• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا پردہ کرکے جانا حجرہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کے بعد" کیا

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
پرداداری یہ ہے کہ امی عائشہ بھی یہ سمجھتی تھی کہ حضرت عمر اپنے قبر میں ہونے کے باوجود زمین پر موجود لوگوں کا ادراک رکھتے ہیں جیسا کہ ابن تیمیہ کا عقیدہ بھی یہی ہے اور میں نے کہیں یہ بھی پڑھا ہے کہ ابن تیمیہ تو یہ تک کہتے تھے کہ قبر پر آنے والے پرندے کے نر یا مادہ ہونے کا بھی ادراک قبر میں دفن مردہ رکھتا ہے یہ بات کہاں تک درست ہے ؟؟

کیا یہ خصوصیت صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے خاص ہے ؟ ۔۔ اور یہ خصوصیت وفات کے بعد ملی یا پہلے ؟ کیونکہ اگر وفات سے پہلے بھی تھی تو حضرت عمر تو دیواروں کے آر پار بھی دیکھ سکتے ہوں گے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ (آپ لوگوں کے نزدیک) قبر کے اندر سے بھی دیکھ لیتے ہیں تو قبر کی مٹی کی تہہ تو بہت دبیز ہوتی ہے ان دیواروں کے نسبت ۔ پھر تو (نقلِ کفر ، کفر نباشد) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نظر لباس سے بھی جھانک لیتے ہوں گے ۔
اگر وفات سے پہلے نہیں تھی ، اور وفات کے بعد مل گئی تو اس پر کوئی قرآن و سنت میں سے دلیل لائیے کہ سب اہلِ قبور یا اگر آپ صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے مانتے ہیں ، ان کو یہ ادراکِ خصوصی مل جاتا ہے قبر میں کہ وہ اہلِ دنیا کی خبر رکھتے ہیں ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ایسا کوئی اصول اصولِ حدیث کی کسی معتبر کتاب سے دکھا دیں!

دو صحیح حدیثیں حقیقتاً باہم متعارض نہیں ہوسکتیں۔

اسی طرح دو آیات باہم متعارض نہیں ہو سکتیں۔

اسی طرح کوئی صحیح حدیث کسی آیت کریمہ کے مخالف نہیں ہو سکتی۔

ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا ۔۔۔ سورة النساء
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ -

اسی طرح کوئی صحیح حدیث کسی آیت کریمہ کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ تو سوال ہے کہ بعض مرتبہ ایک صحیح حدیث کے معنی و مفہوم میں اس حد تک اختلاف بھی ہوا کہ اس کی بنیاد پر الگ الگ عقیدہ بھی قائم ہو گیا -

مثال کے طور پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا عقیدہ یہ تھا کہ واقعہ معراج کے موقعے پر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کو نہیں دیکھا - اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ قرآن کی آیات کے خلاف کرتا ہے - جب کہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا موقف تھا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کو اپنی ظاہری آنکھوں اور دل دونوں سے اس کی ذات کا مشاہدہ کیا -

اس بارے میں رہنمائی فرمائیں -

پھر یہ بھی ہے کہ محدثین کے نزدیک بعض احادیث نبوی کے صحیح ہونے میں بھی اختلاف ہے -

مثال کے طور پر یہ حدیث جس میں ہے "انا مدینة العلم و علیٌّ بابہا فمن اراد المدینة فلیات بابہا" کچھ محدثین کے نزدیک صحیح ہے تو کچھ کے نزدیک ضعیف -اس باب میں غالباً امام ابن تیمیہ رح اور ابن جوزی رح وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے - جب کہ دوسری طرف ترمزی ، ابن ماجہ وغیرہ میں اس حدیث کی صحیح گردانا گیا ہے -علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس روایت کو 'حسن' میں شمار کیا ہے -

