• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا۔ تفسیر السراج۔ پارہ:3

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
کیا آپ کو اس بات پر اختلاف ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کے پاس حاضر ہوکر اللہ سے اپنے لئے اولاد کی دعا کرنی چاہئے جیسا کہ ان قرآنی آیت سے ظاہر ہورہا ہے
مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ قرآنی آیت تو ایک واقعے کا بیان ہے۔ کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملاحظہ کیں تو اللہ سے فوری طور پر اپنے لئے بھی اولاد کی نعمت طلب کر لی۔
آپ کی بات سے تو لگتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام خود بزرگ نہیں تھے۔ حالانکہ وہ خود نبی تھے۔ ان کے دورنبوت میں ان سے بڑھ کر اللہ کا نیک بندہ اور کون ہو سکتا تھا؟
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مجھے اس بارے میں زیادہ علم نہیں ہے۔ قرآنی آیت تو ایک واقعے کا بیان ہے۔ کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملاحظہ کیں تو اللہ سے فوری طور پر اپنے لئے بھی اولاد کی نعمت طلب کر لی۔
آپ کی بات سے تو لگتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام خود بزرگ نہیں تھے۔ حالانکہ وہ خود نبی تھے۔ ان کے دورنبوت میں ان سے بڑھ کر اللہ کا نیک بندہ اور کون ہو سکتا تھا؟
اللہ کے نبی علیہ السلام بعض اوقات کوئی عمل کرکے اپنی امت کو بتاتے ہیں کہ یہ میری سنت ہے اور تم بھی اس پر عمل کرو
قرآنی آیت تو ایک واقع کا بیان ہے یہ بات کہہ کر کہیں آپ ان لوگوں کی طرح تو نہیں ہوگئے جن کا ذکر اللہ نے قرآن مجید میں ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے
وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَذَا إِنْ هَذَا إِلاَّ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ۔
(سورۃ الانفال : 31)

اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اگر ہم چاہیں تو اس کے برابر ہم بھی کہہ دیں اس میں پہلو ں کے قصے کے سوا اور کچھ نہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُم مَّاذَا أَنزَلَ رَبُّكُمْ قَالُواْ أَسَاطِيرُ الأَوَّلِينَ۔
(سورہ النحل :24)

اور جب ان سے کہا جائے کہ تمہارے رب نے کیا نازل کیا ہے کہتے ہیں پہلے لوگوں کے قصے ہیں
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَذَا مِن قَبْلُ إِنْ هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ۔
(سورۃ المومنون، 83)

اس کا تو ہم سے اوراس سے پہلے اور ہمارے باپ دادا سے وعدہ ہوتا چلاآیا ہے یہ صرف اگلےلوگوں کی کہانیاں ہیں
حتّى إذا جاؤوك يجادلونك يقول الذين كفروا إن هذا إلاّ أساطير الأوّلين۔
(سورہ الانعام، آیت 25)

یہاں تک کہ جب تمہارے پاس تم سے بحث کرنے کو آتے ہیں تو جو کافر ہیں کہتے ہیں یہ قرآن اور کچھ بھی نہیں صرف پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں
غور کریں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اللہ کے نبی علیہ السلام بعض اوقات کوئی عمل کرکے اپنی امت کو بتاتے ہیں کہ یہ میری سنت ہے اور تم بھی اس پر عمل کرو
کیا زیر بحث آیت میں بھی حضرت زکریا علیہ السلام سے ایسی کوئی بات منسوب ہے کہ یہ میری سنت ہے کہ نیک لوگوں کے پاس فقط کھڑے ہو کر اللہ سے دعا کیا کرو؟
اگر ہے تو آپ کا مؤقف ثابت اور اگر نہیں، تو بالا جملہ غیر متعلق ہے۔

قرآنی آیت تو ایک واقع کا بیان ہے یہ بات کہہ کر کہیں آپ ان لوگوں کی طرح تو نہیں ہوگئے
استغفراللہ۔۔۔
میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں ایسی سوچ سے بھی۔
میں نے یہ عرض کی تھی کہ قرآنی آیت میں ایک واقعہ کا بیان ہے۔ اور واقعہ پر نہیں بلکہ اس واقعہ سے آپ کے کشید کردہ استدلال پر اعتراض کیا تھا۔

ہمارے نزدیک تو بات اتنی سی ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام نے بے موسم پھل اور طرح طرح کی نعمتیں بی بی مریم علیہا السلام کے پاس دیکھیں تو اس معجزہ کو دیکھ کر اپنے لئے وہیں کھڑے کھڑے اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا کی۔ غور کیجئے:

1۔ حضرت زکریا علیہ السلام خاص طور پر دعا کرنے کے لئے بی بی مریم علیہا السلام کے پاس نہیں گئے تھے۔
2۔ معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دیکھنے کے بعد ہی فوری طور پر اپنے لئے بھی اولاد جیسی نعمت کی دعا کی۔ گویا یہ نعمتیں اس دعا کا واقعاتی سبب بنیں نا کہ نیک بندوں کے پاس جا کر دعا کرنے کی نیت اس کا سبب بنی تھی۔
3۔ حضرت زکریا علیہ السلام کے دور نبوت میں ان سے بڑھ کر کون نیک بندہ ہو سکتا تھا؟
4۔ اگر آپ کے استدلال کو دیکھیں تو عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ "نیک ترین بندوں کو دیگر نیک بندوں کے پاس جا کر اللہ سے اپنے لئے دعا کرنی چاہئے"۔ ؟ کیا آپ واقعی اس سے متفق ہیں؟ آپ تو الٹ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔
5۔ اگر دعا میں نیک بندوں کو وسیلہ بنایا جائے یا نیک بندوں سے دعا کروائی جائے تو پھر بھی بات سمجھ آتی ہے۔ فقط ان کے پاس کھڑے ہو کر اللہ سے دعا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی نیک بندوں کے اردگرد کی جگہ بھی مقدس ہو جاتی ہے یا کچھ اور مقصد ہے؟
6۔ کیا حضرت زکریا علیہ السلام کی اولاد کی دعا اس لئے قبول کی گئی کیونکہ انہوں نے بی بی مریم علیہ السلام کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی تھی۔ ورنہ یہ دعا قبول ہی نہ ہوتی؟ اگر ہاں، تو اس کی قرآنی دلیل کیا ہے؟
7۔ انہی آیات میں مذکور ہے کہ حضرت زکریا محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے جب فرشتے نے اولاد کی خوشخبری دی، کیا اس سے یہ عقیدہ اخذ کرنا درست ہے کہ محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سے فرشتے اولاد کی خوشخبری دیا کرتے ہیں؟ اور جو اس عقیدے کو نہ مانے اس پر قرآنی آیات کی تکفیر و تکذیب کی تہمت لگائی جا سکتی ہے؟
8۔ کیا دیگر قرآنی واقعات سے بھی ایسے ہی استدلال کرنا جائز ہے؟ مثلاً دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور حطہ کہتے ہوئے گزریں تو گناہ معاف ہو جایا کرتے ہیں؟
 
Top