بن أبي قحافة أبو بكر الصديق رضي الله عنهما. كان اسمه في الجاهلية عبد الكعبة فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله. هذا قول أهل النسب‘‘ (الإستيعاب في معرفة الأصحاب المؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي ،المتوفى : 463هـ، جلد1، صفحہ 294)
آپ کے والد ماجد ابوقحافہ کانام "عثمان" تھا ،جن کا تعلق بنوتیم قبیلہ سے تھا اور نسب مبارک اس طرح ہے۔ ابوقحافه عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد بن مره بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر القرشی التيمی
آپ کے والدہٴ ماجدہ کا نام "ام الخیر سلمی" تھا ، ان کا نسب مبار ک اس طرح ہے ۔ سلمیٰ بنت صخر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تيم ۔(الکامل فی التاریخ ،جلد 2ص402)
القاب مبارکہ:
آپ "عتیق" اور "صدیق" کےمبارک القاب سے ممتاز ہیں ؛ جب کہ آپ کی کنیت ابوبکر ہے ۔ "بکر" کے معنی اولیت ،سبقت اورپیش قدمی کے ہیں "ابو "کے معنی والے او روالد کے آتے ہیں ،تو "ابوبکر" کے معنی سبقت کرنے ،پہل کرنے والے کے ہوئے چنانچہ آپ ہر خیر کے کام میں سبقت فرمایا کرتے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مرد حضرات میں سب سے پہلے اسلام قبول فرمایا ہے جب کہ خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہامشرف بااسلام ہوئیں۔
حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے دین اسلام کی اشاعت میں سب سے پہلے اپنا مال خرچ کرنے کی سعادت حاصل کی ،اسلام قبول کرنے کے موقع پر آپ کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں تھیں آپ نے وہ سب کی سب راہ خدا میں خرچ کرڈالیں۔
عتیق:
آپ کو عتیق کیوں کہا جاتا ہے ؟ اس کی چندوجوہ حسب ذیل ہیں:
پہلی وجہ
آپ کی والدہ ماجدہ کی اولاد زندہ نہیں رہتی تھی، جب آپ کی ولادت شریفہ ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ آپ کو بیت اللہ شریف لے گئیں اور دعاکی :"ائے اللہ انہیں موت سے آزاد کرکے میری خاطر زندگی عطا فرمادے" دعاقبول ہوئی اور آپ کا لقب مبارک عتیق ہوگیا (مختصر تاریخ دمشق جلد13،ص35،شرح مواہب زرقانی،ج1،ص445)
دوسری وجہ
جامع ترمذی میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنْ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا۔(جامع ترمذی شریف، ابواب المناقب، باب مناقب أبي بكر الصديق رضي الله عنه، حدیث نمبر: 3612)
ترجمہ: ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقد س میں حاضر ہوئے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم من جانب اللہ جہنم کی آگ سے آزاد (محفوظ) ہیں'' اسی دن سے آپ کو عتیق کہا جانے لگا ۔
ونیز ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی سے دوسری روایت ہے،آپ فرماتی ہیں: ایک دن میں اپنے گھر میں موجود تھی ، باہر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، میرے اور صحابہ کے درمیان پردہ حائل تھا ،اچانک حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا:
من سره ان ينظر الی عتيق من النار فلينظر الی ابی بکر-(تاریخ دمشق ،جلد13،ص35،الریاض النضرۃ جلد1،ص78)، ترجمہ:جو دوزخ سے آزاد شخص کودیکھنا پسند کرے وہ ابوبکر کی زیارت کرے۔
تیسری وجہ:
آپ کے نسب میں کوئی عیب نہ ہونے اورحسن نسب کی وجہ سے عتیق کہاگیا-
وكان يقال له: عتيق واختلف العلماء في المعنى الذي قيل له به عتيق. فقال الليث بن سعد وجماعة معه: إنما قيل له عتيق لجماله وعتاقة وجهه. وقال مصعب الزبيري وطائفة من أهل النسب: إنما سمى أبو بكر عتيقاً لأنه لم يكن في نسبه شيء يعاب به. وقال آخرون: كان له أخوان أحدهما: يسمى عتيقاً مات عتيق قبله، فسمي باسمه. (الإستيعاب في معرفة الأصحابالمؤلف : أبو عمر يوسف بن عبد الله القرطبي ،المتوفى : 463هـ، جلد1، صفحہ 294)
چوتھی وجہ:
عتیق معنی قدیم ،آپ کیونکہ قدیم الاسلام ہیں اور ابتداء ہی سے خیراو ربھلائی آپ کے لئے مقدرہوچکی تھی ا سلئے عتیق ٹھہرے –لقدمہ فی الخبر ولسبقه الی الاسلام(زرقانی ،جلد،1ص445)
صدیق :
آپ کا سب سے مشہور لقب صدیق ہے ،
وسمي الصديق لبداره إلى تصديق رسول الله صلى الله عليه وسلم في كل ما جاء به صلى الله عليه وسلم. وقيل: بل قيل له الصديق لتصديقه له في خبر الإسراء.
آپ نے ہر معاملہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنے میں پہل کی ، اس لئے آپ کا لقب صدیق رکھا گیا۔
اللہ تعالی کا نازل کردہ لقب" صدیق"
سنن دیلمی میں ، ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " يا أبابكر، إن الله سماك الصديق ".
ترجمہ:ائے ابو بکر اللہ تعالی نے تمہارا نام" صدیق "رکھا ہے-
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ یہ لقب اللہ رب العزت نے نازل فرمایا: آپ حلفیہ بیان کرتے ہیں:، لانزل الله عزوجل اسم ابی بکر من السماء الصديق –(مختصر تاریخ دمشق ،جلد،13،ص52) واقعہ معراج کی تصدیق :۔، ترجمہ:اللہ تعالی نے ابوبکر کے لئے صدیق کا لقب آسمان سے نازل فرمایا۔
تاریخ الخلفاء میں امام حسن بصری اورحضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:، وأول ما اشتهر به صبيحة الإسراء۔(تاریخ الخلفاء ص،11)، آپ کایہ لقب شب معراج کے اگلے دن کی صبح سے مشہور ہوا
مستدرک علی الصحیحین اور تاریخ الخلفاءمیں روایت ہے:
عن عائشة رضي الله عنها قالت جاء المشركون إلى أبي بكر فقالوا هل لك إلى صاحبك يزعم أنه أسري به الليلة إلى بيت المقدس قال أو قال ذلك؟ قالوا نعم فقال لقد صدق إني لأصدقه بأبعد من ذلك بخبر السماء غدوة وروحة فلذلك سمي الصديق۔ (تاریخ الخلفاء ص،11)، ترجمہ:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ شب معراج کے اگلے دن مشرکین مکہ حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور کہا ، اپنے صاحب کی اب بھی تصدیق کروگے ؟ ، انہوں نے دعوٰی کیا ہے"راتوں رات بیت المقدس کی سیر کرآتے ہیں"ابوبکر صدیق نے کہا:"بیشک آپ نے سچ فرمایا ہے ، میں تو صبح وشام اس سے بھی اہم امور کی تصدیق کرتا ہوں"۔ اس واقعہ سے آپ کا لقب صدیق مشہور ہوگیا
