حافظ راشد
رکن
- شمولیت
- جولائی 20، 2016
- پیغامات
- 116
- ری ایکشن اسکور
- 29
- پوائنٹ
- 75
حفاظت احادیث میں محدثین کی قربانیاں
مسلمانوں نے نہ صرف قرآن کی حفاظت کا اہتمام کیا بلکہ حدیث کی حفاظت کے لئے بھی ناقابل فراموش خدمات انجام دیں، محدثین نے ذخیرہ احادیث کی حفاظت کے لیے جو تدابیر اپنائی انہیں ذیل کے سطور میں بیان کیا جا رہا ہے:حفظ احادیث:
عربوں کی یادداشت بہت تیز تھی، وہ قدیم اور موروثی کہانیوں کو زبانی یاد رکھتے تھے، وہ قبیلوں کے نسب ہی نہیں بلکہ گھوڑوں تک کے انساب کو یاد رکھتے تھے، اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس شخصیت کے قول اور فعل کو محفوظ نہ رکھتے جو ان کے دل میں ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھی.
کتابت احادیث:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع میں یہ خوف لاحق تھا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ حدیث اور قرآن دونوں کو ایک ساتھ ملا کر لکھ لیں جس سے کچھ لوگوں کے لئے دونوں میں فرق کرنا مشکل ہوجائے، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھنے سے منع کر دیا تھا، جیسا کہ مسند احمد کی حدیث ہے:
لا تكتبوا عني، ومن كتب عني شيئا سوى القرآن فليمحه (مسند أحمد: ج 3 ص 21(
“مجھ سے کچھ مت لکھو، اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے کچھ بات لکھی ہو اسے چاہئے کہ مٹا دے”.
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم سن 7 ہجری تک برقرار رہا، لیکن جب قرآن کی حفاظت کے تئیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان حاصل ہو گیا تو اپنے ساتھیوں کو احادیث بھی قلمبند کرنے کی عام اجازت دے دی، صحابہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کی باتیں سننے کے بعد انہیں باضابطہ لکھ لیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا اسے یاد کرنے کے لئے لکھ لیا کرتا تھا، لوگوں نے مجھے روکا اور کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں، کبھی خوشی کی حالت میں باتیں کرتے ہیں تو کبھی غصہ کی حالت میں، اس پر میں نے لکھنا چھوڑ دیا: پھر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے اپنی انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
اكتب فوالذي نفسي بيده لا يخرج منه إلا حق (رواه أبو داود والحاكم(
“لکھ لیا کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق (حق) کے سوا کچھ نہیں نکلتا”.
اسی طرح حضرت ابوهریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے موقع پر) ایک خطبہ دیا. ابو شاہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اسے میرے لئے لکھا دیجئے، آپ نے کہا: أكتبوا لأبي شاة اسے ابوشاہ کے لیے لکھ دو. (بخاری، مسلم)
ترمذی کی روایت کے مطابق حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: میں آپ سے بہت سی باتیں سنتا ہوں لیکن یاد نہیں رکھ پاتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اپنے ہاتھ سے مدد لو، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کے اشارہ سے بتایا کہ لکھ لیا کرو . (ترمذی)
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت ابو هریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
ما في أصحاب رسول الله صلى الله عليه أحد أكثر حديثا مني إلا ما كان من عبدالله بن عمرو فإنه كان يكتب ولا أكتب
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں مجھ سے زیادہ حدیث بیان کرنے والے کوئی نہیں ہیں سوائے عبداللہ بن عمرو کے کہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں نہیں لکھتا تھا. (بخاری)
صحابہ کے دور میں صحیفہ احادیث :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد قرآن جھليوں، ہڈیوں اور کھجور کے پتوں پر لکھا گیا تھا، صحابہ نے اسے جمع کردیا، لیکن حدیث کو جمع کرنے کی طرف صحابہ کا دھیان نہیں گیا لیکن وہ زبانی طور پر ایک دوسرے تک اسے پہنچاتے رہے، اس کے باوجود کچھ صحابہ نے جو حدیثیں لکھی تھیں ان میں سے کچھ صحيفے مشہور ہو گئے تھے. جیسے (1) صحیفہ صادقہ: جو ایک ہزار احادیث پر مشتمل عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا صحيفہ تھا، اس کا زیادہ تر حصہ مسند احمد میں پایا جاتا ہے. (2) صحیفہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ (3) صحیفہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ (4) صحیفہ جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ ۔
تابعين کے دور میں احادیث کی تدوین:
جب مختلف ممالک میں اسلام کا دائرہ وسیع ہونے لگا اور صحابہ کرام مختلف ملکوں میں پھیل گئے، پھر ان میں سے زیادہ تر لوگ وفات پاگئے اور لوگوں کی یادداشت میں بھی کمی آنے لگی تواب حدیث کو جمع کرنے کی ضرورت کا احساس ہوا، لہذا سن 99 ہجری میں جب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے اور مسلمانوں کے احوال پر نظر ڈالی جس سے اس وقت مسلمان گزر رہے تھے تو اس نتیجہ پر پہنچے کہ احادیث کی تدوین کا بندوبست کیا جائے، چنانچہ آپ نے اپنے حکام اور نمائندوں کو اس کا حکم دیتے ہوئے لکھا اور تاکید کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جمع کرنے کا کام شروع کر دیا جائے، جیساکہ آپ نے مدینہ کے قاضی ابو بکر بن حزم کو لکھا کہ:
“تم دیکھو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں تمہیں ملیں انہیں لکھ لو کیوں کہ مجھے علم کے ختم ہونے اور علماء کے چلے جانے کا اندیشہ ہے.”
