• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیا پر کیا یہ واقعہ درست ہے؟؟

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
جزاک اللہ خیرا۔۔۔
تو پھر کچھ علماء نے حسن کیوں بیان کیا ہے؟
اور قصہ ذولبجادین کونسا ہے ؟ مجھے یاد نہیں یا معلوم نہیں !
واللہ اعلم میں نے بھی یہی سوال کیا تھا شیخ سے۔۔۔۔لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ حکم کیلئے سند دیکھی جاتی ہے اور وہ ضعیف ہے

سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں اسکا ذکر ہوا تھا
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
واللہ اعلم میں نے بھی یہی سوال کیا تھا شیخ سے۔۔۔۔لیکن انہوں نے بھی یہی کہا کہ حکم کیلئے سند دیکھی جاتی ہے اور وہ ضعیف ہے

سوال و جواب کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا اس میں اسکا ذکر ہوا تھا

معذرت مجھے یاد نہیں تھا۔آپ وہ تحقیق بھی ضرور لگائیں۔
جزاک اللہ خیرا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
خلاصہ: میری ناقص تحقیق کے مطابق یہ اثر ضعیف ہے کیونکہ اس میں 3 راوی ایسے ہیں جنکی تعدیل مطلوب ہے۔
یا شیخ، سند میں تین نہیں ایک ہی راویہ سبب ضعف ہیں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْمَخْزُومِيُّ، عَنْ عَوْنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ جَعْفَرٍ بِنْتِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَعَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أُمِّ جَعْفَرٍ
یہ تین راوی تین مختلف طبقات کے نہیں ہیں بلکہ محمد بن موسی نے پہلے اسے عون عن امہ (ام جعفر) سے روایت کیا، پھر عمارۃ عن ام جعفر سے نقل کیا۔ الغرض عون اور عمارہ اس روایت کو ام جعفر سے روایت کرنے میں ایک دوسرے کے متابع ہیں۔ اور اگر دونوں کو مقبول بھی تسلیم کیا جائے تو ایک مقبول کی روایت دوسرے مقبول سے مل کر حسن ہو گئی۔ لیکن ویسے بھی عون بن محمد کم از کم حسن الحدیث ہیں کیونکہ علماء نے ان سے حجت پکڑی ہے اور ان کی احادیث کی تصحیح کی ہے۔
جہاں تک تعلق ہے ام جعفر کا تو آپ کبار تابعیات میں سے ہیں، اوپر سے اہل بیت میں سے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہو ہیں۔ ان کی عدالت پر سوال اٹھانے کا سوال تو پیدا نہیں ہوتا اور ان کے متعلق بعض محدثین کی تحسین بھی ملی ہے میرے خیال سے غیر مرفوع حدیث میں ان کی روایت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی لئے ابن حجر نے بھی انہیں مقبولہ کہنے کے باوجود اس روایت کو حسن کہا ہے۔ باقی علماء بہتر بتا سکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ذہبی کے بقول، "الإِمَامُ، الحَافِظُ، النَّاقِدُ" الجورقانی رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں: "هَذَا حَدِيثٌ مَشْهُورٌ حَسَنٌ" (الاباطیل والمناکیر: ج 2 ص 82)
 
  • پسند
Reactions: Dua

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
[quote="رضا میاں, post: 179289, member: 53"]یہ تین راوی تین مختلف طبقات کے نہیں ہیں بلکہ محمد بن موسی نے پہلے اسے عون عن امہ (ام جعفر) سے روایت کیا، پھر عمارۃ عن ام جعفر سے نقل کیا۔ الغرض عون اور عمارہ اس روایت کو ام جعفر سے روایت کرنے میں ایک دوسرے کے متابع ہیں۔ اور اگر دونوں کو مقبول بھی تسلیم کیا جائے تو ایک مقبول کی روایت دوسرے مقبول سے مل کر حسن ہو گئی۔ لیکن ویسے بھی عون بن محمد کم از کم حسن الحدیث ہیں کیونکہ علماء نے ان سے حجت پکڑی ہے اور ان کی احادیث کی تصحیح کی ہے۔
جہاں تک تعلق ہے ام جعفر کا تو آپ کبار تابعیات میں سے ہیں، اوپر سے اہل بیت میں سے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بہو ہیں۔ ان کی عدالت پر سوال اٹھانے کا سوال تو پیدا نہیں ہوتا اور ان کے متعلق بعض محدثین کی تحسین بھی ملی ہے میرے خیال سے غیر مرفوع حدیث میں ان کی روایت قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی لئے ابن حجر نے بھی انہیں مقبولہ کہنے کے باوجود اس روایت کو حسن کہا ہے۔ باقی علماء بہتر بتا سکتے ہیں۔
واللہ اعلم۔[/quote]