میں نے کہیں پڑھا ہے کہ علامہ ناصرالبانی رح جنہوں نے صح ستہ کی صحیح اور ضعیف روایات کو الگ کرنے میں بہت مدلل اور دقیق تحقیق کی ہے - وہ خود عورت کے چہرے کے پردے کی قائل نہیں تھے - ایسی صورت میں تو خود ان پر حرف آتا ہے اور ان پر جرح کی جا سکتی ہے - کہ ان کی صحیح اور ضعیف روایات کے بارے میں تحقیق کس حد تک معتبر ہے؟؟ (واللہ اعلم)

اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں-

جزاک الله خیر
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
اصول حدیث کی مطابق جو حدیث قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ ضعیف یا موضو ع شمار کی جاتی ہے باقی روایت کی مزید تحقیق کے لئے کوئی اور ممبر جو حدیث کا زیادہ علم رکھتے ہوں ان سے پوچھ لیجیے -
ایسا کوئی اصول اصولِ حدیث کی کسی معتبر کتاب سے دکھا دیں!
دو صحیح حدیثیں حقیقتاً باہم متعارض نہیں ہوسکتیں۔
اسی طرح دو آیات باہم متعارض نہیں ہو سکتیں۔
اسی طرح کوئی صحیح حدیث کسی آیت کریمہ کے مخالف نہیں ہو سکتی۔
ولو كان من عند غير الله لوجدوا فيه اختلافا كثيرا ۔۔۔ سورة النساء
السلام علیکم و رحمت الله و برکاتہ -
اسی طرح کوئی صحیح حدیث کسی آیت کریمہ کے مخالف نہیں ہو سکتی۔ تو سوال ہے کہ بعض مرتبہ ایک صحیح حدیث کے معنی و مفہوم میں اس حد تک اختلاف بھی ہوا کہ اس کی بنیاد پر الگ الگ عقیدہ بھی قائم ہو گیا -
محترم بھائی! میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ اپنے بیان کردہ اصول (کہ اصول حدیث کے مطابق جو حدیث قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ ضعیف یا موضوع ہوتی ہے۔) کو اصولِ حدیث کی کسی معتبر کتاب سے دکھا دیں! اُمید ہے کہ آپ اگلی پوسٹ میں اس کا حوالہ پیش کریں گے۔

جہاں تک آپ کا اعتراض ہے کہ پھر صحیح حدیث کے مفہوم میں اختلاف کیوں ہوتا ہے؟

مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا شخص بھی یہ اعتراض کر سکتا ہے؟! آپ مجھے بتائیے کہ کیا کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ کے مفہوم میں اختلاف ہونا اسے مشکوک بنا دیتا ہے؟؟؟

اگر ایسا ہی ہے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن نہیں مانتے۔ کیا اس سے معوذتین کا قرآن ہونا مشکوک ہو گیا؟؟؟

سینکڑوں آیات کریمہ کے مفہوم میں علمائے امت میں اختلاف ہے۔ کیا اس کی بناء پر قرآن کریم کو وحی الٰہی نہ مانا جائے؟؟؟ کیا اسے مشکوک سمجھا جائے؟؟!

مثلاً سورۃ الدخان میں آیتِ دخان (فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين) کے متعلق سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف ہے کہ اس آیت کریمہ میں دخان سے مراد قریش مکہ پر اللہ کی طرف سے جو قحط مسلط کیا گیا (جو اَب ماضی کا قصہ ہے) وہ مراد ہے یا قیامت کی نشانی (جو مستقبل میں قربِ قیامت ہوگا) مراد ہے؟؟ تفصیل کیلئے تفاسیر کا مطالعہ کیجئے!

تو کیا اس اختلاف کی بناء اس آیت کریمہ یا سورۂ مبارکہ یا قرآن کریم کے متعلق شکوک شبہات کا دروازہ کھول دیا جائے؟؟؟!

غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ کے علاقہ میں پہنچ کر ادا کی جائے تو نبی کریمﷺ کے اس حکم کے مفہوم میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا جو سب کو معلوم ہے۔ تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے مفہوم کے اس اختلاف کی بناء پر نبی کریمﷺ کے حکم کو ہی سرے سے ماننے سے انکار کر دیا تھا؟؟!

