حفاظت حدیث : دین کی ایک بہت بڑی خدمت
ائمہ سنت کے نزدیک بنیادی اصول چار ہیں۔ تمام دینی مسائل میں ان کی طرف رجوع کیا جاتا ہے :
قرآن ، سنت ، اجماع امت اور قیاس۔
قول رسول اللہاجماع اور قیاس کا ماخذ بھی قرآن و سنت ہے۔ کتاب و سنت کے خلاف نہ اجماع ہو سکتا ہے اور نہ قیاس۔ قرآن و سنت دونوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
حفاظ حدیث نے سنت کے متون اور اسانید کو پوری ذمہ داری اور محنت سے ضبط کیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے جان کر میری طرف کوئی جھوٹی اور غلط بات منسوب کی اسے اپنا مقام جہنم میں بنانا چاہیے۔
یہ حدیث حضرات صحابہ ، جابر ، ابن عباس ، زبیر ، مرہ ، انس بن مالک ، ابوقتادہ وغیرہم رضی اللہ عنہم سے دارمی اور سنت کے باقی دفاتر میں بتواتر منقول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث اور حفاظ سنت کو توفیق مرحمت فرمائی۔ انہوں نے چھان پھٹک کر سچ اور جھوٹ کو الگ الگ کر دیا۔ اس وقت تین قسم کا ذخیرہ امت کے پاس موجود ہے :
* بالکل صحیح جہاں انسانی کوشش اور امکان کی حد تک صحیح احادیث کو ضعیف اور اکاذیب سے الگ کر دیا گیا ہے۔
* موضوع اور مختلق جسے چھانٹ کر 'موضوعات' کے نام سے الگ سے شائع کر دیا گیا ہے۔ اس میں ان لوگوں کی نشاندہی بھی کر دی گئی ہے جنہوں نے اس معصیت کا ارتکاب کیا ہے تاکہ چور کے ساتھ وہ مال بھی برآمد ہو جائے جسے چرا لیا گیا ہے۔
* مخلوط مواد ، یعنی ایسا ذخیرہ جس میں صحیح ، ضعیف ، مختلق ہر قسم کی احادیث موجود ہیں جو اہل علم کو محنت اور بصیرت کی دعوت دے رہے ہیں کہ طالب حق ان اسباب اور ذرائع کو استعمال کریں جو حق و باطل کی پہچان کے لیے بنائے گئے ہیں اور کھرا اور کھوٹا الگ کر لیں۔
یہ دین کی بہت بڑی خدمت تھی جو صدیوں کی محنت اور دیدہ ریزی سے کی گئی۔ گویا علمائے امت کے ان کارناموں کی بدولت ہمیشہ کے لیے امت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔
لنکاس حفاظت کا تعلق صرف قوت حافظہ سے نہیں بلکہ امت نے اس کے لیے کئی جدید علوم ایجاد کئے۔
علم رجال ، علم موالید ، علم وفیات ، معرفت البلدان ، علم الابا و الانباء، کتابت میں مخصوص اصطلاحات ، علم اصول حدیث ۔۔۔
یہ تمام علوم ان کے علاوہ کئی فنون کی ایجاد صرف اسی فن کی حفاظت کے لئے کی گئی۔
شروح حدیث ، لغۃ الحدیث ، سنن اور جوامع احکام معاجم ، اطراف ۔۔۔ غرض کئی قسم کے تحفظات تھے جو امت نے اس فن کی افادیت و قدردانی کے لئے ایجاد فرمائے۔ یہ سب اس لیے تھا کہ مقام نبوت کی معرفت اور حفاظت اسی صورت میں ہو سکتی تھی کہ یہ فن محفوظ رہے۔
اگر حدیث شرعی حجت نہ ہوتی ، اس کی حیثیت عام تاریخی ذخیرہ کی ہوتی تو ان خطیر مساعی اور عظیم الشان تحفظات کی قطعاً ضرورت نہ تھی۔
انسانیت کا تقاضا ہے کہ اپنے اکابر کی اس میراث کی حفاظت کی جائے کیونکہ مقام نبوت اور دین کی حفاظت کا اصل طریق یہی ہے۔