کنیت ، ابوبکر :
عرب میں بالعموم کنیت کا رواج تھا ، یہ کبھی اولاد کے نام پرہوتی ہے ، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ابوالقاسم ہے اورکبھی کسی اورمناسبت کے پیش نظر رکھ دی جاتی ، جیسے ابوہریرہ ، ابوتراب وغیرہ۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا آسمانی نام:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ جبریل امین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ حضرت ابوبکر صدیق کا قریب سے گزر ہوا ، حضرت جبریل نے عرض کیا ، یا رسول اللہ!وہ ابوقحافہ کے صاحبزادے ہیں ؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم آسمان میں رہنے والے بھی انہیں پہچانتے ہو؟ جبریل امین نے عرض کی :
والذی بعثک بالحق لهو فی السماء اشهر منه فی الارض ، وان اسمه فی السماء الحليم۔ (الریاض النضرۃ ،ج1،ص82)
ترجمه :قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق ورسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا!حضرت ابوبکر کا زمین کی نسبت آسمانوں پر زیادہ شہرہ ہے ، وہاں ان کانام حلیم ہے ۔
حلیہ مبارک :
آپ کا رنگ سفید ، رخسار ہلکے ہلکے ، چہرہ باریک اور پتلا ، پیشانی بلند ، منحنی جسم ، چادرباندھتے تو نیچے ڈھلک جاتی اور داڑھی کو سرخ سیاہ مد بی لگایا کرتے (الکامل فی التاریخ ،ج2،ص420)
قریش کے مشہور قبیلہ قارہ کے سردار ابن دغنہ نے آپ کے اوصاف حسنہ کا بایں الفاظ اعتراف کیا:
إنك لتصل الرحم وتصدق الحديث وتكسب المعدوم وتحمل الكل وتعين على نوائب الدهر وتقري الضيف.(تاریخ الخلفاء،12)
ترجمہ ؛ اے ابوبکر !بے شک آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں ، کمزورں کا بوجہ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبت زدہ افراد کے کام آتے ہیں۔
عہدجاہلیت میں بھی آپ معزز ومکرم :
امام نووی فرماتے ہیں:، وكان من رؤوساء قريش في الجاهلية وأهل مشاورتهم ومحبباً فيهم وأعلم لمعالمهم ۔(تاریخ الخلفاء ص،12)
ترجمہ ؛حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار دور جاہلیت میں قریش کے سرداروں او راہل مشاورت میں ہوتا تھا،آپ کی شخصیت نہایت محبوب تھی، قریش کے معاملات کو بہتر طور پر سمجھتے تھے
خواب میں قبولیت اسلام کی بشارت :
اعلان نبوت سے پہلے آپ نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا، آسمان پر چودھویں کا چمکتا ہوچانداچانک پھٹ گیا، اس کے ٹکڑے مکہ کے ہر گھرمیں بکھرمیں گئے پھر یہ ٹکڑے سمٹ کراکٹھے ہوئے اوریہ چمکتا ہوا چاند آپ کی گود میں آگیا۔
آپ نے یہ خواب اہل کتاب کے عالم کو سنایا تو اُس نے تعبیر بتائی کہ وہ نبی محتشم جن کا انتظار ہے ؛ اس نبی آخرالزماں کے آپ معاون ومددگار ہوں گے ۔توجب حضور کی بعثت ہوئی تو آپ نے بلاتوقف بغیر کسی پس وپیش کے اسلام قبول کرلیا۔ جیساکہ سبل الہدی والرشاد میں ہے:
أنه رأى رؤيا قبل، وذلك أنه رأى القمر نزل إلى مكة ثم رآه قد تفرق على جميع منازل مكة وبيوتها فدخل في كل بيت شعبة، ثم كان جميعه في حجره. فقصها على بعض أهل الكتابين فعبرها له بأن النبي صلى الله عليه وسلم - المنتظر قد أظل زمانه، اتبعه وتكون أسعد الناس به، فلما دعاه رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يتوقف. (سبل الہدی والرشاد، ج2،ص303)
مدح صدیق اکبر بزبان حسان بن ثابت:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا ، سب سے پہلے کس نے اسلام قبول کیا ؟ آپ نے فرمایا ، کیا تم نے حضرت حسان کے یہ اشعار نہیں سنے:
إذا تذكرت شجواً من أخي ثقةٍ ... فاذكر أخاك أبا بكرٍ بما فعلا
خير البرية أتقاها وأعدلها ... بعد النبي وأوفاها بما حملا
والثاني التالي المحمود مشهده ... وأول الناس ممن صدق الرسل
جب تم اپنے سچے بھائی کے دکھ دردکویاد کرنے لگو تواپنے بھائی ابوبکر کے کارناموں کو یاد کرلینا،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد تمام مخلوق میں سب سے بہتر ، سب سے زیادہ متقی اور عادل ہیں ۔آپ حقوق وذمہ داریوں کونبھانے میں سب سے زیادہ وفادار ہیں، آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یار غار ، آپ کے تابع ، ہمیشہ ساتھ رہنے والے اور ممدوح ومرجع خلائق ہیں، آپ ہی وہ پہلے شخص ہیں؛جنہوں نے سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کی ۔(الاستیعاب ،ج1،ص294، زرقانی،ج1،ص445)
آخری مصرع میں آپ کی اسلام میں اولیت کی زبردست شہادت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اسے بیان کرنے اور آپ کے سماعت فرمانے سے اس کی ثقاہت واہمیت محتاج بیان نہیں۔اس کے علاوہ مزید دو اشعار درج ذیل ہیں:
والثاني اثنين في الغار المنيف وقد ... طاف العدو به إذ صعدوا الجبلا
وكان حب رسول الله قد علموا ... خير البرية لم يعدل به رجلا
اس بلند پہاڑ پر واقع غار میں دو معزز شخصیات میں سے دوسرے آپ ہی تھے ؛ جب پہاڑی پر چڑھنے کے بعددشمن غار کے اردگر د منڈلانے لگے ۔
آپ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ہیں، سب کو معلوم ہے کہ آپ تمام مخلوق میں (انبیاء کے بعد) سب سے بہتر ہیں اور کوئی بھی ان کے برابر نہیں ۔(الاستیعاب،ج۱،ص295)
مصدق اول:
حضرت ابولدردار ضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان الله بعثنی اليکم فقلتم : کذبت ،وقال ابوبکر: صدق۔ (صحیح بخاری،ج1،ص517،حدیث نمبر:3261)
ترجمه :اللہ تعالی نے مجھے تم سب کی طرف مبعوث فرمایا تو سب نے میری تکذیب کی ، جب کہ ابوبکر نے میری تصدیق کی ۔
وفات
آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں 22! جمادی الاخری 13ھ میں وفات پائی، اُ س وقت آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی ۔ آپ کو حجره ٴمبارک کے اندر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپہلومیں دفن کیا گیا۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے صحابی، انتہائی قریبی ساتھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر بھی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا یو م وصال22 جمادی الثانی کو ہوا۔

