یہ تو واضح ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے خاص علم عطا ہوا تھا جس کی مدد سے انہوں نے جان لیا کہ یہ بچہ مستقبل میں کیسے کام کرے گا اور اللہ نے ہی اسے قتل کرنے کا حکم بذریعہ وحی دیا۔یہ تو ہوا خاص واقعہ۔
جتنے بھی احکام اترے ہیں بذریعہ وحی ہی اترے ہیں تو کیا سب کو خاص واقعہ کہہ کر رد کردیا جائے گا؟ میرے بھائی یہاں سے اصول لیا گیا ہے کہ جب کسی کے بار ے میں معلوم ہوجائے یہ اسلام کو نقصان پہنچا رہا ہے یا ارادہ رکھتا ہے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔
خضر علیہ السلام کو تو خاص علم سے معلوم ہوگیا ۔ اب اگر کسی کو عام علم سے معلوم ہوجائے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ فلاں بن یا بنت فلاں کفار کا مددگار اوراسلام کا دشمن ہے توکیا وہ ایسے شخص کو معاف کرنے کا اختیا ر رکھتا ہے ؟؟
جبکہ دوسری جانب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف کے رہنے والوں سے پتھر کھا کر بھی ان کے حق میں بددعا نہیں کرتے کہ شاید ان کی اولاد میں سے لوگ ایمان لے آئیں۔
سبحان اللہ ۔ اب یہاں آپ کیوں نہیں کہتے کہ یہ خاص واقعہ ہے ؟؟؟ جب کہ دیگر موقعوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے لیئے بددعا کرنا ثابت ہے ۔
تحریک طالبان پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ انہیں کوئی علمی قیادت بھی میسر نہیں۔
جناب کے نزدیک علمی قیادت کیا ہے ۔ کیا پاکستان میں جناب کے نزدیک اس وقت کوئی علمی قیادت موجود ہے ؟؟؟
ایسے عجیب و غریب دلائل سے مسلمان کے قتل جیسے بڑے واقعہ کو سپورٹ کر رہے ہوتے ہیں کہ عام شخص بھی حیران رہ جائے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میڈیا کے تحت ملالہ کے جتنے قصور گنوائے گئے ہیں، کیا وہ اس کو مرتد ٹھہرا کر قتل کر دینے کو کافی ہیں؟
ملا لہ کا جرم یہ تھا کہ وہ دہشت گردی کے نام پر فرعونِ وقت امریکہ کی بپا کردہ صلیبی جنگ میں، نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والے لوگوں کے خلاف حکومت پاکستان اور افواجِ پاکستان کی طرح، اپنی زبان اور قلم سے امریکہ کے لئے ہراول سپاہی کا کردار ادا کرہی تھی۔ ملالہ کا باپ بھی اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ اس نے بھی نفاذ شریعت کے لئے کھڑے ہونے والوں کے خلاف جرگہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگر کوئی اس حقیقت کا انکاری ہے تو اس کا ثبوت ملالہ کے حق میں طوفان بپا کرنے والے الیکٹرانک میڈیا سے ہی مل جائے گا۔
قرآن و سنت سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ جو شخص بھی شریعت کے نفاذ کے لئے کھڑے ہونے والے مسلمانوں کے خلاف یہود ونصاریٰ کا ساتھ دے، چاہے وہ زبان وقلم کے ذریعے ہو یا پھر لاجسٹک سپورٹ کے ذریعے ہو، وہ بااتفاق امت ”کافر ومرتد“ قرار پاتا ہے۔ اس کے جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اس کا حکم یہود نصاریٰ جیسے کافروں کا ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ} [المائدة : 51]
”اے اہل ایمان! یہود ونصارٰی کو دوست نہ بناؤ۔ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بے شک انہی میں سے ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہرگز ہدایت عطا نہیں فرماتا“۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