جہمیہ، معتزلہ اور دیگر باطل گروہ اپنے غلط عقائد کی دلیل کیلئے قرآن کریم کی آیات کو پیش کرتے ہیں کیا اس کی بناء پر آیاتِ قرآنی مشکوک ہوجاتی ہیں؟!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
مثال کے طور پر ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا عقیدہ یہ تھا کہ واقعہ معراج کے موقعے پر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کو نہیں دیکھا - اور جو ایسا سمجھتا ہے وہ قرآن کی آیات کے خلاف کرتا ہے - جب کہ حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا موقف تھا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کو اپنی ظاہری آنکھوں اور دل دونوں سے اس کی ذات کا مشاہدہ کیا- اس بارے میں رہنمائی فرمائیں -
عزیز بھائی!
اولاً: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف یہ ہرگز نہیں ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ رب العٰلمین کو ظاہری وجاگتی آنکھوں سے دیکھا۔ ان کا موقف دل کی آنکھوں سے دیکھنے کا ہے جس پر ان کی دلیل آیت کریمہ: (ما كذاب الفؤاد ما رأى) ہے۔
جبکہ سیدہ عائشہ ودیگر صحابہ کرام کا موقف یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کے موقع پر اللہ رب العٰلمین کو نہیں دیکھا نہ ظاہری آنکھوں سے نہ دل کی آنکھوں سے اور ان کی دلیل آیت کریمہ: (لا تدركه الأبصار وهو يدرك الأبصار وهو اللطيف الخبير) ودیگر آیات کریمہ ہیں۔
ثانیا: مجھے حیرانگی ہے کہ آپ فرما رہے ہیں کہ یہ اختلاف احادیث کے مفہوم میں اختلاف کی بناء پر ہوا حالانکہ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا کہ صحابہ کرام میں یہ اختلاف آیات کے مفہوم کے اختلاف کی بناء پر ہوا تو کیا آپ اس کی بناء پر ان آیات کریمہ کو مشکوک قرار دیں گے؟!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
پھر یہ بھی ہے کہ محدثین کے نزدیک بعض احادیث نبوی کے صحیح ہونے میں بھی اختلاف ہے -
مثال کے طور پر یہ حدیث جس میں ہے "انا مدینة العلم و علیٌّ بابہا فمن اراد المدینة فلیات بابہا" کچھ محدثین کے نزدیک صحیح ہے تو کچھ کے نزدیک ضعیف -اس باب میں غالباً امام ابن تیمیہ رح اور ابن جوزی رح وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے - جب کہ دوسری طرف ترمزی ، ابن ماجہ وغیرہ میں اس حدیث کی صحیح گردانا گیا ہے -علامہ جلال الدین سیوطی نے بھی اس روایت کو 'حسن' میں شمار کیا ہے -
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ علامہ ناصرالبانی رح جنہوں نے صح ستہ کی صحیح اور ضعیف روایات کو الگ کرنے میں بہت مدلل اور دقیق تحقیق کی ہے - وہ خود عورت کے چہرے کے پردے کی قائل نہیں تھے - ایسی صورت میں تو خود ان پر حرف آتا ہے اور ان پر جرح کی جا سکتی ہے - کہ ان کی صحیح اور ضعیف روایات کے بارے میں تحقیق کس حد تک معتبر ہے؟؟ (واللہ اعلم)
اس بارے میں بھی رہنمائی فرمائیں-
جزاک الله خیر
عزیز بھائی! یہ آپ نے ایک بالکل نیا موضوع شروع کر دیا۔ جس کیلئے الگ تھریڈ بنانا مناسب ہوگا۔
آپ مجھے بتائیے کہ کیا آپ کے نزدیک احادیث مبارکہ اللہ کی وحی ہیں یا نہیں؟؟ درج بالا اعتراض سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک احادیث مبارکہ خواہ وہ صحیح ہی کیوں نہ ہوں اللہ کی وحی نہیں ہیں کیونکہ ان میں ضعیف احادیث بھی موجود ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو حق اور باطل کو باطل دکھائیں۔ آمین!
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
محترم بھائی! میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ اپنے بیان کردہ اصول (کہ اصول حدیث کے مطابق جو حدیث قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ ضعیف یا موضوع ہوتی ہے۔) کو اصولِ حدیث کی کسی معتبر کتاب سے دکھا دیں! اُمید ہے کہ آپ اگلی پوسٹ میں اس کا حوالہ پیش کریں گے۔