جزاک اللہ خیرا ۔ اس بات کی طرف میں نے توجہ نہیں دی۔۔۔

جس انداز سے آپ نے یہاں عون کی روایت کو حسن کہا اسی انداز سے آپ نے ایک دوسری جگہ ایک روایت کو قبول نہیں کیا؟؟؟؟؟؟
ایک تو یہ متساہل ہیں اوپر سے ان کی توثیق بھی مجمل ہے (یعنی صرف حدیث پر حکم سے توثیق ثابت کی جارہی ہے)۔
یہ آخری بات بھی سمجھ سے باہر ہے بھائی۔۔۔ مطلق شرائط جو آپ نے بیان کیں انکی وجہ سے راوی کا ثقہ یا صحیح ہونا یہ عجیب ہے کیوں کہ اس دور کے بہت سے روات ایسے ہیں جنکی توثیق نہیں ملتی اور بعض ضعیف بھی ہیں۔۔۔۔
ہاں یہ الگ بات ہے انکے بارے میں ہمارا حسن ظن ہے لیکن روایات کا معاملہ ایسا ہے جس میں ہر ایک راوی چاہے وہ امام زہری ہی کیوں نہ ہوں انکو پرکھا جائے گا۔۔اور پرکھا گیا ہے۔
مسئلہ قصے کے ثبوت میں ہے کہ آیا یہ قصہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔۔۔ اور اسکا تعلق بھی اہل بیت سے اسکو بھی آپ اپنے ذہن سے مت نکالیں کیونکہ اہل بیت کی طرف بہت سے ایسے قصے مشہور جن سب کو پھر ماننا پڑے گا آپکو۔۔۔۔۔۔۔۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ،

حضرت فاطہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے متعلق تاریخ میں کچھ ثبوت بیان ہوئے ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

ایک ثبوت تو یہی ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کہا کرتیں تھیں کہ مجھے حیا آتی ہے کہ جب میرا انتقال ہو تو لوگ مردوں کی تخت پر لٹا کر اور ایک کپڑا اوڑھا کر مجھے کندھے پر اٹھا لیں۔اس لیے اندیشہ ہے کہ کپڑے کے اوپر سے میرا جسم ظاہر ہو۔
یہی بات انھوں نے ایک دفعہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے کہی ، تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا:
جگر گوشہ رسولﷺ ! کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ دکھاؤں جو میں نے ’’ حبشہ ‘‘ میں دیکھی تھی۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا ، کیوں نہیں ضرور۔ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کھجور کی تازہ ٹہنیاں منگوائیں ، کمان کی شکل میں ان کو موڑ موڑ کر رکھا ، اور ان کے اوپر کپڑا ڈال دیا ، حضرت فاطمہ رضہ اللہ عنہا نے فرمایا ، یہ تو بڑی اچھی چیز ہے ، اس سے مرد و عورت کے جنازہ میں امتیاز ہو جائے گا اور عورت کا جسم بھی چھپ جائے گا۔دیکھو اسماء ! جب میرا انتقال ہو تو تم اور علی میرے غسل میں شریک ہوں، کوئی اور میرے قریب نہ آئے ، اور میری چارپائی پر اسی طرح چھڑیاں رکھ دینا۔
جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دلہن کے ڈولے کی طرح کی ایک پردہ پوش چادر چارپائی تیار کی ، اور کہا : فاطمہ نے مجھے اس کی وصیت کی تھی۔
(تاریخ مدینہ منورہ1، 105، حلیۃ الاولیاء 2، 43) اسد الغابہ 6 ، 662)

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اسلام میں سب سے پہلی عورت ہیں جن کا جنازہ کسی پردہ پوش چارپائی پر اٹھایا گیا،
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد ام لمؤمنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا جنازہ بھی اسی طرح پردہ کے ساتھ لے جایا گیا، اور ان کے بعد تو یہی طریقہ رائج ہو گیا۔

(الاستیعاب 4، 1898)

کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی حیا کے متعلق یہ بیان درست ہیں؟

تاریخ مدینہ میں یہ قول ہے

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ قَالَ: ” كَمِدَتْ فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بَعْدَ وَفَاةِ أَبِيهَا سَبْعِينَ بَيْنَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَقَالَتْ: إِنِّي لَأَسْتَحِي مِنْ جَلَالَةِ جِسْمِي إِذَا أُخْرِجْتُ عَلَى الرِّجَالِ غَدًا – وَكَانُوا يَحْمِلُونَ الرِّجَالَ كَمَا يَحْمِلُونَ النِّسَاءَ – فَقَالَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، أَوْ أ ُمُّ سَلَمَةَ: إِنِّي رَأَيْتُ شَيْئًا يُصْنَعُ بِالْحَبَشَةِ، فَصَنَعَتِ النَّعْشَ، فَاتُّخِذَ بَعْدَ ذَلِكَ سُنَّةً ”


یہ يَزِيْدَ بنِ الشِّخِّيْرِ کا قول ہے جو بہت بعد کے ہیں
ایسا کسی حدیث میں دور نبوی کے لئے نہیں اتا
 
Top