• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا اپنے دانت توڑنا :

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
٦-اویس فارسی کا لفظ ہے جس کے معنی "بھیڑیا کے ہیں" اور قرن کے معنی "پہاڑی" کے ہیں - اویس قرنی یعنی "پہاڑی بھیڑیا" - کیا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کو الله نے جب ان کے بارے میں خبر دی - تو آپ صل الله علیہ وسلم نے حضرت علی رضی الله عنہ اور حضرت عمر رضی الله عنہ سے یہ کیوں نہ فرمایا کہ ان سے کہنا کہ اپنا نام تبدیل کر لیں - نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم جب بھی کسی ایسے انسان کا نام سنتے جس میں یا تو شرک کی آمیزش ہوتی یا وہ جانوروں کے معنی پر ہوتا تو آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم خود ہی اس کی تبدیل کردیتے تھے (احادیث نبوی میں اس کی متعدد مثالیں ہیں)
یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ان تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام تبدیل کر دئیے تھے، جن کے نام جانوروں کے نام پر تھے؟؟؟!!

سید الشہداء سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام آپ نے تبدیل نہیں کیا حالانکہ حمزہ کا معنیٰ شیر ہوتا ہے۔ دیکھئے:
http://www.almaany.com/home.php?language=arabic&word=حمزة&cat_group=1&lang_name=عربي&type_word=0&dspl=0

اس کی دیگر مثالیں بھی ہیں، آپ کہیں گے تو دے دوں گا۔

تو کیا اس بناء پر سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے وجود سے بھی انکار کر دیا جائے؟؟!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
٧-امام بخاری رح نے اویس قرنی رح کو فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے قرار دیا] - اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ قابل اعتماد نہ ہو -تو پھر ایسے شخص سے امّت کی شفاعت کی دعا کروانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے -
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول صرف ایک روایت کے بارے میں ہے نہ کہ سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ سے متعلق تمام احادیث مبارکہ کے متعلق! پہلے آپ یہ ثابت کریں کہ امام صاحب نے یہ بات سیدنا اویس قرنی کے وجود کے متعلق کہی ہے تو اس پر بات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
٧-اویس قرنی رح زندگی میں اپنی والدہ کی خدمت کی وجہ سے کبھی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم سے ملاقات کے لئےمدینہ نہیں آئے - جب کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا حال یہ تھا کہ اپنے ماں باپ کو نبی کریم صل الله علیہ و لہ وسلم کی ذات پر قربان کردیتے تھے-اویس قرنی رح اگر چاہتے تو کسی کو والدہ کی خبر گیری کے لئے چھوڑ کر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو سکتے تھے یا خط و کتابت کر سکتے تھے-لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا - یہ ان کی نبی کریم سے کیسی محبّت تھی ؟؟
محترم بھائی! یہی بات تو جہاد کے متعلق بھی قرآن کریم میں ہے، دیکھئے:
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّـهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ٢٤ ۔۔۔ سورة التوبة
آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکےاور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وه تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وه حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راه میں جہاد سے بھی زیاده عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے۔ اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا (24)
اور صحیح احادیث مبارکہ میں موجود ہے کہ اگر انسان کی نیت جہاد کی ہو لیکن اس کے ماں باپ بوڑھے ہوں تو ان کی خدمت کرنا ہی جہاد ہے، مثلاً
1 - جاء رجلٌ إلى النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فاستأذنهُ في الجهاد، فقال : ( أحَيٌّ والِداكَ ) . قال : نعم، قال : ( فَفِيهِما فَجاهِدْ ) .
الراوي: عبدالله بن عمرو المحدث: البخاري - المصدر: صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3004

اب بتائیے اس حدیث مبارکہ پر کیا حکم لگائیں گے؟؟!!
بالکل اسی طرح اگر کسی شخص کی نیت نبی کریمﷺ کی طرف ہجرت کرنا، آپ کی خدمت میں حاضر ہونا ہو، لیکن وہ اپنی ماں کی خدمت کی وجہ سے نہ آسکے تو یہ بالکل جائز (بلکہ مستحب) امر ہے۔ اسی کی تعریف نبی کریمﷺ نے فرمائی ہے اور اسی وجہ سے سیدنا اویس قرنی رحمہ اللہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔

واللہ اعلم!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
الغرض یہ وہ حقائق ہیں جن کی بنا پر کچھ علماء و مجتہدین نے ان کے مجہول ہونے پر دلالت کی ہے -کہ اس نام کے کسی شخص کا کی وجود تھا یا نہیں - اس معاملے میں مسلم کی روایت کو بھی جس میں اویس قرنی رح کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے اس کا بغور جائزہ لینا چاہیے - اور اس کی اسناد پر تحقیق کرنا ضروری ہے - (واللہ اعلم)-
نوٹ : میری یہ تحقیق حتمی نہیں - ممبران جو اس بارے میں علم رکھتے ہیں سے گزارش ہے کہ اس پر اپنا علمی موقف و تحقیق پیش کریں -
الله آپ سب کو جزاے خیر عطا کرے (آمین)-
ان حقائق کا پول تو اوپر کی پوسٹس میں کھول دیا گیا ہے۔

جہاں تک صحیح مسلم کی اس حدیث کی سند کی نئے سرے کی تحقیق کی بات ہے تو شوق سے کیجئے اور کوئی قابل اعتراض بات نظر آئے تو ہمیں بھی بتائیے۔

صحیح بخاری وصحیح مسلم کی تمام احادیث مبارکہ کی اسناد کو پوری امت نے بار بار پرکھ کر دیکھا، جانچا، تولا۔ بعض محدثین نے وقتی طور پر اعتراض کیا، دیگر محدثین نے جواب دیا۔ اور اس سارے محنت کے بعد پوری امت کیلئے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ صحیحین میں موجود تمام احادیث مبارکہ صحیح ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے درج ذیل کتاب اور اگر وقت کم ہو تو اس آرٹیکل کا بغور مطالعہ کیجئے!
http://kitabosunnat.com/kutub-library/ahades-e-sahi-bukhari-o-muslim-ko-mazhabi-dastanain-banane-ki-nakam-koshash.html

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-صحیحین-کی-صحت-پر-اجماع-ہے؟.776/

اگر کوئی بات نا گوار گزری ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔
جب بھی حدیث مبارکہ کا استخفاف اور صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ احادیث مبارکہ پر کوئی شخص اعتراض کرے تو خون کھولتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ان حقائق کا پول تو اوپر کی پوسٹس میں کھول دیا گیا ہے۔

جہاں تک صحیح مسلم کی اس حدیث کی سند کی نئے سرے کی تحقیق کی بات ہے تو شوق سے کیجئے اور کوئی قابل اعتراض بات نظر آئے تو ہمیں بھی بتائیے۔

صحیح بخاری وصحیح مسلم کی تمام احادیث مبارکہ کی اسناد کو پوری امت نے بار بار پرکھ کر دیکھا، جانچا، تولا۔ بعض محدثین نے وقتی طور پر اعتراض کیا، دیگر محدثین نے جواب دیا۔ اور اس سارے محنت کے بعد پوری امت کیلئے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ صحیحین میں موجود تمام احادیث مبارکہ صحیح ہیں۔ مزید تفصیل کیلئے درج ذیل کتاب اور اگر وقت کم ہو تو اس آرٹیکل کا بغور مطالعہ کیجئے!
http://kitabosunnat.com/kutub-library/ahades-e-sahi-bukhari-o-muslim-ko-mazhabi-dastanain-banane-ki-nakam-koshash.html

http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-صحیحین-کی-صحت-پر-اجماع-ہے؟.776/

اگر کوئی بات نا گوار گزری ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔
جب بھی حدیث مبارکہ کا استخفاف اور صحیح بخاری ومسلم کی متفق علیہ احادیث مبارکہ پر کوئی شخص اعتراض کرے تو خون کھولتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں اور ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!