جہاں تک آپ کا اعتراض ہے کہ پھر صحیح حدیث کے مفہوم میں اختلاف کیوں ہوتا ہے؟

مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسا شخص بھی یہ اعتراض کر سکتا ہے؟! آپ مجھے بتائیے کہ کیا کسی آیت کریمہ یا حدیث مبارکہ کے مفہوم میں اختلاف ہونا اسے مشکوک بنا دیتا ہے؟؟؟

اگر ایسا ہی ہے تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن نہیں مانتے۔ کیا اس سے معوذتین کا قرآن ہونا مشکوک ہو گیا؟؟؟

سینکڑوں آیات کریمہ کے مفہوم میں علمائے امت میں اختلاف ہے۔ کیا اس کی بناء پر قرآن کریم کو وحی الٰہی نہ مانا جائے؟؟؟ کیا اسے مشکوک سمجھا جائے؟؟!

مثلاً سورۃ الدخان میں آیتِ دخان (فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين) کے متعلق سیدنا ابن عباس اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے مابین اختلاف ہے کہ اس آیت کریمہ میں دخان سے مراد قریش مکہ پر اللہ کی طرف سے جو قحط مسلط کیا گیا (جو اَب ماضی کا قصہ ہے) وہ مراد ہے یا قیامت کی نشانی (جو مستقبل میں قربِ قیامت ہوگا) مراد ہے؟؟ تفصیل کیلئے تفاسیر کا مطالعہ کیجئے!

تو کیا اس اختلاف کی بناء اس آیت کریمہ یا سورۂ مبارکہ یا قرآن کریم کے متعلق شکوک شبہات کا دروازہ کھول دیا جائے؟؟؟!

غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کو حکم دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ کے علاقہ میں پہنچ کر ادا کی جائے تو نبی کریمﷺ کے اس حکم کے مفہوم میں صحابہ کرام میں اختلاف ہوگیا جو سب کو معلوم ہے۔ تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے مفہوم کے اس اختلاف کی بناء پر نبی کریمﷺ کے حکم کو ہی سرے سے ماننے سے انکار کر دیا تھا؟؟!

جہمیہ، معتزلہ اور دیگر باطل گروہ اپنے غلط عقائد کی دلیل کیلئے قرآن کریم کی آیات کو پیش کرتے ہیں کیا اس کی بناء پر آیاتِ قرآنی مشکوک ہوجاتی ہیں؟!

محترم انس بھائی -

میرے کہنے کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ کسی تعارض کی بنا پر ہم کسی قرانی آیت یا صحیح حدیث کو رد کر دیں- یہ یقیناً کفر ہے - لیکن جب ہم کسی تعارض کی بنا پر کسی آیت کا مفہوم مختلف شخصیات سے اخذ کرتے ہیں - تو ہم کس بنا پر کس مفہوم کو ترجیح دیں گے - ظاہر ہے اگر قرآن کی کسی آیت کا مفہوم نبی کریم نے بیان نہیں فرمایا تو دو صحابہ کرام رضی الله عنہ کے مابین مفہوم میں اختلاف پر ہم کس اصول کے تحت ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دیں گے ؟؟؟

دوسرے یہ کہ احادیث کے معاملے میں بھی محدثین میں بھی بعض روایات کے بارے میں یہ تعارض رہا کہ کہ حقیقت میں روایت کے تمام راوی سقہ تھے اور ان آپس میں ربط تھا - جیسا کہ باب العلم یا علی مولا والی احادیث یا جس طرح نبی کریم کی ان کی قبر مبارک میں روح لوٹاے جانے والی روایات وغیرہ - اور اسی طرح اس موزوع روایت کہ جس میں حضرت عائشہ رضی الله عنہ کا اپنے حجرے میں پردہ کرکے جانا بوجہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے مدفن ہونے کے - مطلب یہ کہ اگر یہ روایت رجال کے اصول کے مطابق صحیح ہیں تو محدثین نے ان پر جرح کیوں کی ؟؟

