جزاکم اللہ خیرا!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ۔۔۔
مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ صحیحین کی احادیث مبارکہ کی صحت کے باوجود ان کے مفہوم میں علماء کے مابین اجتہادی اختلاف ہو سکتا ہے۔ بلکہ صحیحین تو چھوڑئیے قرآن کریم کی آیات کے مفہوم میں بھی اختلاف ہو سکتا ہے اور ہوا ہے۔
لیکن!
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آیت کریمہ یا صحیح حدیث مبارکہ کے مفہوم میں اختلاف ہو اس آیت وحدیث کو ہی مشکوک قرار دے کر رد کر دیا جائے؟؟؟
یا
پھر اس غلط لیے گئے مفہوم کو ردّ کرنا چاہئے؟؟!!
آپ پہلی بات پر عمل پیرا ہیں اور میں دوسری بات کا قائل ہوں۔
آپ نے سیدنا اویس قرنی کے متعلق مشہور غیر مستند باتوں کو بنیاد بنا کر سیدنا اویس قرنی کے وجود کو ہی مشکوک قرار دے دیا جو صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ (گویا یہ صحیح مسلم کی احادیث مبارکہ کا رد ہوا) جبکہ میں کہہ رہا ہوں کہ سیدنا اویس قرنی کے وجود کا انکار کرنے کی بجائے ان کے متعلق موجود غیر مستند باتوں (جو ضعیف وموضوع احادیث میں موجود ہیں) کو ردّ کیا جائے۔
اسی بات کو آپ کی ہی دی گئی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
آپ نے حدیث: من كنت مولاه فعلي مولاه کا تذکرہ کیا۔ آپ کو تسلیم ہے کہ یہ حدیث اکثر علماء کے نزدیک صحیح ہے۔ البتہ شیعہ اس کا جو غلط مفہوم لیتے اور سیدنا علیؓ کو اس معنی میں مولا قرار دیتے ہیں جس معنی میں اللہ کو مولا کہا جاتا ہے۔
اب دو طریقے ہیں یا تو شیعوں کے غلط استدلال کی وجہ سے اس حدیث کا ہی رد کر دیا جائے۔ یا حدیث کو سند کی بناء پر صحیح قرار دیا جائے اور شیعوں کے غلط استدلال کا ردّ کیا جائے۔
یہ بات تو آپ بھی مانیں گے کہ دوسرا طریقہ درست ہے۔ ورنہ یہی لفظ ’مولیٰ‘ قرآن کریم میں غیر اللہ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے، شیعہ اس سے غلط استدلال کریں تو کیا ہم قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا بھی انکار کر دیں گے؟؟؟!!
اب آپ یا تو سیدنا اویس قرنی سے شفاعت کرانے والی حدیث کو سند کی بنا پر ضعیف ثابت کریں۔ ورنہ اگر آپ اپنی ناقص رائے سے اسے ضعیف قرار دینے لگیں گے خواہ وہ باعتبار سند درست ہی کیوں نہ ہو تو یہ تو اللہ کی بات کو اپنی ناقص عقل کی بناء پر رد کرنے کے مترادف ہوگا، جو کفر ہے۔ والعیاذ باللہ!
اگر صحیح مسلم کی اس روایت یا دیگر روایات میں ہم اس قسم کے احتمالات پیش کرتے رہے تو نہ کبھی کسی آیت کریمہ سے استدلال ممکن ہو سکے گا نہ ہی کسی حدیث مبارکہ سے۔ جب بھی کوئی سنی شخص سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مناقب کسی صحیح حدیث مبارکہ سے بیان کرے گا تو شیعہ کہے گا کہ ممکن ہے اس صحیح روایت میں ان کا نام اجتہادی طور پر شامل کیا گیا ہو۔ تو اسے کیا جواب دیا جائے گا؟؟؟
جہاں تک آپ نے محدث فتویٰ سے فتویٰ پیش کیا ہے۔ تو میں مکمل فتویٰ کاپی پیسٹ کر دیتا ہوں اسی میں آپ کے اشکال کا جواب بھی موجود ہے:
گویا مفتی صاحب بھی آپ کے برخلاف سیدنا اویس قرنی کے وجود (صحیح احادیث کی بناء پر) کو مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ ان کے متعلق موجود ضعیف وموضوع احادیث کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ان میں موجود ان کے مناقب کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں!
