معراج یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے تو کیا یہ دیگر انبیاء اکرام کا بھی معجزہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قبر انوار میں مصروف صلاۃ تھے اور مسجد اقصیٰ میں بھی اور دیگر انبیاء اکرام بھی مسجد اقصیٰ میں مصروف صلاۃ تھے اور پھر سب ابنیاء علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی اگر معراج صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے تو کیا آپ کے عقیدے کے مطابق ان مردہ انبیاء کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے معجزے سے زندہ کیا تھا تو اس پر دلیل عنایت فرمادیں
اور اگر معراج ان تمام انبیاء کرام کا بھی معجزہ ہے تو کیا آپ کے عقیدے کے مطابق مردوں سے بھی معجزات کا ظہور ممکن ہے ؟
یہ کوئی ایک موقع نہیں جب حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس طرح سے روکا ہو
جب صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار قریش سے معاہدہ فرمایا تو اس معاہدے پر بھی بہت روکنا چاہا جب یہ معاہدہ ہوگیا تو اس معاہدے پر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا اور ان کا یہ غصہ سورہ فتح نازل ہونے کے بعد ختم ہوا
فطری طور سے تو یہ بھی ناممکن ہے کہ مردہ بولے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مردے کے بولنے والی حدیث ارشاد فرمائی تو شاید اس موقع پر حضرت عمر موجود نہیں تھے ورنہ یہاں بھی روکتے کیا خیال ہے آپ کا
حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الأعلى، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أنه حدثهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " إن العبد إذا وضع في قبره، وتولى عنه أصحابه، وإنه ليسمع قرع نعالهم، أتاه ملكان فيقعدانه فيقولان ما كنت تقول في الرجل لمحمد صلى الله عليه وسلم. فأما المؤمن فيقول أشهد أنه عبد الله ورسوله. فيقال له انظر إلى مقعدك من النار، قد أبدلك الله به مقعدا من الجنة، فيراهما جميعا ". قال قتادة وذكر لنا أنه يفسح في قبره. ثم رجع إلى حديث أنس قال " وأما المنافق والكافر فيقال له ما كنت تقول في هذا الرجل فيقول لا أدري، كنت أقول ما يقول الناس. فيقال لا دريت ولا تليت. ويضرب بمطارق من حديد ضربة، فيصيح صيحة يسمعها من يليه، غير الثقلين ".
ترجمہ از داؤد راز
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا ' کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا ' کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا ' ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے (منکر نکیر) اس کے پاس آتے ہیں ' وہ اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کا ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کر دی جائے گی۔ (جس سے آرام و راحت ملے) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی ' فرمایا اور منافق و کافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں ' میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تو نے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔
فائدہ
1۔ اس حدیث صحیح و متواترہ سے معلوم ہوا کہ مردہ دنیا والوں کے جوتوں کی معمولی آواز بھی سنتا ہے
2۔ مردہ فرشتوں کے سوال نہ صرف سنتا ہے بلکہ سمجھتا بھی ہے اور ان پر جواب بھی دیتا ہے
3۔ امام بخاری نے قبر کے صرف ایک سوال کا ذکر کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا ؟
4۔ مردہ دیکھتا بھی ہے
5 ۔ غلط جوابات پر جب مردے کو مارا جائے گا تو وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو تمام مخلوق جو قبر کے پاس ہوگی سنے گی سوائے انسانوں اور جنوں کے
اس ایک ہی حدیث سے مردے کے سننے سمجھنے دیکھنے بولنے اور چیخنے کا ثبوت مل گیا اور یہاں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں کہ یہ کوئی معجزہ ہے۔
مردے کا یہ سننا سمجھنا دیکھنا بولنا اور چیخنا ازخود ہی ہے مگر اللہ کی عطاء کردہ طاقت کی بناء پر جس طرح یہ سارے افعال زندہ آدمی بھی کرتا ہے مگر اللہ کی عطاء کردہ طاقت کی وجہ سے ۔