اسی طرح آپ نے دوسرے شہروں میں بھی ائمہ اور محدثین کو خطاب کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں جمع کرنے کی طرف توجہ دیں. ان میں سے ایک حجاز اور شام کے عالم امام ابو بکر بن محمد بن مسلم بن عبداللہ ابن شهاب الزہری (وفات 124 ھ) ہیں جنہوں نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مدینہ والوں کی حدیثیں جمع کیں اور ان کی خدمت میں پیش کیا تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس کی مختلف کاپیاں بنوا کر مختلف شہروں میں بھیج دیا.
اس سلسلے کی یہ پہلی کوشش تھی جسے انہوں نے بغیر کسی ترتيب کے اپنے سماع کے حساب سے صحابہ کی احادیث کو جمع کر دیا تھا.
تابعين کے دور میں ربیع بن صبیح (موت 160 ھ) سعید بن ابی عروبہ (موت 156 ھ) مکہ میں ابن جریج (150 ہجری) نے، شام میں اوزاعی (156 ہجری) نے، کوفہ میں سفيان ثوری (161 ہجری) نے، بصرہ میں ابوسلمہ (176 ہجری) نے، یمن میں معمر بن راشد (153 ہجری) نے، رے میں جرير بن عبدالحمید (188 ہجری) نے، اور خراسان میں عبداللہ بن مبارک (181 ہجری) نے حدیثیں جمع کیں. اس زمانے میں ہر باب کی حدیثیں الگ الگ جمع کی گئیں، پھر ان میں صحابہ اور تابعين کے اقوال افعال کو بھی شامل کر دیا گیا تھا. اسی لئے اس دور کی کتابیں “مصنف” “مؤطا” اور “جامع” کے نام سے مشہور ہوئیں.
جب تیسری صدی آئی تو اس میں احادیث جمع کرنے کا ایک الگ طریقہ مشہورہوا کہ محض اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں جمع کی گئیں، اور ان میں صحابہ کے قول اورو فعل کو شامل نہیں کیا گیا. اسی طرح مسانيد بھی لکھی گئیں جس میں موضوع کے اتحاد کی رعایت کئے بغیر ہر صحابی کی حدیث کو الگ الگ جمع کیا گیا۔
جیسے مسند امام احمد بن حنبل، مسند اسحاق بن راهویہ، مسند عثمان بن ابی شیبہ وغیرہ. لیکن ان کتابوں میں صحیح حدیث کو ہی جمع کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اس میں ضعیف (کمزور) احادیث بھی جمع کر دی گئی تھیں، اسی طرح یہ فقہی ترتيب کے مطابق نہیں تھی جس کے باعث احادیث تلاش کرنا مشکل تھا، اسی لئے بخاری کے محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے فقہی ترتيب کے مطابق محض صحیح احادیث کا مجموعہ تیار کیا جسے دنیا آج صحیح بخاری کے نام سے جانتی ہے جو حدیث کی صحیح اور مستند کتابوں میں پہلے نمبر پر آتی ہے، پھر ان کے بعد ان کے ہی شاگرد امام مسلم بن حجاج القرشی نے صحیح حدیث کا ایک مجموعہ تیار کیا جو آج صحیح مسلم کے نام سے مقبول ہے. اور صحیح بخاری کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے.