اعلان نبوت کو تیرہ سال گزر چکے تھے کہ بارگاہ ایزدی سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دیرینہ دوست سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہو ئے اور انہیں لے کر مدینہ منورہ کی طرف رخت سفر باندھا۔ ادھر ابوجہل اور اس کے آلہ کار سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کی تلاش میں مختلف لوگوں کو بھیجتے ہیں۔ ابو جہل خود بھی چند ساتھیوں کے ساتھ کھوجی لے کر سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدالصحابہ رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلتا ہے۔ کھوجی قدموں کی نشانات دیکھتے دیکھتے پتھریلی زمین پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں تک تو وہ دونوں آئے ہیں، مگر اس کے بعد آگے ایک ہی شخص گیا ہے۔ ابو جہل چیخ اٹھا کہ کیا تمہیں رستہ نہیں نظر آرہا؟ دیکھتے نہیں کہ راستہ پتھریلا ہے، ضرور ابوبکررضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھی محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا ہوگا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ نو عمری سے ہی ایک دوسرے کے رفیق تھے۔ سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کو اپنے پیارے دوست پر اتنا اعتماد تھا کہ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سب سے پہلے سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بغیر کسی دلیل کا مطالبہ کیے حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور سب سے پہلے صحابی و امتی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، اقتداء و پیروی میں رنگ لیا تھا۔