اس کی ایک مثال امام مہدی رح سے متعلق روایات بھی ہیں - جو کہ ابو داؤد ، ابن ماجہ ، ترمزی وغیرہ میں ہیں اور جن کی صحت پر اہل سنّت کا موقف ہے کہ یہ اسناد کے لحاظ سے صحیح و حسن ہیں - لیکن میں نے ایک جگہ پڑھا کہ امام بخاری رح کے ایک استاد کے پاس امام مہدی رح سے متعلق روایات موجود تھیں لیکن امام بخاری رح کے اصولوں پر وہ پوری نہیں اترتی تھیں جس کے بنا پر اہوں نے مہدی کی رویات کو اپنی کتاب صحیح بخاری میں جگہ نہیں دی - کیا امام بخاری رح کے اصول کو رد کرنا انکو رد کرنا نہیں ؟؟

کہنے کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی روایت کے بارے میں ایک محدث دوسرے پر جرح کرتا ہے اور اس کی صحیح ترین روایت کو اپنے اصول کے ذریے رد کرتا ہے یا اس میں تعارض کرتا ہے یا اس روایت کو تو تسلیم تو کرتا ہے لیکن اس کے اصلی مفہوم سے اعراض کرتا ہے تو ایسی صورت میں ہم کس محدث کی بات یا مفہوم کو ترجیح دیں گے اور حدیث کے کس اصول کے تحت دیں گے؟؟-

والسلام -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا پردہ کرکے جانا حجرہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کے بعد" کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟

بریلوی و حیاتی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ پہلے حضرت عائشہ بغیر پردہ کے حجرہ میں جاتی تھیں (قبرِ رسولﷺ پر ) جب حضرت ابو بکر دفن کیئے گئے تب بھی بغیر پردہ کے ۔مگر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دفن کے بعد پردہ شروع کیا ۔ کہ "حضرت عمر رضی اللہ عنہ نا محرم ہیں ، اور وہ قبر سے دیکھ رہے ہوں گے " ۔۔
یہ مفہوم کچھ اسی طرح ہے حدیث کا ۔۔
وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ دیکھو قبر میں کوئی "مردہ" نہین ہوتا سب زندہ ہوتے ہیں ۔ انبیاء و اولیاء وغیرہ ۔۔
برائے مہربانی میری رہنمائی کیجیئے اس بارے میں کہ کیا یہ حدیث موجود بھی ہے اور یہ قابلِ استدلال ہے بھی یا نہیں
۔!! شکریہ
تعجب ہے اتنے اہل علم فضلاء نے اس تھریڈ پر لکھا ہے ، لیکن اصل سوال کا جواب ۔۔۔۔۔۔۔
خیر ۔۔۔۔۔بندہ اس سوال کا جواب عرض کرتا ہے ،اگر کوئی غلطی ،کوتاہی ہو تو۔ اہل علم ۔اصلاح فرمادیں ،،،،و أجركم على الله

عن عائشة قالت كنت أدخل بيتي الذي دفن فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي فأضع ثوبي، وأقول إنما هو زوجي وأبي، فلما دفن عمر معهم فوالله ما دخلته إلا وأنا مشدودة علي ثيابي، حياء من عمر ) مسند الامام احمد -25660(4)

مسند کی تحقیق میں علامہ شعيب الأرنؤوط فرماتے ہیں :

أثر إسناده صحيح على شرط الشيخين.
وأخرجه الحاكم 3/61 من طريق الإمام أحمد، بهذا الإسناد.
وأخرجه كذلك 4/7 من طريق الحسن بن علي بن عفان، عن أبي أسامة حماد بن أسامة، به
وقال: هذا حديث صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه. وسكت عنه الذهبي.
وأورده الهيثمي في "مجمع الزوائد" 8/26 و9/37، وقال: رواه أحمد، ورجاله رجال الصحيح