واقعہ معراج ہماری عقل سے ماورا ہے- اس واقے کو بنیاد بنا کر عام مردوں کا سماع موتہ ثابت کرنا گمراہی ہے - معراج پر نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے انبیا کرام کی ارواح سے ملاقات کی تھی - اور انسانوں کی ارواح مرنے کے بعد اپنے اعمال کے حساب سے مختلف درجات و مقامات میں منتقل ہو جاتی ہیں - جیسا کہ قرآن میں الله کا فرمان ہے ؛
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَرَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ سوره ال عمران ١٢٩
اور جو لوگ الله کی راہ میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ اور اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔
النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ سوره غافر ٤٦
وہ (فرعون اور ال فرعون) صبح او رشام آگ کے سامنے لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (حکم ہوگا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں لے جاؤ-
قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ ٢٧ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ سوره یٰسین -٢٩
( حبیب نجار کو اس کی قوم کے لوگوں نے شہید کردیا ) اس سے کہا گیا داخل ہو جاؤ جنّت میں کہنے لگا کاش میری قوم کو معلوم ہو جائے- کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں کر دیا -
آپ کی پیش کردہ حدیث کا تعلق بھی عالم برزخ سے ہے - قبر کی جزا و فزا ء بھی عالم برزخ میں ہوتی ہے نا کہ زمینی قبر میں -
قتیبہ بن سعید، مالک بن انس، عبداللہ بن ابوبکر، عمرۃبنت عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودیہ کے جنازے پر سے گزرے اس پر رویا جا رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لوگ تو اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اسکی قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔ (صحیح مسلم، جلد اول، جنازوں کا بیان)
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ اس
یہودی عورت کی لاش ابھی دفنائی نہیں گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں اس یہودی عورت کو اس کی قبر میں عذاب ہو رہا ہے - آخر وہ کون سی قبر ہے جہاں اس کو عذاب ہو رہا ہے ؟؟
ظاہر ہے اس سے مراد عالم برزخ ہے-
اگر آپ کہتے ہیں کہ میت کو دفنانے کے بعد عذاب و ثواب شروع ہو جاتا ہے تو سوال ہے کہ کتنے مردے ایسے ہیں جن کوقبر میں نہیں دفنایا جاتا -کتنے جل کر مرتے ہیں کتنے بم دھماکے میں مارے جاتے ہیں ان کے اعضاء بکھر جاتے ہیں کسی کو جانور پھاڑ کر کھا جاتے ہیں- سوال ہے کہ ایسے مردوں کو جوتیوں کی آواز کہاں اتی ہے - قران میں تو اللہ فرماتا ہے -
قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَهُ ١٧ مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ١٨ مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ١٩ ثُمَّ السَّبِيلَ يَسَّرَهُ ٢٠ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ سوره عبس ٢١
انسان پر خدا کی مار وہ کیسا ناشکرا ہے-اس نے کس چیز سے اس کو بنایا- ایک بوند سے اس کوبنایا پھر اس کا اندزہ ٹھیرایا- پھراس پر راستہ آسان کر دیا -پھر اس کو موت دی پھر اس کو قبر عطا کی-
یعنی ہر انسان کو مرنے کا بعد قبر ملتی ہے -سوال ہے کہ جو دفن نہیں ہوتے جن کی لاشیں مردہ خانے میں پڑتی رہتی ہیں -لوگ ان کو دفن کر کے نہیں جاتے -تو پھر آخر وہ کس کے جوتوں کی آواز سنتے ہیں - حقیقت یہ ہے کہ سارا معاملہ عالم برزخ کا ہے -
زمینی قبر میں تو اکثر اوقات ایک وقت میں کئی کئی مردے دفن ہو جاتے ہیں -سوال ہے کہ کیا سارے مردے اس ایک ہی قبرمیں جوتوں کی آواز سنتے ہیں ان کو بیک وقت دوزخ و جنّت کا نظارہ کرایا جاتا ہے- ؟؟؟ چاہے ان میں کچھ نیک ہوں اور کچھ بد ہوں- بلکہ جن مردوں سے الله کے نبی نے صیغے کے طور پر خطاب کیا تھا - وہ سب ایک گڑھے میں ہی دفن کیے گئے تھے - (یاد رہے کہ یہ صرف ایک معجزہ تھا) کہ ان کو الله کی نبی کی آواز سنائی گئی -
لہذا نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی اس حدیث کا صحیح مفہوم یہی بنتا ہے انسان کی جزاو فزاء کا مقام عالم برزخ ہے نا کہ زمین کی قبر- (واللہ عالم )
-