السلام و علیکم و رحمت الله-

محترم انس بھائی - آپ کے جوابات کا بہت شکریہ - یہ اشکالات تھے جو میں میں نے بیان کیے تھے (میری حتمی راے نہیں تھی) تاکہ کوئی صاحب علم ان کا جواب دے اور آپ نے کافی حد تک تسلی بخش جوابات سے نوازا -

محترم میں کیسے صحیحین کی روایات پر شک کر سکتا ہوں جب کہ میرے نزدیک صحیحین کی روایات قرآن کے بعد دین پر عمل کے لئے بنیاد ہیں -

لیکن محترم کبھی کبھی کسی صحیح روایات کو سمجھنے میں غلطی بھی تو ہو سکتی ہے - مثال کے طور پر یہ حدیث کہ :

( من کنت مولاہ فعلی مولاہ : علماء کی اکثریت اس کو صحیح بھی مانتی ہے -اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے معنی میں عرصہ دراز سے اہل سنّت اور رافضیوں میں اختلاف چلا آ رہا ہے کہ مولا سے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی کیا مراد تھی ؟؟ - کوئی اس کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے مراد مشکل کشا ہے - کوئی اس سے دوست لیتا ہے - کوئی خادم لیتا ہے- تو کوئی کچھ تو کوئی کچھ - اور اس روایت کے غلط معنی اخذ کرنے کی بنا پر ایک پورا فرقہ وجود میں آ گیا -

اسی طرح وہ حدیث جس میں ذکر ہے کہ :اگر علم ثریا ستارے پر ہو گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو توڑ کر لے آئیں گے - تو احناف بلکہ احناف تو کیا قرون اولیٰ کےاکثر اہل علم تک اس سے مراد امام ابو حنیفہ کی ہستی کو سمجھتے ہیں -

اور یہی حال "اویس قرنی" والی روایت کا ہے جس کی بنیاد پر صوفیا کی جماعت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو مقام (فنعوزباللہ ) اویس قرنی کا ہے وہ صحابہ کرام رضوان الله اجمععین کا بھی نہیں - کیوں کہ الله کے نبی نے شفاعت کے لئے ان کا نام لے کر ان اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ ان سے امّت کی شفاعت کی دعا کرواؤ (اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قیامت کے دن مومن گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے ) - لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شمار جاں نثار صحابہ کرام نبی کریم کے دور میں موجود تھے -لیکن آپ صل الله علیہ وسلم نے خصوصی طور پر کسی صحابی کا نام لے کر ان سے شفاعت کی دعا کے بارے میں نہیں فرمایا - جو اویس قرنی جو کہ ایک تابعی ہیں ان کے بارے میں فرمایا -

اور ایسی مثالیں علی ہجویری کی کشف المہجوب اور غزالی کی الاحیاءالعلوم میں بکثرت ملتی ہیں -

ویسے یہ بھی ایک تحقیق ہے کہ جن روایت میں ان اویس قرنی کا نام آیا ہے وہ ضعیف ہیں : ممکن ہے مسلم کی روایت میں ان کا نام اجتہادی طور پر شامل کیا گیا ہو -یعنی صحیح روایت میں ان کا نام نہ ہو بلکہ ایک شخصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہو- یہ لنک بھی ملاحضہ کریں:

اس لنک میں ہے کہ :
ان کے مناقب کے بارےان کا نام لے کر جو روایات مروی ہیں وہ ضعیف یا موضوع ہیں۔ بعض اہل علم مثلا امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے بعض عمومی اور صحیح روایات کو ان کے مناقب کی بنیاد بنایا ہے۔جمہور اہل علم کے نزدیک ان کی شہادت٣٧ھ میں جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شرکت کے دوران ہوئی۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/175/9/

الله آپ کو جزا ے خیر عطا کرے (آمین)-
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام و علیکم و رحمت الله-

محترم انس بھائی - آپ کے جوابات کا بہت شکریہ - یہ اشکالات تھے جو میں میں نے بیان کیے تھے (میری حتمی راے نہیں تھی) تاکہ کوئی صاحب علم ان کا جواب دے اور آپ نے کافی حد تک تسلی بخش جوابات سے نوازا -

محترم میں کیسے صحیحین کی روایات پر شک کر سکتا ہوں جب کہ میرے نزدیک صحیحین کی روایات قرآن کے بعد دین پر عمل کے لئے بنیاد ہیں -
جزاکم اللہ خیرا!