یعنی حدیث بالکل صحیح ہے ،،،سند یہ ہے ،( حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ )
حماد بن اسامہ ،صحاح الست کے مرکزی راوی ہیں ،اعلی درجہ کے ثقہ ہیں ،ان کا درجہ (الحافظ ،الحجہ )ہے،
ھشام بن عروہ: ثقۃ ،امام فی الحدیث
عروہ بن زبیر :کے تو کیا کہنے ،صحابی رسول ﷺ زبیر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے،علم کا بڑا چشمہ ، عبداللہ بن زبیر کے بھائی ،اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے ہیں، سیدہ عائشہ کے بھانجے ہیں ،،
---------------------------------------
اس کی شرح میں علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

قوله: ((وأقول: إنما هو زوجى)) القول بمعنى الاعتقاد، وهو كالتعليل لوضع الثوب في بيت دفن فيه الرسول صلي الله وعليه وسلم وأبو بكر رضي الله عنه، يعنى جائز لي ذلك، لأنهما محرمان لي، أحدهما زوجي والآخر أبي. والعطف علي التقدير، أي إنما هو زوجي والآخر أبي. ويجوز أن يكون العطف علي الانسحاب، وهو ضمير الشأن، أي إنما الشأن زوجي وأبي مدفونان فيه،
وفي الحديث دليل بين علي ما ذكر قبلُ من أنه يجب احترام أهل القبور، وتنزيل كل منهم منزلة ما هو عليه في حياته من مراعاة الأدب معهم علي قدر مراتبهم، والله أعلم والحمد لله أولاً وآخرًا والصلاة علي سيدنا محمد وآله.

یعنی سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کا پردہ محض مراعات ادب ،اور احترام تھا،،
اس بات کو سمجھنے کےلئے سیرت نبوی کا یہ مشہور اور دلآویز واقعہ پڑھ لیں،
حدثنا أبو الربيع قال حدثني إسماعيل قال حدثني محمد بن أبى حرملة عن عطاء وسليمان ابنى يسار وأبى سلمة بن عبد الرحمن أن عائشة قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم مضطجعا في بيتي كاشفا عن فخذه أو ساقيه فاستأذن أبو بكر رضي الله عنه فأذن له كذلك فتحدث ثم استأذن عمر رضي الله عنه فأذن له كذلك ثم تحدث ثم استأذن عثمان رضي الله عنه فجلس النبي صلى الله عليه وسلم وسوى ثيابه قال محمد ولا أقول في يوم واحد فدخل فتحدث فلما خرج قال قلت يا رسول الله دخل أبو بكر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهش ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك قال ألا أستحيى من رجل تستحيى منه الملائكة
الأدب المفرد:ج1/ص211 ح603

سید المرسلین ﷺ ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کےجنت نظیر گھر میں تشریف فرما ہیں ،حالت مبارکہ یہ کہ لیٹے ہوئے ہیں ،مقدس پنڈلی یا ران شریف سے کپڑا ہٹایا ہوا ہے ،اسی حالت میں سیدنا ابوبکر حاضر ہوئے ،آپ نےاپنی اسی حالت میں رہے ،پھر سیدنا عمر آئے ،توبھی آپ ﷺ اسی حال میں رہے ،،پھر جناب عثمان آئے اجازت طلب کی ،آپ ﷺ اٹھ کر سیدھے بیٹھ گئے ،اور اپنا لباس مبارک بھی درست کرلیا
اس امتیازی سلوک کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا :جس بندے سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ،کیا میں اس سے حیا نہ کروں ؟
------------------------------------
اب یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں ،ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما قدر و فضل میں سیدنا عثمان سے کہیں بڑھ کر ہیں ،لیکن ان کی ایک امتیازی صفت حیاء ،تھی جس کا لحاظ امام الانبیاء ﷺ نے بھی رکھا ،
 
Top