’’فَقَالَ تَعَالَى ذِكْرُهُ لِلْمُؤْمِنِينَ: فَكُونُوا أَنْتُمْ أَيْضًا بَعْضُكُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ, وَلِلْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ حَرْبًا كَمَا هُمْ لَكُمْحَرْبٌ,وَبَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَوْلِيَاءُ‘‘۔(تفسیر الطبری:۶/۶۷۲،۷۷۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ جو مسلمان اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو اور مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حمایتی، مددگار اور دوست بنائے گا تو اس کے نتیجے میں وہ ان یہودی اور عیسائی کافروں کی جماعت کا ہی فرد گردانا جائے گا‘‘۔
مشہور مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ سورۃ المائدۃ کی آیت51 کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قَوْلُهُ تَعَالَى: (وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ) أَيْ يَعْضُدْهُمْ عَلَى الْمُسْلِمِينَ (فَإِنَّهُ مِنْهُمْ) بَيَّنَ تَعَالَى أَنَّ حُكْمَهُ كَحُكْمِهِمْ‘‘ (تفسیر القرطبی:ج۶ص۷۱۲)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان (جو کوئی تم میں سے اُن کو دوست بنائے) کا مطلب ہے کہ جو شخص بھی مسلمانوں کے خلاف کافروں کو قوت، طاقت اور ہر طرح کی (لاجسٹک) مدد فراہم کرتا ہے تو (تو وہ اُن ہی میں سے ہے) یعنی وہ انہی میں سے شمارکیا جائے گا۔ گویا اللہ رب العزت نے بڑی وضاحت سے فرمادیا ہے کہ اس کے ساتھ وہی رویہ برتا جائے گا جو ان یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ برتا جائے گا‘‘۔
چنانچہ مفسر قرآن سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
((قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هُوَ مُشْرِكٌ مِثْلُهُمْ لِأَنَّ مَنْ رَضِیَ بِالشِّرْکِ فَھُوَ مُشْرِکٌ))
’’جوکسی کافر ومشرک سے دوستی کرے گا وہ ان کی طرح کا ہی مشرک ہوگا، اس لیے کہ جو شرک کو پسند کرتا ہے وہ بھی مشرک ہوتا ہے۔‘‘(تفسیر القرطبی:۸/۳۹-۴۹، تفسیر فتح القدیر للشوکانی:۱/۹۲۵)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ كَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ، فَهُوَ مِنْهُمْ، وَمِنْ رَضِيَ عَمَلَ قَوْمٍ كَانَ شَرِيكَ مَنْ عَمِلَ بِهِ)) (کنز العمال،ج: ۹،ص:۲۲،رقم:۵۳۷۴۲۔ مسند ابی یعلٰی،نصب الرایہ:۴/۶۴۳)
’’جو شخص کسی گروہ (میں شامل ہوکر ان) تعداد بڑھائے وہ اُن ہی میں سے ہے اور جو کسی گروہ کے عمل پر راضی رہے وہ ان کے عمل میں شریک ہے‘‘۔
دوسری طرف شریعت کے احکامات کا استہزاء اور مذاق اڑانے والوں کا حکم بھی سن لیجئے:
{وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ.لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ} (التوبة: 65-66)
’’اور اگر آپ ان (مذاق اڑانے والوں) سے پوچھیں کہ کیا باتیں کررہے تھے؟ تو کہہ دیں گے کہ ہم تو صرف مذاق اور دل لگی کررہے تھے۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تمہاری ہنسی اور دل لگی اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہوتی ہے۔ بہانے نہ بناؤ، تم فی الواقع ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو‘‘۔
امام النووی رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی شرح میں لکھا ہے کہ:
’’أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى الْعَمَلِ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَتَحْرِيمِ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ إِذَا لَمْ يُقَاتِلُوا فَإِنْ قَاتَلُوا قَالَ جَمَاهِيرُ الْعُلَمَاءِ يُقْتَلُونَ ‘‘ (شرح النووی،ج۶،ص۸۸۱ نمبر:۰۸۲۳)