ہجرت مدینہ کے سفر میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے تین دن تک قیام فرمایا۔ ایک موقع پر ابوجہل اور اس کے حواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے غار کے منہ پر آ کھڑے ہوئے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ غمگین ہوئے کہ کہیں یہ کافر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوست کی اس پریشانی کو بھانپ گئے اور فرمایا کہ غم نہ کرو اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ اﷲ رب العزت کی قدرت کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غار میں داخل ہونے کے بعد ایک کبوتری نے غار میں داخل ہونے والی جگہ پر گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے دیے اور ایک مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بن ڈالا۔ یہ دیکھ کر ابو جہل اور اس کے گماشتے مایوس ہو کر لوٹ گئے۔ ہجرت مدینہ کے اس جان لیوا اور دشوار گزار و پرخطر سفر کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی فرمایا ہے۔

حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ساری زندگی گزاری۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی پوری زندگی اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں گزاری۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام کی ابتداء میں انتہائی سخت حالات کو بڑی ہمت سے برداشت کیا اور اپنا سب کچھ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر و حضر، قیام و طعام، جہاد و حج حتیٰ کہ قبر مبارک کے ساتھی بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر غزوہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم قدم رہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وہ واحد صحابی ہیں کہ جن کی چار پشتیں صحابی تھیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس جاں نثار صحابی پر اتنا اعتماد تھا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ مسجد کی طرف راستوں پر جو دروازے ہیں، ان کی طرف دیکھو ! حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دروازہ کے علاوہ باقی سب دروازے بند کر دو، مجھے ان کے دروازہ پر نور نظر آرہا ہے۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو واضح ہو گا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور جناب ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ اسی طرح بیماری کا عرصہ بھی ایک ہی تھا۔ سیدنا ابوبکررضی اللہ عنہ کے بعد سیدناعمررضی اللہ عنہ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کی تدفین بھی اس جگہ ہوئی، جسے جنت کا ٹکڑا قرار دیا گیا۔