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ۔۔۔

لیکن محترم کبھی کبھی کسی صحیح روایات کو سمجھنے میں غلطی بھی تو ہو سکتی ہے - مثال کے طور پر یہ حدیث کہ :

( من کنت مولاہ فعلی مولاہ : علماء کی اکثریت اس کو صحیح بھی مانتی ہے -اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جائے تو بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے معنی میں عرصہ دراز سے اہل سنّت اور رافضیوں میں اختلاف چلا آ رہا ہے کہ مولا سے نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی کیا مراد تھی ؟؟ - کوئی اس کے بارے میں کہتا ہے کہ اس سے مراد مشکل کشا ہے - کوئی اس سے دوست لیتا ہے - کوئی خادم لیتا ہے- تو کوئی کچھ تو کوئی کچھ - اور اس روایت کے غلط معنی اخذ کرنے کی بنا پر ایک پورا فرقہ وجود میں آ گیا -

اسی طرح وہ حدیث جس میں ذکر ہے کہ :اگر علم ثریا ستارے پر ہو گا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو توڑ کر لے آئیں گے - تو احناف بلکہ احناف تو کیا قرون اولیٰ کےاکثر اہل علم تک اس سے مراد امام ابو حنیفہ کی ہستی کو سمجھتے ہیں -

اور یہی حال "اویس قرنی" والی روایت کا ہے جس کی بنیاد پر صوفیا کی جماعت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو مقام (فنعوزباللہ ) اویس قرنی کا ہے وہ صحابہ کرام رضوان الله اجمععین کا بھی نہیں - کیوں کہ الله کے نبی نے شفاعت کے لئے ان کا نام لے کر ان اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ ان سے امّت کی شفاعت کی دعا کرواؤ (اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قیامت کے دن مومن گناہ گاروں کی شفاعت کریں گے ) - لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بے شمار جاں نثار صحابہ کرام نبی کریم کے دور میں موجود تھے -لیکن آپ صل الله علیہ وسلم نے خصوصی طور پر کسی صحابی کا نام لے کر ان سے شفاعت کی دعا کے بارے میں نہیں فرمایا - جو اویس قرنی جو کہ ایک تابعی ہیں ان کے بارے میں فرمایا -

اور ایسی مثالیں علی ہجویری کی کشف المہجوب اور غزالی کی الاحیاءالعلوم میں بکثرت ملتی ہیں -
مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ صحیحین کی احادیث مبارکہ کی صحت کے باوجود ان کے مفہوم میں علماء کے مابین اجتہادی اختلاف ہو سکتا ہے۔ بلکہ صحیحین تو چھوڑئیے قرآن کریم کی آیات کے مفہوم میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوا ہے۔

لیکن!

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت کریمہ یا صحیح حدیث مبارکہ کے مفہوم میں اختلاف ہو اس آیت وحدیث کو ہی مشکوک قرار دے کر رد کر دیا جائے؟؟؟

یا

پھر اس غلط لیے گئے مفہوم کو ردّ کرنا چاہئے؟؟!!

آپ پہلی بات پر عمل پیرا ہیں اور میں دوسری بات کا قائل ہوں۔

آپ نے سیدنا اویس قرنی کے متعلق مشہور غیر مستند باتوں کو بنیاد بنا کر سیدنا اویس قرنی کے وجود کو ہی مشکوک قرار دے دیا جو صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ (گویا یہ صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ کا رد ہوا) جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ سیدنا اویس قرنی کے وجود کا انکار کرنے کی بجائے ان کے متعلق موجود غیر مستند باتوں (جو ضعیف وموضوع احادیث میں موجود ہیں) کو ردّ کیا جائے۔

اسی بات کو آپ کی ہی دی گئی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

آپ نے حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا تذکرہ کیا۔ آپ کو تسلیم ہے کہ یہ حدیث اکثر علماء کے نزدیک صحیح ہے۔ البتہ شیعہ اس کا جو غلط مفہوم لیتے اور سیدنا علیؓ کو اس معنی میں مولا قرار دیتے ہیں جس معنی میں اللہ کو مولا کہا جاتا ہے۔

اب دو طریقے ہیں یا تو شیعوں کے غلط استدلال کی وجہ سے اس حدیث کا ہی رد کر دیا جائے۔ یا حدیث کو سند کی بناء پر صحیح قرار دیا جائے اور شیعوں کے غلط استدلال کا ردّ کیا جائے۔

یہ بات تو آپ بھی مانیں گے کہ دوسرا طریقہ درست ہے۔ ورنہ یہی لفظ ’مولیٰ‘ قرآن کریم میں غیر اللہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے، شیعہ اس سے غلط استدلال کریں تو کیا ہم قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بھی انکار کر دیں گے؟؟؟!!

