ایک بھائی کا اقتباس
بعض شہادتوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ غالباََ انہوں نے زمانہ پایا ہے۔ جس کے دلائل و قرائن پیش ہیں:
یونس بن ابی اسحاق رحمہ اللہ کی ایک روایت حضرتِ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور موجود ہے۔ چنانچہ، امام ابو بکر الخطیبؒ (المتوفیٰ: ۴۶۳ھ) روایت کرتے ہیں:
أخبرني أبو عبد الله محمدبن عبد الواحد، قال: أخبرنا محمد بنإسماعيل الوراق، قال: حدثنا يحيى بن محمدبن صاعد، قال: حدثنا خلاد بن أسلم ورجاءبن المرجى السمرقندي، قالا: أخبرنا النضر بن شميل، قال: حدثنا یونس بن أبي إسحاق، عن زيد بن أرقم ۔۔۔۔۔۔۔
[تاریخ بغداد ط بشار، جلد ۹، صفحہ نمبر ۳۹۹]
اس روایت کو امام الذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں روایت کیا، وہ فرماتے ہیں:
هذا حديث حسن ، أخرجه أبو داود من حديث يونس بن أبي إسحاق
ترجمہ: یہ حدیث حسن ہے، اسے ابو داؤد نے یونس بن ابی اسحاق کی حدیث میں بیان کیا ہے۔
[سیر اعلام النبلاء ط الرسالہ، جلد ۸، صفحہ نمبر ۸۲]
اس روایت کو الدکتور بشاد عواد المعروف نے 'حسن' قرار دیا ہے۔ [تاریخ بغداد ط بشار، جلد ۹، صفحہ نمبر ۳۹۹]
حضرتِ زید بن الارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات سن ۶۲ھ یا سن ۶۳ھ وغیرہ میں ہوئی جبکہ شہادتِ حسینؓ کا واقعہ ۶۱ھ کا ہے۔ ادراک نہ صرف ممکن بلکہ غالب ہے۔
امام الذہبی رحمہ اللہ سے ابو داؤد کی روایت کی تخلیص میں غلطی ہوئی ہے- جس میں کہا ہے کہ "هذا حديث حسن"
ابو داؤد کی روایت میں یونس بن ابی اسحاق کے والد ابو اسحاق (المتوفی ١٢٧ ھ) کا واسطہ ہے - طبقات الکبریٰ از ابن سعد میں یونس بن ابو اسحاق کی وفات ١٥٢ ہجری لکھی ہے -صحابی رسول زید بن ارقم رضی الله عنہ کی سن وفات ٦٣ یا ٦٥ ہجری کے لگ بھگ ہے- اگر یونس بن ابی اسحاق کی عمر ٩٠ سال تسلیم کی جائے تو زید بن ارقم کی وفات کے وقت وہ کمسن بچہ تھا -
عن يونسَ بن أبي إسحاقَ، عن أبيه عن زيد بن أرقمَ،
(سنن ابو داود)-
روایت میں یونس بن ابی اسحاق کے والد ابو اسحاق کا واسطہ ہے
یونس بن ابی اسحاق کا براہ راست سماع زید بن ارقم سے ثابت نہیں ہے- نہ ہی انہوں نے حسین رضی الله عنہ کی شہادت کا زمانہ پایا -
لہذا ابن الجوزی رحم الله کی تحقیق ناقص ہے- سلیمان بن صرد سے متعلق یونس بن ابی اسحاق کی روایت منقطع ہے - تاریخ و حدیث کی کتب میں یونس کے والد سے سلیمان بن صرد کی بھی کوئی روایت براہ راست منقول نہیں -(واللہ اعلم)-
یاد رہے کہ امیر المومنین یزید بن معاویہ رحم الله کی تنقیص میں ابن الجوزی حنبلی کی تحاریر جذباتیت سے پر ہیں- اور ان میں حقائق پر مبنی روایات انتہائی مفقود (نہ ہونے کے برابر) ہیں- اس لئے یزید کے مخالفین اچھل اچھل کر ابن الجوزی کے حوالے دیتے ہیں - اس کے برعکس دوسرے آئمہ حنابلہ جیسے امام ابن تیمیہ ، ابن قیم، ابن ابی یعلی- امام ابن کثیر رحم الله وغیرہ کی راے یزید بن معاویہ و کربلا سے متعلق ہمیشہ متعدل رہی ہے-
ویسے بھی ایک صحابی رسول (سلیمان بن صرد) سے یہ بعید کرنا کہ وہ حسین کو خلافت یزید بن معاویہ کے خلاف اکسا کر ان کو کوفہ آنے کی دعوت دینگے اور پھر آخری لمحوں میں ان کا ساتھ چھوڑ کر فرار ہو جایئں گے-یہ ان کی عظمت کی توہین ہے- صحابہ کی تنقیص کے یہ رافضی کارنامے ہیں-
نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کا تو واضح فرمان ہے کہ ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی کو مصیبت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا- (متفق علیہ) -
تمام اصحاب رسول مومن ہیں