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نیکی کے کام میں ہمیشہ پہل کیا کرتے تھے۔ ایک موقع پر نبی علیہ السلام نے اﷲ کی راہ میں مال قربان کرنے کا حکم فرمایا تو سیدناعمررضی اللہ عنہ نے سوچا کہ آج میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مال دے کر ان سے نیکی میں سبقت لے جاؤں گا۔ لہٰذا سیدنا عمررضی اللہ عنہ اپنے گھر کا آدھا مال بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں لا کر پیش کرتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استفسار فرماتے ہیں کہ کتنا لائے؟ تو جناب عمر رضی اللہ عنہ گویا ہوئے کہ آدھا مال لے آیا ہوں اور آدھا گھر چھوڑ آیا ہوں۔ اسی اثناء میں سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لا کر آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کرتے ہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے ہیں کہ گھر کے لیے کیا چھوڑا، تو سیدناابوبکررضی اللہ عنہ جواب دیتے ہیں کہ گھر کے لیے تو اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ آیا ہوں۔ اس موقع پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی نیکی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ نہیں سکتا۔

اپنی خلافت کے دور میں منکرین زکوٰۃ، مرتدین، منکرین ختم نبوت کے خلاف انتہائی جواں مردی اور جرأت سے علم جہاد بلند کیا اور ہر محاذ پر فتح حاصل کی۔ کئی قرآنی وعدے بھی خلافت صدیقی میں پورے ہوئے۔ ساری عمر بیت المال سے اتنا وظیفہ لیا جتنی رقم میں مدینہ کے ایک مزدور کا گزارہ ہوتا تھا، اور ارشاد فرمایا، اگر اس میں میرا گزارہ نہ ہوا تو میں مزدور کی مزدوری بڑھا دوں گا۔
 
شمولیت
دسمبر 22، 2013
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
115
پوائنٹ
49
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ !!!



عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ صَائِمًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ تَبِعَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مِسْكِينًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. قَالَ « فَمَنْ عَادَ مِنْكُمُ الْيَوْمَ مَرِيضًا ». قَالَ أَبُو بَكْرٍ رضى الله عنه أَنَا. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَا اجْتَمَعْنَ فِى امْرِئٍ إِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ »

﴿صحیح مسلم2421﴾


6448 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں6448 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
جزاکم اللہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
آپ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں 22! جمادی الاخری 13ھ میں وفات پائی، اُ س وقت آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی ۔ آپ کو حجره ٴمبارک کے اندر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپہلومیں دفن کیا گیا۔
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب!!!
خط کشیدہ الفاظ کی وضاحت فرما دیں کہ ایسا کیوں کیا گیا. یہ کسی نے اعتراض کیا ھے.
 
Top