السلام و علیکم و رحمت الله-
محترم شیخ انس صاحب - آپ کے دلائل سے دیے گئے جوابات کا بہت شکریہ -
میں آپ کی بات سمجھ سکتا ہوں کہ کہ کسی صحیح حدیث نبوی کو اس بنا پر ضعیف قرار دینا یا اس کو مسترد کرنا کہ اس سے مخالف گروہ یا مسلک کے نظریات کو جلا ملتی ہے -کسی بھی طرح صحیح نہیں- جیسا کہ آپ نے
من کنت مولاہ فعلی مولا کے بارے میں بیان کیا- لیکن میرے کہنے کا مطلب یہ بھی تھا کہ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کسی صحیح حدیث کے جزوی حصّہ کو بنیاد بنا کر جب اس کا غلط مطلب اخذ کیا جاتا ہے - تو اس میں ایک مجتہد کے لئے تحقیق ضروری ہوتی ہے تا کہ حق وباطل میں امتیاز کیا جاسکے-
یہ بات کہ اویس قرنی کا وجود اس دنیا میں تھا ایک حقیقت ہے یہ تو ثابت ہو گیا -
اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے-کہ احادیث نبوی میں تو کسی چیز کا ذکر نہیں ہوتا لیکن 'جمہور امّت' اس سے اپنے طریق پر معنی اخذ کر لیتی ہے -
مثال کے طور پر صحیحین میں امام مہدی رح کی قرب قیامت سے متعلق کوئی روایت موجود نہیں - لیکن مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ "جب عیسی بن مریم علیہ سلام قرب قیامت دمشق کی ایک مسجد کے مینار پر نزول فرمائیں گے تو اس وقت عصر کی نماز کا وقت ہو گا - مسلمین عیسی بن مریم علیہ سلام سے امامت کی درخواست کریں گے جس پر عیسی بن مریم علیہ سلام فرمائیں گے کہ تم اپنے میں سے امام مقرر کرلو (یعنی وہ امّت محمدیہ میں سے ایک شخص کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے) -
اب اس حدیث کی شرح میں جمہور علماء (یہ ذہن میں رہے کہ صحابہ کرام کا موقف نہیں اس بارے میں) کا موقف ہے کہ جن کے پیچھے عیسی بن مریم علیہ سلام نماز ادا کریں گے وہ امام مہدی رح ہونگے - اب یہ ایک موقف ہے جب کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی تصریح نہیں فرمائی کہ وہ کون انسان ہے جس کے پیچھے عیسی بن مریم علیہ سلام نماز ادا کریں گے - اب اگر کوئی اس معاملے میں جمہور سے اختلاف کرتا ہے -کیوں کہ یہ ایک قیاس ہے- تو اس کے بارے میں کیا فتویٰ ہو گا- جب کہ اس معاملے کا براہ راست عقیدے سے بھی کوئی تعلق نہیں- کہ امامت کروانے والا کون ہو گا - اگر یہ نبی کریم کا فرمان ہوتا کہ وہ امام مہدی رح ہونگے تو یقینا اس کو ماننا ہم پر واجب ہوتا -
جب کہ نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ :
قرآن اور میری کہی ہوئی بات کو اس طرح سمجھو جیسے میں نے یا میرے صحابہ کرام نے سمجھا -
ایک بات اور کہ :آپ فرما رہے ہے کہ :
اگر آپ اپنی ناقص رائے سے اسے ضعیف قرار دینے لگیں گے خواہ وہ باعتبار سند درست ہی کیوں نہ ہو تو یہ تو اللہ کی بات کو اپنی ناقص عقل کی بناء پر رد کرنے کے مترادف ہوگا، جو کفر ہے۔ والعیاذ باللہ!
جب کہ اس تھریڈ میں میں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :
لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا کہنا ہے کہ :
اویس قرنی رحمہ اللہ والی روایت امام مسلم اور جمہور محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔ ا
مام بخاری کا اس پر جرح کرنا صحیح نہیں ہے۔
(11؍ ذوالقعدہ ۱۴۲۷ھ) [الحدیث:۲۲]
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، تالیف: حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ج۲،ص۲۷۸)
اس بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ لشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ
امام بخاری رح (جو کہ چوٹی کے محدثین میں ہیں) ان کی جرح کو قابل قبول نہیں سمجھ رہے -کیا یہ ایک بڑی جسارت نہیں ؟؟
دوسری بات یہ کہ صحیح مسلم کی حدیث کو اگر غور سے پڑھیں - تو اس میں نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے حضرت عمر راضی الله عنہ کو اپنی ذات کے لئے دعا کروانے کے لئے کہا - امّت کی شفاعت کا اس میں کہیں ذکر نہیں
- کہیں بعد کے علماء نے اسے اپنے طرف سے تو نہیں گھڑ لیا ؟؟ اور یہی میرا منشاء جو میں پہلے آپ کو نہیں سمجھا سکا -
ملاحظہ ہو مسلم میں روایت کردہ حدیث نبوی :
ان خیرالتابعین رجل یقال لہ أویس، ولہ والدۃ ، وکان بہ بیاض، فمروہ فلیستغفرلکم-
''تابعین میں سے بہترین انسان وہ شخص ہے جسے اویس کہتے ہیں ، اس کی والدہ (زندہ) ہے اور اس کے (جسم میں) سفیدی ہے ۔
اس سے کہو کہ تمہارے لیے دعا کرے ۔'' (صحیح مسلم ، کتاب فضائل الصحابہ ، باب من فضائل اویس قرنی ، ح۲۵۴۲وترقیم دارالسلام:۶۴۹۱)
والسلام -