اب آپ یا تو سیدنا اویس قرنی سے شفاعت کرانے والی حدیث کو سند کی بنا پر ضعیف ثابت کریں۔ ورنہ اگر آپ اپنی ناقص رائے سے اسے ضعیف قرار دینے لگیں گے خواہ وہ باعتبار سند درست ہی کیوں نہ ہو تو یہ تو اللہ کی بات کو اپنی ناقص عقل کی بناء پر رد کرنے کے مترادف ہوگا، جو کفر ہے۔ والعیاذ باللہ!

ویسے یہ بھی ایک تحقیق ہے کہ جن روایت میں ان اویس قرنی کا نام آیا ہے وہ ضعیف ہیں : ممکن ہے مسلم کی روایت میں ان کا نام اجتہادی طور پر شامل کیا گیا ہو -یعنی صحیح روایت میں ان کا نام نہ ہو بلکہ ایک شخصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہو- یہ لنک بھی ملاحظہ کریں:

اس لنک میں ہے کہ :
ان کے مناقب کے بارےان کا نام لے کر جو روایات مروی ہیں وہ ضعیف یا موضوع ہیں۔ بعض اہل علم مثلا امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے بعض عمومی اور صحیح روایات کو ان کے مناقب کی بنیاد بنایا ہے۔جمہور اہل علم کے نزدیک ان کی شہادت٣٧ھ میں جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شرکت کے دوران ہوئی۔

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/175/9/

الله آپ کو جزا ے خیر عطا کرے (آمین)-
اگر صحیح مسلم کی اس روایت یا دیگر روایات میں ہم اس قسم کے احتمالات پیش کرتے رہے تو نہ کبھی کسی آیت کریمہ سے استدلال ممکن ہو سکے گا نہ ہی کسی حدیث مبارکہ سے۔ جب بھی کوئی سنی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب کسی صحیح حدیث مبارکہ سے بیان کرے گا تو شیعہ کہے گا کہ ممکن ہے اس صحیح روایت میں ان کا نام اجتہادی طور پر شامل کیا گیا ہو۔ تو اسے کیا جواب دیا جائے گا؟؟؟

جہاں تک آپ نے محدث فتویٰ سے فتویٰ پیش کیا ہے۔ تو میں مکمل فتویٰ کاپی پیسٹ کر دیتا ہوں اسی میں آپ کے اشکال کا جواب بھی موجود ہے:


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مہربانی فرما کر بتائیے کہ اویس قرنی کون ہیں۔؟ بریلوی تو کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم کو دیکھا تو نہیں تھا، لیکن پھر بھی انہیں صحابی کہا جاتا ہے، اس بارے میں حقیقت واضح کریں۔ ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے لیکن والدہ کی خدمت کی وجہ سے آپ سے ملاقات نہ کر سکے۔ بلاشبہ اویس قرنی رحمہ اللہ کا شمار تابعین کے سرداروں میں ہوتا ہے، بہت ہی متقی ، پرہیزگار اور صالح مومن تھے۔ ان کے مناقب کے بارےان کا نام لے کر جو روایات مروی ہیں وہ ضعیف یا موضوع ہیں۔ بعض اہل علم مثلا امام حسن بصری رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ نے بعض عمومی اور صحیح روایات کو ان کے مناقب کی بنیاد بنایا ہے۔ جمہور اہل علم کے نزدیک ان کی شہادت٣٧ھ میں جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے شرکت کے دوران ہوئی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
گویا مفتی صاحب بھی آپ کے برخلاف سیدنا اویس قرنی کے وجود (صحیح احادیث کی بناء پر) کو مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ان کے متعلق موجود ضعیف وموضوع احادیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ان میں موجود ان کے مناقب کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
جزاکم اللہ خیرا!

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ۔۔۔


مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ صحیحین کی احادیث مبارکہ کی صحت کے باوجود ان کے مفہوم میں علماء کے مابین اجتہادی اختلاف ہو سکتا ہے۔ بلکہ صحیحین تو چھوڑئیے قرآن کریم کی آیات کے مفہوم میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوا ہے۔

لیکن!

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت کریمہ یا صحیح حدیث مبارکہ کے مفہوم میں اختلاف ہو اس آیت وحدیث کو ہی مشکوک قرار دے کر رد کر دیا جائے؟؟؟

یا

پھر اس غلط لیے گئے مفہوم کو ردّ کرنا چاہئے؟؟!!

