• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه کا خون پینا

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ اسحاق سلفی مجھے اسکی تحقیق چاہیے کیا یہ روایت صحیح ہے

قال أبو بكر بن أبى عاصمٍ فى (( الآحاد والمثانى ))(1/414/578) : حدثنا محمد بن المثنى نا موسى بن إسماعيل نا هنيد بن القاسم سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير أن أباه ـ يعنى عبد الله بن الزبير ـ حدَّثه : أنه أتي النَّبىَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وهو يحتجم ، فلما فرغ ، قال : (( يا عبد الله اذهب بهذا الدم فأهرقه ، حيث لا يراه أحد )) ، فلما برز عن النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمد إلى الدم فشربه ، فقال : يا عبد الله ما صنعت ؟ ، قال : جعلته في أخفى مكانٍ ظننت أنه يخفى على الناس ، قال : (( لعلك شربته )) ، قال : نعم ، قال : (( ولم شربت الدم ! ، ويل للناس منك ، وويل لك من الناس )).
قـال أبو سلمة موسى بن إسماعيل : فيرون أن القوة التي كانت في ابن الزبير من قوة دم النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
وأخرجه كذلك البزار (6/169/2210) ، وأبو نعيم (( الحلية ))(1/330) ، والحاكم (3/638) ، والبيهقى (( الكبرى ))(7/67) ، وابن عساكر (( تاريخ دمشق ))(28/164،163) ، والضياء (( المختارة ))(9/309:307/267،266)



حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه سے بحواله بزار, طبرانی حاکم اور بیهقی وغیره نقل کی هے. که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے سینگی لگوائی, مجهے سینگی کا خون دیا اور فرمایا جاؤ اسے غائب کردو. میں گیا تو میں نے اسے پی لیا جب واپس آیا تو رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تم نے کیا کیا هے؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے غائب کردیا هے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا شاید تم اسے پی لیا هے؟ میں نے عرض کیا جی هاں میں نے اسے پی لیا هے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
محترم @عدیل سلفی بھائی ۔ان شاء اللہ ۔ نماز عصر کے بعد جواب دیتا ہوں ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
مجھے اسکی تحقیق چاہیے کیا یہ روایت صحیح ہے