’’علماء کا اس حدیث پر عمل کرنے اور عورتوں اور بچوں کے قتل کی حرمت پر اس صورت میں اجماع ہے کہ اگر وہ لڑائی نہ لڑیں۔ اگر وہ بھی لڑیں تو جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس صورت میں اُنہیں قتل کیا جائیگا‘‘۔
آپ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وكذلك كل من لم يكن من أهل القتال لا يحل قتله إلا إذا قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك. وتأمل قوله ” قاتل حقيقة أو معنى بالرأي والطاعة والتحريض وأشباه ذلك “‘‘ (شرح النووی علی مسلم ۷/۴۲۳)
’’اسی طرح ہر اُس شخص کا قتل کرنا حلال نہیں جو لڑائی کے اہل لوگوں میں سے نہ ہو ماسوائے اس کے کہ وہ حقیقت میں لڑے یا رائے دے کر اور (دشمن کی) اطاعت کرکے اور لڑائی پر دشمن کو برانگیختہ کرکے اور اسی قسم کے کسی دوسرے طریقے سے معنوی طور پر لڑائی میں حصہ لے‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ میں فرمایا کہ:
’’وأما من لم يكن من أهل الممانعة والمقاتلة كالنساء والصبيان والراهب والشيخ الكبير والأعمى والزمن ونحوهم فلا يقتل عند جمهور العلماء؛ إلا أن يقاتل بقوله أو فعله وإن كان بعضهم يرى إباحة قتل الجميع لمجرد الكفر؛ إلا النساء والصبيان؛ لكونهم مالا للمسلمين. والأول هو الصواب‘‘ (السیاسۃ الشرعیۃ ص:۲۳۱۔۳۳۱)
’’رہے وہ لوگ کہ جو جنگجوؤں اور لڑنے والوں میں شمار نہیں ہوتے جیسے عورتیں اور بچے اور راہب (پادری) اور بوڑھا شیخ اور دائمی نابینا اور ان جیسے دوسرے، تو جمہور علماء کے نزدیک اُنہیں قتل نہیں کیا جائے گا ماسوائے اس کے کہ وہ اپنے قول یافعل کیساتھ لڑتے ہیں‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درید بن الصمۃ کو قتل کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے، حالانکہ اس کی عمر ایک سو بیس سال تھی یا اس سے زیادہ تھی، اس لئے کے اُسے ہوازن قبیلے کے لشکر میں رائے دینے کے لئے لایا گیا تھا۔
اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید تحریر فرماتے ہیں:
’’وَالْمُحَارَبَۃُ نَوْعَانِ: مُحَارَبَۃٌ بِالْیَدِ ، وَ مُحَارَبَۃٌ بِاللِّسَانِ . اِلٰی قَوْلِہٖ رَحِمَہُ اللّٰہِ : وَ کَذَلِکَ الْاِفْسَادُ قَدْ یَکُونُ بِالْیَدِ وَ قَدْ یَکُوْنَ بِاللِّسَانِ ، وَمَا یُفْسِدُہُ اللِّسَانُ مِنَ الْأَدْیَانِ أَضْعَافٌ مَا تُفْسِدُہُ الْیَدُ ۔‘‘ (الصارم المسلول:۵۸۳)
’’جنگ دو طرح کی ہوتی ہے: (۱) ہاتھ سے جنگ (۲) زبان سے جنگ (امام ابن تیمیہ مزید فرماتے ہیں) کبھی کبھار تو اس میں ہاتھ کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کبھی کبھاراس میں زبان کا دخل ہوتا ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جو فساد دینوں اور مذہبوں کی طرف سے زبان کے ساتھ پھیلایا جاسکتا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جو ہاتھ کے ساتھ پھیلا نا ممکن ہے۔‘‘
یہ ہے شرعی حکم ہے ان لوگوں کا کہ جو جنگ میں کفار کی کسی بھی طرح اعانت کرتے ہیں چاہے وہ معصوم الدم یعنی عورتیں، بچے، بوڑھے ہی کیوں نہ ہوں۔
ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی بھی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔
ایسے معاملات میں علمائے کرام کی خاموشی واقعی ایک بہت بڑا جرم معلوم ہوتی ہے۔ وگرنہ آپ طالبان کے موقف کی تردید کے لئے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بجائے ضرور قران و حدیث سے دلائل دیتے۔