آپ پہلی بات پر عمل پیرا ہیں اور میں دوسری بات کا قائل ہوں۔

آپ نے سیدنا اویس قرنی کے متعلق مشہور غیر مستند باتوں کو بنیاد بنا کر سیدنا اویس قرنی کے وجود کو ہی مشکوک قرار دے دیا جو صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ (گویا یہ صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ کا رد ہوا) جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ سیدنا اویس قرنی کے وجود کا انکار کرنے کی بجائے ان کے متعلق موجود غیر مستند باتوں (جو ضعیف وموضوع احادیث میں موجود ہیں) کو ردّ کیا جائے۔

اسی بات کو آپ کی ہی دی گئی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:

آپ نے حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا تذکرہ کیا۔ آپ کو تسلیم ہے کہ یہ حدیث اکثر علماء کے نزدیک صحیح ہے۔ البتہ شیعہ اس کا جو غلط مفہوم لیتے اور سیدنا علیؓ کو اس معنی میں مولا قرار دیتے ہیں جس معنی میں اللہ کو مولا کہا جاتا ہے۔

اب دو طریقے ہیں یا تو شیعوں کے غلط استدلال کی وجہ سے اس حدیث کا ہی رد کر دیا جائے۔ یا حدیث کو سند کی بناء پر صحیح قرار دیا جائے اور شیعوں کے غلط استدلال کا ردّ کیا جائے۔

یہ بات تو آپ بھی مانیں گے کہ دوسرا طریقہ درست ہے۔ ورنہ یہی لفظ ’مولیٰ‘ قرآن کریم میں غیر اللہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے، شیعہ اس سے غلط استدلال کریں تو کیا ہم قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بھی انکار کر دیں گے؟؟؟!!

اب آپ یا تو سیدنا اویس قرنی سے شفاعت کرانے والی حدیث کو سند کی بنا پر ضعیف ثابت کریں۔ ورنہ اگر آپ اپنی ناقص رائے سے اسے ضعیف قرار دینے لگیں گے خواہ وہ باعتبار سند درست ہی کیوں نہ ہو تو یہ تو اللہ کی بات کو اپنی ناقص عقل کی بناء پر رد کرنے کے مترادف ہوگا، جو کفر ہے۔ والعیاذ باللہ!


اگر صحیح مسلم کی اس روایت یا دیگر روایات میں ہم اس قسم کے احتمالات پیش کرتے رہے تو نہ کبھی کسی آیت کریمہ سے استدلال ممکن ہو سکے گا نہ ہی کسی حدیث مبارکہ سے۔ جب بھی کوئی سنی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب کسی صحیح حدیث مبارکہ سے بیان کرے گا تو شیعہ کہے گا کہ ممکن ہے اس صحیح روایت میں ان کا نام اجتہادی طور پر شامل کیا گیا ہو۔ تو اسے کیا جواب دیا جائے گا؟؟؟

جہاں تک آپ نے محدث فتویٰ سے فتویٰ پیش کیا ہے۔ تو میں مکمل فتویٰ کاپی پیسٹ کر دیتا ہوں اسی میں آپ کے اشکال کا جواب بھی موجود ہے:




گویا مفتی صاحب بھی آپ کے برخلاف سیدنا اویس قرنی کے وجود (صحیح احادیث کی بناء پر) کو مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ان کے متعلق موجود ضعیف وموضوع احادیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ان میں موجود ان کے مناقب کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
السلام و علیکم و رحمت الله-

محترم شیخ انس صاحب - آپ کے دلائل سے دیے گئے جوابات کا بہت شکریہ -

میں آپ کی بات سمجھ سکتا ہوں کہ کہ کسی صحیح حدیث نبوی کو اس بنا پر ضعیف قرار دینا یا اس کو مسترد کرنا کہ اس سے مخالف گروہ یا مسلک کے نظریات کو جلا ملتی ہے -کسی بھی طرح صحیح نہیں- جیسا کہ آپ نے من کنت مولاہ فعلی مولا کے بارے میں بیان کیا- لیکن میرے کہنے کا مطلب یہ بھی تھا کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کسی صحیح حدیث کے جزوی حصّہ کو بنیاد بنا کر جب اس کا غلط مطلب اخذ کیا جاتا ہے - تو اس میں ایک مجتہد کے لئے تحقیق ضروری ہوتی ہے تا کہ حق وباطل میں امتیاز کیا جاسکے-