قال أبو بكر بن أبى عاصمٍ فى (( الآحاد والمثانى ))(1/414/578) : حدثنا محمد بن المثنى نا موسى بن إسماعيل نا هنيد بن القاسم سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير أن أباه ـ يعنى عبد الله بن الزبير ـ حدَّثه : أنه أتي النَّبىَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وهو يحتجم ، فلما فرغ ، قال : (( يا عبد الله اذهب بهذا الدم فأهرقه ، حيث لا يراه أحد )) ، فلما برز عن النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمد إلى الدم فشربه ، فقال : يا عبد الله ما صنعت ؟ ، قال : جعلته في أخفى مكانٍ ظننت أنه يخفى على الناس ، قال : (( لعلك شربته )) ، قال : نعم ، قال : (( ولم شربت الدم ! ، ويل للناس منك ، وويل لك من الناس )).
قـال أبو سلمة موسى بن إسماعيل : فيرون أن القوة التي كانت في ابن الزبير من قوة دم النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
وأخرجه كذلك البزار (6/169/2210) ، وأبو نعيم (( الحلية ))(1/330) ، والحاكم (3/638) ، والبيهقى (( الكبرى ))(7/67) ، وابن عساكر (( تاريخ دمشق ))(28/164،163) ، والضياء (( المختارة ))(9/309:307/267،266)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام أبو بكر ابن ابی عاصم رحمہ اللہ ((المتوفى: 287 ھ))
نے اپنی کتاب ’’ الآحاد والمثاني ‘‘ میں یہ روایت درج ذیل الفاظ سے نقل کی ہے ۔
حدثنا محمد بن المثنى، أنا موسى بن إسماعيل، نا هنيد بن القاسم، قال: سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير، أن أباه حدثه أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يحتجم فلما فرغ قال: «يا عبد الله، اذهب بهذا الدم فأهرقه حتى لا يراه أحد» فلما برز عن النبي صلى الله عليه وسلم، عمد إلى الدم فشربه، فقال: «يا عبد الله ما صنعت؟» قال: جعلته في أخفى مكان ظننت أنه يخفى على الناس، قال: «لعلك شربته؟» قال: نعم، قال: «ولم شربت الدم؟ ويل للناس منك، وويل لك من الناس»
ترجمہ :۔
عبد اللہ بن زبير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنگى لگائى جا رہى تھى، جب وہ سنگى لگوانے سے فارغ ہوئے تو فرمايا:
جاؤ جا كر اس خون كو بہا دو كہ اسےكوئى بھى نہ ديكھ سكے، جب وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دور ہوئے تو انہوں نے خون پى ليا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: عبد اللہ تو نے كيا كيا ؟
وہ كہنے لگے: ميں اسے اس جگہ چھپايا ہے جس كے متعلق ميرا خيال ہے كہ وہاں سے لوگ ديكھ ہى نہيں سكتے.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: لگتا ہے تم خون پى گئے ہو.
وہ كہنے لگے: جى ہاں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم نے خون كيوں پيا ؟! تيرى طرف سے لوگوں كوويل اور ہلاكت اور لوگوں كى طرف سے تيرے ليے ہلاكت اور ويل ہے "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے ابن عاصم نے الاحاد والمثانى ( 1 / 414 ) اور مسند بزار ( 6 / 169 ) مستد رك حاكم ( 3 / 638 ) اور البيھقى نے سنن الكبرى ( 7 / 67 )
اور ابن عساكر نے تاريخ دمشق ( 28 / 163 ) ميں سب نے ہى ھنيد بن القاسم نے عامر بن عبد اللہ بن الزبير عن ابيہ سے روايت كيا ہے.
’’ ھنيد بن قاسم ‘‘ كا ترجمہ تاريخ كبير ( 8 / 249 ) اور الجرح والتعديل ( 9 / 121 ) مذكور ہے جس ميں نہ تو كوئى جرح كى گئى اور نہ ہى تعديل بيان ہوئى ہے، اور ابن حبان نے الثقات ( 5 / 515 ) ميں ذكر كيا ہے، اور اس سے موسى بن اسماعيل كے علاوہ كسى اور نے روايت نہيں كى.
تو اس طرح كا راوى مجہول لوگوں ميں شمار كيا جاتا ہے، ليكن اگر اس كى متابعت ہو يا كوئى اس كا شاہد مل جائے تو اسے تقويت مل جائيگى،

حافظ ابن حجر نے " التلخيص الحبير " ميں كہا ہے:
" وفي إسناده الهنيد بن القاسم ، ولا بأس به ، لكنه ليس بالمشهور بالعلم " انتهى
" اور اس كى سند ميں ھنيد بن قاسم ہے جو لاباس بہ ہے، ليكن علم ميں وہ مشہور نہيں ہے " انتہى
متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ۔ لہٰذا حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ٨/٧٢)کا اس کو ثقہ قرار دینا اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : ١/٣٠)کا '' ولا بأس بہ '' کہنا صحیح نہیں ۔

جناب نبی کریم ﷺ کے متعلق اتنی اہم اور بڑی بات تسلیم کرنے کیلئے ایسے نامعلوم راوی کی روایت کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ اسحاق سلفی مجھے اسکی تحقیق چاہیے کیا یہ روایت صحیح ہے

قال أبو بكر بن أبى عاصمٍ فى (( الآحاد والمثانى ))(1/414/578) : حدثنا محمد بن المثنى نا موسى بن إسماعيل نا هنيد بن القاسم سمعت عامر بن عبد الله بن الزبير أن أباه ـ يعنى عبد الله بن الزبير ـ حدَّثه : أنه أتي النَّبىَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وهو يحتجم ، فلما فرغ ، قال : (( يا عبد الله اذهب بهذا الدم فأهرقه ، حيث لا يراه أحد )) ، فلما برز عن النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عمد إلى الدم فشربه ، فقال : يا عبد الله ما صنعت ؟ ، قال : جعلته في أخفى مكانٍ ظننت أنه يخفى على الناس ، قال : (( لعلك شربته )) ، قال : نعم ، قال : (( ولم شربت الدم ! ، ويل للناس منك ، وويل لك من الناس )).
قـال أبو سلمة موسى بن إسماعيل : فيرون أن القوة التي كانت في ابن الزبير من قوة دم النَّبىِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ .
وأخرجه كذلك البزار (6/169/2210) ، وأبو نعيم (( الحلية ))(1/330) ، والحاكم (3/638) ، والبيهقى (( الكبرى ))(7/67) ، وابن عساكر (( تاريخ دمشق ))(28/164،163) ، والضياء (( المختارة ))(9/309:307/267،266)



حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنه سے بحواله بزار, طبرانی حاکم اور بیهقی وغیره نقل کی هے. که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے سینگی لگوائی, مجهے سینگی کا خون دیا اور فرمایا جاؤ اسے غائب کردو. میں گیا تو میں نے اسے پی لیا جب واپس آیا تو رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا تم نے کیا کیا هے؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے غائب کردیا هے رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا شاید تم اسے پی لیا هے؟ میں نے عرض کیا جی هاں میں نے اسے پی لیا هے.
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

تخریج الحدیث:

ابن حجر نے فرمایا اسکی سند میں هنید بن قاسم هے جو “لا باس به” لیکن “مشهور بالعلم” نهیں هے.” ابن حبان نے کتاب الثقات ج ۵ ص ۵۱۵ میں اسے ذکر کیا هے اور ذهبی نے کها مجهے اسکی بارے میں جرح معلوم نهیں.

(السیر ج ۳ ص ۳۶۶.)

بوصیری اور علامه سیوطی نے اس روایت کو حسن کها هے.

(اتحاف الخیرۃ ج ۲ ص ۹۱, الخصائص الکبری ج ۳ ص ۲۷۰.)

مگر انکی یه تحسین محل نظر هے. ابن حبان کا ثقات میں ذکر کرنا اسکے ثقه هونے کی قابل اعتماد دلیل نهیں, خود ابن حجر نے “لسان المیزان ج ۱ ص ۱۴.” میں اسکی وضاحت کردی هے. یهی وجه هے که ابن ملقن نے کها هے. “لا یعلم له حال” اسکا حال معلوم نهیں.

(البدرالمنیر ج ۱ ص ۴۷۶.)

بلکه انهوں نے علامه ابن دقیق العید کی “الالمام ج ۳ ص ۳۸۵.” سے یه بهی نقل کیا هے که هنید بن قاسم کے علاوه اسکی سند میں کوئی اور نهیں جس کا حال محتاج بیان هو.” اسلئے وه مجهول الحال هے.

علامه هیثمی نے ایک جگه (ابن حبان کی متابعت میں) اسے ثقه کهه دیا هے.

(الزوائد ج ۸ ص ۸۷۰.)

اور جبکه دوسرے مقام پر اسے مجهول کها هے.

(مجمع ج ۱ ص ۲۸.)

امام بخاری نے “التاریخ الکبیر ج ۸ ص ۲۴۸.” اور امام ابن ابی حاتم نے “الجرح والتعدیل ج ۹ ص ۱۲۱.” میں اس کا ذکر کیا هے اور اس پر سکوت اختیار کیا هے اسلئے اس راوی کی توثیق ثابت نهیں بلکه مجهول الحال هے, لهذا یه روایت بهی ضعیف هے.

مزید روایات کی تحقیق کے لئے یہاں کلک کریں

https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2015/07/07/kya-nabi-sallallahu-alaihi-wasallam-ka-khoon-paak-hai-tahqeeqi-jayeza/

جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
اسلام علیکم بهائی.
عرض هے کے هنید بن القاسم کی توثیق مل گی هے. لهذا یه راویت حسن تو هے جیسا کے سیوطی وغیره نے کها هے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسلام علیکم بهائی.
عرض هے کے هنید بن القاسم کی توثیق مل گی هے. لهذا یه راویت حسن تو هے جیسا کے سیوطی وغیره نے کها هے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
یہاں پیش فرمائیں !
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
۱: هنید بن القاسم کو ابن حبان نے الثقات ج ۵ ص ۵۱۵.
۲: هیثمی نے هنید بن القاسم کو ایک جگه مجھول کها.
(مجمع الزوائد ج ۱ ص ۲۸.)
اور پهر بعد میں هیثمی خود هی هنید بن القاسم کو ثقه کها هے
(مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۷۰.)
.
اب یهاں مسئله یه هے که هیثمی کے کلام میں تعارض هے تو اب تطبیق کیسے دیں.
تو میں کهتا هوں کے یهاں یه هوسکتا هے کے هیثمی کو پهلے اسکی توثیق نه ملی هو اور جب هیثمی کو هنید کی توثیق مل گی تو انهوں نے اسکو ثقه بتایا جس سے کسی قسم کا تعارض واقعه نهیں هو گا. اگرچه هیثمی ابن حبان کی متابعت میں راوی کو ثقه بتا دیتے هیں.
.
۳: حافظ نے لا باس به لیکن مشهور بالعلم نهیں بتایا.
(التلخیص الحبیر ج ۱ ص ۳۰.)
.
۴: حاکم نے المستدرک میں ج ۳ ص ۶۳۸. پر اسکی ایک روایت کو شرط بخاری ومسلم بتایا اور ذهبی نے سکوت کیا هے.
.
۵: یه بتایا جاچکا هے که هنید بن القاسم والی روایت پر ذهبی نے تلخیص میں سکوت کیا هے
اور سیر اعلام النبلاء ج ۳ ص ۳۶۶.
پر لکهتے هیں:
"وما علمت فی هنید جرحه."
مجھ کو اسکے متعلق جرح معلوم نهیں
ذهبی یه جمله اس راوی کے متعلق بیان کرتے هیں جو ان کے نزدیک ثقه هوتا هے.
دیکھے
سیر اعلام النبلاء ج ۱۳ ص ۲۴۵ ط الرساله
.
۶: سیوطی نے اسکی روایت کو حسن بتایا هے.
(الخصائص الکبری ج ۳ ص ۳۲۰.)
نوٹ:
جناب محترم کفایت الله سنابلی صاحب تنها سیوطی کی توثیق کو بهی کافی سمجھتے هیں اور تائید میں بهی پیش کرتے هیں.
(تفصیل دیکھے انوار البدر ص ۵۰۴ ط جدید.)
۷: بوصیری نے اسناد حسن بتایا
(اتحاف الخیرۃ ج ۲ ص ۹۱, وفی ج ۴ ص ۴۳۴ ح ۳۸۸۴.)
۸: الاحادیث المختارۃ میں مقدسی نے اس سے روایت لی.
(المختاره ج ۹ ص ۳۰۸.)
نوٹ: نسخه میں اختلاف هو سکتا هے.
اور یه بهی یاد رهے کے مختاره میں مقدسی کا راوی کو نقل کرنا اور ابن حبان کا ثقات میں نقل کرنا کفایت الله صاحب کے نزدیک راوی کے ثقه هونے کیلئے کافی هے دیکھے.
(انور البدار ص ۵۰۰. نیز توضیح الکلام میرے شیخ مخترم کی ص ۴۱۷ کا حاشیه نمبر ۱. نیز ص ۲۱۴ توثیق حدیث ابن اسحاق نمبر ۲۱ ط جدید. زبیر علی زئی کے نزدیک بهی یه اصول مسلمه هے.)
.
۹: اور آخر میں علامه الصلاحی الشامی کے (سبل الهدی والرشاد فی سیر خیر العباد جماع ابواب خصائصه فی فوائد تنعلق بکلام عن الخصائص الباب الثامن فیما اختص به عن امته من الفضل والکرامات وفیه نوعان النوع الثانی فیما یتعلق بغیر النکاح وفیه مسائل الحادیه عشرۃ
ج ۱۰ ص ۴۴۵.)
.
مگر یاد رهے کے راوی کے حسن الحدیث هونے یه یا لازم نهیں آتا کے طهارت فضلاۃ پاک هے اسکے متعلق تفصیل کیلئے دیکھے میرے محترم شیخ ارشاد الحق اثری صاحب کی کتاب تفسیر سورۃ یس ص ۳۹۶ تا ۴۲۶,
 
شمولیت
ستمبر 06، 2017
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
7
پوائنٹ
65
نیز دیکھے امام قرطبی کے احکام القرآن سورۃ البقره ج ۲ ص ۹۹؛
قوله تعالی
"واذ ابتلی ابراهیم ربه بکلمات فاتمهن
 
Top