امام بخاری اور امام مسلم کے طریقے پر ان کے دور میں اور ان کے بعد بھی محدثین نے کتابیں لکھیں، اس طرح ان کے بعد چار سنن لكھی گئیں: سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ. لیکن ان محدثین نے اپنی کتابوں میں صحیح احادیث ہی جمع کرنے کا اہتمام نہیں کیا بلکہ اس میں کمزور حدیثیں بھی آ گئی ہیں.
حدیث کی روایت راویوں کے ساتھ:
آج حدیث کی بڑی کتابوں میں جو حدیثیں محفوظ ملتی ہیں انہیں جمع کرنے والے محدثین نے راویوں کے حوالے سے روایتیں بیان کی ہیں، صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کہتے سنا تھا یا کرتے دیکھا تھا اسے انہوں نے حفظ کیا اور کچھ لوگوں نے اسے لکھا پھر بعد کی نسل تک اسے پہنچایا، جن کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے پھر سننے والوں نے دوسروں کو سنایا یہاں تک کہ اسے جمع کر دیا گیا. جیسے فلاں نے فلاں سے کہا اور فلاں نے فلاں سے کہا کہ میں نے اپنے کانوں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے ہوئے سنا ہے. جیسے یہ مثال دیکھیں:
حدثنا عبد الرحمن بن إبراهيم الدمشقي حدثنا بشر بن بكر حدثنا ابن جابر حدثني أبو عبد السلام عن ثوبان قال قال رسول الله صلى اللهم عليه وسلم يوشك الأمم أن تداعى عليكم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها … (رواه ابوداؤد(
یعنی امام ابو داؤد (جو حدیث لکھنے والے محدث ہیں) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے عبدالرحمن بن ابراہیم الدمشقی نے بیان کیا، عبدالرحمن بن ابراہیم الدمشقی نے کہا کہ مجھ سے بشر بن بکر نے بیان کیا، بشر بن بکر نے کہا کہ مجھ سے ابو ابو عبد السلام نے بیان کیا، ابو عبد السلام نے کہا کہ مجھ سے ثوبان نے بیان کیا، ثوبان نے کہا کہ مجھ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت ایسا آنے والا ہے کہ دوسری قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں
احادیث کی حفاظت کیلئے اسماءالرجال کی تیكنیك
صرف مسلمانوں کو یہ اعزاز اور فخر حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے رسول کی ایک ایک بات کو مکمل طور پر محفوظ کیا، اس کے لئے مسلمانوں نے اسماء الرجال کا تیکنیک ایجاد کیا، ایک جرمن مستشرق (Orientalist) ڈاکٹر اے سپرگر (Dr A. Springer) نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب الإصابہ ( مطبوعہ کلکتہ) کے مقدمہ میں لکھا ہے:
دنیا کی تاریخ میں نہ پہلے دنیا کی کسی قوم کو یہ شرف حاصل ہوا نہ جدید مہذب دنیا میں کسی کو یہ فخر حاصل ہوا کہ اسماء الرجال کے تیکنک کو مسلمانوں کے انداز پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں. مسلمانوں نے اس علم سے دنیا کو آگاہ کرکے ایک ریکارڈ قائم کر دی، اس ہمہ گیر اور عظیم علم کے ذریعہ 5 لاکھ لوگوں کی زندگیاں انتہائی باریکی سے محفوظ ہو گئیں.
جن افراد کی طرف سے یہ خبریں دوسروں تک پہنچتی ہیں ان کو راوی کہتے ہیں. علمائے جرح وتعدیل نے ان راویوں کی پوری سوانح لکھی ہے. جن کو آج اسماء الرجال کی کتابوں میں تلاش کیا جا سکتا ہے. اس کتاب کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کون سا راوی کس درجے یا زمرہ کا ہے اور کس روایت میں اس پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے. اگر ان میں سے کوئی کبھی عام لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولتے پایا گیا یا اس کی یادداشت كمزور تھی تو اسے بھی ان کی سوانح عمری میں نوٹ کیا گیا، پھر اس کے ذریعہ بیان کی گئی احادیث کو منسوخ کر دیا گیا. تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں اور ان کی حیات طیبہ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر رہے.