یہ بات کہ اویس قرنی کا وجود اس دنیا میں تھا ایک حقیقت ہے یہ تو ثابت ہو گیا -

اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے-کہ احادیث نبوی میں تو کسی چیز کا ذکر نہیں ہوتا لیکن 'جمہور امّت' اس سے اپنے طریق پر معنی اخذ کر لیتی ہے -

مثال کے طور پر صحیحین میں امام مہدی رح کی قرب قیامت سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں - لیکن مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ "جب عیسی بن مریم علیہ سلام قرب قیامت دمشق کی ایک مسجد کے مینار پر نزول فرمائیں گے تو اس وقت عصر کی نماز کا وقت ہو گا - مسلمین عیسی بن مریم علیہ سلام سے امامت کی درخواست کریں گے جس پر عیسی بن مریم علیہ سلام فرمائیں گے کہ تم اپنے میں سے امام مقرر کرلو (یعنی وہ امّت محمدیہ میں سے ایک شخص کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے) -

اب اس حدیث کی شرح میں جمہور علماء (یہ ذہن میں رہے کہ صحابہ کرام کا موقف نہیں اس بارے میں) کا موقف ہے کہ جن کے پیچھے عیسی بن مریم علیہ سلام نماز ادا کریں گے وہ امام مہدی رح ہونگے - اب یہ ایک موقف ہے جب کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ وہ کون انسان ہے جس کے پیچھے عیسی بن مریم علیہ سلام نماز ادا کریں گے - اب اگر کوئی اس معاملے میں جمہور سے اختلاف کرتا ہے -کیوں کہ یہ ایک قیاس ہے- تو اس کے بارے میں کیا فتویٰ ہو گا- جب کہ اس معاملے کا براہ راست عقیدے سے بھی کوئی تعلق نہیں- کہ امامت کروانے والا کون ہو گا - اگر یہ نبی کریم کا فرمان ہوتا کہ وہ امام مہدی رح ہونگے تو یقینا اس کو ماننا ہم پر واجب ہوتا -

جب کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ : قرآن اور میری کہی ہوئی بات کو اس طرح سمجھو جیسے میں نے یا میرے صحابہ کرام نے سمجھا -

ایک بات اور کہ :آپ فرما رہے ہے کہ : اگر آپ اپنی ناقص رائے سے اسے ضعیف قرار دینے لگیں گے خواہ وہ باعتبار سند درست ہی کیوں نہ ہو تو یہ تو اللہ کی بات کو اپنی ناقص عقل کی بناء پر رد کرنے کے مترادف ہوگا، جو کفر ہے۔ والعیاذ باللہ!

جب کہ اس تھریڈ میں میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ امام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
(11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)

اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ امام بخاری رح (جو کہ چوٹی کے محدثین میں ہیں) ان کی جرح کو قابل قبول نہیں سمجھ رہے -کیا یہ ایک بڑی جسارت نہیں ؟؟

دوسری بات یہ کہ صحیح مسلم کی حدیث کو اگر غور سے پڑھیں - تو اس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے حضرت عمر راضی الله عنہ کو اپنی ذات کے لئے دعا کروانے کے لئے کہا - امّت کی شفاعت کا اس میں کہیں ذکر نہیں - کہیں بعد کے علماء نے اسے اپنے طرف سے تو نہیں گھڑ لیا ؟؟ اور یہی میرا منشاء جو میں پہلے آپ کو نہیں سمجھا سکا -

ملاحظہ ہو مسلم میں روایت کردہ حدیث نبوی :
ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم-
''تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں ، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس کے (جسم میں) سفیدی ہے ۔ اس سے کہو کہ تمہارے لیے دعا کرے ۔'' (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)

والسلام -
 

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
920
پوائنٹ
125
السلام علیکم و رحمت الله -
۔
امام بخاری نے "کتاب الضعفاء" میں میں حضرت اویس قرنی کو "فی اسنادہ نظر" [ان کی سند محل نظر ہے] کہد دیا ہے-
۔
امام بخاری نے ’’کتاب الضعفاء ‘‘ میں نہیں، ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں یہ بات کہی ہے۔
 
Top